خودی فیسٹول”انتہا پسندی کے بیانیہ کا مقابلہ حمہوری بیانیہ سے ہوسکتا ہے”
خودی فیسٹول۔۔۔۔۔۔۔۔۔انتہا پسند بیانیہ کا مقابلہ جمہوری بیانیہ سے ہوسکتا ہے
لیل ونہار/عامر حسینی
خودی پاکستان میں ایک برٹش انسداد انتہا پسندی تھنک ٹینک کی مقامی تنظیم ہے جو پاکستان کے اندر انتہا پسندی کے خاتمے اور ترقی پسند ،لبرل روایات کے فروغ کے لیے کام کررہی ہے-برٹش تھنک ٹینک دو ایسے پاکستانی نژاد برطانوی شہری(ماجد نواز،عید حسین)نے قائم کیا جوکہ پہلے ریڈکل اسلامسٹ تھے اور ان میں ماجد نواز حزب التحریر کے اہم رہنماء تھے جن کو حزب التحریر نے نوجوانی ہی میں اپنی تنظیم میں بھرتی کرلیا تھا-پھر مصر کی اس جیل میں ماجد نواز کی کایا کلپ ہوگئی جہاں کبھی اخوان المسلمون کے مرشد عام سید قطب قید رہے تھےاور انہوں نے وہاں بیٹھ کر وہ سب کچھ لکھا تھا جسے “گلوبل جہادی آئیڈیالوجی”کی خشت اول سے تعبیر کیا جاسکتا ہے-اور یہیں پر اخوان کے ایک اور مرشد نے تشدد اور انتہا پسندی کا راستہ ترک کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اعتدال پسند جمہوری جدوجہد کا ماڈل بنایا تھا جس پر بعد میں اخوان عمل پیرا ہوئی اور اس نے اپنی صف سے تشدد کے حامیوں کو نکال باہر کیا تھا-ماجد نواز بھی ریڈکل اسلام کے سحر سے جب باہر آئے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایسی شروعات کی جائے جس سے انتہا پسند اسلامی خیالات پر مبنی بیانیہ سے متاثر ہوجانے والوں کو واپس امن اور روشن خیالی کی جانب لایا جائے-
ماجد نواز ان دنوں امریکہ میں موجود ہیں اور وہ وہاں اپنی آٹو بائیوگرافی کی کتاب کی پرموشن اور اپنی تنظیم کے لیے فنڈ حاصل کرنے میں مصروف ہیں-انہوں نے یہ کتاب اپنے سفر مراجعت بارے لکھی ہے جو انہوں نے انتہا پسندی سے راستے سے واپس آکر کیا –ماجد نواز نے پاکستان میں خودی کے زریعے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی جس بڑی تعداد کو اپنے خیالات کی جانب مائل کیا اس نے لیبیا کی موجودہ حکومت کو بھی ان کی جانب متوجہ کیا ہے-اور لیبیا کی حکومت نے خودی کے ماڈل کو ان کے ہاں پہلی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے ماجد نواز کو دعوت دی ہے-
ماجد نواز کی کتاب
ماجد نواز نے حال ہی میں ایک امریکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اوبامہ حکومت انتہا پسندی کے خاتمے کو دھشت گردی کے خاتمے تک محدود کرچکی ہے اور وہ القائدہ جیسی تنظیموں کے خلاف ڈرون حملوں کو واحد دستیاب حکمت عملی خیال کررہی ہے جبکہ وہ انتہا پسندی کے بیانیہ کے مقابلے میں فوجی حکمت عملی سے ہٹ کر کوئی اور راہ اختیار کرنے پر نہیں سوچ رہی-ماجد نواز کے خیال میں انتہا پسند بیانیہ کا مقابلہ دھشت گرد تنظیموں کو مافیا سمجھ کر لڑنے کی حکمت عملی سے نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لیے جمہوری بیانیہ کی ضرورت ہے جو انتہا پسندانہ انٹی میڈیشن کے مقابلے میں جمہوری انٹی میڈیشن کو پروان چڑھائے-ان کے خیال میں ریڈیکل اسلام ازم کے مقابلے میں امریکی لبر ڈیموکریسی کو لایا گیا تو آخری فتح ریڈیکل اسلام کو ہوگی-
شايد یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور دیگر اس کے اتحادیوں کی جانب سے انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے جو گلوبل فنڈ فورم قائم کیا گیا ہے اس پر امریکی سٹمپ نہیں لگائی گئی اور اس کی شریک چئیر ترکی کے حوالے کی گئی ہے-یہ 10 سالہ پروگرام ہے جس کو ہر سال 20 ملین ڈالر ملیں گے اور یہ مقامی سظح پر انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے تیار ہونے والے پروگراموں پر خرچ کئے جائیں گے-خودی اور اس کی پیرنٹ آرگنائزشن اس کے بڑے شراکت دار بن کر سامنے آسکتے ہیں-
خودی پاکستان کی جانب سے لاہور میں علی انسٹیٹیوٹ کے آڈیٹوریم میں تین دن پر مشتمل ایک فیسٹول کا انعقاد کیا گیا-اس فیسٹول کے تمام سیسشن کا احاطہ تو ایک کالم میں ممکن نہیں ہے-لیکن کچھ چیزوں کا زکر بہت اہم ہے-میرے زمہ “آمریت کے خاتمے کے بعد جمہوریت کی طرف سفر کرنے والی منتخب حکومت کی مشکلات اور اس کی کارکردگی” کا جائزہ لینا اور اس پر نوجوانوں کی رائے کو مربوط کرنا تھا-اس سیشن میں چاروں صوبوں،وفاقی دارالحکومت،گلگت بلتستان اور فاٹا سے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی بہت بڑی تعداد شامل ہوئی اور میرے لیے بھی سارے پاکستان سے نوجوانوں کی رآئے جمہوریت کے عبوری سفر بارے جاننے کا یہ اہم موقعہ تھا-
ایک سیشن جوکہ جمہوریت بارے امید اور خدشات بارے تھا جس کے لیے پینل معروف اینکر فہد حسین،لمز میں پولیٹکل سائینس کے استاد تیمور رحمان اور مقامی انگریزی زبان کے روزنامے کے رپورٹر طاہر مہدی پر مشتمل تھا-اس پینل کے دو صحافی اور اینکر حضرات نے اپنی گفتگو میں نومنتخب حکومت کو اداروں پر کنٹرول کے حوالے سے ابتداء میں پیش آنے والی سخت مشکلات اور سول اور ملٹری نوکر شاہی اور ایکسٹرا جوڈیشل ایکٹوازم کی سخت ترین مزاحمت بارے کوئی بات نہ کی-اور پھر جمہوریت پر ان کی تنقید کا زاویہ وہ بھی نہیں تھا جو ہم ارون دھتی رائے کے مضامین میں ریاست،ڈیموکریسی اور منڈی کی معشیت کی باہمی رشتہ داری پر دیکھتے ہیں-تیمور رحمان واحد مقرر تھے جنہوں نے آمریت،نوکر شاہی اور مغربی سرمایہ داری اور بنیاد پرستی کے جمہوریت کے راستے میں روکاوٹیں کھڑی کرنے اور پاکستان میں جاگیرداری کی باقیات اور اس کے اثرات کا جمہوری پروسس کی نشوونماء روکنے میں کردار کا جائزہ لیا-
ایک اور سیشن میں تعلیمی ںظام اور انتہا پسندی کے باہمی رشتے پر قائد اعظم یونیورسٹی میں شعبہ نیوکلئیر فزکس کے استاد اور سماجی سائنس دان اے ایچ نئیر اور تعلیمی ںظام پر ایک وقیع کتاب کے مصنف اور ماہر تعلیم ارشد محمود نے بہت فکر انگیز گفتگو کی-دونوں اس بات پر متفق تھے کہ ہمارے ارباب حکومت آغاز کار سے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں جدید تعلیم کی راہ میں روکاوٹیں کھڑی کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے-ان دونوں کا اس بات پر اتفاق نظر آیا کہ پاکستان میں نصابی کتب میں مذھبیات کے داخلے نے فرقہ واریت،مذھبی اقلیتوں میں احساس محرومی اور سماجی علوم کو جمود کا شکار بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا-ارشد محمود کا کہنا تھا کہ ہمارے نصاب بنانے والے ڈاکثرائن تیار کرنے میں لگے رہے اور انہوں نے فلاسفی آف ایجوکیشن میں ہونے والی جدید ترین پیش رفت کو ایک طرف پھینک دیا-اے ایچ نئیر اور ارشد محمود دونوں نے تاریخ کو مسخ کرنے کے عمل کو نوجوانوں کی تباہی کا عمل قرار دیا اور کہا کہ آج قوم کے اندر اگرخود احتسابی نہیں ہے تو اس کی ایک وجہ تاریخ کو بطور ایک لازمی مضمون کے پڑھانے سے انکار اور 70ء کی دھائی میں بھٹو حکومت کی جانب سے تاریخ کی جگہ مطالعہ پاکستان اور معاشرتی علوم کو جغرافیہ کی جگہ لانا تھا-
ایک اور یاد گار سیشن وہ تھا جس میں تنویر جہاں،مولانا مودودی کے فرزند ارجمند فاروق حیدر مودودی اور دو دیگر افراد شامل تھے-اس سیشن میں بہت یادگار باتیں ہوئیں-لیکن فاروق حیدر مودودی نے یہاں پاکستان کی مخالفت کرنے والے مولانا مودودی کا جس طرح سے دفاع کرنے کی کوشش کی اور سارا زور اس بات پر لگایا کہ پاکستان میں آج جتنی بھی مذھبی منافرت اور انتہا پسندی پھیلی ہوئی ہے اس کی ساری زمہ داری بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور اقبال پر عائد ہوتی ہے وہ بہت افسوس ناک تھا-ایسے میں شائد وہ مولانا مودودی کا کیس اور خراب کربیٹھے-مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ وہ بڑے دھڑلے سے سیاست میں فرقہ وارانہ ایڈیشن کا الزام جناح پر لگاگئے جبکہ پاکستان میں جتنی بھی فرقہ وارانہ اور انتہا پسندانہ تحریکیں چلیں ان کی قیادت میں سب سے آگے مخالفین پاکستان تھے اور ان کی اکثر تعداد مذھبی لوگوں پر مشتمل تھی-میں تو بلکہ یہ کہتا ہوں کہ کانگریسی مولویوں نے پاکستان میں فساد پھیلایا ہی اپنے اکابرین کی اس بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے تھا کہ پاکستان مسائلستان ثابت ہوگا-اور پاکستان کو آج نظری محاذ پر جن مشکلات کا سامنا ہے ان کی اکثریت مخالفین پاکستان کی نیابت کے منصب پر بیٹھنے والوں کی پیدا کردہ ہیں-
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء میاں افتخارالدین نے بہت تاریخی تقریر کی اور نوجوان ان کی ہمت اور جرآت سے بہت متاثر نظر آئے-ہال میں سب سے زیادہ داد ان کے حصے میں آئی-
مجھے ان تین دنوں میں پورے پاکستان سے آئے نوجوانوں سے مکالمہ کرنے اور ان کی رآئے جاننے کا موقعہ ملا-خودی پاکستان کے اہم ترین رہنماؤں میں شمار ہونے والے رب نواز جن سے میں اس وقت رابطے میں آیا تھا جب وہ پنجاب یونیورسٹی میں لاء کے سٹوڈنٹ تھے اور انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلباء کے فاشزم کو توڑنے کے لیے یو ایس ایف کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا-مجھے ان دنوں یو ایس ایف اور پی ایس ایف،آئی ایس او نے پنجاب یونیورسٹی میں فسطائت کے خلاف طلباء و طالبات کو نظریاتی طور پر مسلح کرنے کے لیے مدعو کیا تھا-یونیورسٹی میں قیام کے دنوں میں رب نواز کی قائدانہ صلاحیتوں کو جاننے اور پہچاننے کا موقعہ ملا اور خودی کے لیے بھی وہ ایک اثاثہ ثابت ہوئے-
خودی فیسٹول کی آرگنائزنگ ٹیم کے ھیڈ رب نواز
یہیں پر العمل تنظیم کی بانی سیدہ قرۃ العین زیدی جوکہ میرے شہر خانیوال سے تعلق رکھتی ہیں اور میرے محترم بزرگ ساتھی سید ضیاء حیدر زیدی ایڈوکیٹ کی بیٹی ہیں سے ملاقات ہوئی-ان کی پوری ٹیم نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل ہے-وہ انقلابی نظم بھی لکھتی ہیں-اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے نوجوان لڑکیوں میں بہت کام کررہی ہیں-لاء کی طالبہ ہیں اور ساتھ ساتھ روشن خیالی کے لیے بہت سرگرم ہیں-
خودی کے لیے کام کرنے والے نوجوان رضاکاروں کی ٹیم اور تھیٹر پرفارم کرنے والے اور کلاسیکل رقص کے حوالے سے پرفارمنس دینے والی معروف آرٹسٹ سعید ابراھیم کی بیٹی کو دیکھ کر پاکستان کے اندر نوجوان نسل کی صلاحیتوں پر اعتماد مزید بڑھ گیا-
اس دوران میجر شہزاد نئیر اور اسد فاطمی کی شاعری نے مجھے بہت محظوظ کیا-میجر شہزاد نئیر سے ایک رات اور دو دن کی ملاقات خوب رہی-ان کی نئی کتاب کا تحفہ میرے لیے بہت قیمتی ثابت ہوا-
اس فیسٹول کے دوران وزرات داخلہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے سید احسن عباس رضوی اور پی ایس ایف کے نوجوان رہنماء طارق خٹک،ارمغان اور سبط حسن سے بھی ملاقاتیں ہوئیں-سید احسن عباس رضوی سے فون اور فیس بک پر بہت رابطہ تھا مگر یہ ملاقات بہت جاندار رہی-احسن عباس رضوی اور میں پی پی پی سکالر ونگ میں فرح ناز اصہفانی کی قیادت میں اکٹھے کام کرتے رہے ہیں-اور احسن عباس رضوی نے انتہا پسند نظریات کے خلاف لاہور کی نوجوان نسل میں بہت کام کیا اور ان کی نوجوانوں میں مقبولیت سے اس کا اظہار بھی ہورہا تھا-مجھے افسوس رہے گا کہ میں اس دوران نذیر قیصر کے بیٹے جنید قیصر سے نہ مل سکا-لاہور میں بہت سے ایسے نوجوان لکھاری ہیں جن کو خودی کے آرگن لالٹین نے دریافت کیا ہے یا پھر تعمیر پاکستان سائٹ کی ادارتی ٹیم نے دریافت کیا اور وہ اس قوم کے لیے اثاثہ ثابت ہونے والے ہیں جن میں سے جنید قیصر ایک ہیں-
Comments
Tags: انتہا پسندی
Latest Comments
Indeed a comprehensive account of Khudi and its Khudi Festival of Ideas.