- وہابی جہادیوں کا اجتماع شام میں مڈل ایسٹ سمیت پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہے
مشرق وسطی کے فساد نے وہابی دھشت گردوں کو مضبوط کرنا شروع کردیا-امریکی جریدہ
واشنگٹن(انٹرنیٹ مانیٹرنگ ڈیسک)مڈل ایسٹ میں فرقہ وارانہ اور قبائیلی بنیادوں پر جاری فساد نے وہابی جہادیوں کو مستحکم کرنا شروع کردیا ہے-امریکہ کے معروف انگریزی روزنامے “نیویارک ٹائمز “نے اپنی تازہ اشاعت میں لکھا ہے کہ مڈل ایسٹ میں جاری حالیہ فرقہ واریت اور قبائلی جھگڑوں سے پھوٹنے والے تشدد نے وہابی جہادی گروپوں کے لیے نئے مواقع پیدا کردئے ہیں-
امریکی خقیہ اداروں اور انسداد دھشت گردی سے معتلقہ حکام کا کہنا ہے کہ القائدہ کے اتحادیوں نے شام میں اپنے اڈے بنالیے ہیں اور یہ اڈے شام سے یورپ اور اسرائیل پر حملے کرنے کے لیے کام آسکتے ہیں-ان کا کہنا ہے کہ وہابی جہادی مغرب میں مالی سے لیکر لبیا تک اور مشرق میں یمن تک پھیل گئے ہیں-اگرچہ وہ منتشر ہیں مگر یہ خطرے کی علامت ہیں-یہ پھیلاؤ امریکی صدر باراک اوبامہ کے القائدہ کو کمزور کرنے اور دھشت گردی کے ختم ہونے کے دعوے کو پیچیدہ بنانے کی علامت ہیں-
امریکی سینٹ میں انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ سینٹر ڈیانی فینسٹائن اور امریکی ہاؤس کمیٹی فار انٹیلی جنس کے نمائندے ماغک روجر جو بالترتیب کیلفورنیا اور مشی گن سٹیٹ سے سینٹر ہیں نے امریکی ٹیلی ویژن سی این این کو انٹرویو دیتے بتایا کہ 2011ء میں جب امریکہ کے شہریوں کو القائدہ کے حملوں سے محفوظ قرار دیا گیا تو حقیقت یہ تھی کہ وہ محفوظ نہیں تھے-
امریکی حکام کے وہابی جہادیوں کے بارے تحفظات کا سبب وہ ویڈیو پیغام ہے جو ایمن الظواہری کی جانب سے جاری کیا گیا تھا اور جس میں شام کو جہاد کا اگلہ پڑاؤ کہا گیا تھا-بعض تجزیہ نگار اور امریکی حکام یہ خیال کررہے ہیں کہ شام کے اندر وہابی جہادی اگر کوئی بڑی ہلچل پیدا کرتے ہیں تو اوبامہ انتظامیہ شام کے اندر مزید سرگرم اور فعال کردار ادا کرنے پر مجبور ہوجائے گی-
شام میں جہادیوں کے خلاف کوئی فضائی کاروآئی کرنے میں سیاسی ،فوجی اور قانونی روکاوٹیں ضرور پیش آئیں گی-اور ان کو دور کرنے کے لیے بشارالاسد رجیم کے ساتھ بات کرنا ہوگی اور ان کو اکاموڈیٹ کرنا ہوگا-اور یہ ظاہر ہے امریکہ کے لیے خاصا پیچیدہ کام ہوگا-
- ہمیں بشار الاسد سے انسداد دھشت گردی سمیت ان تمام ایشوز پر بات کرنا ہوگی جو امریکہ اور شام کے درمیان یکساں موقف کے حامل ہیں-ریان سی کروکر سابق سفیر برائے شام ،عراق و افغانستان
شام ،عراق اور افغانستان میں امریکہ کے سفیر رہنے والے ریان سی کروکر کا کہنا ہے کہ امریکہ کو بشارالاسد سے انسداد دھشت گردی اور ان ایشوز پر بات کرنی چاہئیے جن پر دونوں کے خیالات یکساں ہیں-اور یہ سب خاموشی سے کرنا ہوگا-اسد اتنا برا نہیں ہے جتنے برے وہابی جہادی گروپ ہیں-
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ فوری طور پر اپنی پالیسی میں کوئی بدلاؤ لائے گا جوکہ اس سے پہلے بشارالاسد کی حکومت گرانے کے لیے لڑنے والے شامی باغیوں کی حمائت کرتا رہا ہے-اسے ایسی کوئی بھی تبدیلی لانے کے لیے اپنے عرب اتحادیوں خاص طور پر سعودیہ عرب سے بات کونا ہوگی-
ۃجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شام کے معاملے میں امریکہ کی پریشانی کا ایک سبب وہ یوروپی اور امریکی مسلمان ہیں جو شام کے اندر لڑنے کے لیے شروع سے شام کے اندر آگئے ہیں اور اگر یہ واپس لوٹے تو یوروپ اور امریکہ دھشت گردوں کے براہ راست نشانے پر ہوں گے-ایک اندازے کے مطابق اب تک 1200 جنگجو امریکہ اور یورپ سے شام منتقل ہوئے ہیں-
- بارہ سو سے زیادہ یورپی اور امریکی وہابی جہادی شام میں لڑرہے ہیں
پورے خطے میں وہابی اسلام پسندی پر مبنی دھشت گردی خطرناک طریقے سے ابھری ہے اور اس نے پورے خطے میں فساد اور ہلچل مچارکھی ہے-اس سے فرقہ وارانہ قتل و غارت گردی کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ پیدا ہوگیا ہے-عراق اور شام میں نسل کشی جاری ہے-لبنان میں ایرانی سفارت خانہ نشانرہ بنا ہے-
فرقہ وارانہ دھشت گردی نے عرب بہاد پر اثر ڈالا ہے اور وہابی دھشت گردی نے اس تحریک کو دبا دیا ہے-لیکن سب سے اوپر بھونچال شام کا ہے جہاں وہابی دھشت گردوں کے اجتماع نے مغرب کی جانب سے بشارالاسد کے خلاف اعتدال پسند شامی حزب اختلاف کی کامیابی کو دھندلا دیا ہے-اعتدال پسند شامی حزب اختلاف کے مقابلے میں وہابی دھشت گردوں کے استحکام نے اوبامہ انتظامیہ کو مجبور کرنا شروع کیا ہے کہ وہ شام کے حوالے سے اپنے کردار کو بڑھائے –اب اوبامہ انتظامیہ کیسے اپنی مداخلت بڑھائے گی اس بارے کوئی بات واضح نہیں ہے-غالب امکان یہ ہے کہ شام میں دھشت گردوں کے ٹھکانوں پر ڈرون حملے کئے جائیں گے کیونکہ دوسرے آپشنز رسک سے خالی نہیں ہیں-امریکہ نے لیبیا اور صومالیہ میں مشتبہ دھشت گردوں کو پکڑنے کے لیے جس طرح کے امریکی کمانڈو آپریشن کئے تھے ایسے آپریشن شام میں بھی کئے جاسکتے ہیں-
- وہابی دھشت گردی سے جنم لینے والے فرقہ پرست بھونچال نے عرب عوام کی حقوق کی تحریک اور عرب بہار کو دبانے میں اہم کردار ادا کیا ہے
دوسری طرف وہابی جہادی گروپوں کے آپس میں بھی جھگڑے جاری ہیں-ایسا ایک جھگڑا اسلامک سٹیٹ آف عراق و شام اور نصرۃ محاذ کے درمیان نبٹانے کے لیے ظواہری نے ابوخالد السوری کو شام میں اپنا ایلچی بناکر بھیجا ہے-چیرمین آف جوائنٹ چیفس آف کمیٹی مارٹن ای ڈمپسی نے کہا ہے کہ القائدہ مڈل ایسٹ اور افریقہ میں اپنے حلیف تعدار اور صلاحیت دونوں سے طرح سے بڑھارہی ہے-ہمی دیکھنا یہ ہے کہ ان میں لوکل کون ،علاقائی کون اور گلوبل کون سے ہیں-اور ہر ایک کے بارے میں مختلف اپروچ رکھنے کی ضرورت ہے-لیکن ایک یمنی اہلکار کا کہنا ہے کہ مقامی،علاقائی اور گلوبل وہابی جہادیوں کے ایجنڈے بہت آسانی کے ساتھ ایک دوسرے سے گڈ مڈ ہوجاتے ہیں-اور یمن ایک ایسی جگہ ہے جہاں مقامی ،علاقائی اور عالمی وہابی جہادیوں کے ایجنڈے گڈمڈ ہوگئے ہیں-یہاں القائدہ سب سے منظم ہے-پچھلے ماہ القائدہ نے صحرائے عرب کے وہابیوں سے ملکر زیدی شیعہ یمنیوں پر حملہ کردیا اور اس نے مذھبی فرقہ پرست جنگ کو قریب کردیا-یمن میں شیعہ زیدی اور وہابی اپنے اپنے تربیتی کیمپس قائم کرچکے ہیں-
یمن اور شام میں پھیلتی یریڈیکلائزیشن اور فرقہ وارانہ حرکیات القائدہ کے لیے بہت سازگار ماحول پیدا کرتی ہیں –یمن اور شام میں القائدہ اور اس کے وہابی اتحادیوں کی مضبوطی کا سبب بھی یہی ہے-یمن میں اگرچہ ڈرون حملے جاری ہیں اور القائدہ سمیت وہابی جنگجو مارے جارہے ہیں –لیکن پھر بھی القائدہ اغواء برائے تاوان سے فنڈ اکٹھا کرنے میں کامیاب ہے-پچھلے دنوں اس نے دو یوروپی گروپوں کو اغواء کے بعد رہا کرنے کی مد میں 20 ملین ڈالر لیے جوکہ اومان اور قطر نے ادا کئے ہیں-
القائدہ وہابی جہادیوں کے درمیان صحرائے عرب سے صحرائے سینا اور افریفہ کے اندر بھی ایک رابطہ کار کا کردار ادا کررہی ہے اور یہ رابطے مڈل ایسٹ اور افریقہ میں وہابی جہادی دھشت گردوں کے نیٹ ورکس اور باہمی رابطوں کو مستحکم کررہے ہیں-
مڈل ایسٹ کی پالیسی سے تعلق رکھنے والے امریکی پالیسی ساز مڈل ایسٹ اور افریقہ میں وہابی جہادی نیٹ ورکس کے پھیلاؤ کے بارے میں سخت تشویش مین مبتلا ہیں اور دھشت گردی کے خلاف جنگ کو پھر سے مڈل ایسٹ پر پالیسی میں مرکزی حثیت دلانے کی کوشش کررہے ہیں
http://www.nytimes.com/2013/12/04/world/middleeast/jihadist-groups-gain-in-turmoil-across-middle-east.html
Comments
comments