اداریہ:نواز شریف کا دورہ امریکہ۔۔۔۔۔لن ترانیاں۔۔۔۔۔۔۔۔بات تو سچ ہےمگر۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف چار روزہ دورے پر امریکہ پہنچ گئے ہیں-

وہ جب لندن سے امریکہ کے لیے روانہ ہورہے تھے تو ان کی جانب سے پہلا بیان یہ آیا کہ

“امریکہ کو ڈرون حملے فوری طور پر بند کرنے چاہئیں کیونکہ یہ حملے پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی ہیں”

http://www.express.pk/story/187383/

اس بیان سے میڈیا کہ اندر آنے والی ان خبروں کی ایک طرح سے تصدیق ہوگئی جن میں اس دورے سے قبل میاں محمد نواز شریف کی فوج،آئی ایس آئی اور خارجہ امور کے متعلقہ حکام سے دورہ امریکہ کے حوالے سے مشاورت کرنے کی خبردی گئی تھی-ان خبروں کے متن میں بین السطور یہ بھی کہا گیا تھا کہ میاں محمد نواز شریف دورہ امریکہ کے دوران امریکی صدر باراک اوبامہ،سیکرٹری خارجہ اور دیگر امریکی حکام پر زور دیں گے کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بند کردیں جوکہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے مبینہ مذاکرات کی تین بنیادی شرطوں میں سے ایک شرط ہے-

http://www.brecorder.com/top-stories/0/1241823/

ملٹری اور آئی ایس آئی کی قیادت نے میاں محمد نواز شریف کو باور کرایا ہے کہ امریکی ڈرون حملے اگر بند نہ ہوئے تو ان کی حکومت کے تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے شروع ہی ہونے کے امکانات بہت کم ہیں-جبکہ ملٹری قیادت کے اندر فاٹا سے فوج واپس بلانے پر بھی سخت اختلاف رائے موجود ہے-اس تناظر میں طالبان کی قیادت کو رام کرنے کے لیے نواز حکومت کے لیے ڈرون حملے رکوانا بہت ہی اہم مسئلہ بن گیا ہے-

جبکہ ملٹری اسٹبلشمنٹ اور آئی ایس آئی میں نیشنلسٹ و اسلامی جہادی لابی کے دباؤ کی وجہ سے میاں محمد نواز شریف دورہ امریکہ کے دوران امریکی حکام سے افغانستان میں امریکہ کی پوسٹ 2014ء پالیسی میں پاکستان کی تزویراتی گہرائی کے لیے جگہ بنانے کے لیے بھی بات کریں گے-اس حوالے سے ان کا فوکس آئیندہ کے افغان حکومتی ڈھانچے میں افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی نمائندگی اور ان کا کردار بھی ہوگا-

وزیر اعظم  میاں محمد نواز شریف کی جانب سے دورہ امریکہ کے جو ممکنہ اھداف رکھے گئے ہیں ان سے صاف صاف ظاہر ہورہا ہے کہ ان کو پاکستان کے اندر تحریک طالبان ،ان کے اتحادی اور نیشنلسٹ و اسلامی جہادی لابی کو خوش کرنے کی فکر زیادہ ہے-

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/10/131020_nawaz_sharif_drone_attacks_obama_zz.shtml

حکومت اور ریاست کے اداروں کو پاکستان میں دھشت گردی اور اشتعال انگیز مذھبی و نسلی منافرت پھیلانے والوں کو اہمیت دینے اور اس سے متاثرا برادریوں اور افراد کی پرواہ نہ کرنے سے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے حلقوں میں سخت تشویش پھیل رہی ہے-

اس ملک میں دھشت گردی کا نشانہ بننے والی کمیونٹیز (شیعہ،احمدی،ہندؤ،عسیائی،بریلوی)کے اندر یہ احساس بھی جنم لے رہا ہے کہ حکومت ،ریاست اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں ان کو جیو پالیٹکس اور اسٹبلشمنٹ میں طاقت ور جہادی لابی کی تخلیق کردہ تزویراتی گہرائی کی قربان گاہ پر قربان کرنے کے درپے ہیں-

جب سے موجودہ حکومت بنی ہے تب سے ملک میں دھشت گردوں،تکفیری دیوبندی اور سلفی گروپوں کے نیٹ ورکس کے پھیلاؤ میں تیزی دیکھنے کو ملی ہے-جبکہ شیعہ،احمدی ،عیسائی اور ہندؤں کو قتل کئے جانے،ان کی مذھبی آزادی کو سلب کئے جانے ،ان کی عبادت گاہوں پر حملوں میں شدت آگئی ہے-جبکہ حکومت دھشت گردوں کا نام لیکر ان کی مذمت کرنے سے بھی قاصر نظر آتی ہے-

میاں محمد نواز شریف کی وفاق میں حکومت ایک جانب تو ملٹری اسٹبلشمنٹ اور آئی ایس آئی کی جانب سے بلوچستان میں جاری جبر اور بدترین استحصال کی پالیسی کے آگے سرنڈر کرچکی ہے تو دوسری طرف ان کے بھائی پنجاب میں ریاستی میشینری کو دیوبندی تکفیری اور سلفی انتہا پسندوں کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے سے روکے ہوئے ہیں-وہ تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی جیسے دھشت گرد گروہوں کے نظریاتی سیاسی ونگز اہل سنت والجماعت(سپاہ صحابہ پاکستان)اور جماعۃ الدعوۃ کے ساتھ غیر اعلانیہ اتحاد اور ڈیل میں ملوث ہیں-ان کی جانب سے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ دھشت گردوں کو ہر طرح کی سہولت فراہم کرنے کے لیے ایک طرح سے فوکل پرسن بنا دئے گئے ہیں-جبکہ ان کے دھشت گردوں سے رابطوں کی وجہ سے شیعہ،بریلوی،احمدی اور کرسچن برادریوں کی اکثریت ان کی برطرفی کا مطالبہ بھی کرچکی ہے-

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے چار روزہ دورہ امریکہ کے دوران اگر امریکی پریس،بعض اراکین کانگریس و سینٹرز،سول سوسائٹی و انسانی حقوق کی تنظیمں پاکستان میں مذھبی برادریوں پر بڑھتے ہوئے حملوں اور بلوچ جیسی مظلوم اقوام پر ہونے والے جبر پر آواز اٹھاتے ہیں اور اس حوالے سے حکومت اور ریاست پر تنقید کرتے ہیں تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہوگی-

پاکستان کے اندر میں سٹریم میڈیا میں بیٹھے طالبان نواز لابی اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی قیادت میں پایا جانے والا طالب نواز حلقہ امریکہ میں نواز شریف کے دورے کے دوران مذھبی اور نسلی بنیادوں پر جبر اور زیادتی کا شکار ہونے والی برادریوں کے حق میں اٹھںے والی آوازوں کو یہود،نصاری اور ہنود کی سازش قرار دیکر یا پاکستان کے خلاف راء،موساد،سی آئی آے کی پروپیگنڈا مہم قرار دے کر شور شرابا کرسکتا ہے-مگر اس طرح کرنے سے حقیقت چھپ نہیں سکتی ہے-پاکستان کے اندر اس وقت جو افراد اور برادریاں دھشت گردی اور انتہا پسندی کا نشانہ بن رہی ہیں ان کے اندر ریاست،اس کے جملہ اداروں،سیاسی جماعتوں اور حکومت کے مبینہ جانبدارانہ کردار کے باعث سخت بے چینی اور برہمی پائی جاتی ہے-ان کی اکثریت میں اب یہ سوچ راسخ ہورہی ہے کہ یہ ریاست،حکومت اور سول سوسائٹی ان کے بچاؤ اور تحفظ کے لئے اقدامات کرنے کی بجآئے ان کے ملزموں کو راضی رکھنے اور ان مذھبی دھشت گردوں کے لیے عالمی برادری کے اندر نرم گوشہ پیدا کرنے کی فکر میں ہے-ان کے خيال میں پاکستان کی ریاست مذھبی بنیادوں پر خون کا بازار گرم رکھنے والے نوفسطائی طالبوں کے لیے امریکہ ،یوروپی یونین سے ویسی ہی رعايت چاہ رہی ہے جیسی رعائت کی توقع سعودیہ عرب کے حکمران امریکہ اور اقوام متحدہ سے رکھتے ہیں اور اس مقصد کے حصول میں ناکامی پر وہ سلامتی کونسل کی عارضی رکنیت حاصل کرنے سے بھی انکار کرڈالتے ہیں-

یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ پاکستان کی ریاست اور حکومت یورپی یونین ،امریکہ اور اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کے اندر پاکستان کے شیعہ،احمدی،عیسائی،ہندؤ اور بریلوی مکاتب فکر کے ماننے والوں کی نسل کشی،ان کی مقدس عمارتوں پر حملے اور ان کے افراد کے بہیمانہ قتل پر پائی جانے والی تشویش اور اس حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹوں کو ان برادریوں کی شکائت دور کئے بنا ختم کرنے کے درپے ہے-اور موجودہ حکومت تو تحریک طالبان پاکستان سمیت تکفیری مذھبی دھشت گردوں کے سافٹ امیج کے لیے پہلے دن سے سرگرداں نظر آرہی ہے-اس کو طالبانی دھشت گردوں کے ٹھکانوں پر برسنے والے ڈرونز کی بہت فکر ہے جبکہ وہ ان طالبانوں کے ہاتھوں مارے جانے والے 50 ہزار پاکستانی شہریوں اور ریاست کے اہل کاروں کے خون کے رائیگاں چلے جانے کے خطرے پر زرا فکرمند نہیں ہے-ایسے میں اگر مظلوم اور مقتولین کے ورثاء اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی سطح پر اس ایشو کو اٹھانے کے لیے حکمت عملی نہ بنائیں تو کیا کریں؟جبکہ عالمی برادری کی جانب سے تھوڑے سے دباؤ کو بھی ہماری حکومتیں بہت سنجیدگی سے لیتی ہیں-کیا اس سے دھشت گردی کا شکار برادریوں کو یہ پیغام نہیں ملتا کہ ان کی ریاست کو اپنے شہریوں سے زیادہ عالمی برادری کے ناخداؤں کی ناراضگی سے ڈر لگتا ہے-

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

Comments

comments

Latest Comments
  1. Nike Air Max 87
    -
  2. Briefcase
    -
  3. Air Jordan 2011
    -
  4. Air Jordan Fusion 4 (IV)
    -
  5. Jordan 17 Shoes
    -
  6. Womens
    -
  7. Air Jordan 5 (V)
    -
  8. Nike Free 4.0 V2 Mujeres
    -
  9. Air Jordan Pro Classic
    -
  10. Salvatore Ferragamo
    -
  11. Air Max Motion NSW Mujer
    -
  12. Roger Vivier Shoes
    -
  13. Patek Philippe
    -
  14. Air Jordan 2011
    -
  15. ED Hardy Pantalones
    -
  16. YSL Clothing Women Hoodies
    -
  17. Tilbehør
    -
  18. Disney
    -
  19. Dolce Gabbana Hobo sacs
    -
  20. Gucci Key Rings
    -
  21. -Prada bags 2014
    -
  22. Ceinture D&G Chaud
    -
  23. ED Hardy Bolsos
    -
  24. Burberry Sacs de soirée
    -
  25. Louis Vuitton Rendez-Vous
    -
  26. Bolsos
    -
  27. Nike Air Max 90 Femme
    -
  28. Nike Air Max 95 EM
    -
  29. Air Max 2013 Homme
    -
  30. Nike CTR360 Maestri Boots->(21)
    -
  31. New Balance 996
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.