وہابیت:ثقافتی خود کش حملہ آور

آل سعود کی حکومت مسجد الحرام کی توسیع کے نام پر ایک نئے منصوبے پر کام کرہی ہے-اس منصوبے کے تحت 13 بلین پاؤنڈ کی لاگت سے مسجد الحرام کی توسیع کا کام شروع کیا جارہا ہے-یہ منصوبہ جب مکمل ہوگا تو اس منصوبے سے 12 لاکھ مزید حاجی مسجد الحرام میں آسکیں گے-مسجد الحرام کے اندر ایک نئے بلاک کی تعمیر ہوگی جس کے 52 داخلی دروازے،120 ایلی ویٹرز اور 4 نئے مینار تعمیر ہوں گے-اس پروجیکٹ کے انچارج مسجد الحرام کے امام عبدالرحمان السدیس ہیں-اور اس پروجیکٹ کا ٹھیکہ سعودی عرب کی سب سے بڑی تعمیراتی کمپنی بن لادن کنسٹرکشن کے پاس ہے-

توسیع حرم پروجیکٹ کا ایک ماڈل

توسیع حرم پروجیکٹ بارے تفصیلات اس وقت سامنے آئیں جب برطانیہ کے اخبار “انڈی پینڈینٹ”نے ایک خبر شایع کی جس میں اس اخبار کو اس پروجیکٹ کی کچھ تصاویر بھی کہیں سے موصول ہوئی تھیں-اخبار نے یہ خبر شایع کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس منصوبے کی وجہ سے مکّہ مکرمہ کے قدیم تاریخی ،ثقافتی اور آرکیالوجکیل ورثے کو سخت تباہی کا سامنا ہے-اس حوالے سے اخبار کا کہنا تھا کہ جب اس نے اس بارے لندن میں سعودی سفارت خانے سے رابطہ کیا تو ان سے کہا گیا کہ “آپ کا رابطہ کرنے پر شکریہ ،لیکن کوئی کمنٹس نہیں”

http://www.independent.co.uk/news/world/middle-east/the-photos-saudi-arabia-doesnt-want-seen–and-proof-islams-most-holy-relics-are-being-demolished-in-mecca-8536968.html

مسجد الحرام توسیع پروجیکٹ بارے اسی طرح کی ایک جامع سٹوری برطانیہ کے ایک اور اخبار “دی گارڈین “نے 13 اکتوبر 2013ء کو شایع کی اوراس سٹوری میں تفصیل سے بتایا کہ اس پروجیکٹ کی زد میں آکر کون کون سے تاریخی اور اسلام کے مقدس مقامات اور ان کے آثار ختم ہوجائیں گے-http://www.theguardian.com/artanddesign/2013/oct/14/as-the-hajj-begins-the-destruction-of-meccas-heritage-continues

اسلامی ثقافتی ورثہ ریسرچ فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر عرفان العلاوی نے مکّہ مکرمہ کا دورہ کیا اور خود اس پروجیکٹ بارے معلومات اکٹھی کیں اور پھر اس بارے میں پورے عالم اسلام کو خبردار کیا-ان کا کہنا تھا

“سعودی حکام رسول خدا سے وابسطہ ہر شئے تیزی کے ساتھ گرارہے ہیں-حکام نے پہلے ہی حضرت خدیجۃ الکبری ،آپ کے صحابی ابوبکر خلیفۃ الرسول  اور نواسہ رسول کے گھروں کو گرادیا تھا-اب وہ آپ کے جائے پیدائش کے مقام کو بھی گرارہے ہیں-اور یہ سب سات ستارہ ہوٹلوں کی تعمیر کے لیے کیا جارہا ہے”

دی گارڈین اخبار کا رپورٹر اولیور وین رائٹ لکھتا ہے کہ

“خاندامہ پہاڑی کے اوپر مسجد الحرام کی مغربی جانب سفید پتھروں سے بنی ایک کتاب گھر کی تنہا کھڑی عمارت وہ جگہ ہے جہاں پیغمبر اسلام محمد علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی-اس جگہ کو بیت المولود کے نام سے پہچانا جاتا ہے-جس گھر کو گرا کر یہ کتاب خانہ تعمیر کیا گیا اس کی باقیات اب بھی اس عمارت کے نیچے اور آس پاس موجود ہے”

بیت مولود

مگر اب یہ عمارت بھی توسیع کی زد میں آگئی ہے-یہ عمارت اس جگہ موجود ہے جہاں آل ابی طالب اور بنو ہاشم کے مکانات موجود تھے-یہ محلہ بنوہاشم کا محلہ کہلاتا تھا-اس عمارت کے سامنے والی سڑک کے پار حضور علیہ الصلوۃ والتسلیم کی محبوب ترین اور پہلی بیوی حضرت خدیجہ کا مکان تھا جس کوگراکر 100 پبلک ٹوائلٹس بنادئے گئے-محلہ بنو ہاشم کے مکانات کا اب کوئی سراغ نہیں ملتا-سب کے سب توسیع حرم کے نام پر گرائے گئے اور ان کی جگہ ہوٹلز اور شاپنگ مال تعمیر کردئے گئے-اب لائبریری یعنی بیت المولود کو گرائے جانے کا منصوبہ ہے-

بن لادن کنسٹرکشن کمپنی میں کام کرنے والے اس لکھاری کے ایک دوست سائٹ سوپروائزر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر راقم کو بتایا تھا کہ یہ کتاب خانہ اصل میں کارپارکنگ اور میٹرولائن کی توسیع کے راستے میں روکاوٹ ہے اس لیے اسے گرانے کا فیصلہ ہوا ہے-

سعودی حکام جوکہ یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مکّہ مکرمہ میں موجود اس اہم ترین مقدس مقام کی نشانی کو ختم کرنے کے کیا نتائج و عواقب نکل سکتے ہیں تو انہوں نے اس کی پیشگی حفاظتی منصوبہ بندی کرڈالی ہے-اس کتاب گھر کی عمارت کی پیشانی پر پانچ زبانوں میں یہ عبارت لکھی گئی ہے

“اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس جگہ محمد علیہ السلام پیدا ہوئے تھے-اس جگہ دعا مانگنا یا یہاں سے برکت حاصل کرنا منع ہے”

اس عمارت سے زرا دور ہٹ کر ایک بوتھ ہے جس میں سعودی مذھبی پولیس کے اہل کار موجود ہوتے ہیں اور وہ کسی کو اس کتاب گھر کی طرف اب جانے نہیں دیتے ہیں-

توسیع مسجد الحرام کے نام سے شروع ہونے والے اس پروجیکٹ کی زد میں ایک کنواں بھی آرہا ہے جو کہ محمد علیہ اسلام سے منسوب ہے-

توسیع حرم پروجیکٹ کی زد میں آنے والا کنواں جو کہ پیغمبر سے منسوب ہے
توسیع حرم پروجیکٹ کی زد میں آنے والا کنواں جو کہ پیغمبر سے منسوب ہے

اس توسیع پروجیکٹ کی زد میں مسجد الحرام کے وہ ستون اور محراب بھی آرہے ہیں جو عباسی خلفاء اور عثمانی حکمرانوں کے دور میں بنے تھے-ان پر محمد اور اصحاب رسول کے نام اسلامی فن خطاطی کی شکل میں لکھے ہوئے ہیں-اور ایک ستون اس جگہ پر ہے جہاں سے کہا جاتا ہے کہ محمد علیہ السلام نے اپنا سفر معراج شروع کیا تھا-اور اس ستون پر اس سفر کا احوال رقم ہے-ترکی کے وزیرخارجہ سعودی حکومت کے اس اقدام کو ثقافتی خودکشی کے مترادف خیال کرتے ہیں-

عباسی دور میں تعمیر کئے گئے ستون جن پر محمد و اصحاب رسول کے نام درج ہیں
عباسی دور میں تعمیر کئے گئے ستون جن پر محمد و اصحاب رسول کے نام درج ہیں

توسیع پروجیکٹ کے سلسلے میں سعودی حکام نے کعبۃ اللہ کے گرد ایک تین منزلہ بلاک فلوٹنگ ہالو تعمیر کیا ہے-یہ کعبۃ اللہ سے 13 میٹر اونچا ہے-اور 3000 مربع میٹر مزید جگہ طواف کے لیے فراہم کرتا ہے-12 میٹر چوڑا ایک رستہ 1700 وھیل چئیرز ایک گھنٹہ میں طواف کے لیے لانے میں مددگار ہے-لیکن اس انتظام سے کعبۃ اللہ ایک تنگ سے پنجرے کے درمیان گھرا ہوا نظر آرہا ہے-

کعبۃ اللہ کے گرد بنایا گیا بلاک جس نے کعبۃ اللہ کو گھیرے میں لیا ہوا ہے
کعبۃ اللہ کے گرد بنایا گیا بلاک جس نے کعبۃ اللہ کو گھیرے میں لیا ہوا ہے

گلف انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق مکّہ اور مدینہ میں اب تک توسیع کے نام پر تین سے زیادہ تاریخی اور مقدس آثار مٹائے جاچکے ہیں-ان مٹائے جانے والے آثار میں وہ پہاڑ جس پر چڑھ کر محمد علیہ السلام نے قریش اور اہل مکہّ کو پکارا تھا اور ان کو اسلام کی دعوت دی تھی-ان مٹائے جانے والے آثار میں ابوبکر صدیق سے منسوب مسجد بھی شامل ہے جس کو گراکر ایک اے ٹی ایم مشین لگادی گئی-اور ابی بکر صدیق کے مکان کو گرا کر ہلٹن ہوٹل بنا-ہلٹن ہوٹل کی تعمیر کے پروجیکٹ مینجر نے کہا کہ یہ جگہ ان کو مذھبی ٹور ازم میں کمائی کے لیے بہت بہتر نظر آئی-پارکنگ لاٹ بنانے کے لیے جن میدانوں میں جنگ احد اور بدر لڑی گئیں تھیں ان کے نشانات بھی مٹاڈالے گئے-

توسیع حرم یا سہولتوں کی فراہمی کے نام پر مکّہ اور مدینہ میں سعودی حکام نے جو ترقیاتی کام آج تک کئے ہیں ان کو شروع کرتے وقت کبھی بھی ان دو مقدس شہروں کے اندر اسلام کے تاریخی،آرکیالوجیکل اور ثقافتی ورثے کی حفاظت اور ان کو باقی رکھنے  کے لیے نہ تو کبھی کوئی ادارہ آج تک قائم کیا گیا اور نہ ہی اس کو ان آثار کو باقی رکھنے کی زمہ داری سونپی گئی-اس کی سب سے بڑی وجہ سعودی حکومت کا مسلک اور مذھب ہے-جس کے مطابق اسلام ،پیغمبر ،اہل بیت اور اصحاب رسول و تابعین و تبع تابعین سے متعلق آثار اور تاریخ اسلام کے اہم ترین واقعات کی نشان دہی کرنے والے آثار شرک کو فروغ دینے والے ہیں-ان کی وجہ سے بدعات اور غیر شرعی افعال کا صدور ہوتا ہے-اس لیے ان کا مٹایا جانا ایک مذھبی فریضہ اور اسلام کے پہلے اور بنیادی اصول توحید کی پاسداری کرنے کے لیے بہت ضروری ہے-

وہابی مسلک کی بنیاد اور خمیر ہی اینٹی آرکیالوجیکل،کلچرل،ہسٹاریکل آئیڈیالوجی سے اٹھا ہے-شرکۃ المدینۃ الطباعۃ نے ایک کتاب عربی زبان میں “الشیخ محمد بن عبدالوہاب”کے نام سے جدہ سے شایع کی-اور یہ کتاب بہت مرتبہ ایام حج کے دوران حکومت سعودیہ عرب کی جانب سے حاجیوں کو مفت تقسیم کی گئی-اس کتاب میں لکھا ہے کہ

“ایک روز جب روضہ رسول پر حاضری دینے والے زائرین روضہ رسول کے سامنے استمداد و توسل کررہے تھے تو شیخ بھی ان کو دور سے کھڑے دیکھ رہے تھے-ان کے استاد حدیث علامہ محمد حیات سندھی بھی بن کو دیکھ رہے تھے-انہوں نے شیخ سے پوچھا کہ “ان لوگوں کے متعلق آپ کی رائے کیا ہے؟تو شیخ نے کہا

“ان ھولاء متبر مافیہ و باطل ماکانوا یعملون”

بے شک یہ لوگ جس کام میں ہیں تباہ تباہی و بربادی ہیں اور جو یہ عمل کرتے ہیں وہ باطل ہیں-

کتاب توحید جوکہ جدہ کے ایک مکتبہ سے شایع ہوئی اس کے مقدمہ میں ص13 اور کتاب “شیخ محمد بن عبدالوہاب”کے ص 21 پر یہ واقعہ لکھا ہوا ہے کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب کی توحید بارے باتوں سے عنییہ شہر کے امیر عثمان جب متاثر ہوا تو اس کی مدد سے محمد بن عبدالوہاب نے خلیفہ دوم عمر فاروق کے بھائی زید بن خطاب جوکہ مسلیمہ کذاب سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے کا مزار مقدس زمین بوس کردیا اور اسی پر بس نہ کیا بلکہ دوسرے صحابی حضرت ضرار بن الازور کا مزار بھی مسمار کرڈالا-

شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کا جب نجد کے امیر محمد بن سعود سے اتحاد ہوا تو درعیہ اور نجد کے اندر موجود تمام اسلامی آثار کو مٹاڈالا گیا-مسلمانوں کی اکثریت کا قتل عام ہوا-کتاب التوحید کے مقدمہ کے ص17 پر تحریر ہے کہ درعیہ سے فارغ ہونے کے بعد حجاز،نجد،شام اور دیگر علاقوں کا رخ کیا گیا-اور محمد بن سعود کی قیادت میں ان علاقوں میں شعائر اسلام کم مٹایا گیا اور مسلمان جو شیخ محمد بن عبدالوہاب کی آئیڈیالوجی سے اتفاق نہیں کرتے تھے ان سے قتال اور جہاد کیا گیا-مدینہ میں الجامعۃ الاسلامیہ کے رئیس عبدالعزیز بن باز کے تالیف کردہ رسالے “الشیخ محمد بن عبد الوہاب”کے ص24 پر یہ عبارت موجود ہے کہ

ثم بدا بالجھاد و کاتب الناس الی الدخول فی ھذا المیدان واذالۃ الشرک الّذی فی بلادھم وبدا اباھل نجد

(ابن سعود کے ساتھ معاہدہ طے پاجانے کے بعد)پھر جہاد کا آغاز کردیا گیا-لوگوں خطوط لکھے گئے کہ وہ بھی اس میدان(جہاد)میں شریک ہوں-اور اپنے شہروں میں شرک کا ازالہ کریں-اور اس جہاد کا آغاز نجد سے کیا گیا-

اسی رسالہ میں ص28 پر لکھا ہے کہ

و استعر الشیخ فی دعوہ والجھاد وساعدہ الامیر محمد بن سعود الدرعیہ و جد الاسرہ السعودیۃ علی ذالک ورفعت رایۃ الجہاد وبداالجھاد من عام 1158 بدالجھاد بالسیف وبالکلام والبیان والحجۃ والبرھان ثم انتقلت الدعوہ الی طور الجھاد بالسیف

شیخ عبدالعزیز بن باز نے اس رسالے میں لکھا ہے کہ

ولیس بین ھولاء الدعاہ و خصومھم شئی الان ھولاء دعوا الی التوحید اللہ واخلاص العبادہ للہ عزوجل والاستقامۃ علی ذالک وھدم لمساجد والقباب التی علی القبور

اس عبارت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ نجدی اور محمد بن سعود کی مسلمانوں سے دشمنی ان کے عقیدہ توحید اور قبور پر بنے مقابر کی وجہ سے تھی-

1218ء اور 1220ء میں محمدبن سعود کا پوتا اور اس کے بیٹے عبدالعزیز کا بیٹاسعود بن عبدالعزیز مکہ اور مدینہ پر حملہ آور ہوا اور اس حملے کے دوران بہت سارے آثار مٹاڈالے گئے-ہزاروں مسلمان قتل ہوئے اور ان کی عورتوں کو لونڈیاں ،لڑکوں کو غلام اور ان کے مال واسباب کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹ لیا گیا-پھر کربلاء معلی اور بلدالحسین پر حملہ کیا گیا اور اسے لوٹ لیا گیا-یہ قبضہ مصر کے حاکم خدیو پاشاء نے چھڑایا تھا-اور 1925ء میں عبدالعزیزبن عبدالرحمان بن فیصل بن ترکی بن عبداللہ بن محمد بن سعود نے برطانیہ کی مدد سے جحاز پر پھر حملہ کیا-اور پھر سارے حجاز پر قابض ہوگئے-مکّہ مکرمہ اور مدینہ کے قبرستان منہدم کردئے گئے تھے-اور اسی دوران سعودیہ عرب کی مملکت قائم کی گئی-اس وقت سے لیکر اب تک اسلامی تاریخ،آرکیالوجی اور ثقافت کو مٹائے جانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے-مکہّ اور مدینہ جو کہ مسلمانوں کے مقدس ترین شہروں میں سے دو شہر ہیں ان شہروں کے اندر اسلام کے آغاز سے لیکر وفات رسول اور اس کے بعد کے ادوار میں سامنے آنے والے جو آثار تھے ان کو مٹاکر ان کی جگہ شاپنگ مالز ،ٹاورز اور ہوٹلز تعمیر کودئے گئے ہیں-اور یہ شہر میٹرو پولس شہروں میں بدلتے ہوئے دکھاائی دیتے ہیں-ان بلند و بالا عمارتوں کے درمیان مکّہ اور مدینہ اور اس کے گرد و نواح کی اسلامی تاریخ منافع خوری،تجارت اور سرمایہ داری کی نظر تو ہوئی ہی ہے مگر اس کے پیچھے آل سعود کی وہابیت میں شامل تاریخ سے نفرت بھی شامل ہے-

پھر تاریخ ،آرکیالوجی،ثقافت کا قتل صرف حجاز ہی میں نہیں ہوا بلکہ جہاں جہاں وہابیت کا تصور جہاد گیا وہاں وہاں یہ قتل لازم ہوا-ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب القائدہ نے عراق میں امام موسی کاظم،کربلائے معلی،نجف اشرف اور عبدالقادر جیلانی و امام ابو حنیفہ کے مزارات کو نشانہ بنایا-شام میں بی بی زینب ،حضرت سکینہ،حجر بن عدی ،ایوب انصاری کے مزارات کو نشانہ بایا گیا-افریقہ میں ٹمبکٹو اور پاکستان کے اندر خصرت داتا گنج بخش،عبداللہ شاہ غازی،بری امام کے مزارات نشانہ بنے-الغرض کہ وہابی تصور جہاد و قتال تاریخ،آرکیالوجی اور ثقافت دشمنی پر مبنی ہے-یہ اہل سنت اور شیعہ کے تصور ایمان کے خلاف بھی ہے اور یہ اپنے سے اختلاف کرنے والے ہر آدمی اور ہر مکتبہ فکر کے خلاف ہے-

مجھے سخت حیرت ہوئی جب ایل یو بی پاک ڈاٹ کام پر وہابی تکفیری فکر پر تنقید کرتے ہوئے مضامین اور نیوز سٹوریز شایع کی گئیں تو اس پر جھوٹ اور فیک ہونے کا الزام عائد کیا گیا-جب ایل یو بی پاک ڈاٹ کام نے یہ لکھا کہ وہابی اور تکفیری دیوبندی گروہوں کا خمیر ایک اور تفرقہ پرستانہ ہے اور ان کا اہل سنت سے کوئی رشتہ و ناطہ نہیں ہے تو اس دعوے کو جھٹلانے والوں نے کوئی ثبوت بپنے حق میں پیش کرنے کی زحمت گوارا نہ کی-ہم نے آج تک جو بھی بات کی ہے ثبوت اور دلیل کے ساتھ کی ہے-اور کبھی بھی ثانوی زرایع پر انحصار نہیں کیا-

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sami Farooqi
    -
  2. Saqib
    -
  3. Atif Ksa
    -
  4. tekedar tariq tangdew
    -
  5. ALI SHAH
    -
    • Mohammad Javid iqbal
      -
      • Akmal Zaidi
        -
      • Raza
        -
  6. Adnan Baig
    -
    • Akmal Zaidi
      -
  7. Hussain Khan
    -
    • Mohammad Javid iqbal
      -
    • Akmal Zaidi
      -
  8. Tee Jay
    -
    • Akmal Zaidi
      -
  9. asim ayaz
    -
  10. Muhammad Israr
    -
  11. Irshad
    -
  12. رومانہ
    -
  13. HONEY KHAN MELAZAI
    -
  14. ممتاز حسین
    -
    • Akmal Zaidi
      -
  15. honey khan melazai
    -
  16. rabnawaz
    -
  17. Nike Air Max 1 Men
    -
  18. Nike Shox NZ 2.0 Mens
    -
  19. Jordan 2012 Women shoes
    -
  20. Nike KD 5
    -
  21. Adidas Ts Twist Commande
    -
  22. Jordan Flight SC-1
    -
  23. Monogram Canvas
    -
  24. Nike Air Max Skyline
    -
  25. Nike Ace 83 Autoclave
    -
  26. Timberland Low Top Boots
    -
  27. Air Jordan 2010
    -
  28. Boston New Balance 574 Men
    -
  29. Puma Shoes Men (332)
    -
  30. Blog
    -
  31. Air Jordan 2012
    -
  32. Christian Dior Bags (452)
    -
  33. Femme Jordan Spizike
    -
  34. Femme Air Max 1
    -
  35. Nike Air Max 90 Mujeres
    -
  36. Nike Air Max 1
    -
  37. Air Jordan 1
    -
  38. Nike Free Run Homme
    -
  39. Air Jordan 3
    -
  40. Nike Free Run 3
    -
  41. Womens Supra Shoes
    -
  42. Jimmy Choo Shoes
    -
  43. Pumps
    -
  44. Bottega Veneta
    -
  45. Bottega Veneta Bags
    -
  46. Cinturones Lacoste
    -
  47. Mahina Leather Wallets
    -
  48. Prada
    -
  49. Celine
    -
  50. Ed Hardy Zapatos
    -
  51. Chaussures Nike Air Max 2009 De-femme
    -
  52. Dior
    -
  53. Gucci Exotics
    -
  54. Vanessa Bruno
    -
  55. Sac Celine Luggage W26
    -
  56. Louis Vuitton Femme Chaud
    -
  57. Oakley Sunglasses(1556)
    -
  58. Rayban Sunglasses
    -
  59. Mizuno Shoes Men (16)
    -
  60. New Balance Minimus Zero
    -
  61. Nike Air Max Skyline Womens
    -