جی ہاں یہ وہی ملالہ ہے عباسی صاحب
ملالہ یوسف زئی کو بین الاقوامی برادری میں ان کی بہادری اور ہمت کی وجہ سے جو پزیرائی مل رہی ہے اس سے ہمارے ملک میں سازشی تھیوریوں کی کیچڑ میں سر تا پاؤں دھنس جانے والے غیرت بریگیڈ کے صحافتی رسالہ برداروں کے غصّے میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے-دن بدن ان کی انگلیاں اپنے لیپ ٹاپ کی پیڈ پر چلتے ہوئے زھریلے سے زھریلے الفاظ ملالہ کے خلاف کمپوز کرتی ہیں-اور ان کی نفرت میں اس وقت سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے جب سے ملالہ نے ایک کتاب لکھی ہے اور اس کتاب کے مندرجات نے اس غیرت بریگیڈ کے غصّے میں زیادہ اضافہ کردیا ہے-
غیرت بریگیڈ کے سپاہ سالار انصار عباسی صاحب نے ایک خصوصی کالم روز نامہ جنگ میں تحریر فرمایا-
اور اس کالم میں انصار عباسی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ملالہ کی کتاب کے مندرجات سے ثابت ہوگیا ہے کہ ملالہ مغرب کی ایجنٹ ہے-اس کالم کو روزنامہ خبریں اور دیگر اردو اخبارات نے بھی بہت تزک و احتشام کے ساتھ نمایاں کرکے شایع کیا ہے-
انصار عباسی کو اس وجہ سے مغرب کی ایجنٹ کہتے ہیں کہ اس کتاب کے اندر ملالہ نے ایک طرف تو جنرل ضیاء الحق کی اسلامائزیشن کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے-دوسری طرف ملالہ نے 80ء کی دھائی میں سی آئی اے اور آئی ایس آئی کی مدد سے شروع ہونے والے نام نہاد افغان جہاد پر تنقید کرتے ہوئے اس عمل کو پاکستان اور پختون معاشرے میں عرب ثقافت کو زبردستی نافذ کرنے کی کوشش قرار دیا ہے-
انصار عباسی جیسے غیرت بریگیڈ کے کالم کار اور صحافی اصل میں اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو جنرل ضیاءالحق کی آئین پاکستان سے اسلام کے نام پر چھیڑ چھاڑ کو عین قران اور اسلام قرار دیتے ہیں-اور جو بھی شخص جنرل ضیاء کے بنائے ہوئے قوانین جو آٹھویں ترمیم کے نام پر آئین پاکستان کا حصّہ بنائے گئے پر تنقید کرتا ہے اور ان میں پائے جانے والے قانونی اور آئینی اسقام کی جانب اشارہ کرتا ہے تو یہ اس تنقید کو ایک آمر کے بنائے ہوئے قوانین کے اندر پائے جانے والے سقم پر تنقید قرار دینے کے اس کو اللہ،رسول ،قران اور سنت پر تنقید بلکہ ان کی تنقیص و توھین قرار دیکر ایسا کرنے والوں کو دشمن اسلام اور مغرب کا ایجنٹ قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے-گویا جنرل ضیاء الحق نے اسلام کا جو فہم سمجھا وہ حرف آخر تھا اور اب کوئی اس فہم کی مخالفت کرے گا یا اس پر تنقید کرے گا تو وہ توھین و تنقیص کا مرتکب ٹھہرے گا-
انصار عباسی،اوریا جان مقبول اور ان جیسے دیگر ٹھیکداران اسلام جنرل ضیاء الحق کی نام نہاد اسلامائزیشن کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے اور ان پر تنقید کرنے والوں کے بارے میں یہ سازشی تھیوری بھی طاقت کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ آئین پاکستان کے اندر اسلام کے نام پر مذھبی جنونیوں کے جنون کو قانونی اور آئینی تحفظ دینے اور اس ملک کی اقلیتوں پر مذھبی جبر نافذ کرنے اور ملک میں عقیدے اور مذھب کی آزادی پر قدغنیں لگانے والی شقوں پر تنقید کرنے والے مغرب کی حکومتوں اور مغربی ڈونر ایجنسیوں کے اسلام دشمن پروجیکٹ کے ملازم اور آلہ کار ہیں-وہ یہ سب کام مغرب سے پیسے لیکر کرتے ہیں-غیرت بریگیڈ کی نظر میں ایسے ناقد اپنی غیرت،اپنا دین،اپنا مذھب اور اپنے ملک و قوم کی عزت و ناموس دشمنان اسلام کے ہاتھوں گروی رکھ دیتے ہیں-
انصار عباسی نے ملالہ یوسف زئی کی کتاب پر اپنے کالم میں یہی الزامات عائد کئے ہیں-کیونکہ ملالہ نے اس کتاب میں جنرل ضیاء کی جانب بنائے گئے قوانین سے پیدا ہونے والی مشکلات اور مصائب جن کا اس ملک کے عیسائیوں،ہندؤں ،احمدیوں اور لبرل سیکولر لوگوں کو کرنا پڑا کا زکر کیا اور معاشرے میں افغان وار اور اس دوران مذھبی جہادی پراکسی کو ریاستی اشیر باد کے اثر سے پیدا ہونے والی خرابیوں کا زکر کیا ہے-اور ملالہ کی جانب سے اس کتاب میں جب یہ لکھا دیکھا کہ ان کے والد کے خیال میں سلمان رشدی کی کتاب کے جواب میں مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کی بجائے اس کی کتاب کا سنجیدہ اور موثر جواب دیا جانا چاہئیے تھا-اور اس حوالے سے ملالہ نے اس وقت اپنے والد کے جذبات و خیالات کو اپنے پڑھنے والوں سے شئیر کیا-
ملالہ نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں پیدا ہونے والی سماجی صورت حال پر جو بھی تنقیدی احوال لکھا وہ ایسا نہیں ہے کہ پہلی مرتبہ سامنے آیا ہو اور وہ ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کی جنم بھومی ہم لندن یا واشنگٹن کو قرار دیں-
انصار عباسی اور اوریا مقبول جان جیسے غیرت بریگیڈوں نے تاریخ کو مسخ کرنے اور اس کا حلیہ بگاڑنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے-حقیقت یہ ہے کہ بہت سارے علماء اور شریعت اسلام سے واقف حضرات ایسے تھے جنہوں نے ضیاء الحق کے قوانین پر کڑی تنقید کی اور ان قوانین کو سیاسی مخالفین کو سزا دینے اور مخصوص گروہوں کو خوش کرنے کا حیلہ قرار دیا-
عورت کی گواہی،عورت کی دیت،قانون زنا ء میں زناء بالجبر و زنا بالرضاء میں فرق نہ کرنے اور رجم جیسی سزا کا بطور حد نفاز اور توھین رسالت میں موت کی سزاء اور الزام لگتے ہی آیف آئی آر کٹ جانے اور اس کی تفتیش ایس ایچ او لیول کے افسر کو سونپے جانے جیسے اقدامات پر شدید تنقید سامنے آئی تھی-اور تنقید کرنے والوں میں وارث میر جیسے سکالر ہی سامنے نہیں تھے بلکہ اس دور میں یہ تنقید مولانا امین احسن اصلاحی کی جانب سے بھی سامنے آئی تھی اور ان کے شاگرد جاوید احمد غامدی اس زمانے میں بھی بہت کھل کر اس معاملے پر اپنی اختلافی رائے کا زکر کررہے تھے-مگر یہ سب حقائق جانتے بوجھتے ہوئے بھی ایسے ظاہر کیا جاتا ہے جیسے جنرل ضیاء الحق پر تنقید کرنے کی رسم ایک بدعت ہے جس کا آغاز مغرب سے ہوا ہو-جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں جنرل ضیاء الحق مغرب کی حکومتوں کی ڈارلنگ بنے ہوئے تھے-یہ وہ زانہ تھا جب صدر ریگن سے جنرل ضیاءالحق ہی نہیں بلکہ حکمت یار،عبدالرسول سیاف،ربانی،مجددی،سمیع الحق،جلال الدین حقانی سب ہی رشتہ الفت و اخوت برقرار رکھے ہوئے تھے اور اس زمانے میں ان مجاہدین اسلام کو وائٹ ہاؤس میں سرکاری مہمانوں کی حثیت حاصل ہوا کرتی تھی-
یہ وہ زمانہ تھا جب جنرل ضیاء الحق پر مغرب سے کوئی خاص دباؤ نہیں پڑتا تھا جب وہ سیاسی قیدیوں پر کوڑے برساتے تھے اور مذھب کے نام پر جبر کرنے والے قوانین کا نفاز کرتے تھے-اس زمانے میں مغرب کی حکومتیں ایمنسٹی انٹرنیشنل ،ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیموں کے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر واویلا کوئی زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہ تھیں-
یہ صورت حال قدرے اس وقت تبدیل ہونا شروع ہوئی جب بے نظیر بھٹو جلاوطن ہوکر لندن پہنچیں اور انہوں نے یورپ اور مریکہ کے اندر پاکستان کی سیاسی ،سماجی اور انسانی صورت حال بارے ایک باقاعدہ آگہی کمپین شروع کی اور انہون نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا اصل چہرہ مغرب کے انسان دوست اور جمہوریت پسند حلقوں کو دکھانا شروع کیا-اس دوران سرد جنگ بھی اپنے خاتمے کی جانب بڑھ رہی تھی جس نے مغرب اور امریکہ میں پاکستان کے اندر جمہوریت کے قیام کی حمائت میں اضافہ کیا-
انصار عباسی،اوریا جان مقبول اور ان جیسے دیگر غیرت بریگیڈ کے قلم کار اور صحافی حقائق کو مسخ کرنے میں طاق ہوچکے ہیں-یہ چیزوں کے وجود میں آنے کی اصل وجوہات پر ہمیشہ پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں-یہ پاکستان کے اندر مذھبی جنونیت اور شدت پسندی اور رجعت پسندی کے ریاست کے ستونوں کے اندر سرائت کرجانے کو جنرل ضیاء الحق کی للھیت اور خداپرستی کا نتیجہ قراردیتے ہیں-جبکہ یہ سویت یونین کا راستہ روکنے اور تیسری دنیاء میں پاپولر فرنٹس کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کی امریکی سرمایہ دار بلاک کے اس رجعت پسندی اور مذھبی جنونیت کو بال و پر دینے کی تاریخ کو چھپاتے ہیں-وہ تاریخ جس کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی آخری کتاب “اسلام اور جمہوریت “میں بہت تفصیل سے بیان کیا ہے اور اس میں مغرب کے اہل ضمیر لوگوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ مسلم دنیا میں ان کی طرف سے آمروں کی حمائت اور ان کی مدد کرنے کے کیا نتائج برآمد ہوئے یں؟اس کتاب میں محترمہ بےنظیر بھٹو نے مغرب کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے واضح کیا کہ مغرب اور آمروں کی مدد سے پروان چڑھنے والی بنیاد پست نام نہاد جہادی اسلامی نیٹ ورکس نے کیسے مسلم معاشروں کو برباد کرکے رکھ دیا-
ملالہ کا جرم یہ ہے کہ وہ”میں ہوں ملالہ” میں مغرب کے سامنے پاکستان کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے مغربی دنیا کو بتانا چاہتی ہے کہ پاکستان میں آئی ایس آئی،فوج،عدلیہ،سیاسی جماعتوں ،میڈیا اور سماج کی دیگر پرتوں میں شدت پسندی اور مسخ مذھبیت کا داخلہ یک دم نہیں ہوا اور نہ ہی پاکستان بنانے والوں اور بعد میں جوان ہونے والی نسل کا یہ مقصد تھا-ملالہ بے نظیر بھٹو کو اپنا آئیڈیل قرار دیتی ہیں-اور وہ اپنے آئیڈیل کی طرح پاکستان کی سیاست میں کردار ادا کرنے کی خواہش مند ہیں-کیونکہ ملالہ یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان میں مذھبی جنونیت اور بنیاد پرستی کا مقابلہ سیاست سے ہی کیا جاسکتا ہے-اور ملالہ کی پاکستان میں بڑھتی مقبولیت اور نوجوان نسل کی جانب سے اس کو آئیڈیل بنایا جانا اور اس کے خیالات کی قبولیت اس معاشرے میں خدا بنکر بیٹھے انصار عباسیوں اور اوریا مقبول جانوں جیسے غیرت بریگیڈیوں کے خوف کی اصل وجہ ہے-
ملالہ کی کتاب غیرت بریگیڈز کے لیے ایک خوفناک حملہ ہے کیونکہ یس کتاب میں پورا سچ بولنے کی کوشش ہوئی ہے-یہ ویسا سچ ہے جو ہمارے ہاں “اللہ کا انتظار “نامی کتاب میں کرسٹنیا لیمب نے لکھ کر بولا تھا تو قصر صدارت میں اسحاق خان اور جی ایچ کیو اور آب پارہ میں آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر میں ضیاء الحق کی باقیات خوف اور غصّے سے لرزنے لگی تھی-اور یہ سچ جب خفیہ کیسٹوں کے منظر عام پر آنے سے سامنے آیا تھا تو تب بھی اسلام اور پاکستان کے خطرے میں ہونے کا راگ الاپا گیا تھا-اور جب عائشہ صدیقہ کی ملٹری انک سامنے آئی تھی تو بھی مغرب پر جی کھول کر غصّہ نکالا گیا تھا-اور وہ کون سا الزام ہے جو عائشہ صدیقہ پر نہ لگا ہو-اسی طرح سے جب حسین حقانی نے 70ء اور 80ء کی دھائی میں ملاّ اور جرنیل کے باہمی رشتہ داری بارے سب سچ لکھنے کی ٹھانی اور دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ ایک مفصل کتاب لکھ ڈالی تو بھی بہت واویلا ہوا تھا-غیرت بریگیڈ خفیہ دستاویزوں کے افشاء ہونے اور لیکس سے بہت خوف کھاتا ہے-کیونکہ یہ نام نہاد جہادی جرنیلوں اور ان کے ساتھی مولویوں کے مغرب سے ڈالر بٹورنے کی کہانیوں کو طشت ازبام کرڈالتی ہیں-اور یہ پورا سچ لکھنے والی کتابوں سے عوام کو بدظن کرنے اور ڈرانے کے لیے ان کتابوں اور ان کے لکھنے والوں کے بارے میں اتنا غلیظ اور گندہ پروپیگنڈا کرتا ہے کہ عام آدمی ان کتابوں کے قریب جانے سے پہلے ہی ان کتابوں بارے نفرت کا اظہار کرنے لگتا ہے-
اردو صحافت کا المیہ یہ ہے کہ متنازعہ باتوں کو تو بہت زور و شور سے شایع کرتی ہے جبکہ ان متنازعہ باتوں کی حقیقت پر مبنی صفائی اور جواب کو چھوٹا اور اندر کہیں دباکر شایع کرنے کی عادی ہے اور اب جو اردو ٹی وی چینلز آئے ہیں وہ بے پر کی اڑانے والوں کی بے پر باتوں کو اتنا اچھالتے ہیں کہ جن پر الزام ہوتا ہے ان کی صفائی کی گنجائش ہی ختم ہوجاتی ہے-
غیرت بریگید کے لکھاریوں کا یہ بھی پرانا طریقہ ہے جو بات ان کی مرضی اور منشاء کے مطابق نہ ہو یہ فوری طور پر یہ کہتے ہیں کہ یہ لکھنے والے نے خود نہیں لکھا بلکہ اس کے منہ میں یہ الفاظ دوسروں نے ڈالے ہیں-انصار عابسی نے اپنے کالم کا آغاز بھی اسی طرح سے کیا ہے-ان کو لگتا ہے کہ ملالہ اپنی پڑھائی کے راستے میں طالبان کے سوات پر قبضے کے دوران پیش آنے والی روکاوٹوں کے بیان تک محدود رہتی اور اس کتاب میں 80ء اور 90ء کی دھائی کی مذھبی جنونیت بارے جو بھی باتیں آغی ہیں وہ ملالہ کے اپنے ذھن کی پیداوار نہیں ہے بلکہ وہ کسی اور کی کارستانی ہے-انصار عباسی یہ بات لکھتے ہوئے پھر سے کتمان حق کے مرتکب ہوئے وہ یہ بات چھپا گئے کہ ملالہ کے والد پی پی پی کے کٹر جیالے اور بائیں بازو کے خیالات رکھنے والے انسان ہیں-اور وہ ایک استاد بھی ہیں-انہوں نے اپنی بیٹی کو پاکستانی سیاست کی جدلیات پڑھائی ہے-ملالہ آخر یونہی تو پی پی پی میں کام کرنے والے ایک مارکسی گروپ کے اسٹڈی سرکل میں نہیں چلی گئی تھی-اس نے ایسے ہی بے نظیر بھٹو کو اپنا آئیڈیل نہیں کہہ ڈالا تھا-انصار عباسی کو ملالہ یوسف زئی کی اس پر قاتلانہ حملے سے پہلے کی گفتگو اور اس کی لکھی ڈائریوں کا بخوبی علم ہے اس کے باوجود وہ ملالہ کو ایک وسیع تاریخی فکری کینویس رکھنے والی لڑکی ماننے سے انکاری ہے-16 سال کی عمر بصیرت اور علم کے راستے میں روکاوٹ نہیں بنا کرتی-حضرت علی نے بہت کم عمری میں علم و عرفان کا خزانہ پالیا تھا-امام حسن عسکری 25 سال کی عمر میں فوت ہوگئے تھے اور ان کی مسند علم و غرفان کا خزانہ ہے-کارل مارکس نے 19 سال کی عمر میں کمیونسٹ مینی فیسٹو جیسی شہرہ آفاق کتاب لکھ ڈالی تھی-اور بے نظیر بھٹو 25 سال کی عمر کارزار سیاست میں قدم رکھ چکی تھیں-امام علی بن حسین منصب رہبری پر کم عمری میں فائز ہوئے تھے-اس لیے انصار عباسی دن کو رات کہنے سے باز آجائیں کیونکہ اس سے ان کا رہا سہا اعتبار بھی ختم ہوتا جاتا ہے-
عائشہ صدیقہ ،حسین حقانی اور اب ملالہ اس ناانصافی کی بڑی مثالیں ہیں-میں اپنے مضمون کا اختتمام اس سلسلے کی بڑی ناانصافی کی جانب دلانا چاہوں گا کہ جب سابق شہید گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے آسیہ بی بی کیس میں ناانصفافی پر آواز اٹھائی اور توھین رسالت کے قانون میں کیس کے اندراج کے طریقہ کار اور اس کی پواسیکویشن سے ٹرائل تک کے معاملات پر اپنے اعتراضات کو واضح کیا تو ان کے خلاف تہمتوں اور الزامات کا بازار گرم کردیا گیا اور سلمان تاثیر کو سلمان رشدی ثانی بنانے کی کوشش کی گئی-اور اسی میڈیائی اشتعال کے نتیجے میں سلمان تاثیر کا قتل ہوا-سلمان تاثیر کا خاندان آج تک عدالت سے انصاف کا منتظر ہے اور قاتل کا وکیل سابق چیف جسٹس بنا ہوا ہے-
انصار عباسی نے اپنے کالم میں ملالہ اور اس کے والد کو اسلام اور شریعت کا دشمن ثابت کرنے اور سلمان رشدی جیسے گستاخان رسول کا ہمدرد ثابت کرنے کی کوشش کی ہے-جبکہ ملالہ کی کتاب میں جو باتیں درج ہوئی ہیں ان کا الٹ مطلب نکلتا ہے-انصار عباسی ملالہ کی کتاب کی عبارتکے مفہوم میں تدلیس کا مرتکب ہوا ہے-وہ دھڑلے سے مذھب کا نام لیکر ملالہ اور اس کے والد کے خلاف لوگوں کو اکسا رہا ہے-مقصد صرف یہ ہے کہ ملالہ خیبر پختون خوا سمیت پاکستان کے اندر پھیلی جہالت کے اندھیروں میں گم ہوجانے والی بچیوں کو زیور علم سے آراستہ کرنے اور ان میں سیاسی شعور کی بیداری کا جو کام سرانجام دینے کا ارادہ رکھتی ہے اس کو ناکام بنایا جائے اور وہ اول تو پاکستان آہی نہ سکے اور اگر بے نظیر بھٹو کی طرح ہمت کرکے پاکستان آبھی جائے تو غیرت بریگیڈ کے قلم کاروں،تجزیہ نگاروں اور اینکرز پرسنز کی باتوں کا کوئی طالبانی مجاہد جو ہوسکتا ہے حکومت پاکستان کی جانب سے ملالہ کی حفاظت کے لیے متعین کیا گیا ہو سرکاری اسلحہ ملالہ پر خالی کردے-
Comments
Tags: غیرت بریگیڈ
Latest Comments
Loved Ansar Abbasi’s column. Astounded what she wrote in her book.
Faisal Khan
about an hour ago ·
کون کہتا ہے انسان غاروں سے نکل کر معاشرتی فلاحی تصور شعورمیں آ چکا ہے؟؟؟
اگر کسی نے ابتدائی انسانی نفسیات کو موجودہ دور میں دیکھنا ہے، وہ انسانی نفسیات سوچ اور انسان کا اپنی ذات سے خود پرستی کی حد تک پیار، جب انسان غاروں اور درختوں کے گھنے جھنڈوں میں رہتا تھا.
تاریک راتوں میں کسی اندیکھی روشنی سے ڈر جانے والا………….
یقین کرلیں ہماری قوم جسمانی طور پر ایک معاشرتی دنیا میں رہنے تو لگی ہے لکین ابھی اپنی سوچ اور شعور اور نفسیات کے اسی پہلے مرحلے پر کھڑی ہے جہاں انسان کسی روشنی کو دیکھہ کر جنگل کے جانور کی طرح خوفزدہ ہو کر بدک جایا کرتا تھا اور لا شعوری طور پر اندھیرے میں کسی انجان روشنی کو اپنا دشمن خیال کرکے اپنے دفاعی پوزیشن میں آ جاتا تھا.
یہی حال آج ملالہ کی روشنی دیکھنے پر ہے……… ایسا بدکے ہیں کہ الا مان ……….. لکین کیا یہ پہلی دفعہ بدکے ہیں ؟؟؟؟؟؟
نہیں تاریخ دیکھہ لیں سب لوگ جنہوں نے قرآن کے احکامات پر عمل کیا اور اسکے نتیجے میں الله کے وعدے کے مطابق انعام یافتہ قرار پائے، تو یہ اس خدائی انعام کی روشنی دیکھہ کر بار بار بدکے، گھبرائے اور آخر اپنی پرانی جبلت کے ہاتھوں مجبور ہوکر روشنی کو تاریکی میں بدلنے کو اپنے اپنے ہتھیار لے کر اسکے درپئے ہو گئے.
١- سر سید احمد خان ………….. ناپسندیدہ عمل ………… اقراء …………. عمل…. جدید تعلیمی یونیورسٹی کا قیام ……………… نتیجہ کافر اور مغرب کے ایجنٹ اور کافر ہونے کی سزا کے مستحق ٹہرے.
٢- علامہ اقبال ………………..ناپسندیدہ عمل ……………اقراء …………..قرآن کا ترجمہ شاعری ، حقیقی سجدے سے روشناسی ………نتیجہ کافر
٣- محمّد علی جناح ………….. ناپسندیدہ عمل ………….. اسلامی قرآنی فلاحی ریاست کا قیام ، جس میں قرآنی فلاحی ریاست کا تجربہ کیا جانا تھا… نتیجہ .کافر آعظم کہلائے گئے
٤- ڈاکٹر عبد السلام ………..جرم کی نوعیت …………. اقراء …………مجرمانہ عمل قرآنی مطالعے کے نتیجے میں علمی معراج کا حصول ………. نتیجہ .. مذہبی اور فکری اختلاف پر ملک بدر کیے گئے اور نوبل انعام کی صورت ملنے والی رقم سے پاکستان میں یونیورسٹی کے قیام سے روک دیا گیا
٥- حکیم محمّد سعید………. جرم کی نوعیت ……….. اقراء ………….. مجرمانہ عمل………… ہمدرد یونیورسٹی کا قیام ، ٹرسٹ کا قیام …….. نتیجہ .. بے دردی سے قتل کر دئیے گئے.
٦- عبدالستار ایدھی …….. جرم کی نوعیت………………… نظام صلاه کا قیام… دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس اور فلاحی ادارے کا قیام …….نتیجہ … انڈین ایجنٹ اور ملحد کے طور پر مشہور ہیں ……… حکومت اور مولوی دونوں گھاس نہیں ڈالتے…….. اپنی لاشوں کو سڑکوں سے اٹھانے کے لیے ہم خود ہی چندہ دیتے ہیں جب بھیک مانگتے ہیں وہ .
٧- ملالہ یوسفزئی ………. جرم کی نوعیت ………..اقراء ………….. ملائی شریعت کے قیام کے دوران ……. الله اور اسکے رسول صلعم کی منشاء کو پورا کرنے (علم حاصل کرنا ہر مسلمان عورت پر فرض ہے ) کی کوشش میں باغی قرار دی گئی … یہودی ایجنٹ ہونے کے سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے……………. نتیجہ …. جان سے مار دئیے جانے کی کوشش کی گئی ……..زندہ بچ جانے کے بعد ملک بدر ہوچکی ہے جان بچانے کے لیے … خس کم جہاں پاک …..
روشن دنیا میں تاریک راہوں کی مسافر قوم ………………… تیرا نوحہ…….. میرا نوحہ ہے……. سو ماتم بھی میں ہی کروں گا.
فیصل خان
گرمحمد کے نام کے ساتھ صلی اللہ وسلم نہ لکھیں تو کیا اللہ پھر محمد پہ سلامتی نیہں بھیجتا؟ کیامحمد کو اب ملالہ کی سلامتی کی دعا کی ضرورت پڑ گئی ہے؟ حد افسوس کہ یہ مسلمان کتنی جاہل قوم ہے۔۔۔۔۔
انصار عباسی اور ان جیسے بہت سے دوسرے تنگ نظر لوگ ہر دور میں وقت کے پہیے کو الٹا گھمانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں مگر ہمیشہ ناکام ہی رہتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہمارے بد نصیب ملک میں ترقی کی رفتار کو سست کردیا گیا ہے مگر تا بہ کہ۔۔۔۔