ماما قدیر،فرزانہ بلوچ اور رومانہ کاکٹر پنجاب سے انصاف کے طالب ہیں

بلوچستان کے ضلع خضدار کے نواحی علاقے توتک سے ایک کھدائی کے دوران 25 مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں –لاشیں اسقدر خراب ہوچکی ہیں کہ ان کی شناخت ناممکن ہے

ان لاشوں کے ساتھ ساتھ کھدائی کے دوران ہڈیاں بھی مل رہی ہیں اور ابتدائی اندازوں کے مطابق یہ اجتماعی قبر ہے جس میں بلوچ قوم کے لوگوں کو مار کر پھینک دیا گیا

یہ لاشیں ایک ایسے وقت میں برآمد ہوئی ہیں جب جبری طور پر لاپتہ ہونے والے بلوچ افراد کا کیس سپریم کورٹ میں چل رہا ہے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار مسنگ بلوچ کا پیدل لانگ مارچ کوئٹہ سے سفر کرتا ہوا سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں کو عبور کرتا ہوا ایک دو دن میں ملتان پہنچنے والا ہے

ادھر قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں بلوچستان سے واحد ملازم بلوچ افسر رومانہ کاکٹر کو سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے نکال باہر کیا ہے

یہ خبریں پاکستان کی عوام کے لیے انتہائی تشویش کا سبب ہیں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے بلوچستان سے اس قسم کی خبریں آنے پر جو ردعمل ظاہر کیا ہے اس سے پاکستان کے عالمی سطح پر امیج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ موجود ہے

گمشدہ بلوچ نوجوان سیاسی کارکنوں،طالب علموں اور پروفیشنل کی بازیابی کے لیے دی وائس فار مسنگ بلوچ نے کوئٹہ سے جو لانگ مارچ شروع کیا ہے وہ شاید تاریخ کا سب سے طویل لانگ مارچ ہے

یہ لانگ مارچ چین انقلاب کے رہبر اور چین کو غلامی سے آزاد کرانے کے لیے شروع ہونے والی تحریک کے بانی چئیرمین ماوزے تنگ کے لانگ مارچ سے بھی طویل لانگ مارچ ہے

اس لانگ مارچ کی قیادت بلوچستان کے سردار اور وڈیرے یا امراء و نواب نہیں کررہے بلکہ یہ لانگ مارچ ایسے مرد،خواتین اور بچے کررہے ہیں جو ورکنگ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے بھائی،بیٹے،باپ جبری طور پر اٹھاکر غائب کردئے گئے ہیں

ماما قدیر لانگ مارچ کرنے والوں کے ساتھ مشفق باپ کی طرح چل رہا ہے جس کا بیٹا جلیل اچانک غائب ہوا اور ایک دن اس کی تشدد زدہ ،مسخ لاش ویرانے سے ملی

ماما قدیر بلوچ اس کے بعد سے بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور بلوچ نوجوانوں کی زبردستی گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کررہا ہے

اس کی آواز میں اپنی آوازوں کو شامل کرنے میں بلوچ قوم کی بہت سی مائیں،بہنیں اور چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھی شامل ہوگئے ہیں جن کے پیارے ان سے جدا کردئے گئے ہیں

چار پہیوں کی ایک ریڑھی پر گم ہوجانے والے بلوچوں کی تصویریں اور ان کی تفصیلات دھری ہوئی ہیں جن کو کوئٹہ سے ماما قدیر ،فرازانہ مجید بلوچ اور دیگر لوگ لیکر ساتھ چلے ہیں

سخت سردی،طوفانی ہواؤں اور خوف و ہراس کی فضاء میں یہ قافلہ سنگلاخ چٹانوں ،پہاڑوں اور میدانوں کو عبور کرتا ہوا چلا جارہا ہے

یہ سب لوگ اسلام آباد جارہے ہیں اور وہاں جاکر پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے کا عزم رکھتے ہیں

سینکڑوں میل پیدل چل کر ماما قدیر اور بہت سی عورتوں اور بچوں کے پیر لہولہان ہیں اور پیروں پر آبلے،زخم آچکے ہیں اور اس دوران ان کو مسلسل ڈرانے دھمکانے اور ہراساں کئے جانے کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے

یہ لانگ مارچ ابھی تک ایک طرح سے الگ تھلگ فضا میں ہورہا ہے،بلوچستان میں بلوچ قوم پرست جماعتوں میں سے چند ایک نے اس مارچ کا ساتھ دیا اور صرف بی این ایف کے کارکن اس لانگ مارچ کے ساتھ چل رہے ہیں

سندھ میں قوم پرست جماعتوں نے اندرون سندھ اس لانگ مارچ کا استقبال کیا اور بایئں بازو کے کچھ گروپس اس لانگ مارچ کے ساتھ کہیں کہیں چلے

پنجاب کی سرحد میں داخلے کے بعد اس لانگ مارچ کو اور زیادہ تنہائی کا سامنا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ڈیرہ غازی خان،راجن پور کے اضلاع میں شہریوں نے اس لانگ مارچ کا وہ استقبال بھی نہیں کیا جس کا ژظاہرہ سندھ کے گوٹھوں اور شہروں میں دیکھنے کو ملا تھا

میں یہاں پر این جی اوز کا تذکرہ نہیں کروں گا جو فنڈڈ پروجیکٹس اور امریکہ و برطانیہ کے اندر اپنی این جی اوز کی ورتھ بڑھانے والے ایشوز پر ہی شروع مچانے اور اس ایشو کو مین سٹریم دھارے میں لانے کے لیے سرگرم نظر آتی ہیں

ڈیرہ غازی خان،راجن پور اور مظفرگڑھ میں ہزاروں این جی اوز رجسٹرڈ ہیں اور اگر ان کا ایک ایک فرد بھی اس لانگ مارچ کا استقبال کرتا تو ہزاروں لوگ بن جانے تھے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا

پی پی پی کی جنوبی پنجاب کی تنظیم کو بھی اس حوالے سے تاحال پی پی پی کی قیادت کی جانب سے کوئی باضابطہ ہدایات میری معلومات کے مطابق موصول نہیں ہوئی ہیں

جبکہ پی ٹی آئی،مسلم لیگ نواز،مسلم ليگ ق اور دیگر جماعتیں تو اس ایشو پر بالکل ہی لاتعلق نظر آرہی ہیں

ایم کیو ایم کی جنوبی پنجاب کی تنظیم کی جانب سے بھی اس لانگ مارچ کے حوالے سے سردمہری نظر آرہی ہے

مجھے جنوبی پنجاب کی ضلعی بارز سے یہ امید تھی کہ وہ اس اہم ایشو پر اپنے تحفظات کا اظہار کرنے کے لیے وائس فار مسنگ بلوچ کے لانگ مارچ سے اظہار یک جہتی کے لیے ماما قدیر اور فرزانہ بلوچ کو ڈسٹرکٹ بار سے خطاب کی دعوت دیں گی لیکن ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا مظفر گڑھ ،ملتان ،خانیوال کی ڈسٹرکٹ بارز اور ملتان ہائیکورٹ بار ان مظلوموںکے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے اور ان کی بات سننے کے لیے بار کے دروازے کھولیں گی

سرائیکی قوم پرست جماعتیں بھی ابھی تک اس لانگ مارچ کے حوالے سے خاموش ہیں اور ان کی جانب سے سرائیکستان کی حدود میں لانگ مارچ کے داخلے پر کوئی پروگرام ترتیب نہیں دیا گیا بلکہ سرائیکی قوم پرستی پر مستقل کالم نگاری کرنے والوں کے اس ایشو پر تاحال کوئی کالم بھی دیکھنے کو نہیں ملا

کچھ سرائیکی قوم پرستوں نے بلوچستان میں سرائیکی خطے کے مزدوروں کی ٹارگٹ کلنگ کو جواز بناکر اس لانگ مارچ کا سواگت کرنے سے معذرت کی اور کچھ انتہا پسندوں نے یہاں تک کہا کہ اس لانگ مارچ کا سواگت کالی جھنڈیوں سے کرنا چاہئیے

میں ایسے انتہا پسندوں کی اس تجویز کے جواب میں فقط یہ کہوں گا کہ یہ لانگ مارچ وہ لوگ کررہے ہیں جن کا نہ تو سرائیکی خطے کے لوگوں کی بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ میں کوئی ہاتھ ہے اور نہ ہی پنجابی لوگوں کے قتل میں اور ان کو نکالنے میں ان کا کوئی کردار ہے

یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پیاروں کے اچانک گم کردئے جانے اور ان کے بارے میں ایسے ٹھوس شواہد موجود ہونے کی وجہ سے انصاف کے لیے لانگ مارچ پر نکلے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے پیارے کسی ریاستی ادارے کی تحویل میں ہیں

پاکستان ایک آئینی،جمہوری اور وفاقی ریاست ہے جس میں کسی بھی فرد یا ادارے کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ آئین و قانون سے ماوراء ہوکر کوئی قدم اٹھائے اور بغیر مقدمہ چلائے کسی کو زندگی سے محروم کردے

مذکورہ بالا ایک ایسی سچائی ہے کہ جس سے کوئی انصاف پسند بھی انکار نہیں کرے گا

پنجاب کی حدود میں رہنے والے شہریوں کے اوپر یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے مہذب شہری ہونے کا ثبوت فراہم کریں اور ریاستی و غیر ریاستی سطح پر ہونے والی غیر آئینی،غیر قانونی اور ماورائے عدالت اٹھائے جانے والے اقدامات کے خلاف آواز بلند کریں

پاکستان کی سلامتی اور اس کے تحفظ کو سنگین خطرات لاحق ہیں اور اس سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کرسکتا لیکن اس ضمن میں پاکستان کے جھوٹے صوبوں اور چھوٹی اقوام کے اندر جو خدشات اور جو بدگمانیاں جڑپکڑ رہی ہیں ان کا تدارک فوری طور پر ہونا ضروری ہے

پنجاب کے اندر شہریوں میں بلوچستان کے لوگوں کی مشکلات اور تکالیف کے حوالے سے کس قدر ہمدردی اور کنسرن موجود ہے اس کا اںدازہ پنجاب کے شہریوں کے ردعمل اور ان کے احتجاج اور بلوچ برادری کے ساتھ اظہار یک جہتی کے عملی مظاہروں سے کیا جاسکتا ہے

گمشدہ بلوچوں کے لیے پیدل لانگ مارچ کرنے والے اس قافلے کا شاندار استقبال اور ان پر محبتیں نچھاور کرکے اس کا بخوبی اظہار کیا جاسکتا ہے

ابھی اس قافلے کے اسلام آباد پہنچنے میں کافی وقت پڑا ہے اس سے پہلے پنجاب کے شہریوں کو اس لانگ مارچ کے ساتھ اس قدر حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا چاہئیے کہ یہ مارچ کرنے والے بلوچستان میں جاکر بلند آواز سے یہ کہیں کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے کسی ایک فرد یا بہت سارے افراد کی بلوچ قوم سے زیادتی یا ان کے نوجوانوں کی گمشدگی سے پنجابیوں اور سرائیکیوں کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اہل پنجاب اس عمل کی حمائت کرتے ہیں

Comments

comments