یزید ابن معاویہ کے بارے میں امام احمد ابن حنبل اور دیگر اہلسنت اکابر کی رائے – از سید ثاقب حسین
ناصبیوں نے آجکل یزید لعین کی ظالمانہ کاروائیوں پر مغفرت کے پردے ڈالنے کی بھر پور کوشش شروع کر دی ہے ۔ اور اسکو مغفور و بے قصور ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رھا ھے ھم آگے بڑھ کر علمائے اھل سنت کے نظریات پیش کرتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل کا ناطق فیصلہ اھلسنت کے آئمہ اربعہ میں سے ایک امام اور صحاح ستہ کے کی ایک کتاب مسند احمد بن حنبل کے مصنف نے اپنے بیٹے کو ایک سوال کے نتیجے میں کہ یزید کے فسق و فجور کے سبب آپ اسکو ملعون قرار دے سکتے ہیں؟ کے جواب میں کہا میرے بیٹے کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی اللہ پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرے اور پھر یزید سے بھی دوستی رکھے اور ایسے شخص پر میں (احمد بن حنبل) لعنت کیوں نہ کروں جس پر قرآن میں اللہ نے خود لعنت کی ھو۔ فرزند احمد بن حنبل نے پوچھا قرآن میں کس جگہ اس پر لعنت ھوئی ہے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ، فھل عسیتم اِن تولیتم ان تفسدوا فی الارض و تقطعوا ار حامکم۔ اولئک الذین لعنھم اللہ فاصمھم واعمی ابصٰراھم۔ (سورہ محمد، ۲۳،۲۲)۔ پس تم سے توقع یہی ہے کہ اگر تم حکومت حاصل کر لو تو تم زمین میں فساد ہی بھرپا کرو گے اور اپنے قرابتی رشتہ داروں کو توڑ ڈالو گے( جن سے اللہ نے مودت کا حکم دیا ہے) ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور انکو بہرا کر دیا ہے اور انکی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے۔ اس مقام پر امام احمد بن حنبل نے فرمایا کیا قتل امام حسین سے بڑھکر بھی کوئی فساد ھو سکتا تھا؟؟( صواعق محرکہ۔ ابن حجر مکی ص ۲۲۰)
ابن کثیر دمشقی اپنی کتاب البدایہ والنہایہ مشہور نام تاریخ ابن کثیر میں لکھتے ہیں یزید اس معاملہ میں مشہور تھا کہ وہ لہو ولعب کے آلات رکھتا تھا، شراب پیتا تھا، گانے بجانے، شکار کھیلنے، بغیر داڑھی کے لڑکوں کو وکھنے، کتے پالنے، سینگ والے مینڈھے ریچھوں اور بندروں کو لڑانے میں مشغول رہتا تھا، کوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا کہ اس نےشراب نہ پی ھو، وہ بندروں کو سجے ہوئے گھوڑوں پر سوار کر کے دوڑاتا تھا اور بندروں کے سروں پر سونے کی ٹوپیاں سجاتا تھا، اور اسی طرح لونڈیوں کے سروں پر بھی۔ اور جب کوئی بندر مر جاتا اسے بہت افسوس ھوتا تھا۔
ابن کثیر نے اپنی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ یزید نے ہی حضرت امام حسین ؑ کو عبید اللہ ابن زیاد اور اسکے ساتھیوں کے ہاتھوں قتل کروایا۔ (البدایہ والنہایہ جلد ۸ ص ۲۳۵) یزید اپنے بیٹے معاویہ کی نظروں میں علامہ اھلسنت دمیری اپنی کتاب محیوة الحیواں جلد ۱ ص ۵۷ میں لکھتے ہیں کہ بہت سارے علماء نے ذکر کیا ہے کہ تحقیق معاویہ بن یزید جب یزید کی وفات کے بعد اپنی خلافت کی کرسی کو چھوڑ کر ممبر پر آیا اور حمد و ثناء الٰہی پڑھ کر خطبہ کو یہاں تک پہنچا کر کہا میرے دادا معاویہ ابن سفیان نے اسی خلافت کےلئے اس شخص سے جھگڑا کیا جو میرے دادا سے زیادہ مستحق تھے۔ بلکہ سب سے زیادہ مستحق تھے کیونکہ قرابت رسول ص اور فضیلت پر سب پر فوقیت رکھتے تھے اور میرا دادا اس کے برخلاف اس چیز کا مرتکب ھوا جسکو تم سب جانتے ھواور جب وہ اس دنیا سے کوچ کر گیا اور جو اس نے اپنے اعمال کا توشہ بھیجا ھوا تھا اسی کا مزہ پا لیا اور پھر خلافت میرے باپ یزید کی طرف منتقل کر دی گئی اور اس نے اپنے گلے میں خلافت کا پٹہ محض اس حرص و ھوا کی بنیاد پر پہنا جو اس مے باپ کے دل میں تھا اور میرا باپ اپنی بد فعلی اور اپنے نفس پر ظلم کرنے کے سبب خلافت محمدی ص کے سزاوار نہ تھا اور اس نے اپنی اسی حرص و حوس پر سوار ھو کر اپنے گناھوں کو مستحسن اور اعلیٰ خیال کیا اور خدا سے بے خوف ھو کر اس پر(مام حسین) بغاوت کی جس کے مقابل اس کی کوئی قدروقیمت نہ تھی۔
اور اسی وجہ سے اسکی زندگی کی مدت کم ھوئی اور اپنے گڑھے قبر کو بار بنا کر اعمال خود کو گلے لگا کر اپنے گناہوں میں گروی ھو کر جا سویا مگر اس کے گناہوں کے نشانات دنیا میں باقی ہیں اور جو اس نے بھیجا تھا اسکو مل گیا۔ پشیمان اس وقت ھو ھو گا جب پشیمانی کوئی فائدہ نہ دے گی پس میں نے تم لوگوں کی گردنوں سے اپنی بیعت کا پٹہ اتار دیا ہے پس سلام۔ اسی طرح کے مضمون کو علامہ ابن حجر مکی نے اپنی مشہور کتاب صواعق محرقہ کے صفحہ ۱۳۴ میں بھی نقل کیا غور طلب بات یزید کا اپنا اصلی بیٹا اپنے باپ دادا کو صحیح نہیں سمجھتا تھا، پتہ نہیں یہ آجکی اسکی ناجائز اولاد اس کو رضی اللہ کہنے اور مغفرت کروانے کے چکروں میں کیوں پڑھی ہے۔ جو یزید کو اپنا دوست سمجھتا ہے ظاھر ہے وہ دشمن حسین علیہ السلام ہے اور جو دشمن امام حسین علیہ السلام ہے وہ دشمن رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھے، اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔
Comments
Latest Comments
Jazak ALLAH….