ابوجھل ثانی،کذاب اکبر اور معتوب ھود بھائی

اپنی دانش کے سبب معتوب جہلاء ڈاکٹر پرویز ھود بھائی
اپنی دانش کے سبب معتوب جہلاء ڈاکٹر پرویز ھود بھائی

ابو جھل ثانی و کذاب اکبر میں گھرا معتوب ھود بھائی

لیل و نہار /عامر حسینی

میں ڈاکٹر پرویز ھود بھائی سے 90ء کے عشرے میں اس وقت واقف ہوا تھا جب اقبال احمد پاکستان آئے ہوئے تھے اور انہوں نے پاکستان میں تعلیم کی ترقی کے لیے ایک یونیورسٹی “خلدونیہ”کے نام سے بنانے کی ٹھانی تھی –اس سلسلے میں انہوں نے ایک پریس کانفرنس اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب میں رکھی جس پر پر اسلامی جمعیت طلباء کے غنڈون نے حملہ کرڈالا تھا-مجھے بھی چند چوٹیں آئیں تھیں لیکن ان غنڈوں کو جانے پر مجبور کردیا گیا تھا-وہاں سے قائداعظم یونیورسٹی میں سٹاف کالونی کے اندر میں اپنے ایک دوست کے ساتھ پرویز ھود بھائی سے ملنے گیا تھا-اس ملاقات کے دوران پرویز ھود بھائی کی ساری گفتگو “داخلی اور خارجی امن ” “عقلیت پسندی،سستی جذباتیت سے پرھیز”اور پاکستان میں تعلیمی پسماندگی کے خاتمے بارے تھی-

اس ملاقات کے بعد ان کے آرٹیکل،ان کے لیکچررز اور ان کی مرتب کردہ مسلم سائینس دانوں پر کتاب اور ان کا “کاسموس”پر ایک ٹی وی سیريز اور قائداعظم یونیورسٹی میں ان کا قائم کردہ سائنس کلب سب سے میں واقف ہوتا رہا-میرے پاس ان کی سائنس پر لکھی ایک کتاب ان کے دستخطوں کے ساتھ موجود ہے-

ھود بھائی کی کتاب۔۔۔۔۔۔بھری محفل میں راز کی بات کہہ دی-بڑا گستاخ ہوں سزا چاہتا ہوں
ھود بھائی کی کتاب۔۔۔۔۔۔بھری محفل میں راز کی بات کہہ دی-بڑا گستاخ ہوں سزا چاہتا ہوں

اگر ڈاکٹر پرویز ھود بھائی کے افکار کا مفصل طور پر جائزہ لیا جائے تو ہم ان کی فکر کو کئی حصوں میں بانٹ کردیکھ سکتے ہیں-ان کی فکر کا ایک گوشہ مسلم سماج کی پسماندگی اور ترقی میں پیچھے رہ جانے کے اسباب سے متعلق ہے-وہ اپنے اکثر تجزیوں اور لکھتوں میں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ مسلم معاشروں کی ترقی کا سفر آٹھویں صدی عیسوی میں اس وقت رکا جب ان معاشروں کے حاکموں،وزیروں ،سپاہ سالاروں اور مذھبی پیشواؤں نے سماجی اور طبعی علوم پر پابندی عائد کی اور ان معاشروں میں سائنس اور فلسفے کی کتب جلادی گئیں-اجتہاد پر پابندی لگ گئی اور یوں مسلم معاشروں کی فکری بالیدگی پر جمود طاری ہوگیا-ایجادات،ابداع اور تخلیق کا مرکز عرب،فارس اور ہندوستان سے منتقل ہوکر یورپ چلاگیا-اس وقت سے لیکر آج تک مسلم معاشروں کا ایجاد،ابداع اور تخلیق میں حصّہ نہ ہونے کے برابر ہے-

Product Details

ان کی فکر کا دوسرا حصّہ ان کی اپنی دلچسپی اور ان کے اپنے موضوع تدریس سے تعلق رکھتا ہے-وہ نیوکلئیر فزکس کے مانے تانے استاد ہیں اور دنیا میں ایٹمی ہتھاروں کی تیاری کے سخت ترین مخالف ہیں-وہ اس معاملے میں دلائل کا ایک انبار رکھتے ہیں-وہ دنیا کے کسی بھی ملک کے پاس ایٹمی،کیمائی اور دیگر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھاروں کی موجودگی کے مخالف ہیں اور ان کو تلف کرنے کے حق میں ہیں-

ان کی فکر کا تیسرا حصّہ پاکستان کیسی ریاست بن چکا ہے؟اور اس کو کیسی ریاست ہونا چاہئے؟جیسے سوالوں کے گرد گھومتا ہے-وہ پاکستان کو ڈیپ سٹیٹ اور سیکورٹی سٹیٹ کی جانب بڑھتا دیکھتے ہیں اور اس ملک کی ملٹری اسٹبلشمنٹ،ملائیت،جاگیردار،مین سٹریم میڈیا میں پاکستان کی حکمران رجعت پرست پرتوں کے حامی تجزیہ نگاروں کو اس صورت حال کا زمہ دار خیال کرتے ہیں-وہ پاکستان کے 66 سالوں میں آنے والی حکومتوں اور میڈیا پر غلبہ کئے ہوئے دائیں بازو کے لوگوں اور فیک لبرلز کو پاکستان کی ریاست کی سماجی،معاشی،تعلیمی اور ذھنی پسماندگی کا زمہ دار خیال کرتے ہیں-وہ پاکستان کی نیشنل اور سیکورٹی پالیسی کے خالقوں کے سخت ناقد ہیں اور وہ افغان وار اور کشمیر تنازعہ کے دوران پاکستان کی مقتدر طاقتوں اور غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کی “نینشلسٹ اور اسلامسٹ جہادی پراکسی”کے سخت مخالف ہیں اور پاکستان کے اندر فرقہ واریت،نسلی بنیادوں پر پھیلنے والی انتہاپسندی اور دھشت گردی کو ان پراکسی جنگوں کا نتیجہ بتاتے ہیں-وہ پاکستان کو اس قسم کی جہادی پراکسیوں سے نکلنے کی تلقین کرتے ہیں-وہ پاکستان کے اسکولوں،کالجوں اور جامعات کے اندر پڑھائی جانے والی نصابی کتب اور میڈیا میں آنے والی تاریخ پاک و ہند بارے جھوٹی اور بے بنیاد باتوں اور ان میں مذھبی اقلیتوں کے بارے میں پائے جانے والے تعصب اور نفرت کی کھل کر مذمت کرتے ہیں-وہ پاکستان کے اندر روشن خیالی،تعقل پسندی اور خرد افروزی کے حق میں آواز اٹھانے والے چند لوگوں میں سے ایک ہیں-اور یہ ان کا بہت بڑا قصور ہے-کیونکہ ان کے ان خیالات کی براہ راست چوٹ اور ضرب ملٹری اسٹبلشمنٹ ،سول نوکر شاہی،عدلیہ،میڈیا اور تعلیمی اداروں میں بیٹھی ضیاءالحق کی باقیات پر پڑتی ہے-اور اس سے ایک طرف تو جہاد کے نام پر بزنس ایمپائر تعمیر کرنے والوں کے مفادات متاثر ہوتے ہیں تو نوجوان نسل کے اس باقیات کے سحر سے نکلنے کے امکانات بھی پیدا ہوجاتے ہیں-

ڈاکٹر پرویز ھود بھائی ،ڈاکٹر اے ایچ نئیر،ڈاکٹر مبارک علی،احمد سلیم ،پروفیسر مظفر علی خاں ایسے نام ہیں جنہوں نے اپنی روشن خیالی اور روشن گر فکر کا اسیر نوجوانوں کی بڑی تعداد کو کیا ہے-اور پاکستان میں نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی خاص طور پر پنجاب میں وجود میں آچکی ہے جس کو ریاست کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جہادی پراکسی،مذھبی انتہا پسند گروہوں کی آئیڈیالوجی سے کوغی ہمدردی نہیں رہی ہے-جو بھی پرویز ھود بھائی جیسے دانشوروں کی عقل اور استدلال پر مبنی باتیں سن لیتا ہے یا ان کو پڑھ لیتا ہے وہ بیمارذھنوں کی بیماری کا سبب جان لیتا ہے اور ان سے دور ہوکر “اعتدال پسند معقول”راستہ اختیار کرنے لگتا ہے-

معاشرے میں پائے جانے والے جہلاء اور ابو جہلاء آگاہی اور شعور کی روشنی کی چکاچوند سے اپنی خرمن جہالت کو جلتا دیکھ کرآگ بگولہ ہوجاتے ہیں-اور یہ ابو جہلاء پھر کوشش یہ کرتا ہے کسی بھی طرح سے ڈاکٹر پرویز ھود بھائی جیسے دانشوروں کی ذھنی،فکری موت کے ساتھ ساتھ ان کا جسمانی طور پر بھی خاتمہ کردیا جائے-اور اس کے لیے ان کے سر ایسا جرم تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے وہ مرتکب ہی نہیں ہوئے-

آج کل سچے اور دیانت دار جمہوری دانشوروں کو راستے سے ہٹانے کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا طریقہ پاکستان میں ایسے ٹاک شوز ہیں جہاں جمہوری سچے دانشوروں کو پورے حقائق سے بےخبر رکھکر بلایا جاتا ہے اور پھر ان دانشوروں کے ساتھ بلف کیا جاتا ہے-اور وہاں “ابوجہل ثانی ” اور ابو لہب دوم بھی ضرور ہوتے ہیں-اور پھر یہ جی بھر کر اپنے ہدف پر طعن اور ان کے خلاف ہتک آمیز باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے عقیدے اور مذھب بارے بھی غلط فہمیاں پھلائی جاتی ہیں-

ابو جہل ثانی انصار عباسی
ابو جہل ثانی انصار عباسی

ڈاکٹر پرویز ھود بھائی کے ساتھ اینکر کامران شاہد نے وہی سلوک کیا جو اینکرز نے سلمان تاثیر کے ساتھ کیا تھا-اور پورا زور یہ ثابت کرنے کے لیے لگایا کہ ھود بھائی واقعی ایجنٹ یہود و نصاری ہیں-اور وہ اسلام دشمن ہیں-

ابوجہل ثانی انصار(الشیطان)اور ابو للہب دوم اوریا مقبول جان دونوں تشریف فرما تھے کامران شاہد کے ساتھ اور دونوں نے ایک نکتے پر مرکوز کیا اور وہ نکتہ یہ تھا کہ بین السطور ثابت کردیا جائے کہ ڈاکٹر پرویز ھود بھائی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شعائر اسلام کی توھین کرنے والوں کے محافظ ہیں-

کذاب اکبر اوریا جان مقبول
کذاب اکبر اوریا جان مقبول

اصل میں انصار عباسی اور اوریا جان مقبول،اجمل نیازی اور دیگر کئی اور مکتب ضیاء الحق سے فارغ التحصیل ہونے والے انتہائی مکاری کے ساتھ پاکستان کی عوام کے ذھنوں میں یہ بات نقش کرنا چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر پرویز ھود بھائی سمیت اس ملک کے حقیقی روشن خیال ،سیکولر،لبرل روشن گر دانشور مغرب میں پیدا ہونے والے اسلاموفوبیا کے معماروں کی سوچ سے اتفاق کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں-یہ بہت مکاری کے ساتھ سیکولر اور لبرل ہونے کا مطلب یہ نکالتے ہیں کہ اس کا مطلب فتنہ فلم بنانے والے،گستاخانہ خاکے بنانے والے اور شیطانی آیات(نعوذ باللہ من ذالک کہ لفظ آیت کو شیطنت سے نسبت دی جائے)لکھنے والوں کی مدافعت کرنا یا ان کی حمائت کرنا ہے-یہ سیکولر کا مطلب لادین کرنے سے ایک درجہ آگے بڑھ کر سیکولر کا مطلب توھین و گستاخی مذھب کرنے والا بنادینے کی کوشش ہے جیسے انصار عباسی نے اپنے ایک اور کالم “ملالہ کے جاھل سپورٹر”میں کرنے کی کوشش کی ہے-انصار عباسی کو شرم نہیں آتی کہ وہ ایسی جاہلانہ باتیں عوام کے اندر پھیلاتا ہے اور عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کرتا ہے-

پاکستان میں روشن فکر دانشور نے کبھی بھی اسلامو فوبیا میں مبتلا مغربی دنیا کے لوگوں کی حمائت نہیں کی اور نہ ہی ان کے تعصبات کو کبھی اچھا خیال کیا-بلکہ یہ اس ملک کے روشن گر مفکرین اور دانشور ہیں جنہوں نے اسلام کے ساتھ وابستہ کی جانے والی غلط باتوں کو مذھبی پیشوائیت اور حکمران طبقات کی اپنے مفادات کے لیے اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے والی کوششوں کو بے نقاب کیا-انصار عباسی کٹھ ملائیت ،توھم پرستی،نامعقولیت پر مبنی رجعت پرستی پر ہونے والی تنقید کو بے ایمانی اور بد دیانتی کے ساتھ مذھب اور اسلام پر تنقید بناکر پیش کرتا ہے جو کسی روشن گر مفکر اور دانشور کا نہ تو مدعا ہے اور نہ ہی مقصود-

انصار عباسی اور ان کی طرح کے دیگر لوگ ایک صحت مند فکری جدال کو فساد اور تخریب میں بدلنے میں کوشاں ہیں-وہ مذھب اور سماج کے دیگر پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے روشن فکر دانشوروں کی فکر اور استدلال کو مسخ کرنے اور اپنا ہی مطلب نکالنے سے پرھیز نہیں کرتے-

ہمارے ٹاک شوز جو بہت کم وقت کے حامل ہوتے ہیں ایسے موضوعات کو زیر بحث لیکر آنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے لیے طویل وقت درکار ہے-اور وہ موضوعات ایک ٹاک شو یا ایک پروگرام میں ٹھیک طرح سے زیر بحث نہیں آسکتے اور پھر ان پر بات کرنے کے لیے انصار عباسی یا اوریا مقبول جان جیسے نیم ملاّ اور نیم حکیم ہرگز مناسب انتخاب نہیں ہیں-یہ لوگ سوائے انتشار اور فساد پھیلانے کے اور کچھ نہیں کرسکتے اور میرے خیال میں یہ فلاسفی،ایجوکیشن،سائنس اور سوشیالوجی سے متعلقہ علوم پر بات کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں-یہی وجہ ہے کہ ہم ان کو طبعی سائنسی علوم اور سماجی علوم کے ماہرین کے علم و تفقہ کی توھین کرتے ہوئے بارہا دیکھتے ہیں-

انصار عباسی اتنے بیمار ذھن ہیں کہ وہ یہ فرض کرکے آگے چلتے ہیں کہ پرویز ھود بھائی اور ان جیسے دوسرے اہل علم و دانش توھین مذھب اور گستاخی کرنے والوں کے عمل کو آزادی اظہار کے زمرے میں لانے والے ہیں اور پھر اس تہمت کے بل پر ان کی ڈگریوں اور ان کے علم و دانش کو ردی کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں-بھلا اس سے بڑا سفسطہ کوئی اور ہوسکتا ہے-مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ والا معاملہ ہے ابو جھلاء انصار عابسی کے ساتھ-

ڈاکٹر پرویز ھود بھائی کے کئی نظریات ایسے ہیں جن سے میں بھی اختلاف رکھتا ہوں-جیسے ان کے مسلم معاشروں کے زوال و پسماندگی بارے تاریخی تجزیوں میں سامراجیت اور کالونیل آزم اور پوسٹ کالونیل ازم جیسے اہم اور بنیادی عناصر کے زکر کی غیرموجودگی اور ان کا انتہاپسندی و دھشت گردی سے نمٹنے کے لیے امریکی سامراج کے افغانستان پر حملے اور پھر اس کے وہاں مستقل بنیادوں پر رہنے کی حمائت کرنا ایسے معاملات ہیں جن سے میں ہرگز اتفاق نہیں کرتا اور اس حوالے سے میرا موقف ان سے قطعی الٹ اور متضاد ہے-لیکن وہ جن سیکولر،لبرل اور روشن خیال اقدار کی علمبراداری کرتے ہیں میں ان سے اس معاملے پر صد فیصد اتفاق کرتا ہوں اور یہی اقدار ہیں جو جہلاء کے لیے سب سے زیادہ پریشانی کا سبب بنی ہوئی ہیں-

ڈاکٹر پرویز ھود بھائی کی مخالفت میں سٹریم میڈیا میں دایاں بازو ان کی سیکولر لبرل اقدار کی حمائت کی وجہ سے کرتا ہے اور ان کی جانب سے نام نہاد جہادی آئیڈیالوجی کی مخالفت بھی دایاں بازو کے لوگوں کو ان کے ساتھ دشمنی پر آمادہ کرتی ہےجبکہ ان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ میں بیٹھے ضیاءالحقی باقیات کے تصور ریاست کی مخالفت فیک لبرلز اور دایاں بازو کو ان کے خلاف یک زبان کردیتی ہے-

میری نظر سے سید عظیم کا ایک آرٹیکل گزرا جس میں انہوں نے ڈاکٹر پرویز ھود بھائی سمیت لبرل دانشوروں کے موقف اور پوزیشن کا تنقیدی جائزہ لیا ہے-میں سامراجیت کے سوال پر سید عظیم کے خیالات سے اتفاق کرتا ہوں لیکن سید عظیم سمیت بائیں بازو کے وہ دوست جو خود کو مارکسی انقلابی کہلاتے ہیں اور پاکستان میں دائیں بازو اور فیک لبرلز کی جانب سے پھلائی جانے والی تنگ نظری اور فکری انتشار اور انتہا پسندانہ خیالات کی بیخ کنی کرنے کے لیے سرگرم ںظر نہیں آتے ان سے یہ ضرور کہوں گا کہ وہ پاکستان میں انتہا پسندی اور رجعت پسندی کے سوال کو اس قدر ہلکا مت لیں اور اسے فقط چند لبرلز کا معاملہ کہہ کر اپنی زمہ داری سے سبکدوش ہوتے  مت رھیں-

Comments

comments

Latest Comments
  1. Usman R. Farooqi
    -
  2. younas
    -
  3. RAJA MUHAMMAD NAWAZ KAYANI
    -
  4. G.M Mangi
    -
  5. gowalmandia
    -
  6. Akaash Nisar
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.