منٹو:چھوٹے جہنم تصویر کرنے والا

سعادت حسن منٹو کی برسی پر ہم اس مرتبہ کوئی پروگرام نہ کرسکے اور نہ ہی میں کوئی کالم لکھ سکا لیکن سعادت حسن منٹو مجھے کل اس وقت بہت یاد آیا جب میں خانیوال میں ایک محلے خرم پورہ میں رات کو دے بجے غریب لوگوں کے درمیان بنے ایک تنازعے کو نمٹانے پہنچا اور مجھے خرم پورہ میں لینے کے لیے ڈینیل پیٹر صاحب آئے
ڈینیل پیٹر ایک کارپینٹر ہے اور اس نے اسلام آباد میں یورپ اور امریکی سفارت خانوں میں بہت سی الماریاں اور کرسیاں بنا رکھی ہیں ،وہ افغانستان بھی گیا جہاں وہ نیٹو فورسز اور ایساف کے لیے فرنیچر تیار کرتا تھا
اردو،پنجابی ادب کا گہرا شناور ہے اور انگريزی ادب کا بھی اس کو چسکا لگا ہوا ہے وہ میرے ساتھ خرم پورے کی ٹوٹی پھوٹی گلیوں میں جب قدم سے قدم ملاکر چل رہا تھا تو کہنے لگا
حسینی صاحب! آپ کو یاد ہے کہ منٹو صاحب کی برسی آئی اور گزر گئی اور آپ نے اس مرتبہ ان کو یاد کرنے کا کوئی پروگرام ترتیب نہیں دیا
میں نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو ،اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا دل نہیں کیا کہ منٹو جیسے سفاک مسیحا کا زکر ایسے لوگوں کے سامنے کروں جو سفاکیت میں تو اپنی معراج کو پہنچ گئے ہیں لیکن مسیحائی کا ان کے ہاں ڈھونڈے سے پتہ نہیں چلتا
ہم اس وقت جس گلی سے گزر رہے تھے اس گلی کے سامنے سڑک پار ایک قبرستان عیسائی برادری کا تھا اور ساتھ ہی احمدی برادری کا قبرستان تھا گویا خانیوال شہر سے قدرے دور ایک ویرانے میں پاکستان کی سب سے زیادہ ستم رسیدہ برادریوں کے قبرستان بھی اکٹھے بناڈالے گئے تھے اور مجھے لگا کہ کچھ وقت اور گزرے گا جب شیعہ کا قبرستان بھی یہیں کہیں ساتھ ہی بنا دیا جائے گا
خرم پورہ عیسائی برادری کی بستی ہے اور یہاں کے 99 فی صد باسی یا تو دیہاڑی دار مزدور ہیں یا خاکروب ہیں یا وہ بلدیہ کے سینی ٹیشن کے شعبے میں کام کرتے ہیں
کچھ راج گیر ہیں تو کچھ یہاں استاد بھی ہیں
اس خرم پورے کے اندر ایک جیکب فرانسس صاحب بھی ہیں جو امریکہ سے پڑھے اور خانیوال میں آکر ایجوکیشن افسر لگے اور پھر وہ اسی خرم پورہ میں گھر بناکر رہنے لگے
ستر سال کا یہ بوڑھا آدمی فلسفہ،تھیالوجی،ورلڈ ڈرامہ کا ماہر ہے اور یہ خرم پورہ کے غریب عیسائیوں کے بچے اور بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں اس پیرانہ سالی میں بھی مصروف رہتا ہے
اس کا ایک بیٹا فوج میں تھا اور وہ فوج میں روز تبلیغی جماعت کے مبلغین کا سامنا کرتا اور اسے روز مذھب تبدیل کرنے کی تلقین کی جاتی تھی
آخر ایک روز جب بات حد سے گزر گئی تو صاحب نے فوج کو خیرباد کہہ ڈالا
جیکب فرانسس کے ایک اور صاحبزادے معاشیات میں ایم اے ہیں اور ان کو جب کہیں نوکری نہ ملی تو انہوں نے ٹیوشن پڑھانا اور ٹھیکے پر ریسرچ شروع کرڈالی ،وہاں سے جو کمائی ہونے لگی اس سے اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد انہوں نے ایک سماجی تنظیم کی داغ بیل ڈالی
اس تنظیم کا نام بیٹھک ہے اور یہ بنیادی طور پر سماج کے اندر امن،مذھبی ہم آہنگی ،رواداری ،سیکولر ازم ،روشن خیالی پر مبنی خیالات ،سماج میں ادب،آرٹ،میوزک کے فروغ کے لیے اور عورتوں کے حقوق کی بازیابی کے لیے کام کرتی ہے
شہزاد فرانسس اس کا روح رواں ہے اور مجھ سمیت بہت سے لوگ اس کے ان آدرشوں کے ساتھ کام کررہے ہیں
شہزاد سے میری ملاقات ایک ایسے اجتماع میں ہوئی جہاں ایک کٹھ ملاّ اس پر عتاب نازل کررہا تھا اور بلاسفمی ایکٹ سے ڈرا مجمع اس کٹھ ملاّ کو روکنے سے قاصر تھا تو میں نے اس ملاّ کو للکارا اور شہزاد فرانسس کی مدد کی اور یوں شہزاد فرانسس جیسا دوست مجھے میسر آگیا
خیر خرم پورہ کی گلیوں ،وہاں کے مکانات ،وہاں کی سڑکوں کی خستہ حالی ،ابلتے گٹر اور خلق خدا کی کسمپرسی دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ منٹو جو کہ ممبئی کی گلیوں ،بازاروں،لاہور شہر کی کالی زندگی کو تصویر کرگیا تھا آج اس کے جیسے ادیب کہاں ہیں جو پاکستان کے خرم پورہ،جوزف کالونیوں میں بسر ہونے والی زندگی اور یہاں جنم لینے والی کہانیوں کو تصویر کرڈالیں
یہیں کہیں “گوپی ناتھ ” پھرتے ہوں گے اور کئی نئے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے کردار جنم لے چکے ہوں گے
ممبئی کا ایک ساجد رشید تھا جو اپنے افسانوں میں “ایک چھوٹا سا جہنم”ممبئی شہر میں دکھانے کی قدرت رکھتا تھا
کیا ایسا کوئی اور لکھاری بھی ہے جو یہاں بنے چھوٹے چھوٹے جہنموں کو اپنی کہانی کا موضوع بنائے
ایک تھیٹر گروپ “ایکا”کے نام سے یہاں آیا اور اس سے پہلے “سوجھلا ” کے نام سے آیا تھا انہوں نے جو کھیل خرم پورے کی بستی میں پیش کئے اور ایک اور کرسچن بستی کے چوک میں کھیل پیش کیا ان کو دیکھ کر مجھے شدت سے احساس ہوا کہ ہمیں “منٹو”جیسا نہ سہی “منٹو ” جیسے چند شرارے رکھنے والا سکرپٹ رائٹر ایک نہیں درجنوں کی تعداد میں درکار ہیں
فرانسس جیکب نے ان پلےز کے دوران یونانی ڈرامہ نگار یوریپیڈس کا زکر کرڈالا تھا اور مجھے نہ جانے کیوں سمیوئل بیکٹ اور اس کا کھیل “گوڈو کا انتظار”یاد آگیا تھا
منٹو کوٹھا۔تانگہ اور عورت تینوں کا رشتہ کیسے روزگار سے جوڑتا ہے مجھے اس لیے یاد آیا کہ میرے ایک جاننے والے صحافی نے مجھے کہا کہ یار! تمہارے شہر میں ایک عورت بہت خوبصورت ہے،سنا ہے کہ ایک زری کی دکان والا اور ایک کریانے کی دکان والا اس سے دھندا کراتے ہیں ،دو بچوں کی ماں ہے ،کسی لڑکے سے کورٹ میرج کی تھی اور لڑکا دبئی چلا گیا
وہاں جاکر اس نے دوسری شادی کرڈالی ،لڑکے گھر والوں نے ایک گھس پیٹھی لڑکی کو لاوارث سمجھ کر گھر سے نکال دیا ،اس نے اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے نوکری تلاش کی تو ہر جگہ پہلی ڈیمانڈ اس کے جسم کی تھی تو اس نے دو دو نوکریاں کرنے کی بجائے جسم بیچنے کا کام کرنا شروع کردیا ،میرا صحافی دوست اس کو خوبصورت چھنال ،شستہ اردو بولنے والی اور غضب کا جسم رکھنے والی عورت کہہ کر اپنے تصور ہی میں اس عورت سے لذت کشید کررہا تھا اور میرا دماغ پھٹا جاتا تھا
میں سوچ رہا تھا کہ یہ زری کی دکان کرنے والا،وہ کریانہ فروش اور یہ قلم فروش اور وہ جسم فروش سب کے سب میرے سماج میں موجود ہیں بس منٹو نہیں ہے
میں نے اس صحافی کو کہا کہ یار اس عورت سے بات کرتے ہیں اور پہلے کچھ لوگوں سے کہتے ہیں کہ اس عورت کی خاموشی سے مدد کریں ،باعزت روزگار کا بندوبست کریں
میرا صحافی دوست کہنے لگا کہ “تم کوئی ایسا مولوی،مذھب پرست خدا پرست تاجر،دکاندار،کوئی بھاری بھر کم فیس لینے والا باقاعدگی سے تبلیغی جماعت کے چلے کاٹنے والا،کوئی یا مولا حسین ،لبیک یا حسین کے نعرے لگانے والا ،کوئی کتاب توحید کا درس دینے والا ایسا مالدار کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤ گے جس کی نظریں اس عورتکے بدن،قاتل آنکھوں سے ہٹ کر اس المئے کو دیکھ سکیں جس نے اس عورت کو بیسوا بنا ڈالا ،اور میں تو خود صحافتی طوائف ہوں جس کا اخبار اسے تنخوا نہیں دیتا ،خود بھی کماکر لانے اور اسے بھی کما کر لاکے دینے کی ہدائت کوٹھے کی بائی کی طرح کرتا ہے
میں اپنے صحافی یار کی سچ بیانی سے بہت گبھرا گیا اور سوچنے لگا کہ منٹو جیسی ہمت بھی لانا تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے
ایک بیوٹشن مجھے کہنے لگی کہ وہ بیوٹشن کورس کرنے کے بعد اپنے ڈربے نما کمرے میں بہت عرصہ میک اپ کا سامان رکھکر بیٹھی رہی لیکن تھوبڑے کو رنگ و روغن کو سجانے والی امیر بیگمات کو اس ڈربے نما کمرے میں آنا پسند نہ تھا اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ کوئی شاندار سیلون بنا لیتی
پھر میں نے اس کمرے کو سیلون بورڈ کے ساتھ کوٹھے میں بدل ڈالا،گاہگ اور جسم فروش بیسواؤں کی سہولت کار بنکر کمیشن لینے لگی اور روزی روٹی کا سلسلہ بھی ٹھیک ہوگیا مگر ایک مصیبت یہ آئی کہ سیکورٹی برانچ،سپیشل برانچ اور علاقے کے تھانے کے اہلکار آکر اس سے اپنا حصّہ بھی وصول کرتے اور بنا کمیشن دئے اس کے کمرے کو اپنے شکار کے ساتھ استعمال بھی کرتے ،کہنے لگی مجبور ہوکر میں نے ان کے افسران میں سے کسی شوقین مزاج کو تاڑا اور اپنا آپ پیش کیا اور چھوٹے جانوروں سے جان بھی بچائی اور دھندا بھی بچا لیا
یہ اور اس قسم کا بہت سا مواد منٹو کو کہانی بننے میں مدد دیا کرتا تھا اور وہ کہانی کا اینڈ موپساں کی طرح ایسا کرتا کہ جونکانے کا لفظ تو زرا ہلکا ہے وہ جھنجھوڑ کر رکھ دیتا تھا ،ایسے جھنجھوڑنے والے ادیبوں کا قحط ہے ہمارے معاشرے میں
منٹو صاحب پر ممتاز شریں نے بالکل ٹھیک لکھا تھا کہ “منٹو نور اور نار کی بحث میں پڑے بغیر کہانی لکھنے والا آدمی تھا” اور وہ ان جھگڑوں سے بہت اوپر تھا کہ اس کا ادب “ادب برائے ادب ” کی صنف میں آتا ہے کہ “ادب برائے زندگی ” اس کے ہاں “زندگی ” کو کہانی سے اور کہانی کو زندگی سے جدا کرنے کا خیال محال تھا
میں نے منٹو کو “ٹھنڈا گوشت” سے پڑھنا شروع کیا اور پھر کبھی اسے پڑھنا ترک نہ کیا ،یہاں تک کہ مجھے سارا معاشرہ منٹو کی کہانی لگنے لگا اور اس نے اس معاشرے کی منافقت اور رزالت کو جیسے بے نقاب کیا بلکہ تصویر کیا اس کے سامنے باقی سب تصویریں پھیکی اور مٹی مٹی سی لگنے لگیں منٹو ایک ایسا مصور تھا جس کے کینویس اور جس کے برش کو آج تک کوئی اپنی دسترس میں لا نہیں سکا کیونکہ اس جیسا ضمی بعد میں کسی ادیب نے اپنے اندرزندہ رہنے نہیں دیا سب تو اپنے سٹیٹس کو بلند کرنے کی لت میں اپنے ہنر کو قصیدے لکھنے میں مصروف رکھنے کے عادی ہوگئے
میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ تحریریں لکھکر میں کن کو جھنجھوڑنا چاہتا ہوں ،کیا ان کو جو میرے جیسے پہلے سے ہی جھنجھوڑی ہوئی کیفیت میں ہیں
کیا وجاہت صاحب کو ؟کیا علی عباس تاج کو؟ کیا شہر بانو کو ؟کیا عبدل نیشا پوری کو جو سچ لکھنے کے جرم میں اپنی اسمیت تک چھپانے پر مجبور ہے ؟ کیا علی ارقم کو ؟ کیا احسن عباس رضوی کو؟کیا طلعت زھرا کو جو کرشن نگر میں لالہ لاجپت رائے سٹریٹ کو تلاش کرتی پھرتی ہے؟ کیا سید علی نقوی کو؟ کیا رضی صاحب کو جو شاید سکتے کی کیفیت میں ہیں اور جھنجھوڑے جانے سے بہت آگے نکل آئے ہیں ،کیا زوار بھائی کو جو اپنی بیماریوں کے باوجود اور عسرت کے باوجود انقلاب کے پرچم کو اٹھاۓ کھڑے ہیں اور کس کس کا نام لوں یہ سب “منٹو ” کے عاشق ہیں اور اسے تلاش کرتے ہیں جب نہیں ملتا تو سیاہ حاشئیے کے صفحات کو پڑھنے لگتے ہیں اور کتھارسس کرتے ہیں
منٹو صاحب کی برسی پر کجھ نہ کہنے کا ملال اپنی جگہ لیکن خرم پورہ جیسی بستیوں میں موجود چھوٹے چھوٹے جہنموں کا سوال اپنی جگہ موجود ہے ،
کے بی فراق صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اردو کے جرائد “عاشق من الفلسطین ” “دنیا دنیا دھشت ہے ” جیسے نمبر تو نکالتے ہیں لیکن “عاشق من البلوجستان ” جیسے نمبر نہیں نکلتے یا وہاں ظلم اور ستم کی جنم لینے والی داستانیں اردو ادب کا موضوع نہیں بنتیں “بالکل ٹھیک کہا منٹو ہوتے تو شاید اس پر خاموش نہ رہتے اور ہمیں ٹوبہ ٹیک سنگھ ،کالی شلوار ،ٹھنڈا گوشت،یزید ،موزیل کی طرح کے اور کئی افسانے پڑھنے کو ملتے اور ان افسانوں میں لینڈ سکیپ بلوچستان ہونا تھا

Comments

comments

Latest Comments
  1. kbfiraq
    -