سانحہ سہراب گوٹھہ.ظلم کا ایک سیاہ باب

جب بھی حقوق کے لئے مظلوم عوام کھڑے ہوتے ہیں تو استحصالی قوتیں حقوق کے لئے  کام  کرنی والی تنظیموں کو ظلم اور ستم کا نشانہ بنا کر ان کو صفہ ہستی سے سے مٹانے  کی کوششیں کرتی ہیں.مگر بالآخر فتح  حق کی ہوتی ہے اور ظالم قوتیں جو مظلوم کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتی ہیں وہ خود صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیںتاریخ شاہد ہے کہ جب بھی مظلوموں نے اپنے حقوق کے لئے تحریک چلائی  ہے تو وقت  کے ظالم حکمرانوں نے مظلوموں کو دبانے کے لئے طرح طرح کی سازشیں کیں.ظالم قوتیں لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت مظلوم عوام کے مختلف گروہوں کو آپس میں لڑاتے ہیں تاکہ عوام آپس میں لڑتی رہے اور ظالم حکومت کرتےرہیں.انہی طرح کی سازشوں میں ایک واقعہ سانحہ سہراب گوٹھہ کا بھی ہے

ایم کیوایم نے ظالمانہ فرسودہ نظام کو چیلینچ کیا تو استحصالی قوتوں نے سانحہ سہراب گوٹھہ کرواکر کر تنبیہ کی اور پھر سانحات کا ایک لا متناہی  سلسلہ شروع  ہوا جو آج تک جاری ہے.کبھی پکا قلعہ تو کبھی سانحہ حیدرآباد تو کبھی فوجی آپریشن. غرض یہ کہ آج تک یہ سلسلہ جاری ہے.ظالم ظلم کر کے تھک گیا  مگر حق پرستی کی تحریک آج تک جاری ہےجو قومیں اپنے حقوق کی جدوجہد میں ہر طرح کی قربانی دینے کا جذبہ رکھتی ہوں.انھیں دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کرسکتی

آٹھہ اگست 1986 نشتر پارک میں کے کامیاب جلسہ کے بعد ایم کیو ایم نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک جلسہ حیدرآباد میں بھی کیا جائے.چناچہ ٣١ اکتوبر 1986 کو پکا قلعہ حیدرآباد میں جلسہ کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا.31اکتوبر 1986 کو ہزاروں کی تعداد میں عوام  جلسہ میں  شرکت کے لئے حیدرآباد کی طرف روانہ ہونےلگے. جب یہ  قافلہ سہراب گوٹھہ  پہنچا تو پہلے سے گھات لگائے ھوۓ دہشت گردوں نے پرامن عوام  پر اندھا دھند فائرنگ کردی.دہشت گرد کھلے عام جدید ہتھیاروں سے بیگناہ انسانوں کا قتل عام  کرتےرہے. جس کے نتیجےمیں درجنوں کارکنان شہید اور زخمی ہوگئے.دیکھتے ہی دیکھتے لاشوں کے اور زخمیوں کے انبار لگ گۓ.ہر طرف چیخ اور پکار کی آوازیں تھیں.عوام دھاڑیں مار مار کررورہےتھے.آہ اور بکاہ  اور رونے کی صدائیں ماحول کو سوگوار کر گئیں.جس جگہ فائرنگ ہوئی  تھے وہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا نام اور نشان نہیں تھا اوردہشت گرد بآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے.حیدرآباد میں مارکیٹ چوک پر بھی  جلسے میں جانے والے قافلوں پر حملہ کیا گیا جس سے وہاں بھی متعدد افراد شہید اور زخمی ھوگئے.

سانحہ سہراب گوٹھہ ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے.سانحہ سہراب گوٹھہ اور مارکیٹ چوک کا مقصد یہ تھا کہ سندھ میں اردو اور پشتو بولنے والوں کے درمیان لسانی فسادات کرواۓ جائیں.مگر الطاف حسین نے ان سازشوں کو ناکام بنادیا اور پکا قلعہ میں ہونے والے جلسے میں اس سانحہ کا ذکر تک نہیں کیا اور اگر وہ اس سانحہ کا ذکر کردیتے تو اس سے عوام مشتعل ہوجاتی جس سے استحصالی قوتوں کی سازش کامیاب ہوجاتی.الطاف حسین نے سپر ہائی وے کے بجائے واپسی پر گھگر پھاٹک کا راستہ  چنا اورعوام  اور کارکنان کو سہراب گوٹھہ والے راستے سے جانے سے منع  کیا .تاکہ  مزید کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو .مگر الطاف حسین کو گھگر پھاٹک پر گرفتار کرلیا گیا.جس کا مقصد عوام  کو مزید مشتعل کرناتھا.مگرایم کیو ایم کی دور اندیش قیادت اور با شعور مہاجر اور پختون عوام نے اپنے اتحاد  سےاستحصالی قوتوں کی تمام سازشیں ناکام بنادیں

اس سانحہ کو 27 سال ہوچکے ہیں مگر آج تک وہ قاتل آزاد ہیں جن کے نام تک اخبارات میں شائع ہوچکے تھے بلکہ الٹا ان قاتلوں کے بجائے الطاف حسین اور ایم کیوایم کے کارکنان کو گرفتار کیا گیا.ان 27 سالوں میں آج تک کسی سیاسی یا مذہبی جماعت نے نہ تو اس سانحہ کے ذمہ داروں کی گرفتاری کا مطالبہ  کیا اور نہ ہی اس کا کبھی ذکر کیا اور نہ ہی کبھی اس سانحہ کی مذمت کی اور نہ اس سانحہ میں شہید ہونے والوں سے کسی نے افسوس یا تعزیت کی

SUHRANGOTH

Comments

comments