حقیقت مذھب اہل بیت: عشرہ محرم کی پہلی تقریر

حقیقت مذھب اہل بیت اطہار

بسم اللہ الرحمان الرحیم۔الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ و السلام علی محمد وآل محمد۔

السلام علیکم

آج پہلی شب محرم ہے-آپ اور میں یہاں اس لیے موجود ہیں کہ ہم مذھب اہل بیت کی معرفت کی سیڑھیاں چڑھنے کی کوشش کریں-گذشتہ سال آپ نے مجھے کہا تھا کہ میں عاشورہ میں دس راتوں میں “حسینیت اور عصر حاضر”کے موضوع پر بات کروں-میں نے آپ لوگوں کی بات کو مانا تھا اور محبت اہل بیت اطہار کی برکت سے میں اس قابل ہوا تھا کہ گذشتہ سال دس راتوں میں حسینیت بارے کچھ نکات تلاش کرسکوں-

اس عاشورہ کے آغاز سے قبل مجھ سے میرے دوست نے کہا کہ اس مرتبہ مجھے مذھب اہل بیت اطہار کو اپنا موضوع بنانا چاہئیے-اور میں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسی موضوع کو ان دس راتوں میں اپنی گفتگو کو محور بنانے کا فیصلہ کیا ہے-

مجھے اپنے دوست کی یہ تجویز اس لیے بھی مناسب معلوم ہوئی کہ اس وقت مسلم دنیا میں ایک بہت بڑا فتنہ سراٹھائے ہوئے ہے جسے ہم تکفیری فتنہ کہتے ہیں-یہ فتنہ مسلم دنیا میں خصوصی طور پر دنیائے عالم میں عمومی طور پر فساد برپا کئے ہوئے ہے-اس تکفیری فتنہ کا سب سے بڑا نشانہ مذھب اہل بیت کے ماننے والے بنے ہوئے ہیں-اس تکفیری فتنہ کے جو علمبردار ہیں وہ اس مذھب کے بارے میں ایک نفرت انگیز اور زھریلا پروپیگنڈا کررہے ہیں-اور اس کی صورت کو مسخ کررہے ہیں-جبکہ مذھب اہل بیت کے ماننے والوں کو اپنے اندر سے ان لوگوں سے سخت خطرہ ہے جو اس کو مسخ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں-

تکفیری اور خارجی فتنہ اس مذھب اہل بیت اطہار کے خلاف ابھارنے میں خلیجی ممالک کی بادشاہتوں ،پاکستان کی ریاست کے اداروں میں بیٹھے تکفیری بنیاد پرست انتہا پسندوں کا پیدا کردہ ہے اور اپنے مذموم مقاصد کے لیے اس فتنے کو بڑھایا جارہا ہے-

ہمیں اس فتنے کی بیخ کنی کرنے کے لیے مذھب اہل بیت اطہار کی حقیقت کو لوگوں پر ظاہر کرنی کی ضرورت ہے-میں کہتا ہوں کہ اگر ہم حقیقت مذھب اہل بیت اطہار پر بات کرتے ہوئے اس کو سماجی،عمرانی،سیاسی اور معاشی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس کو ایک کلامی یا مناظرانہ شکل میں بدلنے کی ضرورت نہیں ہے-

اس تمہید کے بعد میں آپ خواتین و حضرات کا زیادہ وقت نہیں لوں گا-مجھے تو آپ کو یہ بتانا ہے کہ اگر آپ کو مذھب کے ورود بارے جاننے میں دلچسپی ہے تو آپ  تاریخ کے اولین ماخذ دیکھ لیں سب میں یہ بات مشترک ہوگی کہ جب بھی سماج میں ارسٹو کریسی اور سمجھوتے بازی کا اتحاد ہوا اور یہ دونوں غالب آگئے تو اس کو چیلنچ مذھب نے کیا اور اس نے ارسٹوکریسی و سمجھوتے بازی کو رد کرڈالا-پیغمبر جو بھی تھا اس نے اشراف پنے کو چیلنج کیا جبکہ سماج میں اس ارسٹوکریسی سے مصالحت کرنے کی جو روش چل پڑی تھی اس کو بھی للکارا-اور ڈاکٹر علی شریعتی کے بقول مذھب حق نے ہمیشہ “لا” کہا اور یہ “لا” ارسٹوکریسی اور کلچر آف کمپرومائز کے لیے تھا-

قران پاک سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل میں جتنے بھی انبیا آئے انہوں نے اشراف اور خود غرضوں کو لا کہا-اور ان کے لا کہنے کے قصّے ہم قران میں جابجا دیکھتے ہیں-

یہ لا کہنے کا مقصد اصل میں خود کو مظلوموں اور انصاف کے متلاشیوں کے ساتھ کھڑا کرنا تھا-اور ظالموں کو للکارنا تھا-

یہ لا ہم نے نوح سے ابراھیم سے اور دیگر انبیا سے سنی اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حجاز کے اندر سرداران قریش کے مقابل ان کی بدمعاشیوں کے آگے نہ کہا جانا سنا-

حجاز میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکّہ کے اندر قائم قریش کی اشرافیت کے رنگ میں رنگے جانے سے انکار کیا-قریش کے اشراف نے اس مقصد کی خاطر بنو ہاشم کے ہر ایک فرد تک رسائی حاصل کی-تاریخ میں سرداران قریش کی جانب سے ابی طالب جوکہ بنو ہاشم قبیلہ کے سردار تھے کی جانب نمائندہ وفد بھیجے جانے کا زکر ملتا ہے-اور یہ وفد ابی طالب کو کہتا کہ وہ اپنے بھتیجے کو مکّہ کےسوشل سسٹم کو چیلنج کرنے سے روکیں-اور اس کے بدلے میں ان کو بہت سی دولت اور ان کی پسند کی عورت سے شادی کی پیشکش بھی کی گئی-اسی طرح کا ایک وفد قریش کے اشراف نے آنحضرت کے چچا حمزہ کے پاس بھی بھیجا تھا-اور اس طرح قریش نے حضور کے چچا عباس جوکہ اسلام لیکر نہیں آئے تھے کو بھی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بھیجا تھا کہ وہ ان کو مکّہ کے سماجی-معاشی نظام کو رد کرنے اور اس پر استوار ہونے والی مابعدالطبیعات کی نفی کو واپس لینے پر رضامند کریں-مگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اشرافی نظام اور اس کو جواز دینے والی مذھبیت جسے قران شرک سے تعبیر کرتا ہے کو ماننے سے انکار کرڈالا-تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ اہل قریش نے یہ بھی کوشش کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی درمیانی راہ نکال لیں جس سے ان کا سوشل سسٹم اور سیاسی ضابطے متاثر ںہ ہوں لیکن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح کی سمجھوتہ بازی سے بھی انکار کرڈالا-

محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارسٹوکریسی اور کمپرومائز کو رد کرتے ہوئے ان کی جگہ انصاف ،برابری ،اخوت اور انسانیت کی اقدار کا علم بلند کیا اور اس کی بنیاد توحید کو قرار دیا-وحدت بنی نوع انسان کا بہت سادہ سا طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اختیار کیا-کہ جو بھی ظلم اور ناانصافی کو جواز دینے والے ںظام شرک کی نفی کرے لا الہ کہے اور پھر انصاف و عدل کے نظام کو قبول کرے یعنی توحید کا اقرار کرے الا اللہ کہے اور عدل کے منبع محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول ہونے کی گواہی دے یعنی معمد رسول اللہ کہے وہ ایک امت اور ایک جماعت کا رکن ہے-ایسی امت کے سارے لوگ آپس میں رشتہ اخوت میں بندھے ہوئے ہیں-اور ایسی امت کی معاشرت میں عدل اور انصاف ہی سب سے بہترین اقدار ہیں اور اس معاشرت میں طبقات کی اونچ نیچ کا کوئی تصور نہیں ہے-

یہ تصور جو ایک بھرپور قسم کی نفی سے شروع ہوتا ہے اور پھر ایک انقلابی اثبات پر منتج ہوتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعجاز تھا-

آپ نے مکّہ سے ہجرت کی اور مدینہ میں اپنے انقلابی اثبات کی آئینہ دار سوسائٹی کی تعمیر کا عمل شروع کیا-اور جب آپ کی وفات ہونے لگی تو آپ نے حجاز کے سامنے ایک نمونہ معاشرت ضرور رکھ دیا تھا اور قران ،سنت اور ان دونوں کے اطلاق کے لیے آپ نے عترت کی پیروی کرنے کا حکم بھی صادر کیا تھا-

محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جب وفات ہوئی تو انحراف کا آغاز ہوگیا اور ثقیفہ میں جمع ہونے والوں نے یہ بات نظر انداز کرڈالی کہ قران میں آیت تطہیر کا نزول،غدیر خم پر اکمال دین کی آیت کے نزول اور پھر قران میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کو اللہ تبارک و تعالی سبحانہ کی جانب سے مودّت القربی کا سوال امت سے کرنے کی تعلیم اور آپ کا اصحاب کا ایک اجتماع کرکے ان میں ثقلین کو ورثے کے طور پر چھوڑ کر جانے کا زکر کرنے سے مقصود کیا تھا-

ثقیفہ میں جس انحراف کی بنیاد پڑی اس انحراف کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علوم کے وارث امام علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ماننے سے انکار کردیا-اور یہ انکار عین سنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء تھی-اور آپ نے مصلحت کے طور پر اس بارے خاموشی اختیار کرنا مناسب خیال نہ کیا-بعد از وفات یہ انحراف پرانی ارسٹوکریسی کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی طرف لے جانے والا اقدام تھا-امام علی نے اس کا بخوبی ادراک کی اور جن لوگوں نے قران و سنت جس گھر میں نشوونما پاتا رہا اس گھر میں موجود ثقل اکبر کو ترک کیا ان کی غلطی کو علی نے اسی وقت ان پر ظاہر کرڈالا-جس کا احساس خلیفہ اول کو اس وقت شدت سے ہوا جب وہ ثقل اکبر کے گھر تشریف لے گئے اور ثقل اکبر نے ان کو قرانی احکام اور ان کے نزول کے اسباب ،ارشادات پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گوش گزار کیے-اور تاریخ نے اس مکالمے کو درج کرنے کے بعد خلیفہ کی پیشمانی کا زکر کیا ہے-

انحراف اور روش انقلاب سے ہٹنے کے عمل پر ایک احتجاج محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ سلام اللہ علیھا نے بھی ریکارڑ کرایا-آپ خلیفہ اول کے پاس گئیں اور ان سے اپنا حق طلب کیا اور جب انہوں نے ایک تاویل سے اس حق کو دینے سے انکار کیا تو صحیح البخاری میں مسلم بن شہاب زھری نے حدیث روآیت کی کہ آپ نے ان سے کلام تر ک کردیا اور آپ کی وفات ہوگئی-بعض کتب تواریخ آپ کی یہ وصیت بھی درج کرتی ہیں کہ آپ نے اپنے جنازے میں سوائے بنو ہاشم اور چند ایک اور اصحاب رسول کی شرکت کی اجازت دینے کے کسی اور کے لیے یہ اجازت مرحمت نہ کی-آپ کی یہ لاتعلقی دراصل ایک احتجاج تھا اس انحراف کے خلاف جو ثقیفہ میں ہوا اور جب اس انحراف پر آپ نے اپنے  دو بچوں کے ساتھ مدینہ کی گلیوں میں جاکر مدد طلب کی لیکن سوائے چند ایک کے کسی نے بھی مدد نہ کی تو اس کے خلاف بھی یہ آپ کا احتجاج تھا-تاریخ بنت رسول اللہ کی راتوں کو عبادت اور پھر اس کے بعد گریہ اور آہ و زاری کا زکر کرتی ہے اور آپ کے فراق رسول میں غم سے گھلنے کا زکر کرتی ہے اور آپ کی جانب سے بار بار ملاقات رسول کے لیے دعا کرنے کا زکر ملتا ہے-یہ اصل میں اس انحراف کے خلاف احتجاج کے دوران آپ کی بے قدری کئے جانے کا فطری ردعمل تھا جس کی توقع فاطمہ بنت رسول اللہ کو نہیں تھی-خود علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو بھی یہ توقع نہ تھی کہ وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فوری بعد ان کے ساتھ اہل مدینہ یہ سلوک کریں گے –اسی لیے تاریخ ہمیں علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی گوشہ نشینی کا تذکرہ ملتا ہے-

علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور فاطمہ بنت رسول اللہ  سمیت اہل بیت اطہار کے گھرانے کی لاتعلقی اور ان کی جانب سے خاموش احتجاج بھی اتنا موثر تھا کہ خلیفہ اول ان کے گھر گئے اور ان سے بیعت کی درخواست کی اور یہاں ہونے والے مکالمے بارے ایک تذکرہ میں آپ سے کرچکا ہوں-یہ جو خطبہ شقشقیہ ہے نہج البلاغہ میں یہ اسی صورت حال کی ایک ہلکی سی جھلک ہمیں دکھاتا ہے-

فاطمہ بنت رسول اللہ کا گھر جو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر سے ملا ہوا تھا گارے اور مٹی سے بنا کچا مکان تھا-یہ مکان انحراف کے خلاف انکار کی صدا بلند کرنے والا پہلا گھر بنا اور یہیں سے اس جدوجہد کا آغاز ہوا جسے ہم تحریک تشیع یا مذھب اہل بیت اطہار کہتے ہیں-

یہ وہ گھر تھا جس کے مکین نے حرف انکار کو ثقیفہ کے بعد نامزدگی کے موقع پر بلند کیا اور پھر جب شوری بنی تو عبدالرحمان بن عوف نے انحراف کو سنت خلفاء کہہ کر مستقل روائت بنانے کی کوشش کرتے ہوئے علی کو بیعت کا کہا تو پھر علی نے انکار کی صدا بلند کرڈالی-اور جب خلیفہ ثالث بے بس دکھائی دینے لگے اورگروہ بنو امیہ و مروان بن حکم انحراف قلیل کو انحراف کثیر میں بدلنے میں مشغول ہوگیا تو بھی امام علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اس مرتبہ زیادہ شدت اور سختی سے انحراف کے خلاف آواز بلند کی-اور جب بنو امیہ والے اور قریش کی پرانی باقیات پرانی اشرافیت کو بحال کرنے کے لیے خم ٹھونک کر میدان میں آئی اور ارسٹو کریسی کو خلیفہ ثالث کے خون میں رنگے کرتے اور حضرت نائلہ کی انگلیوں کی کٹی پوروں کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی اور تلوار کے زور پر اسلام کے ثمرات اور اس کی بنیادوں کو ہلانا شوع کیا-ظلم ،ناانصافی اور طبقاتی خلیج،عربی تعصب کی تشکیل اور مال بنانے کی ہوس کو قصاص ‏عثمان کے پردے میں چھپانے کی کوشش کی تو امام علی نے بھی مناسب خیال نہ کیا کہ اب صرف انکار تک محدود رہا جائے اور آپ نے ان طاقتوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا-

مذھب اہل بیت اطہار کی تشکيل انحراف کے خلاف انکار اور انقلاب کو بچانے اور اس کو اس کی اصلی حالت میں برقرار رکھنے کی کوششوں سے ہوئی-اور اس کا آغاز علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم نے کیا جوکہ ثقلین میں سے ایک ثقل کا حصہ تھے جو محمد وسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بعد معاشرے میں چھوڑ کر گئے تھے اور اس ثقل کو سب سے پہلے اہل مدینہ نے چھوڑا تھا-اور اس کے اثرات بعد کی ساری مسلم تاریخ پر مرتب ہوئے-

ڈاکٹر علی شریعتی نے سرخ شیعت میں لکھا تھا کہ

“مسلم تاریخ نے عجب راستہ اختیار کیا کہ اشراف اور گینگسٹر جیسے اموی بادشاہت،عباسی ملوکیت،سلجوق سلطان،منگول ،مغل،صفوی اور ترک ‏عثمانی خلفآء کو اپنی رھبری اور اپنے اوپر حکومت کرنے کا اختیار دے ڈالا اور ان کو قران و سنت کا امین بنادیا جبکہ جس گھر میں قران اور سنت کی پرورش ہوئی اس گھر کے مکینوں کو اس سے محروم کرڈالا”

مساجد اور قصر خلافت سے جب اہل بیت اطہار کو محروم کردیا گیا تو یہ فاطمہ کا کچہ گھر تھا جس کو انقلابیوں نے اپنا مرکز و محور بنالیا اور رہبری کا سفر اسی کچے مکان سے شروع ہوگیا-

وقت کبھی ایک جگہ تھما نہیں کرتا اور علی کرم اللہ وجہہ الکریم بھی ایک جگہ نہیں رکے-آپ نے ظلم،ناانصافی،اشرافیت اور سمجھوتہ بازی کی ثقافت کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھی اور اپنے شعور مزاحمت کو اپنی اولاد،اپنے پیرو میں منتقل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا-یہ سفر کیسی طرح کی ریاستی مدد اور کسی بھی طرح کی آسائش کے بغیر تھا-عرب اشرافیت اور قبائیلی ارسٹوکریسی کی بھرپور مخالفت کا آپ کو سامنا تھا-آپ کو ایک عرصہ میں دولت اور غلاموں کی قدر زائد سے مالا مال ہوجانے والی طاقتور کلاس کی سازشوں کا سامنا تھا-ایک سخت قسم کی بے ضمیر پروپیگنڈا مشین آپ کے خلاف سرگرم عمل تھی-درندگی سے بھرے ہوئے خون خوار قاتلوں کی ایک فوج آپ کے حامیوں کے خلاف مصروف جارحیت تھی اور دسیسہ کاری میں یکتا امیر شام کی پروپیگنڈا مشینری نے ایک منحرف قسم کے عراقی سماج میں اس قدر بدگمانیاں پھیلائیں کہ عراقیوں کے بعض قبیلے خارجیت کا شکار ہوگئے اور انہوں نے اپنی تلواریں باب شہر العلم پر سونت لیں-اور ان میں یہ گمراہی بڑی تیزی سے پھیلی کہ مسلم معاشرے میں اختلاف اور انتشار کی وجہ صرف امیر شام کی حرکات نہیں بلکہ اس میں خود امام وقت بھی شامل ہیں-بھلا اس سے زیادہ مشکل وقت بھی کسی رھبر یا قآئد پر آسکتا ہے-یہ وقت بھی علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر آیا اور وہ بتدریج انحراف کے خوگر لوگوں میں تنہا ہوتے چلے گئے-

آپ نے تمام تر مشکلات اور مصائب کے باوجود ہار نہيں مانی اور آپ نے ایک بات اپنے دوستوں اور دشمنوں سب پر واضح کردی کہ وہ پرانی اشرافیت کے آگے سرجھکانے والے نہیں ہیں اور نہ ہی کسی قیمت پر پرانے نظام سے سمجھوتہ کرنے والے ہیں-اس لڑائی میں اگر صرف وہی تنہا رہ گئے اور سب شام والوں کے ساتھ مل گئے تو بھی وہ لڑنا ترک نہیں کریں گے-یہ وہ عزم تھا جس نے مذھب اہل بیت اطہار کی خشت اول کی تعمیر کی-اور یہ تعمیر کرنے والا اپنی تمام تر تنہائی اور بے گانگی کے وجود حق پر قائم رہا-اور پھر رمضان کا مہینہ آگیا۔۔۔۔۔۔وہ مہینہ جس میں نزول قران شروع ہوا اور جس رات اس کا نزول ہوا اس رات کو ہزار راتوں سے افضل قرار دیا گیا اور انہی راتوں میں سے ایک طاق رات تھی جب علی ایک خارجی کی تلوار سے لگنے والے زخم کی تاب نہ لاتے ہوئے رفیق حقیقی سے جاملے-

علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر یہ حملہ مسجد میں ہوا تھا-اور مسجد وہ جگہ ہے جس میں داخل ہونے والے کو امان دئے جانے کا زکر کیا گیا-اور مسجد میں یہ حملہ اس دور کے مطابق خود کش حملہ ہی تھا-

آج زرا اپنے ارد گرد نظر دوڑا لیں کہ حق پر قائم رہنا،عدل اور انصاف کے علم کو تھامے رکھنا کس قدر مشکل کام ہے-اپنے مفادات کی جنگ لڑنے والے بالادست طبقات کیسے مذھبیت کا لبادہ اوڑھ کر تکفیر کی تیغ سے انسانیت کو ذبح کرنے کے درپے ہیں اور اس تکفیر کی تیغ کے جواب میں ایک طاقتور نفی اور انکار کی صدا بلند کرنے کی ضرورت ہے ویسا ہی انکار جیسا اہل بیت اطہار نے ثقیفہ سے لیکر شوری تک اور پھر دربار شام کی ریشہ دوانیوں کے مقابلے میں کیا تھا-علی کی شہادت نے مذھب اہل بیت اطہار کو ایک نئے مرحلے پر لاکھڑا کیا تھا-یہ مرحلہ امام حسن کرم اللہ وجہہ الکریم کی قیادت میں سر ہوا اور مذھب اہل بیت اطہار اس مرحلے سے کیسے سرخرو ہوا اس کا تذکرہ ہم انشاء اللہ کل دوسری شب محرم کو کریں گے-کیونکہ وقت زیادہ ہوچکا-میں نے آج کی نشست کے لیے جتنا وقت مقرر کیا تھا اس سے چند منٹ زیادہ ہوگئے-لیکن یہ تھوڑا سا وقت اس لیے زیادہ ہوگیا کہ مجھے آپ سے یہ بھی کہنا ہے کہ تکفیر کا فتنہ ایسا ہے جو آپ سب کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور اس فتنے نے یہ طے کرلیا ہے کہ ان کے سورماؤں نے جو مظالم اور جو فتنے ماضی میں اہل بیت اطہار کے خلاف کھڑے کئے تھے اور ان کے خلاف جو مزاحمت اہل حق نے دکھائی تھی ان کا تذکرہ عام نہ ہو-ان ایام کی یاد میں برپا ہونے والی مجالس عزا اور جلوس ہائے ‏عزاداری کو لائسنسوں اور مخصوص راستوں اور سنسر کی گئی تقریروں اور ان خطبیوں تک محدود کردیا جائے جو مذھب اہل بیت اطہار کی مزاحمتوں کی علامتوں سے پرھیز کریں اور علی کے حرف انکار کو چھپا لیں –آج کی ارسٹوکریسی اور سمجھوتہ باز پارٹیوں کو جواز دے ڈالیں-ہمیں یہ جواز مانگنے والوں کے سامنے انکار کی سنت کو زندہ کرنا ہوگا-

اللھم صلی علی محمد وآل محمد

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. Akmal Zaidi
    -
  3. Nike Air Max 95 360 BB Man
    -
  4. Air Max 95 DYN FW Mens
    -
  5. Air Jordan 14 Retro
    -
  6. Air Jordan 4
    -
  7. Jordan 6 Rings
    -
  8. Louis vuitton 2011 Collection
    -
  9. Nike Free Run 2 Womens
    -
  10. Nike Free 3.0 V2 Womens
    -
  11. Adidas Shoes
    -
  12. NIKE AIR MAX 2013 Women Shoes
    -
  13. Calzado Nike Shox
    -
  14. Jordan 3
    -
  15. Balance 577
    -
  16. Platforms
    -
  17. Air Jordan Q4
    -
  18. Air Max Série Vente
    -
  19. Femmes Air Jordan 11 + Air Max
    -
  20. Mujer Air Max 90
    -
  21. Nike Free Run 3 Hombre
    -
  22. Adidas Orion 2
    -
  23. Nike Free Run
    -
  24. Zoom Terra Kiger
    -
  25. Hombres Anti-piel de Air Max 90 VT
    -
  26. Jordan Kids
    -
  27. Air Jordan True Flight
    -
  28. Scarf
    -
  29. Gucci Hobos bags
    -
  30. LV Mens Wallet (85)
    -
  31. Louis Vuitton Sistina
    -
  32. Mulberry Holdalls Mens Online
    -
  33. Camisetas Hermes
    -
  34. Acne
    -
  35. Miu Miu Carryall Bolsas
    -
  36. Constance
    -
  37. Casquette Gucci
    -
  38. Sac Celine Luggage Multicolore
    -
  39. Accessories Femme
    -
  40. Maillot Afrique du Sud
    -
  41. Burberry Scarf
    -
  42. Etui à Lunettes
    -
  43. Nike Air Yeezy 2
    -
  44. Nike Shox Classic
    -
  45. Nike Zoom Hyperflight
    -
  46. Men
    -
  47. Womens Nike Air Max 90 VT
    -