نیلسن منڈیلا کا ورثہ اور جعلی سول سوسائٹی

nm

نیلسن منڈیلا کا ورثہ اور پاکستان کی جعلی سول سوسائٹی

لیل و نہار/عامر حسینی

 

افریقہ کے عظیم سیاسی رہنماء جنہوں نے اپنی فکر اور سیاسی جدوجہد سے پوری دنیا کو

متاثر کیا 95 سال کی عمر میں اپنے وطن میں انتقال کرگئے-ان کے انتقال پر پوری دنیا ان

کے چھوڑے ہوئے ورثہ کو خراج عقیدت پیش کررہی ہے-آج پوری دنیا میں جو آدمی بھی

سیاست سے شغف رکھتا ہے وہ نیلسن منڈیلا کی فکر اور اس کی سیاست کے ساتھ ساتھ اس

کے اثرات پر بھی بات کرتا ہے-

واشنگٹن پوسٹ میں فشر لکھتا ہے کہ نیلسن منڈیلا کی قدر وقیمت جاننے کے لیے ہمیں

نیلسن منڈیلا کے بارے میں چند بہت ہی ابتدائی اور بنیادی سوالات کے جوابات معلوم ہونے

چاہیئں-نیلسن منڈیلا 1918ء میں پیدا ہوا-اس نے جنوبی افریقہ میں اپارتھائیڈ کے خلاف

اپنی جدوجہد کا آغاز کیا-اور 1994ء میں وہ جنوبی افریقہ کے صدر بن گئے-ایک مدت کے

بعد دوسری مدت کے لیے وہ صدر کے امیدوار نہ بنے اور انہوں نے بقیہ ساری عمر افریقی قوم کے متفقہ معمر سٹیٹس مین کے طور پر گزاری-

منڈیلا کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے سیاہ فام جنوبی افریقہ کے باشندوں کو

اپارتھائیڈ سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کیا-پھر جب اپارتھائیڈ ختم ہوگیا تو انہوں نے یہ

نہیں کیا کہ اب اکثریت کی حکمرانی میں ماضی کے ظالم اقلیت پر جبر کی اجازت دی بلکہ

انہوں نے سیاہ فاموں اور سفید فاموں میں نیا معاہدہ عمرانی تشکیل دینے کی حمائت کی-

نیلنس منڈیلا نے افرقی نیشنل کانگریس میں 25 سال کی عمر میں شمولیت اختیار کی تھی-

اور اس شمولیت کے بعد وہ اے این سی کی جدوجہد کو عروج پر لے گئے-

جنوبی افریقہ افریقی براعظم کا وہ ملک ہے جس کی تاریخ بہت پیچیدہ اور طویل ہے-اس

ملک کی تاریخ کی تشکیل میں “نسل”نے بہت اہم کردار ادا کیا-اس کی تاریخ کی جڑیں تو

نامعلوم زمانوں تک جاتی ہیں لیکن اگر ہم اس ملک کے اندر سیاسی بھونچال کا زمانہ تلاش

کرنا چاہتے ہیں تو اس کا آغاز اس وقت سے کرنا ہوگا جب ڈچ آبادکار اس ملک میں وارد

ہوئے اور انہوں نے یہاں تر کالونیاں بنانا شروع کیں-یہ 1652ء کی بات ہے اور ہم اسے

جنوبی افریقہ میں نوآبادیاتی نظام کا آغاز کہہ سکتے ہیں-یہ ڈچ یہاں پر صدیوں سے آباد

رہے اور انہوں نے یہاں ایک نئی زبان کی داغ بیل ڈالی جس کو افریکانز کہا جاتا ہے-آج بھی

لاکھوں لوگ یہی زبان یہاں بولتے ہیں-ڈچ آباد کاروں کو یہاں بوئر یعنی کاشتکار کہا گیا-ڈچ

کے بعد افریقیوں پر برٹش نوآباد کاروں کا حملہ ہوا-برٹش نیوی نے 1795ء میں افریقہ پر

“نظر کرم” کی-اور اگلی تین صدیوں تک سیاہ فام مقامی افریقی آبادی ان آباد کاروں سے

جنگ کرتی رہی-برٹش نوآبادکار یہ جنگ جیت گئے-اور  1902 ء سے 1910ء کے

درمیان جنوبی افریقہ برٹش ایمپائر کی ڈومینین بن گیا-برٹش حاکموں نے جنوبی افریقہ میں

اپنے اقتدار کو مضبوط رکھنے کے لیے سفید فام باشندوں کو گود لے لیا اور ایک طرح سے

ان کو اپنی نیابت دے ڈالی-یہ سفید فام جنوبی افریقہ کی آبادی کا 10 فیصد تھے-

ویسے تو سیاہ فام باشندوں نے اپنے حقوق اور اپنی دھرتی کے تحفظ کی جنگ ڈچ

نوآبادکاروں کی آمد اور قبضے کے بعد سے ہی شروع کردی تھی اور انہوں نے برٹش

سامراجیوں کے قبضے کو بھی آسانی سے تسلیم نہیں کیا تھا-لیکن افریقی ساہ فام باشندوں

نے اپنی آزادی اور حقوق کی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز افریقن نیشنل کانگریس(اے این سی)

کا 1912ء میں قیام کرکے کیا-نیلسن منڈیلا اس تنظیم میں 1940ء میں شامل ہوئے-انہوں

نے یہ کیا کہ اے این سی کے نواجوان محاذ افریقی نیشنل کانگریس یوتھ ليگ کا قیام ممکن

بنایا جس میں افریقی نوجوان بہت بڑی تعداد میں اس کا حصّہ بنے-دوسری جنگ عظیم کے

بعد برطانوی سامراج کی ایمپائر کا سورج غروب ہونا شروع ہوا اور اس نے بہت سی

نوآبادیوں سے کوچ کرنے کا پروگرام بنایا-جہاں جہآں برٹش سامراج پرامن انتقال اقتدار کے

فارمولے پر عمل پیرا ہوا وہاں اس نے اپنے وفادار نسلی ،لسانی گروہ کو اقتدار سونپا-اور

اکثر نوآبادیات میں اس نے اقتدار اقلیتی نسلی گروہ کے ہاتھوں میں دیا-جنوبی افریقہ کا

اقتدار اور پاورز اس نے سفید فام اقلیت کو منتقل کرڈالے اور اس سفید فام اقلیت نے سیاہ فام

اکثریت پر اپنا غلبہ اور اپنا جبر اور زیادہ گہرا اور مستحکم کرنے کے لیے اپارتھائیڈ نظام

سیاہ فام باشندوں پر مسلط کرڈالا-

اپارتھائیڈ افریکانز زبان کے لفظ اپارتھائنس سے مشتق ہے-اپارتھائیڈ سسٹم سے مراد ایک

ایسا نظام تھا جس نے جنوبی افریقہ کے اندر نسلی امتیاز کو مزید گہرا کرڈالا تھا-اور نسلی

بنیادوں پر امتیاز اور الگ کرنے کی پالیسی کو ایک منظم میکنزم دے ڈالا تھا-اس نظام نے

گوروں کو کالوں پر غالب کیا-یہ ںظام 1948ء میں نافذ ہوا اور یہ 1994 ء تک چلتا رہا-

سیاہ فام ووٹ ڈالنے سے محروم کردئے گئے-ان کو کسی بھی حکومتی عہدے کے لیے نااہل

قرار دے دیا گيا-ان سب کو بڑے ٹاؤنز اور قصبوں کے گرد و نواح میں باڑ لگے ٹن کے بنے

کوارٹرز نما کیمپوں میں رہنے پر مجبور کردیا گیا-اس دوران افریقی نیشنل کانگریس سے

سیاہ فاموں کے حقوق کی جدوجہد کو زبردست قسم کی ریاستی جابر میشنری کے ہاتوں

کچلنے اور دبانے کی کوشش کی گئی-1960ء میں سیاہ فام باشندوں کے ایک جلوس پر

پولیس نے بلا اشتعال فآئرنگ کرڈالی اور 69 لوگ مار ڈالے-1960ء سے لیکر 1980ء

تک اپارتھائیڈ سسٹم کا قہر سیاہ فام باشندوں پر ٹوٹتا رہا-جبکہ افریقی نیشنل کانگریس کے

پلیٹ فارم سے اس کے خلاف بغاوت کا علم بھی لہراتا رہا-1961ء میں اس مزاحمتی

جدوجہد میں ایک اہم پوائنٹ اس وقت سامنے آیا جب ایک 42 سالہ شخص کا بہیمانہ قتل

اپارتھائیڈ اتھارٹیز کی طرف سے ہوا-نیلسن منڈیلا نے پرامن جدوجہد کے ساتھ ساتھ پرتشدد

جدوجہد کا فیصلہ بھی کرلیا-اے این سی کا مسلح ونگ بنا-اور اس ونگ نے سفید فام

حاکموں اور ان کے سیاہ فام باشندوں کو ظلم کا نشانہ بنانے والے اداروں کو نشانہ بنانا

شروع کرڈالا-1964ء میں نیلسن منڈیلا گرفتار ہوگیا اور اس پر دھشت گردی کا ایک مقدمہ

چلنے لگا-اس مقدمے کی سماعت کے دوران نیلسن منڈیلا نے کہا کہ جب انہوں نے محسوس

کیا کہ اب پرامن جدوجہد سے حل نہیں نکل رہا اور ریاست بھی تشدد پر اتر آئی ہے تو تشدد

کا جواب تشدد سے دینا ہوگا-نیلسن منڈیلا کو عمر قید کی سزہ سنادی گئی-اسے روبن آئی

لینڈ کی جیل میں رکھا گیا-وہ 1990ء تک قید رہا-جب ایف ڈبلیو کلرک برسراقتدار آیا تو اس

نے اپارتھائيڈ ںطام ختم کرنے کا اعلان کیا اور نیلسن منڈیلا رہا ہوگئے-پھر جب سیاہ فام

افریقیوں کو ووٹ کا حق ملا تو نیلسن منڈیلا پہلے صدر بنے اور اس کے بعد وہ عملی

سیاست سے دستبردار ہوگئے-

جون 1964ء میں نیلسن منڈیلا کی بیرک میں ایک تصویر
جون 1964ء میں نیلسن منڈیلا کی بیرک میں ایک تصویر

نیلسن منڈیلا کا خواب صرف اپارتھائیڈ سسٹم کا خاتمہ ہی نہیں تھا بلکہ ان کا خواب ایک

ایسی ڈیموکریسی کا قیام تھا جس میں سارے نسلی،مذھبی اور لسانی گروہوں کو برابر کے

حقوق ملیں اور اور ان کو ترقی کرنے کے مساوی مواقع میسر آئیں-وہ اکثریت یا اقلیت کے

اقلیت یا اکثریت پر جبر کے قائل نہ تھے-انہوں نے قوموں کی ٹھیک ٹھیک آزادی کم مطلب

ان معاشروں میں تکثیری جمہوریت اور مساوی مواقع کی دستیابی قرار دیا-

نیلسن منڈیلا جب تکثیری جمہوریت اور مساوی مواقع کی دستیابی کی بات کرتے تھے تو اس

کا پہلا قدم اپارتھائیڈ سسٹم کا خاتمہ تھا-اپارتھائیڈ سسٹم صرف رنگ کی بنیاد پر امتیاز قائم

کرنا اور اس بنیاد پر جبر کی مشنیری کو حرکت دینا ہی نہیں رہا-بلکہ اس کے معنی میں

وسعت آئی ہےوہ نظام یا وہ فکر جو کسی مذھبی یا نسلی گروہ کے حقوق غصب کرتے ہوں

اور ان کی نسل کشی جیسے گھناؤنے جرائم کی اجازت دینے والے ہوں وہ بھی اپارتھائیڈ

ہیں-اور ان کی مذمت اور ان کے خلا مزاحمت کرنی بہت ضروری ہے-

جب ہم پاکستان کو اس حوالے سے دیکھتے ہیں تو یہاں ایسی سیاسی جماعتیں موجود ہیں

جو ایک طرف تو نیلسن منڈیلا کے غم میں آٹھ آٹھ آنسو بہاتی ہیں مگر وہ پاکستان کی نسلی

اور مذھبی افلیتوں کے حق میں آواز اٹھانے سے قاصر ہیں-پاکستان آرمی کے بلوچ قوم کے

اوپر ڈھائے جانے والے مظالم پر یہ جماعتیں مجرمانہ خاموشی اختیار گئے ہوئے ہیں-یہ

سیاسی جماعتیں بلوچ قوم کو پاکستان آرمی ،آئی ایس آئی اور آیم آئی اور ایف سی کے رحم

و کرم پر چھوڑ چکی ہیں-ان کو بلوچ قوم کی نسل کشی پر کوئی فکر نہیں ہے-جبکہ یہ

سیاسی جماعتیں تحریک طالبان ،لشکر جھنگوی،سپاہ صحابہ پاکستان جیسے تکفیری

دیوبندی دھشت گردوں کو نشانہ بنانے والے ڈرونز بارے بہت فکرمند ہوتی ہیں-باقاعدہ

دھرنے دیتی ہیں-احتجاج کرتی ہیں-شاہرائیں بند کردی جاتی ہیں-عمران خان المعروف طالبان

خان کی تحریک انصاف اور امیر المنافقین منور حسن کی جماعت اسلامی ،حافظ سعید کی

جماعۃ الدعوۃ مولانا فضل الرحمان کی جے یوآئی (ف)اور سمیع الحق کی جے یو آئی(س)

اسی طرح کی سیاسی جماعتوں میں شامل ہیں-یہ دائیں بازو کی جماعتیں جو بظاہر تو سماجی

انصاف یا جمہوریت پسندی کی علمبردار بنتی ہیں مگر پاکستان کے اندر جب نسلی اور مذھبی

مظلوموں کی حمائت کی بات آئے تو ان کا کیمپ ظالموں کے حق میں لگتا ہے-

پاکستان میں اس وقت اکثر سول سوسائٹی جعلی اور فیک ہے-ان کا لبرل ازم ڈرامہ ہے-ان

میں اکثر وہ لوگ شامل ہیں جو ایک لمبے عرصے تک یہ ماننے سے انکاری رہے کہ

‎ شیعہ کمیونٹی کی نسل کشی جاری ہے اور شیعہ کو دوسرے درجے کآ شہری

بنانے کی کوششیں اسی طرح سے کی جارہی ہیں جس طرح سے احمدی ،کرسچن اور ہندؤں

کو 1947ء سے ہی بنانے کی سازش کی گئی اور بلآخر وہ دوسرے درجے کے شہری

بنادئے گئے-پاکستان میں مذھبی اپارتھائیڈ سسٹم کو ریاست کے اداروں جن میں فوج اور

عدلیہ اور اردو صحافت اور دائیں بازو کی تنظیموں کا کی حمائت تو حاصل تھی ہی اس کی

حمائت جعلی اور فیک سول سوسائٹی اور فیک لبرلز کی حمائت بھی حاصل ہوگئی-یہ

جمہوریت ،لبرل ازم اور سول سوسائٹی کے جعلی علمبردار جو اپنے کھاتے میں عدلیہ اور

میڈیا کی آزادی کے کارنامے بھی ڈالتے ہیں ایک طرف تو ریاست خاص طور پر فوج اور

ایجنسیوں کی جانب سے بلوچ ،سندھی،پشتون کی نسل کشی اور ان پر مظالم کی پردہ پوشی

کرتے ہیں اور اس نسلی اپارتھائیڈ سسٹم کو تحفظ دیتے ہیں جو پاکستان کے ریاستی نظام کی

جان تصور ہوتا ہے-پاکستانی فوج کی ترکیب میں پنجابی آج بھی مارشل ریس ہیں-اور

پاکستان کی سول بیوروکریسی کے اندر پنجابی آج بھی 80 فیصد سے زائد ہیں-یہ ایک طرح

کا غیر اعلانیہ اپارتھائیڈ سسٹم ہے جس کی ایک بنیاد ایتھنک ہے اور اس کی دوسری بنیاد

تکفیریت ہے جس کا پہلا نشانہ 50ء،60ء،70ء تک کرسچن ،احمدی اور ہندؤ تھے اور

پھر 80ء سے اس کا نشانہ شیعہ بننا شروع ہوئے اور پھر صوفی سنّی بریلوی اس کی زد

میں آگئے-ہماری جعلی اور فیک لبرل سوسائٹی  ایک تو اس تکفیری اپارتھائیڈ ازم کو ماننے

کو تیار نہیں ہے تو دوسری طرف اس تکفیری اپارتھائیڈ ازم کے علمبردار دیوبندی-وہابی

تکفیری دھشت گردوں کا نام لینے کو تیار نہیں ہے-ان کا بودا استدلال یہ ہے کہ ایسا کرنے

سے ان کے لبرل ازم اور ترقی پسندی کو نقصان پہنچتا ہے-یہ جعلی لبرل اور فیک سول

سوسائٹی تکفیری اپارتھائیڈ ازم سے جنم لینے والی دھشت گردی کا نشانہ بننے والے محرم

کے جلوسوں ،میلاد النبی کے جلوسوں اور مجالس عزاء کو چار دیواری کے اندر محدود

کرنے اور ان جلوسوں اور مجالس کی سینکڑوں سال کی ثقافتی تاریخ کو ایک انتظامی

اپارتھائیڈ آڈر سے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں-یہ ایسا کرتے ہوئے اپنے لبرل ازم اور

ترقی پسندی کو دلیل قرار دیتے ہیں اور اپارتھائیڈ تکفیری نظام کے علمبردار اپنے مذھبی

نظریات اور افکار کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں-ان جیسے لوگوں کی مثال ان لوگوں

کی سی ہے جو ایک آدمی کے ٹی وی چوری ہونے پر چور کو ملامت اور مذمت کرنے کی

بجائے اس آدمی کو کہنے لگے تھے کہ اس نے ٹی وی کو ٹی وی لاؤنج میں کیوں رکھا ؟تو

گویا اپنی مذھبی رسومات ادا کرنے والے لوگ جب تکفیری دیوبندی دھشت گردوں کا نشانہ

بنیں تو مذمت تکفیری دیوبندی دھشت گردوں کی نہ کی جائے بلکہ ان کی کی جائے جو

دھشت گردی کا نشانہ بنے-

ایسے جعلی اور فیک لبرل اور سول سوسائٹی جب طالبان کی جانب سے ان کے اعمال بد کے

عذر پیش کرتے ہیں تو دوسری سانس میں نیلسن منڈیلا کا ماتم عجیب لگتا ہے-نیلسن منڈیلا

کا ماتم کرنے والا عمران خان المعروف طالبان خان شیعہ،احمدی،بریلوی ،ہندؤ،کرسچن کو ان

کے عقیدے کی بنیاد پر قابل گردن زدنی سمجھنے والے طالبان کا سب سے بڑا حمائتی ہے-

اور اس ملک کی حکمران جماعت مسلم لیگ نواز دیوبندی تکفیریوں کا سیاسی چہرہ ہے-ان

کے لیڈروں کے منہ سے نیلسن منڈیلا کی تعزیت اچھی نہیں لگتی-اگر نیلسن منڈیلا پاکستان

کے اندر ہوتا تو وہ تحریک طالبان کی عورت مخالف،سنّی بریلوی،شیعہ مخالف اپارتھائیڈ

افعال اور اعمال کے خلاف سب سے بلند آواز سے احتجاج کرتا اور ایک تحریک کی بنیاد

کھڑی کرتا-

نسیم چوہدری نے بالکل ٹھیک لکھا ہے کہ پاکستان کی لبرل اربن اور گپ باز شہری کلاس

نیلسن منڈیلا کی سچائی اور مزاحمت کی روائت کے بالکل الٹی سمت میں کھڑے ہیں-پاکستان

کے شیعہ کی امام بارگاہیں ،سنّی صوفیوں کی درگاہیں،کرسچن چرچ اور احمدیوں کی عبادت

گاہیں تکفیری دیوبندیوں کے مسلسل حملے کی زد میں ہیں-جبکہ ان حملوں پر پاکستان کی

جعلی سول سوسائٹی اور شہری گپ باز کلاس کا کردار شرمناک ہے-نیلسن منڈیلا کو کرم

داس گاندھی جی کا کردار بہت پسند تھا اور گاندھی فرقہ پرستوں اور کمیونل فسادیوں کے

خلاف ساری عمر جدوجہد کرتے رہے اور گاندھی نے ایک موقعہ پر امام حسین علیہ السلام

کو آپنا آئیڈل قرار دیا تھا-امام حسین مزاحمت اور سچائی کا نمونہ تھے اور ان کی مزاحمت

اور سچائی کی روائت کو زندہ رکھنے کی ثقافتی روائت محرم کے جلوس اور مجالس ہیں جن

کو وقت کے یزیدی روکنے کی کوشش کررہے ہیں-اور ہماری جعلی سول سوسائٹی اس کے

حق میں کھڑی ہوگئی ہے-

پاکستان احمدی،کرسچن اور ہندؤں کے لیے ایک اپارتھائیڈ ریاست بن چکا ہے اور شیعہ و

سنّی بریلویوں کے لیے یہ اپارتھائيڈ بننے کے قریب ہے-نیلسن منڈیلا کی روائت سے پیار

کرنے والوں کو اس اپارتھائیڈ سسٹم کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی ورنہ ان کی نیلسن منڈیلا

سے محبت کے دعوے فراڈ کے سوا کچھ نہیں ہوں گے-

Comments

comments