ایک قدم آگے،دو قدم پیچھے:عشرہ محرم کی دوسری تقریر

WALL POSTER

حقیقت مذھب اہل بیت اطہار۔۔۔۔۔۔۔۔۔عشرہ محرم کی دوسری تقریر

امام حسن علیہ السلام۔۔۔۔۔۔۔۔ایک قدم آگے ،دو قدم پیچھے

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قال اللہ تعالی فی القران المجید والصبرو ان اللہ مع الصابرین ۔والصلوۃ والسلام علی سید الانبیاء و المرسلین و علی اہل بیتہ الطیبین والطاہرین ۔

اما بعد!محترم خواتین و حضرات آج محرم الحرام کی دوسری شب ہے-اور ہم اور آپ یہاں مذھب اہل بیت اطہار کی حقیقت پر بات چیت کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں-میں نے گذشتہ شب یہ بات واضح کی تھی کہ کیسے مذھب اہل بیت اطہار کی بنیاد “انکار” پر استوار ہوئی اور اس نے اشرافیت اور سمجھوتہ بازی کو رد کیا-اس سلسلے میں امام علی کے کردار کو ہم نے تاریخ کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی تھی اور بتایا تھا کہ وہ کیسے انحراف اور سمجھوتہ بازی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے شہید ہوگئے-

امام علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی زندگی کے آخری ایام اور خاص طور پر 39 ھجری اور 40 ھجری کے دو سال اہل عراق کو یہ باور کرانے میں گذر گئے کہ اگر وہ انقلاب کو بچانا چاہتے ہیں اور پرانے اشرافیائی نظام کو اپنے اوپر مسلط ہونے سے بچنا چاہتے ہیں تو پھر ان کو اس نظام کے علمبرداروں کے خلاف فیصلہ کن معرکہ لڑنا ہوگا-امام علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے بہت فکر انگیز خطبات ان دو سالوں میں دینے شرع کئے-اور 40ھجری میں رجب المرجب کے ماہ سے آپ نے باقاعدہ لشکر کی تیاری کا عمل شروع کردیا-آپ نے اہل عراق کو باور کرایا کہ یہ آخری اور فیصلہ کن معرکہ ہوگا اور اس کی خوب تیاری کی جانی لازمی ہے-

امام علی انتہائی مشکل حالات میں یہ کام کررہے تھے اور ابھی تیاری درمیان میں تھی کہ آپ پر مسجد کوفہ مں قاتلانہ حملہ ہوا اور آپ کی شہادت ہوگئی-شہادت کے بعد اہل عراق نے امام حسن علیہ السلام کو اپنا خلیفہ بنا لیا-

امام حسن جب خلیفہ بنے تو انہوں نے امام علی کے مشن کو جاری رکھنے کا اعلان فرمایا-ہمارے ہاں امام حسن کے بارے میں اموی دسترخوان سے فیض یاب ہونے والوں اور مذھب اہل بیت سے عدوات رکھنے والے تکفیری گروہوں نے یہ افواہیں پھیلا رکھی ہیں کہ جیسے انہوں نے خلیفہ بنتے ہی اہل شام سے جںگ نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور امام علی جس طرح سے اہل شام کے خلاف فیصلہ کن جنگ کے لیے لشکر کی تیاری میں مصروف تھے اس تیاری کو چھوڑ ڈالا تھا-

ایک تاثر یہ بھی دیا جاتا ہے کہ امام حسن کو اپنے والد امام علی کی حکمت عملی سے آغاز کار سے اتفاق نہ تھا-اور وہ امام علی کو مدینہ میں خلیفہ ثالث کے خلاف باغیوں کی شورش کے وقت سے ہی گوشہ نشینی اختیار کرنے کو کہہ رہے تھے-اور ان سے یہ بات بھی منسوب کی جاتی ہے کہ انہوں نے شہادت ‏عثمان کے بعد امام علی کو مدینہ کے مضافات میں چلے جانے کا مشورہ بھی دیا تھا-گویا یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ امام حسن کو اپنے والد کی طرح مذھب انکار پسند نہ تھا اور وہ مزاحمتی راستے کو پسند نہیں کرتے تھے-امام حسن کی روش کو امام حسین کی روش سے بھی مختلف دکھانے کی کوشش کی جاتی رہی-اور یہ سب اس لیے ٹھیک ثابت کرنے کی کوشش ہوتی رہی کہ امام حسن نے امیر شام سے ایک صلح نامہ پر دستخط کئے تھے-اس صلح کا زکر کرنے والے اکثر ایسے ظاہر کرتے ہیں جیسے امام حسن نے خلافت سنبھالتے ہی صلح کی جانب قدم بڑھانا شروع کردئے تھے-اور وہ اس صلح سے یہ بھی مراد لیتے ہیں کہ امام حسن نے امیر شام کا حق حکمرانی اور جواز حکمرانی تسلیم کرلیا تھا-گویا وہ یہ بات ثابت کرنے کے مشتاق ہیں کہ امام علی کی طرح امام حسن ارسٹوکریسی اور سمجھوتہ بازی کے خلاف انکار اور مزاحمت کرنے والے نہیں تھے-

میں جب بھی امام حسن کی سیرت کو مسخ کرنے کی ان کوششوں پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ عرب ارسٹوکریسی نے کیسے امام کی ایک تزویراتی حکمت عملی کو مسخ کرڈالا اور ان کی پالیسی کو سمجھوتے بازی سے تعبیر کرڈالا-جبکہ حقائق اس بات کے بالکل الٹ بات بتلاتے ہیں-

امام حسن علیہ السلام نے جب خلافت سنبھالی تو آپ نے امیر شام کو نہ صرف خود خط لکھے بلکہ آپ کے سفیر کے طور پر عبداللہ بن عباس نے بھی امیر شام کے نام بہت سے خطوط لکھے-ان خطوط میں امیر شام سے امام حسن نے اپنی بیعت کرنے کا مطالبہ کیا اور ان سے سرکشی ترک کرنے کو کہا-ان خطوط پر جب امیر شام نے کوئی کان نہ دھرے تو آپ نے آخری جو خط روانہ کیا تو اس میں امیر شام کو واضح طور پر لکھا کہ اگر وہ اطاعت امیر نہیں کرتا تو پھر امام حسن ایک لشکر لیکر اس سے مقابلے کے لیے نکلیں گے-یہ خطوط اصفہانی نے “مقاتل الطالبین “میں درج کئے ہیں-اور اہل تسنن کی کتب میں بھی ان خطوط کا تذکرہ ملتا ہے-

اس دوران امام حسن نے اہل عراق اور کوفہ والوں کے سامنے خطبات کا ویسا ہی سلسلہ شروع کیا جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے شروع کررکھا تھا-آپ نے بیعت لینے کے فوری بعد جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کا متن مختلف جگہ آیا ہے –شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،مسعودی کی مروج الذھب ،اصفہانی کی مقاتل الطالبین اور اشراف الانساب اور طبقات ابن سعد میں اس کا متن موجود ہے-امام حسن نے اہل بیت اطہار کی قربت رسول کا زکر کیا اور اہل بیت سے رجس وپلیدی دور کرنے اور تطہیر کا زکر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اطاعت کے واجب ہونے کا زکر بھی موجود ہے-آپ نے اپنے  آپ کو حزب اللہ بھی کہا-اور آپ کے اس دوران اقوال اور ارشادات بھی یہ ثابت کرتے ہیں کہ آپ حضرت علی کی طرح انقلاب کے خلاف رد انقلاب کی قوتوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑنے کے خواہاں تھے-پھر اگر ہم اس سے پہلے دور مرتضوی میں آپ کے کردار کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ جب مدینہ میں علی کی بیعت ہوگئی اور اہل بصرہ نے اعلان بغاوت کیا اور قصاص عثمان کے نام سے مخالفین بصرہ اکٹھے ہوگئے تو علی کی جانب سے جہاد کی تیاری کے لئے جن دو حضرات کو عراق روانہ کیا گیا ان میں سے ایک حضرت امام حسن تھے-اور یہ امام حسن تھے جن کی کوفہ میں تقریروں نے گرم جوش ماحول پیدا کیا اور لشکر کی تیاری میں مدد فراہم کی-اور امام حسن نے جنگ جمل،جنگ صفین اور جنگ نہروان میں اہم کردار ادا کیا اور داد شجاعت دے کر خود کو فرزند مرتضی ثابت کیا-آپ مشن بو تراب کے سفیر تھے اور فکر علی کے جانشین بھی تھے-جارو بن منذر کہتے ہیں کہ انہوں نے جنگ صفین کے وقت امام علی سے سوال کیا کہ اگر وہ شہید ہوگئے تو ان کی نیابت کون کرے گا تو آپ نے امام حسن و حسین کا نام لیا-اسی طرح سے آخری ایام میں امام علی کی امام حسن کو صویل وصیت بھی ظاہر کرتی ہے کہ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنے بعد جس آدمی کو اپنی فکر اور میراث کا نائب خیال کیا وہ امام حسن کی زات تھی-اور اگر امام حسن کو امام علی کی فکر سے اختلاف ہوتا تو امام علی ان کو اپنا نائب اور وصی کیوں مقرر کرتے-

امام حسن علیہ السلام نے امیر شام کے خلاف لشکر کی تیاری شروع کی-اور عبید اللہ بن عباس کو لشکر کا سپاہ سالار جبکہ قیس بن سعد  کو ان کا معاون مقرر کیا-آپ نے جب معاویہ کے لشکر کی نقل و حمل بارے سنا اور یہ معلوم ہوا کہ لشکر معاویہ منبج پہنج چکا ہے تو آپ ساباط مدائن روانہ ہوگئے اور اہل مدائن کو جہاد کے لیے تیاری کرنے کی ترغیب دینا شروع کردی-

اور یہاں پر ایک بات بہت اہم ہے کہ جب معاویہ نے بیعت کرنے سے انکار کیا تھا تو امام حسن نے لڑائی کی تیاری شروع کردی تھی-اور یہ امیر شام تھا جس نے ساباط مدائن میں اپنی طرف سے دو ایلچی مغیرہ بن شعبہ اور عبداللہ بن عامر کو امام حسن کی جانب بھیجا اور انہوں نے امیر شام کی جانب سے آپ کو صلح کی پیشکش کی-اس پیشکش میں امام حسن کو کہا گیا تھا کہ آپ  معاویہ کو خلیفہ مان لیں امام حسن نے یہ پیشکش رد کردی لیکن مغیرہ بن شعبہ اور عبداللہ بن عامر آپ کے خیمے کے باہر آکر یہ کہتے ہوئے نکلے کہ امام حسن سبط رسول کے وسیلے سے خدا نے لوگوں کا خون بہنے سے بچالیا –ان کے واسطے سے فتنہ دب گیا-انہوں نے صلح کو قبول کرلیا-ان کی یہ جھوٹی بات سنکر وہاں اشتعال اور بددی پھیلی اور خوارج کے ایک گروپ نے امام حسن کے خیمے پر حملہ کردیا –جراح بن سنان نے آپ پر قاتلانہ حملہ کیا اور آپ کی ران پر تلوار کا وار کیا-آپ زخمی ہوگئے-آپ کے شیعہ نے آپ کا تحفظ کیا-آپ وہاں سے سعد بن مسعود ثقفی مختار کے چچا کے گھر تشریف لے گئے-آپ پر جب حملہ ہوا اس کے بعد آپ نے اہل مدائن سے ایک خطاب کیا جس میں آپ نے اہل مدائن پر افسوس کیا اور ان سے کہا کہ وہ دشمنوں کی سازشوں کا ادراک کریں-اور اپنی اور اہل بیعت اطہار کی عظمت اور بزرگی کی جانب ان کو متوجہ کیا-

ادھر معاویہ کی باتوں میں آکر اور امام حسن کی جانب منسوب کرکے پھیلائی جانے والی صلح کی خبروں سے متاثر ہوکر عبیداللہ بن عباس اور عراق کے کئی اور اشراف معاویہ سے جاملے اور ان کو امیر شام نے بھاری رقوم دیں-معاویہ نے قیس بن سعد کو بھی خریدنے کی کوشش کی لیکن قیس بن سعد نے اپنا دین بیچنے سے انکار کرڈالا-انہوں نے امام حسن کو خط لکھا اور ٹھیک ٹھیک صورت حال بتائی-جب امام حسن کو یہ خط ملا تو آپ نے اہل عراق کو باور کرایا کہ کہ اس پہلے بھی وہ جنگ سے فرار کے سخت نقصانات اٹھاچکے ہیں اور انہوں نے صفین میں ان کے والد کو زبردستی تحکیم پر مجبور کیا اور جب ان سے دھوکہ ہوا تو ایک گروہ نے تحکیم کا زمہ دار بھی علی کو ٹھہرایا اور ان کے خلاف تلوار سونت لی اور امیر شام کو قدم جمانے کا موقعہ فراہم کیا-آپ نے آخر میں فرمایا کہ

اے عراقیو! میرے لیے یہی کافی ہے-مجھے میرے دین میں فریب مت دو

اتنا کچھ ہونے کے باوجود امام حسن نے خود سے امیر شام کو کوئی پیغام صلح نہ بھیجا-یہ امیر شام تھا جس نے تین بار صلح کا پیغام امام حسن کو بھیجا-پہل پہل آپ نے اس کو رد کیا-لیکن جب آپ نے یہ دیکھ لیا کہ اہل عراق لڑنا نہیں چاہتے اور ان کی اکثریت معاویہ سے سازباز کرچکی ہے-اور ان کے سچے ساتھیوں اور انقلابیوں کی تعداد بہت کم ہے اور اگر وہ لڑائی پر مصر رہے تو معاویہ کا لشکر اور غداری کرنے والے ملکر اس مختصر انقلابی جماعت کو مٹاڈالے گی تو آپ نے دو قدم پیچھے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا-

امام حسن کے چند اقوال اس معاملے پر آپ لوگوں کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں جس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ امام حسن کی صلح اور ان کا پیچھے ہٹنا ایک حکمت عملی کے تحت تھا نہ کہ امیر شام کے حق حکمرانی کی تائید اور اس کی حمائت کرنا تھا-

“واللہ لو قاتلت معاویۃ لآخذ و بعنقی حتی یدفعونی الیہ سلما”

ورائت اہل العراق لایثق بھم احدا لاغلب

“اپنے شیعہ کو بچانے کے لیے جنگ کو ایک عرصہ کے لیے موخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے”

“تمہاری سستی اور لڑائی سے منہ موڑنے کے باعث میں نے فیصلہ کیا کم از کم تمہاری جان بچالی جائے”

“ہماری صلح صلح حدیبیہ کی طرح ہے “

“کہیں جڑ ہی نہ کٹ جائے اس لیے میں نے صلح کی پیشکش قبول کی”

امام حسین کے بارے میں یہ کہا گیا کہ آپ نے امام حسن کی جانب سے صلح کی مخالفت کی یہ غلط ہے-قرائن اور شواہد اس کی گواہی نہیں دیتے-آپ نے اپنے بھائی کا ساتھ دیا ان کے ساتھ مدینہ چلے آئے اور آپ کی وفات کے بعد 11 سال تک آپ نے امام حسن کے موقف کے مطابق کوئی قدم قیام کی جانب نہیں اٹھایا-آپ کی زندگی کا یہ فعل واضح کرتا ہے کہ آپ امام حسن کی رائے سے اتفاق کرتے تھے-

امام حسن علیہ السلام کو جب حجر بن عدی نے طعنہ دیا تو آپ نے ابن عدی سے کہا کہ اے عدی تیرے جیسے اہل عراق میں کتنے لوگ ہیں؟تم جیسوں کو بچانے کے لیے ہی تو یہ صلح کی ہے

مسیب بن نخبہ سے امام حسن نے اور لوگوں کی موجودگی میں کہا

اس آدمی کی موت(امیر شام کی موت) کا انتظار کرو اس کے بعد بہتری آئے گی

آپ نے اپنے سچے رفقاء کو عہد امیر شام میں صبر سے کام لینے کی نصیحت کی اور اپنے سچے رفقاء کے سامنے یہ بیان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کی کہ یہ صلح “ایک قدم آگے ،دو قدم پیچھے ” کی حکمت عملی کی عکاس ہے-آپ نے اس عمل کو تھوڑی سی سانس لینے کی مہلت اور بڑا معرکہ لڑنے کی تیاری سے تعبیر کیا-اور اس کو صلح حدیبیہ کی طرز کا ایک معاہدہ قرار دیا-اس سے بہت سی باتیں واضح ہوجاتی ہیں-امام حسن نے تحریک کو زیر زمین لے جانے کا فیصلہ کیا تو وہ فیصلہ بہت درست اور صائب تھا-اور آپ کی  بصیرت نے پھانپ لیا تھا کہ اس مرحلے پر اگر جذباتیت کا مظاہرہ کیا گیا تو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے-اس حکمت عملی کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے جن لوگوں نے جذباتیت کا مظاہرہ کیا اور صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا وہ امیر شام کی بربریت اور خون آشامی کی بھینٹ چڑھ گئے-حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کی بہیمانہ شہادت اس کا کھلا ثبوت ہے-اس کے بعد زیاد نے کوفہ میں جو مظالم ڈھائے اور جس طرح یک جبر محبان اہل بیت پر روا رکھا گیا اس سے بھی امام حسن کی دور اندیشی کا اندازہ ہوتا ہے-آپ نے انقلابی دستے کی زندگی کو بچانے اور ان کی تنظیم کرنے کی اپنی سی کوشش کی-

لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ امام کی اس حکمت عملی کا ٹھیک ٹھیک اندازاہ کرنے سے خود آپ کے رفقاء کی اکثریت قاصر رہی-بہت سے سادہ لوح لوگوں نے اس وقتی پسپائی کو مکمل شکست خیال کیا اور وہ امام حسن کی تزویراتی حکمت عملی کا ادراک کرنے  سے قاصر رہے-امام حسن نے اپنے سے محبت کرنے والوں کو بارہا کہا کہ وہ ابھی اپنے گھر رہیں خود کو شک کی زد میں آنے سے بچائیں –اور زیر زمین خود کو منظم کریں مگر جذباتیت عقل اور بصیرت پر غالب آتی رہی اور امیر شام کو موقعہ ملتا رہا آپ کی تنظیم کو منتشر کرنے کا-

مدینہ میں مروان امام حسن اور اہل بیعت کے خلاف مسلسل سازش میں مصروف تھا-وہ امام حسن کو اپنے راستے کی سب سے بڑی دیوار خیال کرتا تھا-اس نے امیر شام کو یہ باور کرادیا کہ امام کی زندگی ان کے منصوبوں کی راہ میں روکاوٹ بنی رہے گی اس لیے اس نے آپ کے قتل کی سازش تیار کی-ایسا لگتا ہے کہ امام حسن کو بھی اپنے ارد گرد منڈلانے والے خطرات کا احساس ہوچلا تھا-آپ نے اپنی کوششیں تیز کرڈالی تھیں-لیکن اجل کا پیغام آپ کی کوششوں سے تیز نکلا اور آپ کو ذھر دے دیا گیا-صفر کا مہینہ تھا جب آپ کی شہادت قریب آگئی تو آپ نے اپنے بھائی اور جانشین امام حسین علیہ السلام کو نصحیت کی کہ امیر شام کے زندہ رہنے تک قیام کی کوشش نہ کی جائے اور وقت کا انتظار کیا جائے-آپ نے اپنی تدفین کے معاملے کو لڑائی تک نہ لیجانے کی وصیت بھی کی-مروان نے جنازہ سبط رسول پر تیروں کی بارش اس لیے کی تھی کہ اہل بیت کو جڑ سے اکھاڑنے کا موقعہ مل جائے-لیکن امام حسین نے کیسی بھی جذباتی اقدام سے گریز کیا-اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ آپ نے نہايت سکون کے ساتھ امام حسن کی وفات کے 11 سال بعد تک مدینہ میں خاموشی سے کیموفلاج ہوکر تحریک انقلاب و مزاحمت کی رہبری جاری رکھی-امام حسن کے واسطے سے میراث مزاحمت و انکار آپ کو منتقل ہوئی تھی-امام حسن نے اپنی شہادت کا جام پینے تک مذھب اہل بیت اطہار کی حفاظت میں کوئی کمی نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے اس کے اصولوں میں کوئی تبدیلی کی-

امام حسن علیہ السلام نے کامیاب حکمت عملی کے ساتھ  اپنے رفقاء کی جماعت کا تحفظ کیا اور ساتھ ساتھ انہوں نے شامیوں اور اموی حاکم کو بے نقاب بھی کیا-اہل عراق کی سادہ لوح عوام کے بہت سے فکری مغالطے بھی دور کرنے میں مدد ملی-اس وقت کی مسلم سلطنت میں شامی ملوکیت نے غلاموں ،کسانوں ،مزارعین اور دستکاروں نیز ذمیوں اور نو مسلموں پر جو ظلم و ستم کا بازار گرم کیا اس نے امام علی اور امام حسن کی کی گئی پیشن گوئیوں کو درست ثابت کرڈالا-جبر،استحصال بہت جلد حقیقت بنکر اہل عراق کے سامنے آگئے اور ہوس اقتدار کی ریشہ دوانیوں نے مجسم شکل اختیار کرلی-اور لیکن اس سب کے باوجود امیر شام کو اپنی حکومت کا آخلاقی جواز اب تک میسر نہيں آسکا تھا-امام حسن نے اس دوران صبر کامل کا مظاہرہ کرکے دکھایا-آپ تاریک رات کے ختم ہونے کا انتظار کررہے تھے-اور اپنے شیعہ کو تحریک تشیع کو خفیہ طور پر چلانے کی تلقین بھی کررہے تھے-کہا جاتا ہے کہ ان دنوں حجاز،مکّہ مکرمہ،مدینۃ المنورہ ،عراق کے شہر امیر شام کے جاسوسوں سے بھرے پڑے تھے-اور وہ امام کے پیرؤں کی بو سونگھتے پھرتے تھے-لیکن امام حسن کے تدبر اور حکمت نے انھیں امام کی تحریک کے خلاف کریک ڈاؤن کا موقعہ نہين دے رہی تھی-اس لیے امام حسن کی زندگی کے خاتمے کی سازش تیار کی گئی اور اس کو عملی جامہ پہنادیا گیا-

اللہ پاک ہم سب کو اسوہ امام حسن علیہ السلام پر عمل پیراء ہونے اور ان جیسی بصیرت رکھنے والی قیادت عطاء فرمائے جوکہ انقلابیوں کی درست رہنمائی کرے-آپ احباب سے انشاءاللہ کل تیسری شب محرم ملاقات ہوگی اور گفتگو بھی یہیں سے آگے بڑھے گی-

اللھم صلی علی محمد وآل محمد۔اللھم بارک علی من نصر دین محمد و آل محمد

Comments

comments

Latest Comments
  1. Nike Air Jordan IV (4)
    -
  2. Mulberry Briefcases
    -
  3. Nike Free 3.0 V4 Women Shoes
    -
  4. Nike Kobe 8
    -
  5. Air Jordan 4
    -
  6. Air Jordan 1
    -
  7. Nike Free 6.0 2013
    -
  8. Air Jordan Spiz'ike
    -
  9. Air Jordan CP3.VI
    -
  10. Bottega Veneta
    -
  11. Men bag
    -
  12. Lunette Oakley
    -
  13. Christian Louboutin Soirée
    -
  14. Cheetah Print Jordan Shoes
    -
  15. Ulysse Nardin
    -
  16. Womens Jordan Shoes
    -
  17. WOMEN
    -
  18. Burberry Watch
    -
  19. Women's Watches
    -
  20. Adidas Stan Smith Soldes
    -
  21. Prada Top Handle
    -
  22. SOFT CALF
    -
  23. Prada
    -
  24. Survetement Polo Pas cher
    -
  25. ACCESORIOS
    -
  26. Hermes Shoulder
    -
  27. Cinturones
    -
  28. Diorissimo Mini Bag
    -
  29. Nike Air Max TN
    -
  30. New Balance 1300 Mens
    -