زندہ ہے گوئبلز زندہ ہے – از وسعت اللہ خان

pa48

ہٹلر کے وزیرِ اطلاعات جوزف گوئبلز کو جدید پروپیگنڈے کا باوا سمجھا جاتا ہے۔

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کی نفسیات اور کمزوریاں سمجھ کے ایک ہی بات کی تکرار سے چوکور کو دائرہ ثابت کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔

آگے فرماتے ہیں کہ کامیاب پروپیگنڈے کی بنیاد یہ ہے کہ آپ کتنے مختصر نکات کو کتنے زود ہضم طریقے سے کتنی دفعہ دھرا سکتے ہو۔حتیٰ کہ لوگ اسے ایک حقیقت کے طور پر قبول کرنے لگیں۔

قبلہ گوئبلز کا ایک قولِ زریں یہ بھی ہے کہ پروپیگنڈے میں دانشورانہ سچائی نہیں چلتی ۔پروپیگنڈے کو بس مقبولِ عام ہونا چاہیے۔

اگرچہ گوئبلز نے کوئی نیا نظریہ پیش نہیں کیا مگر اتنا ضرور کیا کہ صدیوں پرانے ہتھکنڈوں کو سائنسی انداز میں سامنے رکھ دیا۔پروپیگنڈہ مختصر عرصے میں فوری مقاصد کے حصول کے لیے ایک کامیاب ہتھیار ہے۔ مگر کسی پروپیگنڈے کے پیچھے بدنیتی، سچ اور جھوٹ کا تناسب کیا ہے؟

اس کا عموماً تب پتہ چلتا ہے جب پتہ چلنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا اور تب تک جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کے نئے طریقے پرانوں کی جگہ لے چکے ہوتے ہیں۔

جیسے دسویں صدی میں بغداد کے درباری علما نے عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کو یہ کہہ کر منصور حلاج کے ٹکڑے ٹکڑے کروا دیے کہ وہ انا الحق کا نعرہ لگا کے خدائی کا دعویٰ کر رہا ہے ۔مگر یہ نہیں بتایا کہ منصور حلاج آگے چل کے یہ بھی کہتا ہے کہ میں خدا کے کل کا ناقابلِ تقسیم جزو ہوں۔ جب لوگ بغرضِ ثواب منصور کو پتھر مار رہے تھے تو اسے ان پتھروں سے زیادہ اپنے دوست شبلی کے ہاتھ سے پڑنے والے پھول سے جھٹکا لگا۔شبلی۔۔۔۔تو تو حقیقت جانتا ہے۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔؟

آج مسلمان خدا کی ہمسری کے دعوے دار اسی مجذوب کے نام پر اپنے بچوں کے نام بخوشی اور فخریہ رکھتے ہیں اور انہیں کوئی پتھر نہیں مارتا۔

جیسے بارہویں صدی کے عظیم فلسفی، منطقی، حکیم، ریاضی داں، ماہرِ فلکیات، اور فقیہہ ابنِ رشد کو اندلس کے حکمراں یعقوب المنصور نے ملک بدر کر کے اس کا پورا کتب خانہ جلوا دیا ۔وجہ یہ تھی کہ ابنِ رشد کی اڑسٹھ کتابوں میں سے ایک میں فلاسفہِ یونان کے عقائد کا زکر کرتے ہوئے یہ جملہ بھی موجود تھا کہ’اور پھر یہ ثابت کیا گیا کہ زہرہ بھی خدا ہے ‘۔۔۔حاسدین نے اس جملے کو سیاق و سباق سے الگ کر کے خلیفہ کو قائل کر لیا کہ ابنِ رشد کے خیالات مشرکانہ ہیں۔ آج اسی ابنِ رشد کا فقہی کام بہت سے دینی مدارس کے نصاب کا حصہ ہے۔

جیسے ازمنہِ وسطی کے یورپ میں جب بھی پادریوں کو اپنے اخلاقی دیوالیہ پن سے عمومی توجہ ہٹوانا مقصود ہوتی تو وہ اعلان کروا دیتے کہ فلاں علاقے کا فلاں یہودی ایک عیسائی بچے کو ابال کے کھا گیا اور پھر خلقت پادریوں کی سچی رہنمائی میں یہودیوں کی صفائی کرنے نکل پڑتی۔

جیسے ہمارے بچپن میں کوئی چپکے سے کان میں کہہ جاتا تھا کہ شیعوں کے تعزیے دیکھنے مت جایا کرو۔یہ سنی بچوں کا خون چاول میں ڈال کے نیاز بانٹتے ہیں۔

جیسے مولانا مودودی سے یہ بیان بہت عرصے تک منسوب کیا جاتا رہا کہ کشمیر کے جہاد میں حصہ لینا حرام ہے۔جیسے بریلوی علما مولانا مودودی کو دشمنِ صحابہ ثابت کرتے رہے اور دیوبندی علما ان کے خیالات کو خارجیوں اور معتزلہ جیسا فتنہ اور مودودی مذہب بتاتے رہے۔( پھر ایک دن پی این اے اور پھر ایم ایم اے بھی بن گیا )۔

جیسے سن ستر کے انتخابات میں متحدہ دینی محاز اور جماعتِ اسلامی کی جانب سے یہ بات تواتر کے ساتھ پھیلانے کی کوشش ہوئی کہ بھٹو ایک لادین سرخا ہے اور ایسا نظام لانا چاہتا ہے جس میں عورتیں ہاتھ سے نکل جائیں اور مسجدوں کو تالے لگ جائیں۔اس کی رگوں میں ہندو خون دوڑ رہا ہے۔جو اسے ووٹ دے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔

( پھر بھی ستر کے انتخابات میں کروڑوں ووٹروں نے نکاح تڑوا لیے۔سرخے بھٹو نے احمدیوں کو اقلیت قرار دے دیا۔رگوں میں ہندو خون دوڑنے کے باوجود شراب پر پابندی لگا دی اور مساجد کو تالے لگانے کے بجائے جمعہ کی سرکاری چھٹی کر دی اور اب شہید بھی کہلاتا ہے)۔

جیسے مولانا فضل الرحمان عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہتے ہیں اور تحریکِ انصاف کو ووٹ دینا حرام قرار دیتے ہیں۔(پھر بھی تحریکِ انصاف دیوبندی مولانا کے آبائی صوبے پر معتزلہ اور خارجی سوچ رکھنے والی جماعتِ اسلامی کے ساتھ مل کے حکمرانی کر رہی ہے)۔

اور جیسے عمران خان مولانا فضل الرحمان کو ان کانگریس نواز علما کا وارث قرار دیتے ہیں جنھوں نے جناح صاحب کے لیے فتویٰ دیا تھا کہ یہ قائدِ اعظم نہیں کافرِ اعظم ہے۔اور یہ بھی کہ یہ وہی مولانا ہیں جو بقول وکی لیکس وزیرِاعظم بننے کے لیے ایک خاتون امریکی سفیر کے سامنے دوزانو ہو گئے تھے۔(پھر بھی دونوں خالص شریعت کے داعی طالبان سے مذاکرات کے پرزور حامی اور ڈرون حملوں کے مشترکہ مخالف ہیں)۔

ایسے میں ایک پندرہ سولہ برس کی مغربی ایجنٹ ’آئی ایم ملالہ‘ کس کھیت کی مولی ہے۔اور پرویز ہود بھائی جیسا جاہل نیوکلیئر سائنٹسٹ گوئبلزی دانشوروں کے سامنے بھلا کیا بیچتا ہے سالا ؟؟؟؟

 

Source :

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/11/131103_baat_se_baat_wusat_zz.shtml

Comments

comments