یہ تھا صبح 8 بجے کا خبر نامہ! ” کوئٹہ میں، قریب ١٠ سے ١١ سالہ 8 بچوں کا خودکش بمبار کا گروپ پکڑا گیا ہے ”
صبح صبح کا وقت تھا اچھا لگا، دل کو اطمینان ہوا، شکر مولا کیا کیوں کہ کی سو زندگیاں جو بچ گئی. خیر یہ سب ہوا پھر میں اپنے کام سے روانہ ہوگیا، جہاں کام کے لئے پہنچا وہاں ہر جانب اسی خبر کا چرچہ تھا، کوئی شکر کرتا کوئی تبصرہ کرتا ہوا نظر آرہا تھا لیکن ان سب سے الگ میں بیٹھا صرف یہ سوچنے پر مجبور تھا کے آخر ان معصوموں کا ہوگا کیا؟ پولیس کس کس طرح تفتیش کریگی؟ بلاشبہ مرحلہ خطرناک ہوگا مار بھی ماری جاۓگی؟ الله جو ہو ان معصوموں کی بجاۓ اصل لوگ سامنے آجانے١
خیر جسی تیسے دن گزرا، دیر رات گھر پوھنچا، کھانا کھانے کا دل بھی نہیں چاہ رہا تھا بس ایسے ہی فریش ہوکر سونے لیٹ گیا. ادھ رات گزر گئی کبھی ادھر کرنوت کبھی ادھر مگر نیندہ آکے نہیں دے رہی، بس صبح والی خبر دماغ میں سوال بنتے جا رہی تھی! آخر بچے ہی کیوں؟ یہ معصوم جنہے ملک کے لئے سورج کی مانند چمکنا تھا یہ کیوں؟ ماں باپ کیا اندھے ہیں؟ یا بے حس؟ سارا وقت انہی باتوں میں گزرتا گیا لیکن جواب وہیں کہ وہیں، لیکن اسکا بھی حل ملگیا!
٢٠٠٩ میں محرم کے دن تہے، امی کو لینے رضویہ سوسائٹی جانا تھا، زیادہ رش تھا پر عزاداروں کا کیوں کہ ١٠ محرم ٢ دن بعد تھی، خیر طاہر ولا چورنگی پر ایک بچا دکھا، سر پر ٹوپی لگاۓ اور بیگ لٹکاۓ کھڑا تھا، معصوم سا تھا، میںنے سوچا کب تک کھڑا رہے گا چلو اسے آگے تک لفٹ دے دی جاۓ، ننھے میاں کو ساتھ موٹر سائیکل پر لےلیا، ابھی کچھ ٢ سیکنڈ بھی نہ گزرے تہے وہ تو طوطے کی طرح پیں پیں کرنا شروع ہوگیا، ” سر نماز پڑھا کریں، روزہ، داڑھی، حج، یہ وہ ٹوپی پھیننے ” خیر الله الله کر کے منہ چپ ہوا، اسی اثنا میں مسجد و امام بارگاہ بابلعلم سے گزر ہوا وہاں بھی مجلس عزا جاری تھی، میں نے ایک سوال یوں رکھدیا اسکے سامنے کے بیٹا تم اتنی دور جاتے ہو مدرسہ، رات بھی کافی ہوجاتی ہے یہاں آجایا کرو تمہار گھر کے بہت قریب ہے، پر سوال پوچھنا تھا کے نجانے کیا تھا! وہ کچھ گویا ہوا اسکے بعد ” سر آپکو معلوم ہے؟ یہ مسجد نہیں ہے یہ کافروں کا گڑھ ہے، نماز وغیرہ کچھ نہیں ہوتی یہاں، جہنمی ہیں یہ، کمبخت ہیں ” اب میں یہ سوال کرنے کے بعد گھبرا گیا، ایک تو میرے ساتھ بیٹھا تھا اپر سے مجھ ہی پر چڑھ رہا تھا، خیر پہلے سوچا اسکو اتر دوں لیکن پھر سوچا یہ غلطی اسکی نہیں اسکے پیچھے کی ہے یعنی جہاں سے یہ پڑھ کے آرہا ہے، ماں باپ کی ہے کے راہ تشدد کے مدرسوں میں بھیج رہے ہیں!
اپر اس انداز سی شروع کرنے کا مقصد ابھی حال ہی میں #دیوبندہ مکتبہ فکر کے علماء کی طالبان سے اپیل کی صورت میں کیا، جس میں انہونے طالبان سے عرض کی ہے کہ الله و رسول (ص) کے نام پر جنگ بند کی جاۓ، پر مولانا صاحب اگر پہلے ہی مدرسے میں آپ الله و رسول (ص) کے نام پر یہ سبق نہ پڑھاتے تو زیادہ بہتر نہیں تھا؟ اب یہ آپکے شاگرد نہیں استاد ہیں! لائق ہوگے ہیں کوئی فتویٰ صادر کردیں اور ہیں تو آخر آپ ہی کے ننھے تو آپ بھی اسکی کبھی مخالفت نہیں کرینگے!
بات صرف اتنی ہے کے ہم اپنی زمیداری سمجھیں، ہم کہیں بھی جاۓ، چاہے کوئی شیعہ اپنے بچے کو، کوئی سنی، دیوبندی، یا کوئی اور مذہب کا ماننے والا اپنے بچے کو اگر اپنی مذہبی تعلیم دلوانے بھیج رہا ہے تو اس پر فرض ہے کے پہلے ماحول دکھے وہاں کا، اس پاس کے لوگوں سے مشورہ کرے، یہ دیکھے کے کہیں اس فلاں مدرسہ میں کسی اور فرقے یا مذہب کے مطلق کوئی غلط بات یا راہ تشدد پر تو نہیں ابھرا جاتا، زمیداری ضروری ہے کیوں کے ہر چمکیلی چیز ہیرا نہیں ہے!
دکھتی بھی ہے کچھ الگ سی ‘ چمکتی بھی ہے کچھ کچ،
پر ہیرا نہیں ہے یہ ‘ خالی شیشے میں عکس ہے
Comments
comments