Who is in power in Balochistan? PPP or Army?
’انٹیلیجنس ایجنسیوں کی مداخلت کو روکیں ‘
میڈیا پلئیر
ونڈوز میڈیا یا ریئل پلیئر میں دیکھیں/سنیں
بلوچستان میں اگر انٹیلی جنس ایجنیسوں کی سیاست میں مداخلت ختم کی جائے اور ان کا سیاسی کردار ختم کیا جائے تو بیشتر مسائل ویسے ہی حل ہوجائیں گے۔
یہ بات بی بی سی کے ایک مباحثے میں حکمران پیپلز پارٹی کے سنیٹر صابر بلوچ اور حزب مخالف کی نیشنل پارٹی کے سنیٹر حاصل خان بزنجو نے متفقہ طور پر کہی ہے۔
بحث کا موضوع تھا کہ بلوچستان کے لیے مرکزی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ‘آغاز حقوقِ بلوچستان پیکیج’ کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے اس عرصے میں کیا تبدیلی آئی ہے اور فوری طور پر حکومت ایسے کیا اقدامات کرے کہ معاملات بہتری کی طرف جاسکتے ہیں۔
مباحثے میں سنیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے دو بہت بڑے کام کیے ہیں جس میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت صوبائی خودمختاری کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل میں صوبوں کو پچاس فیصد حقِ ملکیت دینا اور قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ میں صوبوں کو زیادہ حصہ دینا شامل ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ حکومت ان اقدامات پر من و عن عمل کروائے تو ہی اس کا صوبوں کو فائدہ ہوسکتا ہے اور ایسا فائدہ ہوگا جس کا شاید کئی لوگوں کو ابھی اندازہ بھی نہ ہو۔
سنیٹر صابر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں بعض شدت پسندی کی وارداتوں میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے ملزمان کی جیبوں سے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کارڈ برآمد ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت یہ کرسکے کہ سیاست سے ایجنسیوں کا کردار ختم کردے تو بلوچستان میں حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے بلوچستان کے لیے وہ کچھ کیا ہے جو ماضی کی کسی حکومت نے نہیں کیا۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے مختلف مکاتب فکر کے لوگوں سے مشاورت کی اور تین جرگے منعقد کیے۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کی مشاورت کے بعد صوبائی خودمختاری دی، برسوں سے قرض پر چلنے والے بلوچستان کا اوور ڈرافٹ ختم کیا، سیاسی کارکنوں کو رلیف دیا، پانچ ہزار لوگوں کو روز گار دیا اور قدرتی وسائل پر صوبے کا حقِ مالکیت تسلیم کیا ہے۔
حاصل بزنجو نے کہا کہ بلوچستان کے آئین کے مطابق مرکز میں پندرہ ہزار ملازمتں کا حق بنتا ہے جو ابھی تک نہیں ملا۔ ان کے بقول جو پانچ ہزار ملازمتیں دی ہیں ان کا چند برسوں تک خرچہ مرکز اٹھائے گا اور بعد میں پتہ نہیں کہ چلیں گی کہ نہیں۔
25
نومبر 2010
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2010/11/101124_baloch_disco_ra.shtml
…….
’مزاحمت کاروں سے بات چیت کا مینڈیٹ نہیں‘
احمد رضا
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
ونڈوز میڈیا یا ریئل پلیئر میں دیکھیں/سنیں
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کا کہنا ہے کہ ان کے پاس بلوچ مزاحمت کاروں کے ساتھ مذاکرات کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے۔
یہ بات انہوں نے اسلام آباد میں بی بی سی کے ساتھ آغاز حقوق بلوچستان کے پارلیمان میں پیش کیے جانے کے ایک سال بعد اب تک کی ہوئی پیش رفت سے متعلق ایک خصوصی انٹرویو میں کہی۔
’جو ہمارے بھائی ناراض ہیں ان سے بات چیت کے لیے میرے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔ میں نے وزیرِ اعظم اور صدر دونوں سے بات کی ہے مگر کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔‘
اب تک کی پیش رفت کے بارے میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کا کہنا تھا کہ جو مجوزہ نئی چھاؤنیاں بننی تھیں وہ تو بند ہوگئی ہیں اور اب کوئی نئی چھاؤنی نہیں قائم کی جا رہی ہے۔
کلِک ’بگٹی قتل اور لاپتہ افراد پر کمیشن، کچھ مقدمے واپس‘
نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ’ ڈیرہ بگٹی اور سوئی سے فوج انخلاء کے بعد کوئٹہ میں اپنی چھاؤنی میں چلی گئی ہے اور ان علاقوں کو فرنٹئیر کور کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ فرنٹئیر کور کی چیک پوسٹیں ہٹا دی گئی ہیں۔’
تریسٹھ سال گزرنےکے بعد جب ایک سال پہلے آغازِ حقوقِ بلوچستان کا سلسلہ شروع ہوا تو اس پر عمل کرنے میں بھی وقت لگے گا یعنی تریسٹھ سال کی جو زیادتیاں ہیں ان کو جو ہمیں نظرانداز کیا گیا ہے اس کو ایک سال میں توآپ ختم نہیں کرسکتے، اس کے لیے آپ کو انتظار کرنا ہوگا۔ تو ابھی آہستہ آہستہ ہوگا ، کوئی جادو کی چھڑی تو نہیں ہے
نواب اسلم رئیسانی
انھوں نے مزید کہا کہ’ تریسٹھ سال گزرنےکے بعد جب ایک سال پہلے آغازِ حقوقِ بلوچستان کا سلسلہ شروع ہوا تو اس پر عمل کرنے میں بھی وقت لگے گا یعنی تریسٹھ سال کی جو زیادتیاں ہیں ان کو جو ہمیں نظرانداز کیا گیا ہے اس کو ایک سال میں تو آپ ختم نہیں کرسکتے، اس کے لیے آپ کو انتظار کرنا ہوگا۔ تو ابھی آہستہ آہستہ ہوگا ، کوئی جادو کی چھڑی تو نہیں ہے۔‘
ایمنسٹی انٹرنشیل کی بلوچ شہریوں کے لاپتہ ہونے سے متعلق رپورٹ پر نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ دنیا بھر میں جو زیرِ زمین تنظیمیں ہوتی ہیں جو خفیہ طور پر کام کرتی ہیں ان کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو بھی مارنا شروع کر دیتی ہیں ۔ ’یہ ساری دنیا میں آپ دیکھیں، فلسطین کو دیکھیں۔ کچھ شاید ایجنسیز والے اٹھاتے ہیں مگر وہ ایک دوسرے کو بھی مار رہے ہیں۔’
انھوں نے کہا کہ ’میرا اپنا بیٹا ہٹ لسٹ پر ہے، اب میرے بیٹے نے کسی کا کیا بگاڑا ہے۔ میرے بیٹے کا اس میں رتی بھر بھی کوئی لینا نہیں ہے، میں ہٹ لسٹ پر ہوں۔ ڈاکٹر مالک ہٹ لسٹ پر ہے، میرا بھائی لشکر ہٹ لسٹ پر ہے۔ یہ جو زیرِ زمین تنظیمیں ہیں۔ جو اپنے آپ کو بڑے قوم پرست کہتے ہیں۔ میں بھی قوم پرست ہوں میں بھی بلوچ ہوں مگر یہ آپس میں ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ مفادات کی جنگ شروع ہوچکی ہے۔‘
میرا اپنا بیٹا ہٹ لسٹ پر ہے، اب میرے بیٹے نے کسی کا کیا بگاڑا ہے۔ میرے بیٹے کا اس میں رتی بھر بھی کوئی لینا نہیں ہے، میں ہٹ لسٹ پر ہوں۔ ڈاکٹر مالک ہٹ لسٹ پر ہے، میرا بھائی لشکر ہٹ لسٹ پر ہے۔یہ جو زیرِ زمین تنظیمیں ہیں۔ جو اپنے آپ کو بڑے قوم پرست کہتے ہیں ۔ میں بھی قوم پرست ہوں میں بھی بلوچ ہوں مگر یہ آپس میں ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ مفادات کی جنگ شروع ہوچکی ہے
نواب اسلم رئیسانی
بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے سوال پر وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ’میں یہ قطعاً نہیں کہوں گا کہ ہم ناکام رہے ہیں ، انہوں نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے کہا ہے کہ نہتے لوگوں کو اس طرح قتل کرنا گناہ ہے۔ اللہ بھی ناراض ہوگا ہم بھی اسے پسند نہیں کرتے۔ جو آبادکار ہیں وہ کئی دہائیوں سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔ ان کا قاتل کوئی بلوچی نہیں ہے، خواتین کا قتل، بچوں کا قتل، ہمسائے کا قتل یہ کوئی بلوچیت نہیں ہے اور ہم نے اس کی مذمت کی ہے اور پھر ہم نے قاتل پکڑے بھی ہیں۔‘
بلوچستان میں لاپتہ افراد کے سوال پر انھوں نے کہا کہ وہ اسے اچھی بات نہیں سمجھتے ہیں۔ ’میں اس کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا ہوں، اور اس کی پر زور الفاظ میں مذمت کرتا ہوں اور میں امید کرتا ہوں کہ مستقبل میں یہ نہیں ہوگا۔’
نواب اسلم رئیسانی نے مزید کہا کہ’ کچھ تو ایسے لوگ ہیں جو دبئی یا کابل میں بیٹھیں ہیں اور گمشدہ کہلاتے ہیں، میں خود ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں۔ کچھ ایسے لوگ ہیں جن کی تصویریں ہیں مگر وہ چھوٹے چور، معمولی جرائم پیشہ افراد ہیں، یہ مسئلہ حل نہیں ہوا ہے اور اس کو صرف میں حل نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے سارے فریقین مل بیٹھ کر کوئی حل نکالیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ صدر، وزیرِ اعظم، گورنر یا وزیرِ اعلیٰ ہے تو یہ لوگ بیٹھ کر اس کو حل کریں گے تو نہیں۔ سارے فریقین مل کر اس کے لیے راستہ نکالیں۔ جس طرح میں کہا کہ میں مذاکرات کے لیے تیار ہوں ، آئیں مجھ سے بات کریں، یا مجھے بلائیں میں بات کروں گا، لیکن اب تک کوئی جواب نہیں آیا ہے۔
بدھ 24 نومبر 2010
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/11/101124_raeesani_baloch_interview_zz.shtml
………
’ماورائےعدالت قتل کے واقعات میں اضافہ‘
لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج (فائل فوٹو)
حقوقِ انسانی کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ایشین ہیومن رائٹس کمیشن نے کہا ہے کہ بلوچستان میں پچھلے کئی مہینوں سے ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں اس وقت سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے جب وفاقی وزیرِداخلہ نے بلوچ قوم پرستوں اور شدت پسندوں کو خبردار کیا تھا کہ حکومت ملک دشمن سرگرمیوں کو برداشت نہیں کرے گی اور سخت قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرے گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران بلوچستان میں پچیس لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں جن کو کچھ عرصہ قبل سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگوں نے اغوا کیا تھا اور ہلاک ہونے والوں کے ورثاء نے دعویٰ کیا ہے کو ان افراد کو ایف سی اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اغوا کیا تھا۔
ایشن ہیومن رائٹس کمیشن نے ان افراد کی تفصیلات جاری کی ہیں جن کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
ایشن ہیومن رائٹس کمیشن نے ان افراد کی تفصیلات جاری کی ہیں جن کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا تھا
بیان کے مطابق اٹھارہ نومبر کو نوجوان صحافی عبدالحمید حیاتان عرف لالا حمید کی مسخ شدہ لاش تربت سے ملی جن کو گوادر سے پچیس اکتوبر کو اغوا کیا گیا تھا۔ اسی دن صوبے کے مختلف علاقوں سے چھ مزید لاشیں ملی تھیں جن کو مبینہ طور پر خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اغوا کیا تھا۔
تنظیم نے اپنے بیان میں لکھا ہے کہ تئیس نومبر کو بوستان کے پہاڑی علاقوں میں سوکھے دریا سے پانچ نامعلوم افراد کی لاشیں ملی تھیں جن کو تقریباً تین ماہ قبل قتل کر دیا گیا تھا اور لاشوں کو دریا میں پھینک دیا گیا تھا۔
ایشن ہیومن رائٹس کمیشن کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں تقریباً ہر روز لوگ غائب ہو جاتے ہیں یا لوگوں کی لاشیں ملتی ہیں۔
تنظیم نے بتایا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی بلوچستان کے قوم پرست رہنماؤں کو خبردار کیا تھا اور اس کے فوراً بعد فوج کے آپریشن میں بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی مارے گئے تھے۔
ایشن ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل کے واقعات صوبے میں شدت پسندی کو اکسانے کےلیے ہو رہے ہیں تاکہ فوجی آپریشن کا جواز پیدا کیا جا سکے۔
تنظیم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ماورائے عدالت قتل کے واقعات اور لوگوں کے غائب ہونے کی وارداتوں کو روکنے کے لیے مناسب قدم اٹھائے اور قتل کے ان واقعات کی غیرجانبدار تحقیقات بھی کرائے۔
ایشن ہیومن رائٹس کمیشن نے اقوامِ متحدہ سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ بلوچستان میں صورتحال کی بہتری کےلیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے اور اس کے حکام جلد از جلد صوبے کا دورا کریں۔
بدھ 24 نومبر 2010
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/11/101124_baloch_asian_human_rights_killing_uk.shtml
……
اسلام آباد اور بلوچستان میں دوریاں
حکومت نے کہا تھا کہ ایک برس میں بلوچستان کے گم شدہ افراد کا بھی پتہ لگایا جائے گا
آغازِ حقوق بلوچستان کے خصوصی پیکیج کے ایک سال گذرنے کے بعد بھی وفاقی حکومت قوم پرست جماعتوں کو مذاکرات پر آمادہ نہیں کرسکی ہے جس کے باعث اسلام آباد اور بلوچستان کے درمیان ایک خلیج پیدا ہوا ہے۔
کوئٹہ سے بی بی سی کے نامہ نگار ایوب ترین کے مطابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے چوبیس نومبر سال دوہزار نومیں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے آغازحقوق بلوچستان پیکیج کے تحت اعلان کیا تھا کہ بلوچستان کے تمام لاپتہ افراد عید سے قبل منظر عام پر آجائیں گے، صوبے میں فوجی چھاؤنیوں کی تعمیر بند کر دیں گے اور ناراض بلوچوں سے مذاکرات کریں گے۔
لیکن ایک سال گذرنے کے باوجود صوبے میں ٹارگٹ کلنگ ، بم دھماکوں اور سیاسی کارکنوں کی اغواء نماگرفتاریوں میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے۔
بلوچستان میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر لشکری رئیسانی کا کہنا ہے کہ صوبے میں فوجی چھاؤنیوں کی تعمیر کا سلسلہ روک دیا گیا ہے صوبے کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو پانچ ہزار ملازمتیں دی گئیں ہیں۔جبکہ لاپتہ افراد کامسئلہ ابھی تک برقرار ہے۔ لشکری کے مطابق پیکیج پر جزوی طور پرعمل ہوا ہے لیکن بہت سے مسائل ابھی حل طلب ہیں۔
پیکیج پر جزوی طور پرعمل ہوا ہے لیکن بہت سے مسائل ابھی حل طلب ہیں
لشکری رئیسانی
پیکیج کے تحت حکومت نے بلوچستان کے دس ہزار بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا جس میں سے صوبائی حکومت نے محمکہ تعلیم میں پانچ ہزار نوجوانوں کو روزگار فراہم کردیا ہے۔
لیکن یہاں بہت سے بے روزگار نوجوانوں کا کہنا ہے کہ یہ بلوچستان پیکیج نہیں بلکہ وزراء پیکیج تھا جس میں میرٹ کو پامال کر کے وزراء اور بیوروکریسی، سفارش اور اقرباء پروری کے ذریعے اپنے ہی لوگوں کو بھرتی کیا گیا ہے۔
لیکن وفاقی وزیر داخلہ رحمنٰ ملک کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بے روزگاری کا خاتمہ کرنے کے لیے روزگار کے مزید مواقع پیدا کیے جائیں گے۔
انہوں نے بلوچستان کے نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ آگے آئیں حکومت ان کو روزگار فراہم کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے دوسرے صوبوں کی خالی اسامیوں پر بھی بلوچستان کے لوگوں کو بھرتی کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ نو ہزار سے زیادہ اسامیاں وفاقی حکومت میں بھی خالی ہیں جس پر جلد بلوچستان کے نوجوانوں کو روزگار دیا جائے گا۔
دوسری جانب بلوچ قوم پرستوں کا کہناہے کہ ایک سال گذرنے کے باوجود صوبے میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ سیاسی کارکنوں کی اغواء نماء گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات آغاحسن نے بتایا کہ آغازحقوق بلوچستان پیکیج کے بعد صوبے میں لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور شدت کے ساتھ بلوچ نسل کشی جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ’ آج بھی بلوچستان میں صوبائی اور مرکزی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ صوبے میں عملاً مارشل لاء نافذ ہے۔‘
آغازحقوق بلوچستان پیکیج کے بعد صوبے میں لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور شدت کے ساتھ بلوچ نسل کشی جاری ہے
آغا حسن
صوبائی سیکرٹری داخلہ اکبرحسین درانی نے بتایا کہ آغاز حقوق بلوچستان کے تحت لاپتہ افراد کومنظرعام پر لانے کے لیے قائم شدہ کمیشن کا کام جاری ہے ۔جس کے تحت بائیس افراد منظرعام پر آ چکے ہیں اور تہتر معاملات پر کام جاری ہے۔
بلوچ ری پبلیکن پارٹی کے لاپتہ رہنماء ودود رئیسانی کی بہن نے کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے بعد میڈیا کو بتایا کہ جب وہ اپنے بھائی کو منظرعام پر لانے کے لیے کمیشن کے سامنے پیش ہوئی تھی توکمیشن کے ارکان نے صرف ان کے کپڑوں کی تعریف کی تھی اور کہا تھا کہ آپ نے یہ کپڑے خود بنوائے ہیں کیا ؟
مگراس کے باوجود لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ جولائی سے لیکر اب تک پچاس سے زیادہ لاپتہ بلوچ کی مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہیں۔
دوسال قبل لاپتہ ہونے والے جلیل ریکی کے والد ماما قدیر بلوچ نے بتایا کہ گذشتہ چار مہنوں کے دوران پچاس مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہیں اور عید لیکر اب تک نو افراد کی لاشیں ملی ہیں۔
بلوچستان میں زیادہ تر قوم پرست جماعتوں کا کہنا ہے کہ جب تک لاپتہ افراد کو منظرعام پر نہیں لایا جائے گا۔ جماعتوں کے بقول جب تک سکیورٹی فورسز کو بیرکوں تک محدود نہیں کیا جائے گااس وقت تک بلوچستان کے مسئلے پر کوئی سیاسی رہنماء وفاقی حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہے
بدھ 24 نومبر 2010
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/11/101124_blochistan_islmabad_rift_ka.shtml
………
پنجابیوں کو مارنا غلط ہے: مینگل
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
دن دھاڑے بےگناہ لوگوں کو ُاٹھا کر ان پر تشدد کرکے لاشیں عید کے دن پھینک دیتے ہیں: سردار عطاء اللہ مینگل
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سابق سربراہ اور بزرگ قوم پرست رہنما سردار عطااللہ مینگل نے کہا ہے کہ وہ بندوق کے ذریعے مسائل حل کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
انہوں نے بی بی سی اردو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ سرکار کو زیادہ سمجھ کا مظاہرہ کرنا چاہیےجو لوگوں کے حقوق اور ان کی حفاطت کا دعویٰ کرتی ہے۔
’یہ لڑکےجو کچھ کرتے ہیں آئے دن چار پنجابی مارتے ہیں، یہ غلط ہے میں اس کے حق میں نہیں ہوں اس میں جن کا ہاتھ ہے حکومت پکڑ کر ان کا ٹرائیل کرے انہیں باقاعدہ سزا دینی چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ کسی بھی بےگناہ کو پکڑ کر تشدد کے بعد مسخ شدہ لاش سڑک پر پھینک دینا اور کہے کہ یہ تمہارا تحفہ ہے۔یہ کسی مہذب حکومت کا کام نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ آغاز حقوق بلوچستان پیکیج سے قبل مہینے میں ایک آدمی مارتے تھے مگر اب مہینے میں چار پانچ لڑکوں کو مار کر ان کی لاشیں پھینک دیتے ہیں۔ ’ بلوچوں کی نسل کشی کو تیز کیا گیا ہے اس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔‘
نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق سردار عطااللہ مینگل نے کہا ہے کہ آغازِ حقوق بلوچستان ایک بڑا جھوٹ، فریب اور مکر ہے، جس کا مقصد لوگوں کو دھوکہ دینا ہے، وہ اپنے لیے کچھ فنڈ جاری کرتے ہیں اوپر ہی اوپر سے کھا جاتے ہیں لوگوں تک کچھ نہیں پہنچتا۔‘
آغازِ حقوق بلوچستان ایک بڑا جھوٹ، فریب اور مکر ہے، جس کا مقصد لوگوں کو دھوکہ دینا ہے، وہ اپنے لیے کچھ فنڈ جاری کرتے ہیں اوپر ہی اوپر سے کھا جاتے ہیں لوگوں تک کچھ نہیں پہنچتا
سردار عطا اللہ مینگل
بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے پچھلے دنوں کہا تھا کہ بلوچستان کو قوم پرستوں کے رویوں کے باعث نقصان پہنچ رہا ہے۔
سردار عطااللہ کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قوم پرستوں کے رویوں اور غلطیوں کے باعث کچھ نقصان ہوا ہے، لیکن وزیر اعلیٰ اپنے حصے کی بھی تو غلطیاں بھی گن لیں۔
عطا اللہ مینگل نے کہا کہ پاکستان کی فوج پنجاب کی فوج بنی ہوئی ہے۔’ کراچی میں سینکڑوں لوگ مرتے ہیں مگر کبھی فوج کو ناراض ہوتے ہوئے دیکھا ہے، وہاں پولیس یا رینجرز کارروائی کرتی ہے مگر بلوچستان میں تو پوری فوج اور آئی ایس آئی متحرک ہے۔‘
عطا اللہ مینگل نے کہا کہ دن دھاڑے بےگناہ لوگوں کو ُاٹھا کر ان پر تشدد کرکے لاشیں عید کے دن پھینک دیتے ہیں۔
سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں سردار عطااللہ مینگل کے فرزند اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل کو گرفتار کیا گیا اور ان کی رہائی پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت میں ہوئی، جسے مفاہمتی پالیسی قرار دیا گیا۔
سردار عطااللہ کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس پر پشیمان ہے تو وہ ضامن ہیں اور اختر کو واپس لا دیتے ہیں حکومت انہیں دوبارہ بند کردیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کی طرف سےانتخابی سیاست میں حصہ لینے سے متعلق انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ سیاست میں حصہ لیں لیکن ان کے لیے سارے دروازے بند کردیے گئے ہیں
بدھ 24 نومبر 2010
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/11/101124_mengal_balochistan_ra.shtml
If PPP cannot control or tame state institutions, it should disband the party and find some other worthwile stuff to do.