نئی رزمگاه
نئی رزمگاه
دنیا میں سنتے آئے ہیں کہ حالات بدلا کرتے ہیں.کسی بهی قوم یا ملک کے حالات ، مفادات سے بلواسطہ یا بلا واسطہ وابسطہ ہوتے ہیں.بیشک مستقل نهیں ہوتے لیکن تغیر میں وقت لگا کرتا تها.پر نہ جانے فی زمانہ وقت کو پر لگ گئے ہیں یا حالات ، و واقعات کو یا ہم باتوں کو کچه زیادہ سمجهنے لگے.فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا.
کل تک جو قاتل تهے وہ اچانک سے مظلوم بن جاتے ہیں.جن کے خلاف فوج لڑتی رہی اور پچاس ہزار 50000 افراد نے اپنی جانیں هاریں وہ جو کل تک اسلام کے دشمن تهے اچانک سے بهت سے کے منظور نظر هوگئے.اچانک سے قاتلوں سے مذاکرات کی میز سج گئی کیوں؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو جماعت اسلامی کل تک طالبان کو مغرب کی پیداوار کہتی تهی آج اچانک سے اس کی محبت میں کیوں پاگل ہے.؟ وہ عرفان صدیقی جو کل تک ان کو کافر اور ان سے جنگ کی باتیں کرتے تهے اچانک کیسے تبدیل ہوگئے؟ کیوں اچانک امریکہ قطر میں دفتر کهول کے طالبان سے ڈیل کرنے کی سعی کرتا ہے اور اس بالآخر ڈیل کے نتیجے میں عراق میں القاعدہ کے جنگجوؤں کو عراقی فوج میں اور مختلف سیکیورٹی ایجنسیز میں ایڈجسٹ بهی کیا جاتا ہے.؟
Taliban created by Western powers: Qazi – thenews.com.pk – http://www.thenews.com.pk/TodaysPrintDetail.aspx?ID=174444&Cat=2&dt=4/27/2009
Jang Group Online – http://jang.com.pk/jang/dec2009-daily/10-12-2009/col2.htm Jang Group Online – http://jang.com.pk/jang/dec2009-daily/09-12-2009/col3.htm
جب اس لیول پہ تبدیلیاں ہوں تو اب چونکنے کی کوئی گنجائش نهیں رہتی کہ جماعت اسلامی اور عرفان صدیقی بدل گئے.یہاں تو سبهی کچه بدل جارہا ہے.لیکن اس تبدیلی کو سمجهنے کی ضرورت ہے کہ کراچی کی ایمپریس مارکیٹ گواہ ہے دو سال قبل تک جماعت اسلامی یوم فلسطین یا فلسطین کی آزادی کرتی نظر آتی تهی.لیکن پچهلے دو سال سے جماعت اسلامی نے کوئی یوم فلسطین نهیں منایا.کشمیر کے موقف پہ بهی جماعت اسلامی و دیگر جهادی تنظیمیں لچک دار اور نرم رویہ اپناتی نظر آتی ہیں.جهادی تنظیمیں بالخصوص جماعت اسلامی و القاعدہ کا تو بنیادی نعرہ امریکہ کا ایک علاج الجهاد الجهاد ہوا کرتا تها لیکن آج یہ نعرہ بهی مدهم ہوتا نظر آرہا ہے.یعنی امریکہ کی اپنے دونوں محاذوں یعنی عراق و پاک افغان محاذ پہ اپنے مخالفین کے ساته انڈر اسٹینڈنگ ہوتی واضح نظر آرہی ہے.ہماری زبان میں کہتے ہیں سیٹنگ ہوگئی ہے.
یہ انڈرسٹینڈنگ کیسے ہوئی اور کون کون سے پلیئرز نے کیا کیا رول پلے کیا اس کی تفصیل پهر سهی لیکن مختصرا یاد دلاتے چلیں کہ القاعدہ بنیادی طور پہ عربوں کی وہ انقلابی اسلامی جهادی تنظیم جو کہ امریکہ سپورٹ سے معرض وجود میں آئی.جس کا بنیادی مقصد روس امریکی جنگ میں امریکی سپورٹ اور روس کی تباهی تهی اور القاعدہ کا دوده شریک بهائی جس کا نام طالبان تها اور اس کا بنیادی مقصد بهی سوشلزم کی سیکیولرازم کی یعنی روس کی تباهی ٹهرایا گیا تها.
سعودی عرب کے موجودہ وزیر داخلہ اور امریکہ میں سابق سعودی سفیر شاه بندر کی امریکہ دورے اور جان کیری کے سعودی عرب آنے کو اگر کوئی انالسٹ محض اتفاق تصور کرے تو وہ غلط ہوگا.ہماری ادهوری لیکن مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس ساری ڈیل میں سعودی حکومت بالخصوص وزیر داخلہ شاه بندر نے اہم کردار ادا کیا.اس ساری ڈیل میں صرف یہ یاد دلایا گیا کہ کیا تمهارے قیام کا مقصد امریکہ سے جهاد تها؟کیسے چالیں چلیں گئیں یہ پلیئرز جانیں لیکن جو نظر آرہا ہے کہ گارنٹر عرب قرار پائے ہیں.اللہ معاف کرے کہنے والے کہتے ہیں کہ میاں صاحب کے برسر اقتدار آنے کے بعد تو سعودی ہی اصل حاکم ہوگئے ہیں.اب فیصلے پاک سعودی مفادات میں ہوں گے.
یہ تصویر اور واضح ہوئی جب ایمن اظواہری نے شام اور عرب کے مختلف گروپوں کو خط لکها.اس خط میں ایمن اظواہری نے واضح طور پہ اپنے اگلے جهاد کے رخ کا تعین کیا کہ ہمارا دشمن سیکیولر ہے اور ایک مخصوص فرقے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایران کو اپنا دشمن گردانا.اپنے جهاد کو القاعدہ کے سربراہ نے روس ، ایران ، اور چائنا کے رخ پہ ڈالا ہے اور واضح طور پہ ان تین ممالک کا نام لیا.
The Washington Post – http://m.washingtonpost.com/world/national-security/al-qaeda-leader-zawahiri-seeks-to-end-infighting-among-syrian-radicals/2014/01/23/05c80874-8451-11e3-8099-9181471f7aaf_story.html
بات واضح ہے کہ حالت جنگ میں دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے. یہ نئی دوستیاں ہیں اور نئی رزمگاه (میدان جنگ) ہے. پاکستان میں ریت ڈالتا شیعہ قتل عام بهی اسی سلسلے کی اک کڑی سی معلوم ہوتا ہے. انٹرنیشنل پلیرز بچهی بساط پہ چالیں چل رہے ہیں.جو ان پلیئرز و گارئنٹرز کیلیے رکاوٹیں کهڑی کرے گا جو انٹرنیشنل پاور پلیئرز کو منع کرے گا کہ تم 78 سے اس خطے کے کے مسلمانوں کا خون جهاد کے نام پہ ریال اور ڈالروں کے بل پہ بہائے جارہے ہو یہ بند کرو .جو انٹرنیشنل پلیئرز کے خریدے کسی بهی طالبان کو بیڈ کہے گا تو اس کے گرد گهیرے پڑیں گے. نیشنل انٹرنیشنل معاملات میں الجهایا بهی جائے گا. لیکن اب وقت ہے ہم من حیث القوم پاکستانی اٹه کهڑے ہوں اور انتها پسندی و جنگی طبیعت رکهنے والوں سے اعلان جنگ کیا جائے اور حکومت وقت کو مجبور کیا جائے طالبان ، القاعدہ و پرو القاعدہ افراد کا نہ صرف بائیکاٹ کریں بلکہ ان کے خلاف اعلان جنگ کریں. میرا سوال یہ ہے کہ 78 سے جهاد بار بار ہم لڑتے ہیں کبهی کسی سے تو کبهی کسی سے لیکن هر جهاد کے آخر میں ہماری جیت کے باوجود فواعد اور جیت کے ثمرات صرف امریکہ کو ہی حاصل کیوں ہوتے ہیں.؟ہر دفعہ ہم ہی ایندهن کیوں بنتے ہیں.اور کیا اب ہمارے نام نهاد مذهبی ، سیاسی و طالبانی نمائندگان ہمیں ایک نئے مفادات کے جهاد کا ایندهن بنانے جارہے ہیں.؟ سیکیلولر اور شیعہ ریاست کے خلاف جهاد . ہمارے موجودہ رویوں سے لگتا ہے کہ ہماری تو داستاں بهی نہ ملے گی داستانوں میں
تحریر جنید رضا