چرنوبل ایٹمی بجلی گھر میں تباہی کی ایک نادر تصویر
پاکستان انرجی کمیشن کے چئیرمین ڈاکٹر انصر پرویز نے میاں والی میں چشمہ کے مقام پر 340 میگاواٹ پاور بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے ایٹمی پلانٹ کا افتتاح کیا اور یہ چشمہ کے مقام پر چوتھا ایٹمی ری ایکٹر لگایا گیا ہے
اس موقعہ پر پاکستان انرجی کمیشن کے چئیرمین نے انکشاف کیا کہ مظفرگڑھ اور احمد پور شرقیہ میں دو نئے ایٹمی ری ایکٹر لگانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور ان کے لیے سائٹس بھی منتخب کرلی گئی ہیں
ایٹمی پلانٹس کے لیے سرائیکی خطے کی سرزمین کو منتخب کئے جانے پر پاکستان کے اندر ایک بحث ازسرنو پھر شروع ہوگئی ہے جو شاید ممنوعات میں شمار ہوتی تھی
معروف صحافی رؤف کلاسراء نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹیوٹر پر اس حوالے سے اپنا ردعمل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مسلم لیگ نواز لاہور میں 1500 ایکٹر رقبے پر گارمنٹس سٹی کا قیام کرنے جارہی ہے اور سرائیکی خطے میں ایٹمی ری ایکٹر یہ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے
ایک رپورٹ کے مطابق میاں والی میں 30 سال کی عمر کے افراد میں ہارٹ اٹیک کی شرح میں بے حد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے اور اس کی غالب وجہ فوڈ نہیں بلکہ نیوک کی تابکاری ہے
ہمارے صحافی دوست رضوان عطاء نے پاکستان میں ایٹمی ری ایکٹرز کے ماحولیات پر پڑنے والے اثرات پر ایک کتاب لکھی ہے اور انہوں نے ڈیرہ غازی خان میں تابکار فضلے کو دبانے کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے عام آبادی پر اثرات کا ذکر کیا ہے
پرویز ہود بھائی جوکہ ایٹمی سائنسدان ہیں کا کہنا ہے کہ اگر ان پلانٹس پر کوئی حادثہ رونماء ہوا تو اس کے ہلاکت خیز نتائج تو نکلیں گے بلکہ اس سے جنوبی پنجاب کے تین ڈویژن کی آبادی بری طرح سے متاثر ہوگی
ندیم قریشی نے اپنے بلاگ میں اس حوالے سے لکھا کہ اگر چشمہ کے مقام پر ایٹمی پلانٹس سے تابکاری ہوجائے اور تابکار پانی دریائے سندھ میں شامل ہوجائے تو یہ ڈاؤن سٹریم کی تمام نہروں اور وہاں سے ڈاؤن سٹریم پر واقع تمام گاؤں اور شہروں میں پھیل جائے گا اور خوفناک نتائج برآمد ہوں گے
We have three operating nuclear power plants – one at Paradise Point on the coast of the Arabian Sea, near Karachi; and the other two at Chasma, on the banks of the River Indus, in Punjab. Even more disturbing is the fact that two more reactors are under construction at Chasma and a third is under consideration. By the time the Chasma site reaches its planned capacity in 2020, there will be five operating reactors on the banks of the River Indus.
Now imagine if there were to be a nuclear accident at Chasma. What will happen? Contaminated radioactive water will begin to leak into the River Indus from where it will be carried downstream to hundreds of cities and villages. Irrigation canals will then carry it to the most arable land in the country and within a few weeks, much of liveable Pakistan will be contaminated.
Although it was a bad idea to build the plants in the first place, building them upstream on the River Indus seems to be the height of suicidal negligence. If Japan, one of the most technologically advanced nations in the world, is unable to cope with a nuclear accident, then how will we?
It is imperative to shut down the plants at Chasma and to cancel the contracts for those being currently built. Trust me a disaster at Chasma will be the end of Pakistan, making our other problems – like terrorism – seem like a walk in the park.
احمد پور شرقیہ اور مظفرگڑھ میں نئے ایٹمی ری ایکٹر لگنے سے پورے سرائیکی بیلٹ کی آبادی مزید خطرے کا شکار ہوجائے گی
پھر یہ ایٹمی ری ایکٹر جن علاقوں میں لگ رہے ہیں وہاں کی آبادی کو روزگار کے حوالے سے خاص فائدہ نہیں ہونے والا
کیونکہ تین ایٹمی ری ایکٹرز نے میاں والی کو نہ تو کچھ خاص روزگار دیا اور نہ ہی میاں والی اس قدر بجلی پیدا کرنے کے باوجود بجلی کی شدید لوڈشیڈنگ سے نجات پاسکا –پچھلے سال میاں والی میں بجلی کے معاملے پر احتجاج کی پاداش میں دو افراد ہلاک ہوگئے تھے
سرائیکی خطے کے لوگوں کے لیے خطے کو ایٹمی پلانٹس کے نصب کرنے کی جگہ بنانا بہت زیادہ تشویش کا سبب ہے اور اس کے خلاف ردعمل آنا شروع ہوگیا ہے
لیکن کیا پاکستان کے اندر ماحولیات کے ایشو پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں اس ایشو کو ٹھیک طرح سے اٹھائیں گی ؟کیا سرائیکی خطے ملتان سے چھپنے والے قومی روزنامے اس حوالے سے رائے عامہ ہموار کرنے میں اپنا کردار ادا کرپائيں گے؟
کیا سرائیکی خطے میں سرائیکی کاز یا صوبہ ملتان کے لیے کام کرنے والی جماعتوں اور دھڑوں میں یہ جاگرتا پیدا ہوگی کہ وہ اس خطے کو کسی بھی ممکنہ ایٹمی قیامت کے رسک کے حوالے نہیں کرنے دیں گے
اس وقت میں سرائیکی خطے کے زمہ دار صحافیوں،دانشوروں ،ادیبوں ،وکلاء ،ڈاکٹرز ،پروفیشنلز ،سیاسی کارکنوں،طالب علموں،سماجی کارکنوں کو ایک ویک اپ کال دینا ضروری خیال کرتا ہوں اور ویک اپ کال یہ ہے کہ انھیں ایٹمی تابکاری کے حامل ان منصوبوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کریں اور اس کو باقاعدہ ایک کمپئن میں بدل دیں
سرائیکی خطے میں پہلے ہی غربت ،پسماندگی ،بھوک نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور اب اسے ایٹمی خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا
ایٹمی ری ایکٹر کی تابکاری سے ہونے والی تباہی کا اندازا کرنا ہو تو روس میں چرنوبل ایٹمی گھر اور بھارت میں بھوپال ميں ہونے والے والی تباہی کی داستان کو جانئیے
سول سوسائٹی،سیاسی کارکنوں ،میڈیا تنظیموں ،دانش وروں ادیبوں کو بہت جلد اس حوالے سے کوئی اقدام اٹھانا ہوگا کیونکہ وقت بالکل نہیں ہے
ایک اخبار نے 4 جنوری 2013ء کی اشاعت میں لکھا ہے کہ حکومت نے احمد پور شرقیہ اور مظفر گڑھ میں ایٹمی ری ایکٹرز کی تعمیر کے حوالے سے پی سی ون تیار کرلیا ہے اور ایکنک سے اس کی منظوری کی تیاری بھی کرلی گئی ہے گویا خود حکومت کے من میں بھی چور ہے کہ اس نے اس منصوبے کے حوالے سے احمد پور شرقیہ مظفرگڑھ کی سول سوسائٹی کی رائے لینا بھی مناسب خیال نہیں کی
سول سوسائٹی نیٹ ورک مظفرگڑھ اور احمد پور شرقیہ سمیت پورے جنوبی پنجاب کا آواز پروجیکٹ کے تحت جو سول سوسائٹی نیٹ ورک ہے اس کو فوری طور پر متحرک ہوکر ان منصوبوں کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے
یہاں میں مسلم لیگ نواز کی حکومت سے یہ بھی سوال کرنا چاہتا ہوں کہ جتنی تیزی اس نے ایٹمی پلانٹس کی تعمیر کے حوالے سے دکھائی ہے اتنی تیزی وہ ہیڈ محمد والہ سے بند بوسن تک سڑک کو دو رویہ کرنے ،خانیوال سے لودھراں تک ایکسپریس وے کی تعمیر (جہاں ٹریفک حادثات میں اب تک درجنوں لوگ اپنی جانیں دے چکے ہیں)ویمن میڈیکل کالج کی تعمیر سمیت سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ترقیاتی پیکج کے تحت شروع ہونے والے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کیوں نہیں لگارہے
کیا اس لیے یہ تاخیر ہورہی ہے کہ ان منصوبوں سے سرائیکی بیلٹ کے تیسرے درجے کے شہریوں کی بھلائی ہوگی اور سنٹرل پنجاب کے اشراف کو اس سے کوئی مالی فائدہ نہیں ہوگا؟
سرائیکی بیلٹ کی زمینوں کا نیلام،اس خطے کو ماحول دوست صنعتوں سے محروم رکھنے کی پالیسی کے ساتھ ساتھ اس خطے کے لوگوں کی زندگیوں کو تابکار عفریت کے آگے پھیکنے کا کارنامہ بھی سنٹرل پنجاب سے تعلق رکھنے والے حاکموں کے ہاتھوں سرانجام پانے والا ہے اور مجھ جیسا قلم کار اس خوفناک بربریت پر اب خاموش رہنے کو سنگین جرم خیال کرتا ہے
کراچی،اسلام آباد اور لاہور میں بیٹھی سول سوسائٹی کی پرتوں کا بھی یہ امتحان ہے کہ وہ کس قدر سرائیکی خطے کے ماحول کی تباہی والے منصوبے کے خلاف آواز بلند کریں گے
لیکن ایک بات طے کہ بارش کی پہلی بوند اس خطے کے لوگوں کو ہی بننا ہوگا
آخر میں اپنے پڑھنے والوں کو یہ خبر دینا بھی ضروری خیال کرتا ہوں کہ شیخوپورہ ضلع میں دو موضعات سہو کئی ملیان اور بھمب میں 1500 ایکٹر پر جس گارمنٹس سٹی کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ زرخیز زرعی زمین ہے اور وہاں پر 30 کے قریب چھوٹے اور درمیانے دودھ کے فارم موجود ہیں جن سے 130000 لٹر دودھ ماہانہ دستیاب ہوتا ہے
یہ فارم ان دونوں موضعات کے باسیوں کو روزگار فراہم کرنے کا زریعہ ہیں اور پنجاب و پاکستان کی زرعی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں
پنجاب کے چیف منسٹر یہ گارمنٹس سٹی جی پی ایس پلس سٹیٹس یوروپی یونین کی جانب سے ملنے کے بعد گارمنٹس کی یورپی ملکوں کو ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کے امکان کو بروئے کار لانے کے لیے قائم کرنا چاہتے ہیں
جبکہ یہ گارمنٹس سٹی شیخوپورہ کی زرخیز زرعی زمین کو تباہ کئے بغیر(یاد رہے کہ پاکستان اس وقت اپنی ضرورت کی صدرف 50 فیصد سبزیاں اور پھل اور دیگر زرعی ضروریات ملکی زرعی پیداوار سے پورا کرتا ہے جبکہ باقی کی 50 فیصد امپورٹ سے پوری کرتا ہے)حالانکہ بہت آسانی کے ساتھ رحیم یار خان میں قائم کیا جاسکتا تھا جہاں زمین اور زیرزمین میٹھا پانی بھی دستیاب ہے
لیکن ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟یہ سوال بہت سے سازشی مفروضوں کو ذھن میں لانے کے لیے کافی بنیاد فراہم کرتا ہے
اس سےپہلے بھی چیف منسٹر پنجاب میاں محمد نواز شریف نے چولستان میں سولر پارک کے قیام کے لیے ہزاروں ایکٹر زمین چینی کمپنی کو دینے کا فیصلہ کیا جبکہ سولر پلانٹ کے لیے پینل اور دیگر بنیادی سامان کی پیداوار کے لیے انڈسٹری فیصل آباد میں لگانے کا فیصلہ کیا گیا
سرائیکی خطے کے باشندوں کو ماحول دوست صنعت اور ایسے منصوبوں کی ضرورت ہے جوکہ یہاں کی لیبر اور یہاں کی تعلیم یافتہ نوجوان نسل کو باعزت روزگار فراہم کرے جس کی جانب پنجاب اور وفاقی حکومت کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے
Comments
comments