سفر حرم اور آل سعود- پہلا حصّہ – علی ناطق

نوٹ:برطانیہ میں مقیم علی ناطق نے حال ہی میں مکّہ اور مدینہ کا ایک سفر کیا ،جدہ سے مدینہ تک اس سفر میں انہوں نے کیا دیکھا،کیا محسوس کیا اس کی ایک داستان انہوں نے رقم کرنا شروع کی ہے اس سفر کی داستان ہم اپنے اپنے قارئین کی دلچسپی کے لئے شایع کررہے ہیں اور اس کے لیے عامر حسینی کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے یہ متن ہمیں فراہم کیا(محمد بن ابی بکر ایڈیٹر تعمیر پاکستان ویب سائٹ)

لمبی فلائیٹ کے بعد صبح کے تین بجے جہاز جدہ ائیرپورٹ پر اترا. کچھ دیر بعد جب پاسپورٹ کنٹرول کیلئے ائیرپورٹ ہال میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک درمیانے سائز کے ہال میں کوئی تین چار سو لوگ کسی انتظار میں ادھر ادھر جمگھٹا بنا کر کھڑے ہیں اور معمر خواتین دیواروں کے ساتھ ٹیک لگائے فرش پر بیٹھی ہیں. ہر کسی کے چہرے پر تھکاوٹ نمایاں تھی. کچھ دیر ادھر ادھر نظر دوڑا کر سمجھنے کی کوشش کی کہ ماجرا کیا ہے ، اتنا رش کیوں لگا ہے، کوئی قطار کیوں نہیں، پاسپورٹ کنٹرول کا عملہ کیوں نظر نہیں آتا. پھر پتا چلا یہ سب لوگ عمرہ ویزا والے ہیں اور انکو ایک الگ ڈیسک ہینڈل کرتا ہے. یہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ ڈیسک کہاں ہے، اس پر کوئی عملہ موجود ہے بھی یا نہیں اور مزید کتنا انتظار کرنا ہوگا. ایک دیڑھ گھنٹہ تو یونہی دیکھتے بھالتے گزر گیا اور کوئی بھی اس ہال سے باہر نہ جا سکا. پھر پتا چلا اس جمگھٹے سے آگے ایک ڈیسک ہے جس پر ایک سٹاف ممبر ابھی آ کر بیٹھا ہے جو چائے نوش فرما رہا ہے. کچھ دیر بعد تھوڑی بہت ہلچل ہوئی اور ایک دو مسافر اس ڈیسک پر پہنچے تو لوگوں کو کچھ امید ہوئی. اس دوران مزید فلائٹ آتی جا رہی تھی اور مسافروں کی تعداد پانچ سو سے زائد ہو چکی تھی پر صرف ایک دو سٹاف ممبر ڈیسک پر موجود تھے. دو ڈھائی گھنٹے گزر چکے تھے، کوئی خاص پراگرس نظر نہ آتی تھی اس لئے لوگ اپنا صبر کھونے لگے اور ہماری فلائٹ میں ہی انے والا ایک صاحب نے دور سے آواز دے کر ڈیسک پر بیٹھے صاحب سے دریافت کیا کہ کیا ماجرا ہے وہ کام کیوں نہیں کر رہے اور کب تک انکو یونہی کھڑا رہنا ہوگا؟ سٹاف نے ان صاحب کو اونچی آواز میں ڈانٹ ڈپٹ کر چپ کروا دیا اور کچھ بیہودہ اشارے کئے جسکے بعد کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ اف تک بھی کرتا.

سٹاف کانوں میں ہیڈ فون لگائے، چائے نوش فرماتے ہوے اپنی مرضی سے تھوڑا بہت کام کر رہا تھا. ہر پانچ منٹ بعد یا تو یہ خود کسی کو فون کر دیتے یا انکو کوئی فون آ جاتا اور یہ ایسے مسکرا مسکرا کر باتیں کرتے جسے انکی گرل فرینڈ انکو بہت مس کر رہی ہے اور فون 
پر انسے گندی باتیں کر رہی ہے. جتنا وقت ہم ائیرپورٹ پر موجود رہے، ان دونوں سٹاف ممبران نے اپنی زبان سے ایک لفظ نکالنا پسند نہ کیا، اور تو اورہاتھ کے اشاروں کا استمعال بھی انتہائی صورت میں کرتے، ساری بات چیت انکھوں کے اشاروں سے کرتے تھے. آنکھ کے اشارے سے لوگوں کو آگے بلاتے، آنکھ کے اشارے سے پاسپورٹ مانگتے اور اس دوران لوگوں کو دھتکارتے رہے اور پھر پاسپورٹ میز پر پٹخ دیتے. پھر یہ دونوں جوان ایمان کو تازہ کرنے نماز پڑھنے کیا گئے کہ لوگ قطار میں لگے سونے لگے. کوئی پینتالیس منٹ کے بعد انکی نماز ختم ہوئی اور یہ واپس آئے تو انکے چہرے روحانیت سے چمک رہے تھے – ظاہر ہے اتنی محنت کے بعد چائے کا وقفہ تو بنتا تھا. چائے، فون اور گپشپ کا سلسلہ پھر ادھ گھنٹہ چلتا رہا اور ایک بھی پاسپورٹ اس دوران پراسس نہ ہوا. اس دوران یہ لوگوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہے کہ لائن بناؤ، شور مت کرو، دور رہو وغیرہ وغیرہ. جب پانچ سو لوگ ایک چھوٹےسے ہال میں بند ہوں اور کام کرنے والے دو سٹاف کو کیسی قطار ؟ 

اس دوران دیکھا کہ کچھ معمر خواتین جو پاسپورٹ کنٹرول سے نکل کر سامان والی بیلٹ پر اپنا سامان ڈھونڈ رہی تھی اور اپنے ساتھ آئے دوسرے لوگوں کا انتظار کر رہی تھی جو ابّ بھی قطار میں لگے تھے. بہت سے لوگ پریشان تھے کہ بہت سی فلائٹ انے اور تاخیر سے سامان والی بیلٹ پر پوھنچننے کی وجہ سے انکا سامان گم گیا تھا. ائیرپورٹ کا عملہ ان لوگوں کو سامان والی بیلٹ سے ائیرپورٹ سے باہر نکال رہا تھا جبکہ انکے گروپ کے باقی لوگ اب بھی قطار میں لگے تھے. ستر سال کی ایک بوڑھی عورت جو شاید کبھی اپنے گاؤں سے باہر نہیں گئی اس بیچاری کو کیا معلوم اور کیسے چلی جاتی اکیلی ائیرپورٹ سے باہر، خیر سٹاف نے ایک نہ سنی اور ان سب لوگوں کو ائیرپورٹ سے باہر نکال دیا. 

اس سب صورت حال میں انتظار کرتے چار پانچ گھنٹے گزر چکے تھے اور ایک دو بار سوچا کہ سب چھوڑ کر یہاں سے استنبول کی ٹکٹ کرواؤں اور اس عذاب سے جان چھڑ واؤں. خیر الله الله کر کہ ہماری بری آئی اور پاسپورٹ اور سامان پکڑ کر باہر نکلے. کیا دیکھتا ہوں کہ ایک پاکستانی نوجوان واپس ائیرپورٹ میں جانے کی کوشش کر رہا تھا. سیکورٹی اسے یوں پکڑ کر کھڑی تھی جیسے قتل کا مجرم ہو. وہ بتا رہا تھا کہ اسکا سامان اندر ہے اور اسکو دھکے دے کر ائیرپورٹ سے نکال دیا گیا ہے. ائیرپورٹ عملے کی اپنی غفلت اور عیاشی کی وجہ سے ائیرپورٹ میں شدید رش تھا جسکی وجہ سے انہوں نے لوگوں کو سامان کی بیلٹ پر انتظار کرنے دینے کے بجائے باہر نکال دیا. تین چار عربی اکٹھے ہو کر اسکا مذاق اڑارہے تھے ، دھتکار رہے تھے اور اسی کے الفاظ اسکی کے منہ پر عجیب عجیب شکلیں بنا کر مار رہے تھے. ‘سامان سامان’ کہ کر اسکو چڑ ا رہے تھے اور پھر دھکے دے کر دیوار کے ساتھ لگا دیا. 

کچھ یوں ہوا ہمارے روحانی سفر کا آغاز
جدّہ سے مکّہ جاتے ہوے سونے کی بہت کوشش کی مگر ٹیکسی کی کھڑکیاں بند ہونے کے باوجود گرد اور ریت ہر طرف محسوس ہوتی تھی. کوئی گھنٹہ بھر گاڑی صحرا کے بیچ بنی سڑک پر دوڑتی رہی بھر دور سے ایک بورڈ نظر آیا جسے دیکھا کر دل نور نور ہو گیا. سڑک دو حصوں میں تقسیم ہوئی، مسلمان مکّہ اور غلیظ کافر بورڈ کے مطابق بائی پاس سے باہر و باہر لاہور… دیکھ کر جسم میں ایک گرم سی لہر ڈوری کہ مسلمانوں نے کافروں کو کیسا کرارا منہ توڑ جواب دیا ہے . پھر چند منٹ بعد مکڈونلڈ کے بڑے سے بورڈ پر انکل مکڈونلڈ مسلمانوں کو منہ چڑاتے نظر آئے. 

کچھ دیر بعد ایک دیو قامت ٹاور نظر آنے لگا اور ڈرائیور نے اشارہ کر کے بتایا کہ مکّہ کی شان دیکھو. خیر الله الله کر کہ ہوٹل پوھنچے اور اگلے دن عمرے کا ارادہ کیا. خانہ کعبہ میں داخل ہوا تو عجب منظر تھا. چاروں اطراف سے رنگ برنگی کرینیں یوں لگتی تھیں جسے کعبہ کے اوپر لٹکی ہیں اور اسے اٹھا لے جائینگی. ان کرینوں نے کعبہ کی روحانی خوبصورتی میں خوب اضافہ کر رکھا تھا اور ان کرینوں اور دیگر مشینری جو کہ ارد گرد کے ہوٹل وغیرہ کی تعمیر کیلئے استمعال ہو رہی تھیں کی آواز اور سروں کی کیا ہی بات کروں. گڑ گڑ گڑ … گھوں گھوں گھوں کی آوازوں نے زائرین کیلئے ایک عجب ماحول پیدا کر رکھا تھا. آپ نے دیکھا ہوگا درباروں پر قوالی دھمال کا سہارا لے کر ایک کیفیت طاری کی جاتی ہے. چونکہ دربار شرک ہے اور اسلام میں تصوف، موسیقی وغیرہ کا کوئی تصور نہیں البتہ سرمایہ داری عین عبادت ہے لہٰذا سعودی حکام نے کفار کی سرمایہ دار کمپنیوں اور انکی جدید مشینری کی مدد سے وجد کا عالم قائم کیا ہے جو عین شرعی ہے. دل میں ڈھنڈ پڑ گئی کہ کفار کی ٹیکنالجی سے اسلامی تبلیغ…طواف کے دوران گھوں گھوں گھوں ایک منٹ کیلئے بھی بند نہ ہوئی اور یوں محسوس ہوا جیسے ہزاروں لوگ اسی سر پر طواف کر رہے ہیں. 

حجر اسود والا بھی عجب روحانی ماجرا تھا. کچھ بھاری بھرکم مرد اور دیو ہیکل خواتین جب یہ سوچ لیتیں کہ اب حجر اسود کو چومناہے تو پہلے کھڑے ہو کر اپنے کپڑے جھاڑتیں، کندھے باہر نکالتیں، بازو پھیلاتیں اور پھر فل سپیڈ ہو کر دونوں اطراف سے لوگوں کو اٹھا اٹھا کر پھینکتے ہوے آگے بڑھتیں اور منٹوں میں حجر اسود تک پہنچ جاتیں. پھر اپنے ساتھیوں کو وہاں سے دیکھتیں کہ کیسا دیا ؟ ظاہر سی بات ہے جب تک ایک آدھ درجن لوگوں کو پاؤں تلے روندا جائے تو کیسا مزہ … خالی چومنا تھوڑی ہے حجر اسود کو… یہ بھی تو دکھانا ہے کہ ہمارا ایمان کتنا وزنی ہے. خیر ایمان کی کمزوری کی وجہ سے میں یہ حرکت نہ کر پایا اور دور سے زیارت کرنے اور ہاتھ لگانے پر اکتفا کیا. 

مقام ابراہیم پر نوافل پڑھنے کی باری آئی تو لوگوں کے ایمان کا عالم دیکھ کر دل تو جیسے خوشی سے پھولے نہ سمایا. نفل پر نفل یوں پڑھ رہے تھے جیسے خانہ کعبہ میں بس یہی ہوں اور تو کوئی موجود ہی نہ ہو. خدا کا حکم ہے نا کہ جب میری عبادت کرو تو ایسے کرو جیسے تمہیں بس میں دیکھ رہا ہوں. یہ ایمان افروز لوگ بس عبادت میں یوں گم تھے کہ ہزاروں انتظار کرتے لوگوں انکو دکھتے ہی نہ تھے بس خدا دکھتا تھا. خیر میں نے بھی ایمان کا انجکشن لگوایا اور زبردستی کچھ جگہ بنا کر ایک صاحب کی ٹانگوں کے بیچ سجدہ کیا… رکوع میں گیا تو ایک بھاری بھرکم آنٹی نے اپنا وزنی پچھواڑ ا میرے سر میں دے مارا. اب بھلا میں کیا کرتا؟ سر ہلاتا تو کعبہ سے ١٠ فٹ دور گندی حرکتیں کرنے کے الزام میں چھتر پڑتے اور کچھ نہ کرتا تو دھکم پیل میں کچلا جاتا. معصومیت سے میں نے سر ہلایا اور آنٹی کو کچھ محسوس ہوا اور میری نماز پوری ہوئی. 

ادھر ادھر دیکھا تو سب خواتین کے چہرے ننگے تھے، کسی کا چہرہ ڈھکا ہوا نہ تھا اور ہاتھ اور پاؤں بھی دکھتے تھے. پردے کے اسلامی احکامات کے ایسی کھلم کھلا خلاف ورزی وہ بھی خانہ کعبہ میں؟ سوچ رہا تھا کہ مسلمانوں کی غیرت کہاں مر گئی تو بتایا گیا عمرہ اور حج میں خواتین چہرے کو چھپا نہیں سکتی. سن کر شدید غصہ آیا کہ لوگوں نے کیسی کیسی بدعت شامل کر دی ہیں وہ بھی عمرہ حج میں … بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ جس عورت کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہ ہو اسکو خدا کے گھر میں منہ نکال کر آنے کی اجازت ہو. سوچا جا کر سعودی حکام کو لیٹر لکھوں گا کہ اس بدعت پر بھی برائے کرم غور کریں اور اسکو بند کروایں. 

صفہ مروہ میں اعمال مکمل کر کہ بال کٹواے، عمرہ مکمل ہوا اور میں مروہ سے باہر نکلا تو سوچا رسول الله اور بیبی خدیجہ کا گھر دیکھتے ہیں. نقشے کے مطابق لوکیشن یہی بنتی تھی پر دیکھا تو وہاں پبلک ٹائلٹ نظر آئے. کچھ آگے دیکھا تو ایک لائبریری. دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ رسول اللہ کی جائے پیدائش کی جگہ ایک لائبریری اور بیبی خدیجہ کے گھر کی جگہ ٹائلٹ بنا دئے گئے ہیں. یقین کیجئے ایمان تازہ ہو گیا. رسول الله باب العلم ہیں چنانچہ اس سے بہتر علمی دنیا کی کیا خدمت ہو سکتی تھی کہ ایک بیکار پرانے گھر کو لائبریری بنا دیا جاتا اور لوگ مستفید ہوں اور باب العلم کی لیگیسی باقی رہے. اسی طرح آپکو یہ بھی معلوم ہے کہ رسول الله ہمیشہ لوگوں کی مدد کرتے تھے اور بیبی خدیجہ نے بھی اپنی ساری دولت اسلام کی رہ میں خرچ کر ڈالی. اگر آپ کبھی ایسی گھمبھیر صورت حال سے دوچار ہوے ہیں کہ ضرورت کے وقت آپکو ٹائلٹ میسر نہ ہوا ہو تو تب ہی آپ سعودی حکام کی اس دانائی کا اندازہ لگا سکیں گے. جہاں رسول اور بیبی خدیجہ رہا کرتے تھے … ظاہر ہے اب تو اس جگہ کی شرعی اعتبار سے کوئی حیثیت نہیں پر اسی جگہ ضرورت مند ہگ سکتے ہیں … اس سے بڑی انسانی خدمت اور کیا ہوگی. لوگ سعودی حکام پر بے جا اعتراض کرتے ہیں … مکّہ میں ویسے بھی سیون سٹار ہوٹل، مکڈونلڈ، کے ایف سی، ہلٹن، ہارڈیز، پیزا ہٹ وغیرہ جیسی بنیادی روحانی سہولیات بنانے کے بعد اب جگہ کہاں ہے ایسے پرانے کھنڈرات کیلئے اور ویسے بھی ٹائلٹ تو اب ضرورت کی شے ہے نہ. 

 

· 

Bottom of Form

 

Comments

comments

Latest Comments
  1. lanat_bar_deobandi-salafi
    -
  2. lanat_bar_
    -
  3. Saudi tadlees..
    -