The State of Pakistan and Mullah Fazlullah ملا فضل اللہ اورپاکستانی ریاست

اصل مسئلہ پاکستان میں ترتیب دیا جانے والا تازہ قومی بیانیہ ہے جو مشرف دور اور اس کے بعد پروان چڑھا ہے۔اس کی جزئیات کی تیاری میں جہاں پاکستانی میڈیا نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے وہاں پاکستان کی مذہبی جماعتوں خصوصاً جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام،سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان تحریک انصاف نے اہم حصہ ڈالا ہے۔چوں کہ اتفاق رائے امریکہ دشمنی پر استوار ہے اس لیے پاکستانی ریاست کے خالصتاً اپنے نقصانات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔پاکستان کی فوج کو ایک مفاد پر ست فوج بنا کر پیش کیا گیا ہے جو اپنے مفادات کی خاطر کسی قسم کی جنگ کے لیے کردار ادا کرنے پر تیار ہوجاتی ہے اور پاکستان کے سابق حکمرانوں بشمول پرویزمشرف اور آصف علی زرداری کو مغرب کے زر خرید اور جذبہ مسلمانی سے قطعی عاری بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو ذاتی اقتدار اور مفادات کی خاطر ملک کو مغرب کا غلام بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔مذکورہ سابق عہدیداروں اور اُن کی حکومتوں کے خلاف چلائی گئی مہموں میں عوامی ہمدردی کے حصول کے لیے اِن کے ادوار میں دہشت گردی کے خلاف لڑی گئی جنگوں کو پرائی جنگیں قرار دیا گیا ہے جس میں اِن ناہنجار حکمرانوں نے ملک کو جھونک دیا تھا اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف استعمال ہوتے رہے۔

Swat-Taliban-wanted-thumb
مجاہد حسین، نیو ایج اسلام

ملا فضل اللہ تحریک طالبان پاکستان کے نئے امیر مقرر کیے گئے ہیں جس کے بعد امکان یہی ہے کہ طالبان پاکستانی حکومت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات سے انکار کردیں گے۔ملا فضل اللہ کا تحریک طالبان کا امیر مقرر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستانی طالبان یکسر خود مختاری کے حامل ہیں اور اُنہوں نے ایسے تمام ساتھی گروہوں اور طالبان لیڈروں کو پچھلی صفوں میں دھکیل دیا ہے جو پاکستان کے ساتھ بعض معاملات میں ہمدردی کا رویہ رکھتے تھے اور اِنہیں اُمید تھی کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کی حکومتیں اِن کے بارے میں نرم حکمت عملی اختیار کریں گی۔

اس تقرری کے بعد پاکستانی فوج کو بھی اس الزام سے چھٹکارا حاصل ہوجائے گا کہ وہ طالبان میں امتیاز کی پالیسی پر گامزن ہے۔بنیادی طور پر جو چیز بہت واضح ہوکر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان بہت حد تک افغانی طالبان اور خاص طور پر حقانی نیٹ ورک سے ہدایات لینے کی پابند نظر نہیں آتی۔یہ ایک ایسی خود مختاری ہے جو تحریک طالبان کو مزید خطرناک اور مستحکم بنا کر ریاست پاکستان کے سامنے پیش کرتی ہے۔قبائلی پٹی اور پاک افغان سرحد سے متصل علاقوں میں موجود تحریک طالبان کے زیادہ تر دھڑوں کا اتفاق رائے یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھ سے بہت سے معاملات نکل چکے ہیں اور اِن کے ساتھ جو اِکا دکا طالبان گروہ کبھی کھڑے نظر آتے تھے وہ یا تو ختم ہوچکے ہیں یا پھر طاقت ور گروہوں میں خود کو مدغم کر چکے ہیں جس کے بعد پاکستان کے ساتھ اُن کا رویہ ایسے ہی ہے جیسے کسی دور میں شمالی اتحاد کے جنگجوؤں احمد شاہ مسعود وغیرہ کا ہوتا تھا۔وہ کسی صورت پاکستان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں جب کہ تحریک طالبان کی صفوں میں شامل سینکڑوں غیر ملکی جن میں عرب، ازبک اور چیچن وغیرہ شامل ہیں اُن کی رائے میں وزن صاف دکھائی دیتا ہے جو پاکستان پر کسی صورت اعتبار کے قائل نہیں اور پاکستانی افواج کو نیٹو اور امریکی افواج جیسا تصور کرتے ہیں۔

دوسری طرف پاکستانی حکومتیں طالبان کے ساتھ کسی نئے محاذ پر لڑنے کے لیے تیار نہیں کیوں کہ رائے عامہ اس قدر متفق ہے کہ طالبان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی براہ راست امریکہ اور مغربی ممالک کی حمایت سمجھی جاتی ہے۔تحریک طالبان پاکستان کے ہلاک ہونے والے امیر حکیم اللہ محسود کو پاکستان سے زیادہ امریکہ اور مغرب کا دشمن سمجھا جاتا ہے اور اس کی ڈرون حملے میں ہلاکت پر ہر کوئی صدمے سے دوچار ہے حالاں کہ حکیم اللہ محسود کے گروہ نے امریکیوں سے کئی گنا زیادہ پاکستانی ہلاک کیے ہیں اور ہزاروں پاکستانی فوجیوں کو قتل کیا ہے جب کہ پاکستان کی دفاعی تنصیبات کو اتنا زیادہ نقصان پہنچایا ہے کہ جتنا نقصان پاکستان کا روایتی حریف ملک بھارت بھی تین جنگوں میں نہیں پہنچا سکا۔پاکستانی افواج کے جرنیل تک حکیم اللہ محسود نے قتل کروادیئے ہیں اور آئی ایس آئی کے تقریباً تمام بڑے دفاتر پر براہ راست حملے کیے ہیں جہاں درجنوں افراد مارے گئے۔

اصل مسئلہ پاکستان میں ترتیب دیا جانے والا تازہ قومی بیانیہ ہے جو مشرف دور اور اس کے بعد پروان چڑھا ہے۔اس کی جزئیات کی تیاری میں جہاں پاکستانی میڈیا نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے وہاں پاکستان کی مذہبی جماعتوں خصوصاً جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام،سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان تحریک انصاف نے اہم حصہ ڈالا ہے۔چوں کہ اتفاق رائے امریکہ دشمنی پر استوار ہے اس لیے پاکستانی ریاست کے خالصتاً اپنے نقصانات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔پاکستان کی فوج کو ایک مفاد پر ست فوج بنا کر پیش کیا گیا ہے جو اپنے مفادات کی خاطر کسی قسم کی جنگ کے لیے کردار ادا کرنے پر تیار ہوجاتی ہے اور پاکستان کے سابق حکمرانوں بشمول پرویزمشرف اور آصف علی زرداری کو مغرب کے زر خرید اور جذبہ مسلمانی سے قطعی عاری بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو ذاتی اقتدار اور مفادات کی خاطر ملک کو مغرب کا غلام بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔مذکورہ سابق عہدیداروں اور اُن کی حکومتوں کے خلاف چلائی گئی مہموں میں عوامی ہمدردی کے حصول کے لیے اِن کے ادوار میں دہشت گردی کے خلاف لڑی گئی جنگوں کو پرائی جنگیں قرار دیا گیا ہے جس میں اِن ناہنجار حکمرانوں نے ملک کو جھونک دیا تھا اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف استعمال ہوتے رہے۔

المیہ یہ ہے کہ مسلمان بھائی قرار دیئے گئے جنگجو اصل میں پاکستانی مسلمان بھائیوں سے بھی متفق نہیں اور نہ اِن کی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ اِن کے سماجی ڈھانچے کو اسلامی سمجھتے ہیں، بلکہ پاکستان کے مسلمان بھائیوں کی اختیار کردہ جمہوریت کو کفری نظام قرار دیتے ہیں، جس کے خلاف اِن کا واضح موقف سامنے ہے کہ اس نظام کے خلاف جنگ جہاد ہے اور اس میں مارا جانا شہادت ۔مثال کے طور پر پاکستان تحریک انصاف کے عمران خان گذشتہ تین ماہ میں اپنی جماعت کے تین ارکان کا اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں قتل دیکھ چکے ہیں لیکن اپنا موقف تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔جس نظام کے تحت عمران خان کی پارٹی اقتدار کے ایوان میں ہے اس نظام کے خلاف جہاد کرنے والوں کی وکالت کے لیے عمران خان بہت عرصے سے بیتاب ہیں۔ایسی ہی صورت حال مرکز اور پنجاب میں مقتدر مسلم لیگ نواز کی قیادت کی بھی ہے جو عمران خان سے اُن کا حلقہ انتخاب چھین لینا چاہتی ہے اور ہر سطح پر جہادیوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے تیار نظر آتی ہے۔لیکن ملاں فضل اللہ کو تحریک طالبان پاکستان کا امیر مقرر کیے جانے کے بعد عمران خان اور نواز بردران کو سمجھ لینا چاہیے کہ اَب اِن کے داخل کرائے وکالت نامے ضائع ہونے کا وقت آگیا ہے کیوں کہ ملاں فضل اللہ کسی صورت پاکستانی حکومتوں سے مذاکرات کے حامی نہیں اور اُن کا پہلا بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اب تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کسی بھی اہمیت کے حامل نہیں ہوں گے۔

دوسری طرف قبائلی علاقوں میں طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں پر ڈرون حملوں کی بندش کا کوئی امکان نظر نہیں آتا جب کہ خیبر پختونخواہ کی حکومت اس صورت میں نیٹو سپلائی روکنے کا اعلان کرچکی ہے جبکہ مرکزی حکومت اس حوالے سے شش و پنج میں مبتلا ہے۔میاں نواز شریف جو پاکستان کی اقتصادی بدحالی سے پریشان ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ نیٹو سپلائی لائن کی بندش کی صورت میں پاکستان کو مزید اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور اُن کی حکومت غیر مقبول ہو جائے گی جبکہ خیبر پختونخواہ کی حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں خصوصاً جماعت اسلامی موجودہ صورت حال کو اپنی مقبولیت کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہیں۔پاکستان کا غالب میڈیا اس ہیجان میں مبتلا ہے کہ پاکستان کو مغرب اور خصوصاً امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنا چایئے کیوں کہ پاکستان کا کردار ایک غلام کا کردار بن کر رہ گیا ہے۔ایسی صورت حال میں اجتماعی سوچ کو شکست دینا ممکن نظر نہیں آتا اور پاکستان پر چھایا ہوا گرداب گہرا ہوتا جارہا ہے۔پاکستان کی معیشت غیرت کے ایسے غیر مرئی تصور کے نیچے دب گئی ہے جس کی مخالفت کرنا پاکستان میں ممکن نہیں رہا، ظاہر ہے غیرت مند بھوکا مرجاتا ہے لیکن جھکتا نہیں ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ جو قومی غیرت طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں کی محبت سے لبریز ہے وہ بھی کسی صورت پاکستان اور اہل پاکستان کے لیے سودمند نظر نہیں آتی کیوں اُن کی نظر میں پاکستانی کفر کے نظام کے باسی ہیں اور ان کو مارنا یا اِن کے ملک کو کمزور کرنا عین جہاد ہے۔وہ تندہی کے ساتھ پاکستانیوں کی غیرت کے نشان پاکستان فوج پر حملے کررہے ہیں اور اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے ہیں۔جہادی جنگجو پاکستانیوں کی غیرت اور عزت کی محافظ پاکستانی دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں اور کسی طور بھی اس سے باز نہیں آنا چاہتے اور جب کبھی اُنہیں موقع ملتا ہے وہ نہتے پاکستانیوں کو خون میں نہلا دیتے ہیں اور اُن کی اپنی غیرت ایمانی اس عمل سے مزید توانائی حاصل کرتی ہے۔ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ ملاں فضل اللہ عام پاکستانیوں کے جذبات کا خیال نہیں کرے گا اور جس طرح سوات میں اس کے مظالم کو پاکستانی دیکھ چکے ہیں ، وہ اس سلسلے کو مزید آگے بڑھائے گا۔پاکستانی افواج پر حملے تیز ہوجائیں گے اور پاکستان کے شہری مزید غیر محفوظ ہو ں گے۔اس صورت میں پاکستان کے نام نہاد غیرت برگیڈ کیا موقف اختیار کرتے ہیں دیکھنا یہ ہے۔

مجاہد حسین ، برسیلس میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔

Source: New Age Islam

Comments

comments

Latest Comments
  1. Nike Air Max 95 mens
    -
  2. Nike Shox R4-D
    -
  3. Nike Free 5.0 zapatos corrientes
    -
  4. Air Yeezy 2
    -
  5. Nike Free 3.0 V4 Femme
    -
  6. Woman shoes
    -
  7. NEW ARRIVALS
    -
  8. Gucci Classics bags
    -
  9. Jordan Fly 23
    -
  10. Nike Free Haven 3.0
    -
  11. ∟Sac Hermès Kelly 25
    -
  12. Naeem Khan
    -
  13. Epi Leather Wallets
    -
  14. Shopper
    -
  15. Lacoste Tshirts
    -
  16. Marc Jacobs Sunglasses
    -
  17. Replica Shoes & Boots (781)
    -
  18. Sac Chloe Pas Cher
    -
  19. ed hardy Hombres Jeans
    -
  20. Les hommes Burberry T-shirt
    -
  21. Air Jordan 5 Women
    -
  22. Nike Free 4.0 V3
    -
  23. site jordan
    -
  24. running femme nike air pegasus
    -
  25. Concord Shoes
    -
  26. Jordan Women
    -
  27. Nike Air Jordan II (2)
    -
  28. Dior?2014?Bag
    -
  29. Nike?Free?7.0
    -
  30. New?Style?Mulberry?Clutch?Bags?Womens
    -
  31. Hawkers Venta
    -
  32. Portefeuille Longchamp Moss
    -
  33. Ray Ban Polarizadas Ventajas
    -
  34. Occhiali Da Sole Ray Ban Rb2132
    -
  35. Sac Longchamp Homme Prix
    -