تعمیر پاکستان کے منتظمین کے نام خط – از کاشف نصیر
محترم منتظمین تعمیر پاکستان (لیٹ ایس بلڈ پاکستان) ہ
تمام تر نظریاتی اختلافات کے باوجود میرے دل میں آپکے لئے بہت عزت ہے اور اسکی وجہ آپ کا وہ سابقہ طرز عمل ہے جس نے مجھے آپ کا گرویدہ بنالیا تھا۔ آپ نے میرے تنقیدی اور 90 ڈگری متضاد تجزیاتی بلاگز کو جس طرح خندہ پیشانی کے ساتھ “تعمیر پاکستان” پر شائع کیا تھا وہ واقعی کمال اور حوصلے کی بات تھی۔
کافی طویل عرصے سے آپ سے رابطہ نہیں ہوسکا لیکن اس دوران مسلسل آپکے بلاگ پر آتا رہا لیکن پچھلے ایک سال سے آپکے بلاگ کی ادارتی پالیسی کے حوالے سے شدید مایوس ہوں۔ دیکھیں انسانوں کے درمیان فکر و عمل کا اختلاف اتنا ہی پرانا ہے جتنا شاید خود انسان لیکن کیا یہ فکری و عملی تضاد انسانوں کو تصادم کی طرف لے جانے اور نفرت کی دیوار قائم کرلینے کے لئے کافی ہے? ایسا بلکل نہیں ہے۔ اختلافات کے باوجود لوگ ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ دوستی، مبحت اور رشتہ داری سب ممکن ہے۔ صرف زوایہ نگاہ کو وسیع کرتے ہوئے اخلاقی اصولوں کو سمجھنے اور ایک دوسرے کی حدود کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور اسکے لئے برداشت اور ضبط واحد راستہ ہے۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ کے “تعمیر پاکستان” بتدریج اس قوت برداشت اور ضبط سے محروم ہوتی جارہی ہے جو کہ صحت مند معاشرے کے لئے بہت ضروری ہیں۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ “تعمیر پاکستان” پر “دیوبندی، وہابی، خارجی اور تکفیری” ایسے موضوعات کے علاوہ کسی اور موضوع پر بات کرنے کے لئے کچھ بچا ہی نہیں ہے۔ پورے سوشل میڈیا پر سچ یا جھوٹ، معیاری یا غیر معیاری، اخلاقی یا اخلاقی غرض جو بھی مواد اس حوالے سے منتظمین کی نظر سے گزرتا ہے اسے فوری طور پر شائع کردیا جاتا ہے۔ میرے خیال سے یہ روش درست نہیں ہے اور اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ”تعمیر پاکستان” کی ادارتی پالیسی نفرت انگیز، شر انگیز، فرقہ وارانہ، غیر اخلاقی، غیر معیاری، جانبدار اور زرد صحافت کے اصولوں پر قائم ہے۔
آپکو اپنے نظریات کی ترویج کا مکمل حق ہے اور آپکے اس فطری و قانونی حق پر اگر کبھی کسی نے ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی تو یقین جانیں میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ اسی طرح آپکو یہ بھی حق ہے کہ آپ حقائق سامنے لائیں اور جن سے فطری یا عملی اختلاف رکھتے ہیں ان پر تنقید کریں لیکن یہ سب کچھ اخلاقیات کے دائرے میں ، برداشت، ضبط اور بقائے باہمی کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہئے اور کہیں بھی ایسا تاثر نہ پیدا ہو کہ آپ کا ایجنڈا کے ایک مخصوص مذہب یا فرقے کے خلاف نفرت پھیلانا ہے۔
میری طرف سے آپ کو چند تجاویز ہیں اور امید کرتا ہوں کہ جس طرح پہلے میری باتوں کو اہمیت دیتے اس بار بھی دیں گے۔
اول : تشدد کے خلاف پرتشدد ردعمل کی حمایت سے اجتناب کریں۔
دوئم : غیر اخلاقی، غیر معیاری اور نفرت انگیز تحاریر کو جگہ نہ دی جائے۔
سوئم : دنیا بھر میں کڑوروں لوگ وہابی اور دیوبندی نقطہ نظر رکھتے ہیں، ان سب لوگوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کو تقویت نہ پہنچائیں۔ اس سے الٹا نقصان ہوگا اور وہ مکتب فکر آپ کے خلاف ہوجائے گا اور آپ کئی اچھے دوستوں سے محروم ہوجائیں گے)۔)
ثوئم : دیوبند مکتب فکر اور وہابی نظریات کو ہدف تنقید بناتے ہوئے یہ ضرور یاد رکھیں کہ انہی لوگوں میں شیخ الہند محمودالحسن، مولانا ابولکلام آزاد، سراحمد ہندی اور حسین احمد مدنی ایسے اکابر بھی تھے جو ہندوستان کے سیکولر معاشرے میں بھی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ (سچ تو یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان کے کسی اور مسلم مکتب فکر نے ایسی ہمہ گیر شخصیات پیدا نہیں کیں جو قطع نظر مذہب مذہب و مکتب بیک وقت پورے ہندوستان میں مقبول ہوئیں)۔
چہارم : دیوبندی اور وہابی مکاتب فکر کی ایسی شخصیت جسے اس پورے مکتب فکر میں عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ معتقدین کی دل آزاری نہ ہو۔
پنجم : دیوبندی اور وہابی خود کو سنی قرار دیتے ہیں، جس طرح آپ احمدیوں کے دعوے کو باوجود قانونی رکاوٹ کے تسلیم کرتے ہیں اسی طرح آپکو دیوبندیوں اور وہابیوں کی سنیت کو بھی قبول کرلینا چاہئے۔
ششم : دو مذہبی مکاتب فکر کے درمیان تقابلی تحاریر کو رد کریں اور فرقہ وارنہ توازن اور غیرجانبداری کے اصول کو اپنائیں۔
شکریہ
آپ کا دوست
کاشف نصیر
Comments
Tags: Criticism of LUBP
Latest Comments
آپ کی رائے سر آنکھوں پر – جہاں تک میرا مشاہدہ ہے تعمیر پاکستان نے ہمیشہ اعتدال پسند دیوبندی دوستوں اور دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے تکفیری دیوبندی دہشت گردوں میں تمیز کی ہے – حوالہ کے لئے ملاحظہ فرمائیں یہ مضامین
https://lubp.net/archives/tag/moderate-deobandis
مزید برآں یہ خیال بھی ملحوظ خاطر رکھیے کہ تعمیر پاکستان نے کبھی بھی پاکستان کے اہلحدیث یا سلفی وہابی بھائیوں کو شیعہ نسل کشی میں ملوث قرار نہیں دیا بلکہ پاکستانی شیعہ بھائیوں سے ہمیں یہ ہمیشہ شکایات رہی ہے کہ وہ حامد کی ٹوپی محمود کے سر کے مصداق تکفیری دیوبندی طالبان و سپاہ صحابہ کے جرائم کو سلفی وہابی کے سر منڈ دیتے ہیں
Abdul Nishapuri @AbdulNishapuri 15m
تعمیر پاکستان کے منتظمین کے نام خط – از کاشف نصیر https://lubp.net/archives/294109
Zalaan-زالان @Zalaan1 10m
@AbdulNishapuri دیوبندیوں کی دہشتگردی پر مزمت نا کرنے یا خاموش رہنے والادیوبندی انہیں کےساتھ ہے،کوئی بتاؤ جوکھل کرطالبان کی مخالفت کر رہا ہو
Abdul Nishapuri @AbdulNishapuri 8m
@Zalaan1 کچھ قوم پرست یا پراگریسو دوست جو دیوبندی بیک گراؤنڈ سے ہیں تکفیری دیوبندی کی مذمت کرتے ہیں لیکن بہت کم ہیں ایسے لوگ
Zalaan-زالان @Zalaan1 5m
@AbdulNishapuri کوئی بڑا دیوبندی عالم طالبان مخالف نہیں اس لئے اکثریت کی بنیاد اس فرقے کی سوچ پتا چلتی ہے انفرادی راے سے نہیں
Abdul Nishapuri @AbdulNishapuri
@Zalaan1 آپ کی بات سے انکار ممکن نہیں دیوبندی مسلک کے علماء، مدرسوں اور تنظیموں نے تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کی کبھی نام لے کر مذمت نہیں کی
محترم کاشف نصیر صاحب!تعمیر پاکستان کے بارے میں تعریفی کلمات کہنے کا شکریہ-اور آپ نے تعمیر پاکستان کی جانب سے حال ہی تکفیری اور خارجی گروہ کو بے نقاب کئے جانے اور اس گروہ کے تازہ ترین لبادے یعنی اہل سنت والجماعت اور اس کے بازوئے شمشیر زن ٹی ٹی پی،لشکر جھنگوی اور دیگر دھڑوں کے بارے میں چھپنے والی پوسٹس کے بارے میں یہ جو کہا ہے کہ اس سے تعمیر پاکستان راہ اعتدال سے ہٹا ہوا نظر آرہا ہے تو آپ کو تعمیر پاکستان کے اداریوں کو زرا غور سے پڑھنا چاہئیے کہ جس میں ہم نے بارہا علمائے دیوبند کو یاد کرایا کہ وہ دیوبندی تکفیری دھشت گردوں اور خارجی ٹولے کو اپنی صفوں سے خارج کریں اور اپنے مدارس کی تنظیم وفاق المدارس کی رکنیت ان کو نہ دیں–کاشف نصیر صاحب راولپنڈی کے مولانا غلام اللہ خان کے ںظریات اور افکار کو علمائے دیوبند نے ان کے زاتی اور گمراہ کن افکار بتلائے تھے اور اسی طرح سے علمائے دیوبند کے اکابرین خود کو وہابیت سے بہت دور بتلاتے رہے مگر آج ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادی اور سپاہ صحابہ پاکستان یہ سب وہابیت کے ساتھ ہیں لیکن جامعہ بنوریہ جیسا مدرسے کی انتظامیہ اور دارالعلوم کراچی کے تقی عثمانی تحریک طالبان پاکستان،سپاہ صحابہ پاکستان اورلشکر جھنگوی کے کرتا دھرتاؤں سےف ملتے ہیں -ان کو اپنے اجلاسوں میں بلاتے ہیں-ہمیں علمائے دیوبند کے آج کے نمائندہ لوگوں کی اس روش پر بہت ہی افسوس ہے-اعتدال پسند دیوبندی ،وہابییوں کو ہم نے ہمیشہ احترام کی نظر سے دیکھا ہے-آپ نے مولانا حسین احمد مدنی اور مفتی محمود حسن اسیر مالٹا کا زکر کیا تو کیا ان حضرات کے جو افکار سیکولر ازم کے حوالے سے تھے اور نیشنل ازم پر ان کا جو اعتقاد تھا کیا آج کے تکفیریوں کا ان سے کوئی تعلق اور واسطہ ہے-ہم یہی تو واضح کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ کفر ساز فیکٹریاں کھولنے والی تکفیری دیوبندی تنظیموں کا اکابرین دیوبند سے کوئی رشتہ اور ناطہ نہیں ہے-جہاں تک بات ویب سائٹ پر خارجیوں کے بارے میں فوکس زیادہ ہونے کی ہے تو آپ پاکستان کے ہنگامی اور یہاں پائے جانے والے سماجی ایشوز میں مذھبی انتہا پسندی اور دھشت گردی کے مرکزی ایشو ہونے سے ناواقف نہیں ہوں گے تو جتنا یہ ایشو اہمیت کا حامل ہوگیا ہے اتنا ہی اس پر فوکس نظر آرہا ہے-یہ فوکس اس لیے بھی زیادہ ہے کہ پاکستان کا مین سٹریم میڈیا اس ایشو کو چھپانے بلکہ بگاڑنے پر لگا ہوا ہے-وہ شیعہ،احمدی ،ہندؤ،عیسائی اور یہاں تک کہ بریلویوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے اور ریاست کی دیوبندی تکفیرستان بنانے میں کوششوں بے نقاب کرنے کی کوشش نہیں کررہا-آپ نے کہا کہ تعمیر پاکستان کو جو جھوٹ سچ ملتا ہے اسے پوسٹ کردیا جاتا ہے ایسا ہرگز نہیں ہے-آپ کو چاہئیے تھا کہ اگر ہماری کسی پوسٹ بارے آپ کو اس کی صداقت یا ثقاہت کا مسئلہ درپیش تھا یا ہے تو اس کی نشاندھی آپ کا فرض بنتا ہے-
کاشف نصیر صاحب! کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ ایک ایسی ہی گزارش جو پیار اور محبت کی اور بات چیت بارے آپ نے تعمیر پاکستان کے منتطمین کو بلانے کے لیے کی وہ آپ ایک کھلے خط اور اس کی کاپیاں جملہ دیوبند قیادت کو لکھیں جس میں ان سے اپیل کریں کہ وہ اپنے آپ اظہار برائت کریں ان سارے دھشت گردوں اور تکفیریوں سے جن کی وجہ سے فرقہ واریت پھیل رہی ہے-
بات ٹھیک ہے. کسی بھی فرقے یا مذہب کو بلا تخصیص برا کہنا یقیناً قابل قبول نہیں.
بلا شبہ دیوبند نے گراں مایہ اکابر پیدا کیےُ جن میں علی میاں جیسی مرکز اتحاد شخصیات بھی ہیں.
گرچہ بات درخوا غور ہے، صاحب تحریر کی دیانت راءے سوال طلب ہے.
یہ کہنا کہ
(سچ تو یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان کے کسی اور مسلم مکتب فکر نے ایسی ہمہ گیر شخصیات پیدا نہیں کیں جو قطع نظر مذہب مذہب و مکتب بیک وقت پورے ہندوستان میں مقبول ہوئیں)۔
غیر ضروری تقابل ہمیشہ تعصب کا آئینہ دار ہوتا ہے.
دیوبندیوں اور وہابیوں کو ایک قرار دینا بھی بددیانتی ہے.
مولانا خیرالدین کے بیٹے ابولکلام محی الدین کو دیوبندی قرار دینا غلط ہے.
سید ہادی کے پوتے سید احمد خان کو دیوبندی قرار دینا مضحکہ خیز ہے.
اس منطق سے تو شاہ ولی اللہ، شاہ عبدلعزیز، شاہ اسماعیل(قبل از دیوبند) اور مودودی ، اصلاحی اور بیشمار اور اکابر بھی دیوبندی گنواےُ جا سکتے ہیں. شکر ہے جناب نے ان پر کرم کیا.
اتنی نہ بڑھا پاکیُ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
آصف زیدی صاحب
پہلے تو یہ وضاحت کردوں کہ یہ تجویز تعمیر پاکستان بلاگ کے ایک بانی منتظم کے زرئعے براہ راست منتظمین تک پہنچائی گئی تھی اور یہ سرف ایک براہ راست ایمیل تھی جسے منتظمین نے بلاگ پر شائع بھی کردیا۔
دوسرا یہ کہ ابولکلام آزاد ہرگز دیوبندی عالم نہیں تھے وہ سلفی عقائد اور وہابی نظریات کے حامل تھے۔ باوجود اسکے کہ انکا ایک زمانے میں شیخ الہند سے گہرا تعلق تھا اوراسی واسطے دارلعلوم بھی کچھ ذمہ داریاں حاصل کیں۔ اگر آپ غور سے پڑھیں تو آپکو اندازہ ہوجائے گا کہ میں دیوبندی اور وہابی دونوں کہ رہا ہوں کہ کیونکہ میرے خیال سے دونوں کو رگیڑا جاتا ہے۔ اگر میں وہابی اوردیبوبندیوں کو ایک ہی اکائی سمجھتا تو تخصیص نہ کرتا۔
ایڈمن۔
اس ایمیل کے مندرجات میں املے اور زبان و بیان کی کچھ غلطیاں رہ گئیں تھی کیونکہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ اسے شائع کردیں گے۔ بہرحال یہ ایک ضروری تصیح تو کرلیں، سر احمد ہندی کا نام مس ٹائپنگ ہے انکی جگہ عبیداللہ سندھی کرلیں۔
کاشف صاحب،
آپ کا جواب کرم فرمائی ہے. ازحد شکریہ.
آپ کے فرمودات میں کچھ باتیں یقیناً ایسی ہیں جن پر اس ادارے کے منتظمین کو بہر حال غور کرنا چاہیے.
تخصیص اور تہذیب کی پاسداری ضروری ہے ورنہ یونہی ابولکلام ، مدنی، گنگوہی، یا نانوتوی جیسے احمد لدھیانوی یا جھنگوی ایسوں کے دفاع میں استعمال کیے جائینگے.
کاشف صاحب
دیوبندی پر میں ١١ سال سے ریسرچ کر رہا ہوں انکے افراد اکثر افراد انسانیت سے بہت دور ہیں اور جو کچھ لوگ ہے آپ کی طرح وہ بھی نا جور طریقہ کے افراد ہیں ظاہر اپنے آپ کو بڑا اصلاحی کہتے ہیں لیکن اندر سے پم مسلک دھشتگرد کی حمایت رکھتے ہیں اور جس سے ہمارے مطابق کوٴی دیوبندی انسانیت ، پاکستان اور اسلام کے لٴے مخلص نظر نہیں آتا ہے
آپ اپنا
گریبان اپنے اس آرٹیکل میں جا کر دیکھے
http://kashifnasir.com/2013/11/17/saniha-rawalpindi-media/
آپ کے اصلاحی ہونے یا فسادی ہونے میں اللہ اپ کی مدد کرے تاکہ آپ اپنے باطن کو جان سکے اگر نہیں جانتے
میدی بخاری۔
آپکے سخت فرقہ وارنہ نظریات جان کر افسوس ہوا۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرے میں فرقہ وارنہ منافرت اور شدت پسندی اتنی زیادہ پھیل گئی ہے کہ کوئی بھی طبقہ محفوظ نہیں۔ یہ فرقہ واریت ہی ہے کہ ہر فرقہ کے معتقدین آدھا سچ بولتے ہیں اور آدھا چھپاتے ہیں۔
میرے بارے میں آپکی رائے اسی شدید فرقہ وارنہ سوچ کی غمازی کرتی ہے۔ الحمداللہ میں فرقہ واریت پر بالکل یقین نہیں رکھتا اور اپنے خاص نظریاتی سوچ کے باوجود میرے بہترین دوست وہ ہیں جو میرے نظریاتی مخالف مانے جاتے ہیں۔ کاش آپ اپنے اس فرقہ وارنہ سوچ سے مغلوب ہوکر میرے بارے میں کوئی رائے کام کرنے میں اتنی جلدی نہ کرتے اور کوئی فیصلہ صادر کرنے سے قبل میرے بلاگز کو ٹھنڈے دماغ اور کھلے دل کے ساتھ پڑھتے۔
آپ نے جس بلاگ کا لنک دیا ہے اس میں میڈیا کے کرداربلخصوص سانحہ راولپنڈی کے حوالے سے پر بات منطقی بات ہوئی ہے، نہ کوئی مبالغہ آرائی، نہ کوئی نفرت انگیزی اور نہ ہی کوئی غداری، کفر، خارجی، وغیرہ وغیرہ کے فتوے۔
آپ کے لئے ایک اور بلاگ کا لنک چھوڑے جارہا ہوں جبکہ فرقہ واریت کا بخار اتر جائے تو تسلی سے اسے ضرور پڑھئے گا
http://kashifnasir.com/2012/09/11/religious-extremism/
کاشف صاحب کے لیے
میں نے اپنے آپ کو اصلاحی ظاہر نہیں کیاتاکہ آپ کا اعتراض ثابت آٴے
اصلاحی در حقیت فسادی
اسے اپنے مقاصد لفافے میں رکھ کر پہنچانے کی عادت ہوتی ہے
نسخہ ناسیان
اپنے اس عبارت کی کویی اگر کوءی معقول توجیح مل جاٴے تو ہمیں بھی بتا دیں
﴿﴿
ایک رات قبل ناگن چورنگی پر امام بارگاہ سے کچھ فاصلے پر ایک کریکر دھماکے کو ساری رات کور کیا جاتا رہا اور اس وقت کسی کو یہ خیال دامن گیر نہیں ہوا کہ اگلے روز جب وطن عزیز کی ایک پوری کمیونٹی اپنے خنجرووں اور تلواروں سمیت سڑکوں پر کھڑی ہوگی تو انکی طرف سے کتنا شدید ردعمل آسکتا ہے۔ لیکن جب روالپنڈی کے راجہ بازار سے گزرتے ہوئے عزاداروں نے نماز جمعہ کے تقدس کو روندتے ہوئے، مسجد و مدرسہ پر حملہ کیا، بازاروں کو آگ لگائی، نمازیوں پر گولیاں چلائیں اور خنجروں سے طلبہ کو زبح کیا تو اچانک سے ہمارا پورا کا پورا میڈیا بالغ ہوگیا، احساس ذمہ داری نے اسے کوریج سے روکے رکھا، لوگ مرتے رہے، میڈیا زمہ داری کا مظاہرہ کرتا رہا یہاں تک کہ حالات اس قدر خراب ہوگئے کہ کرفیو لگانا ناگزیر ہوگیا۔ کسی نے یہ تک سوال نہ کیا کہ جلوس میں شامل عزادار کیونکر تلوار اور خنجر لے کر چل رہے تھے،اتناز زیادہ آتش گیر مواد وہ کس ماتم کے لئے ساتھ لائے تھے اور غم حسین کا حزب اللہ کے
جھنڈوں سے کیا تعلق ہے؟
﴾﴾
اس عبارت میں اپنی زہنیت کا پتہ چل رہا
آپ یہ وہاں موجود تھے اور طلبہ کے گلے کٹتے دیکھ رہے تھے یا نعیم صاحب کی فتوایت سے متاثر ہوگٴے تھے
خلاصہ اشکال از طرف بندہ
پارسا باید درس پارسایی دھد
مہدی بخاری
آپ فرقہ واریت کی شدید بخار میں مبتلا ہیں اس لئے آپکو ہربات ہی فرقہ واریت معلوم ہورہی ہے۔ اگر آپ میری تحریر کو کھلے دل سے پڑھتے اور اسکے بعد دوسری تحریر جسکا میں نے لنک دیا پڑھتے تو شاید کبھی اس قسم کے فتوے صادر نہ کرتے۔
شرپسند ہر جگہ ہوتےہیں، سنیوں میں بھی ہیں اور شیعوں میں بھی ہیں۔ جس طرح سنی شرپسند بیگناہ شیعوں کو نشانہ بناتے ہیں اسی طرح کچھ شرپسند شیعہ بھی ہیں (جنہیں مبینہ طور پر ایران کی مدد حاصل ہے) سنیوں اور خاص طور طور پر سنی علماء کو نشانہ بناتے ہیں۔ اہل تشیع کیونکہ اقلیت میں ہیں اور باآسانی شناخت ہوجاتے ہیں اس لئے ان بیچاروں کو زیادہ آسانی سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جب کبھی شیعوں پر حملے ہوئے اور نقصان ہوا میں نے کھل سنیوں شرپسندوں کی مذمت کی یہاں تک کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد بلاول ہاوس کے سامنے دہرنے میں بھی حصہ لیا اور جب روالپنڈی میں کچھ شرپسند عزادار مسجد و مدرسہ کی مخالفت کی۔ جو بھی فرقہ پرست ہوگا وہ آپکو ایک طرف نظر آئے گا۔ الحمد اللہ میں دونوں طرف کی دہشتگردی کے خلاف ہوں۔
بہرحال مجھے اپنی وضاحت کی ضرورت نہیں کیونکہ سوشل میڈیا پر تمام مکاتب فکر اور نظریات کے سلجھے ہوئے لوگ یہ سب کھ جانتے ہیں۔ آپ اپنے بارے میں سوچیں کیونکہ مجھے آپکی فرقہ وارانہ سوچ، فتوے جاری کرنے کی عادت بڑھتی ہوئی معلوم ہورہی ہے۔