کعبۃ اللہ کی امامت پر قابض شیخ مچائے شور

abdul

یہ کہاوت میں نے پہلی مرتبہ کہاں پڑھی تھی کہ “چور مچائے شور”ٹھیک سے یاد نہیں ہے-مگر یہ کہاوت آل سعودکے مسجد نمرہ کے خطیب عبدالعزیز آل شیخ کے جمعہ خطبہ کے دوران یہ وعظ کرنے پر بہت یاد آئی کہ عالم اسلام کو فرقہ واریت چھوڑ کر متحد ہوجانا چاہئیے-عبدالعزیز آل شیخ نے 17 لاکھ عازمیں حج کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ “عالم اسلام کے خلاف سازشوں کا بازار گرم ہے اور ان کو باہم دست و گریباں کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں-مسلمانوں کو تقوی اور خوف خدا کی اشد ضرورت ہے”میں نے آل سعود کے تنخواہ دار خطیب کی یہ بات سنی تو میری بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی اور میرے پاس میرا بیٹا شاویز تقی براجمان تھا وہ میری ہنسی پر متعجب ہوکر کہنے لگا کہ “بابا آپ کیوں ہنسنے لگے ہو؟میں نے کہا کہ مجھے اپنے بزرگوں سے سنی ایک کہاوت یاد آگئی کہ “چور سے کہنا کہ چوری کرلو اور جس کے گھر چوری ہوئی ہو اس کہا جائے کہ تمہارے گھر چوری فلاں نے کی ہے”یہ کعبۃ اللہ کے زبردستی امام بن جانے والے خارجی عبدالعزیز آل شیخ 17لاکھ مسلمانوں کو فرقہ واریت سے اجتناب کرنے اور امت کے اتحاد کی بات جو کررہے ہیں یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جس خاندان کی حجاز میں حکومت ہے وہ خاندان اور اس کی تنخواہ پر پلنے والے مذھبی پیشواء پورے عالم اسلام کے درمیان اتحاد اور اتفاق کی عمارت کو زمیں بوس کرنے والے ہیں-یہ آل سعود اور محمد بن عبدالوہاب خارجی کے مکتب کے مذھبی پیشواؤں کا اتحاد ہے جنہوں نے پورے عالم اسلام میں پھر سے فتنہ تکفیر اور فتنہ خارجیت کو پروان چڑھایا-آل شیخ بہت معصوم بنتے ہوئے حجاج کرام کو عالم اسلام کے اتحاد کے خلاف سازشوں کی خبر دے رہے تھے-اور وہ عالم اسلام کے حکمرانوں سے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے اور تاجروں کو سود کا خاتمہ کرنے و مسلمانوں کی خوشحالی کے لیے کام کرنے کا کہہ رہے تھے-عبدالعزیز آل شیخ ایسا کرتے ہوئے مسلم امہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے تھے-اور جس ملک کے وہ باسی ہیں اس ملک کے بارشاہ اور تاجروں کا جو مذموم کردار ہے وہ اس بارے ایک لفظ بھی نہیں بولے-

میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس موقعہ پر سنت انبیاء و اہل بیت اطہار و صاحبان رسول ادا کرتے ہوئے کعبۃ اللہ کی مسجد پر قابض عصر حاضر کے بلعم باعور یا قاضی شریح کی دسیسہ کاری اور فریب کا پردہ چاک کرڈالوں-کیونکہ اس پردے کو چاک کرنے میں مستعدی دکھانے والے بہت کم لوگ ہیں-اور اکثر لوگ کعبۃ اللہ کے امام کی نسبت دیکھ کر حق بات کرنے سے رک جاتے ہیں-وہ یہ نہیں سوچتے کہ ایک زمانے میں مسلم بن عقبہ اور يزید لعین کے بہت سے گورنر مکّہ بھی تو مکّہ میں امامت پر قابض ہوگئے تھے-اور بنو امیہ کے لوگ امارت حج پر قبضہ کربیٹھے تھے-کیا ان کے قبضہ کرنے سے ان کی پیروی یا ان کے خیالات کو اپنانا فرض ٹھہر گیا تھا؟یقینی بات ہے کہ ایسا نہیں تھا-تو آج جب یہ آل سعود مثل نمرود کا نمائندہ جب کعبۃ اللہ میں مصلی امامت و خطابت پر زبردستی قابض ہے تو اس کی پیروی و اقتداء ہم پر واجب نہیں ہے-

آل شیخ عبدالعزیز کا یہ کہنا درست ہے کہ فرقہ واریت وہ زھر قاتل ہے جس نے مسلم معاشروں میں فساد اور تخریب برپا کررکھی ہے-اور اسی مرض کے پھیل جانے سے مسلم معاشرے پستی و تنزلی کی دلدل میں گردن تک دھنسے ہوئے ہیں-لیکن آل شیخ عبدالعزیز یہ بتانے کی ہمت نہیں کرسکا کہ مسلم معاشروں میں آج فرقہ واریت کا زھر پھیلانے کی زمہ داری کن گروہوں پر عائد ہوتی ہے؟اور ان گروہوں کا سرغنہ کون ہے؟کیونکہ اگر کاروان اسلام کو لوٹنے والے رہزنوں کا پتہ چلایا جائے گا تو سب یہی کہیں گے کہ

“میر کارواں یارو،میر کارواں یارو”

یہ لارنس آف عربیا کے ساتھ کھڑا محمد بن عبدالوہاب کون ہےیا آل شیخ؟arabia

بھلا شیخ عبد العزیز آل شیخ 17 لاکھ حاجیوں اور ٹی وی سکرین پر نظریں جمائے بیٹھے مسلم ناظرین کو حقیقت کیوں بتانے لگا جبکہ وہ خود اس طائفہ کا شریک کار ہے جو امت مسلمہ میں تفرقے اور نفرت باہمی کے بیج بوتا ہے-اور ایسے درختوں کی پرورش کرتا ہے جو مسلمانوں کے خون سے سینچے جاتے ہیں-کیونکہ اگر اس کو سچ بولنا پڑا تو سب سے پہلا سچ اس کو یہ بولنا ہوگا کہ اس کا امام اور اس کا گرو محمد بن عبدالوہاب اور سعود وہ دو افراد تھے جنہوں نے برطانوی لارنس آف عرب لارڈ ہمفرے کے ہاتھوں اپنا ایمان فروخت کرڈالا تھا اور حجاز مقدس میں اپنے تصور توحید و رسالت سے اتفاق نہ کرنے والوں کو مشرک اور ان کی جان و مال،عزت و آبرو کے لوٹے جانے کو مباح قرار دیا تھا-محمد بن عبدالوہاب اور اس کے حامی آل سعود تھے جنہوں نے امت مسلمہ کی اکثریت کو مشرک اور بدعتی قرار دے ڈالا تھا-اور پھر ابن سعود سے لیکر شاہ عبداللہ تک آل سعود کے تمام بادشاہ اور ان کے حکومتی شہزادے اور ان کی تنخواہ پر کام کرنے والے مفتیان حرم دو صدیوں سے پورے عالم اسلام کے خلاف کفر،شرک اور بدعت کے فتوے جاری اور ان فتوؤں کے پھیلاؤ میں سرگرم رہے ہیں-

آل شیخ حاجیوں کو یہ بتانے کی ہمت کرتے تو ان کی حق گوئی کا میں معترف ہوتا کہ فرقہ واریت اور کافر سازی کی سب سے بڑی مشین تو خود سعودیہ عرب کا بادشاہ عبداللہ ہے-اور اس مشین کے مختلف پارٹس سعودیہ عرب کے اندر کہیں ریاض یونیورسٹی کے اندر ہیں اور کہیں مدینہ یونیورسٹی کے اندر-پھر یہ فرقہ وارانہ مشین پوری دنیا میں نام نہاد اسلامی مراکز کے نام سے اور 135 ارب ڈالر سالانہ کی مالی مدد سے قائم فرقہ وارانہ تنظیموں اور اداروں میں اپنے مشن کو آگے بڑھانے کا کام کرتی رہتی ہے-

میں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا کہ آل سعود اور اس کے معاون وہابی مولویوں نے مسلمانوں کے سب ہی ملکوں میں مساجد اور مدارس کی ایک ایسی چین اور ایک ایسا سلسلہ قائم کیا ہے کہ جو امن و سلامتی اور علم دین کے مراکز کی بجائے فساد و قتال و افتائے کفر و شرک کے اڈے بن چکے ہیں-اور وہاں سے تفرقہ بازی کی آئیڈیالوجی ایک کوڑھ کی طرح سے کاشت ہوتی ہے-یہ مراکز خودکش بمباروں کو جنم دیتے ہیں-اور ایسے درندوں کو بڑا کرتے ہیں کہ جو مرجانے والوں کی لاشوں کو مثلہ نہ کرلیں تو ان کو چین نہیں آتا-

مساجد کے منبروں سے اور درس کی مسندوں سے آل سعود کی دولت اور وہابی مولویوں سے خیالات و عقائد مستعار لینے والے قال اللہ و قال رسول اللہ کی صدا بلند کرنے اور واعتصموا بحبل اللہ جمعیا ولا تفرقو کی تلاوت کرنے کے کبھی شیعہ کو کافر و واجب القتل قرار دیتے ہیں تو کبھی بریلوی یا صوفی مشرف کو جہنمی و قبال گردن زدنی قرار دیتے ہیں-اور لوگوں کو ان کے عقیدے کی وجہ سے قتل کرنا جائز خیال کرتے ہیں-اور بنا کسی وجہ شرعی کے قتل و غارت گری پر آمادہ ہوتے ہیں-اور اس قدر اندھے ہوجاتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کے خون کو بہانے کے لیے غیر ممسلم ممالک کی فوجی قوت کا سہارا بھی لینا پڑے تو دریغ نہیں کرتے-

آل شیخ!تم میں سچ بولنے کا حوصلہ ہوتا تو تم دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ ضرور بتاتے کہ وہ کون سے حکمران ہیں جو عراق پر دونوں مرتبہ حملوں میں اپنے ملک کی سرزمین کو اور فضائی حدود کو استعمال کرنے کی اجازت دیتے رہے اور وہ کون تھے جنہوں نے ایران کی عوام پر کیمائی ہتھاروں سے حملہ کرنے کے لیے دیگن کو صدام کو راضی کرنے کے لیے کہا؟

images attack2images attack

وہ کون سے ملک کے حکمران خاندان تھے جنہوں نے برطانوی حاکموں کے عالم اسلام کو پارہ پارہ کرنے اور فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنے کا فرمان جاری کیا تھا؟وہ کون سے ملک اور حاکم تھے جنہوں نے نہر سویز پر برطانیہ کے قبضے کی راہ ہموار کی تھی؟اور وہ کون سے حاکم تھے جنہوں نے امریکہ کی بالادستی کی جںگ کو جنوبی ایشیا کے ملک افغانستان میں “مقدس جہاد”قرار دے ڈالا تھا؟وہ کون سے ملک اور حکمران ہیں جو پورے عرب سے دھشت گردوں کو عراق اور شام میں بھیج رہے ہیں اور وہاں پر معصوم شہری مارے جارہے ہیں؟تم کم از کم یہ تو بتلاہی دیتے کہ 80ء میں تمہارے ملک کے ریالوں کی رشوت پاکر احسان اللہی ظہیر نے “الشیعہ” اور “البریلویہ”لکھی تھی-اور یہ تمہارے ملک کے شیوخ کے پیسے تھے جن کے بل بوتے پر پورے ملک میں اچانک شیعہ اور سواد اعظم اہل سنت کا اسلام مشکوک ٹھہرا دیا گیا تھا-اور پاکستان کے بازاروں ،محلوں،گلیوں،اسکولوں ،کالجوں کی دیواریں “کافر کافر ۔۔۔۔۔۔فلاں کافر””کے نعروں سے اٹ گئی تھیں اور یہ سب تمہارا کمال تو تھا ہی یہ تمہارے مسلک کی پیروی کرنے والے ضیاء کا بھی کمال تھا-لیکن میں جانتا ہوں کہ تم پر تو آل سعود کی عنائیتیں اس قدر ہیں کہ تم تو سوچ بھی نہیں سکتے کہ ان کی ذات پر حرف لے آنے والی حقیقت کی نقاب کشائی کرسکو-

کاش کہ کوئی حجر ابن عدی ہوتا یا پھر سعید بن جبیر مطعم ہوتا یا کوئی ابوزر غفاری ہوتا یا عمار یاسر ہوتا جو تمہارے منبر کے سامنے کھڑا ہوجاتا اور تم سے کہتا کہ

“اے عبدالعزیز آل شیخ!اللہ سے ڈر اور پورا سچ بول کہ فرقہ واریت ایک ناسور ہے اور اس ناسور کی علامت آل سعود اور اس کی تکفیری سوچ ہے دونوں کا خاتمہ اشد ضروری ہے-

اے آل شیخ! وہابی تکفیری مالکان آئل کمپنیوں اور آرامکو کے ڈائریکٹرز کی خون آشام تفرقے بازی سے اظہار برات کجئیے اور ان کی دولت تکفیری مشینری اور نام نہاد جہادی تنظیموں پر صرف ہونے کو حرام قرار دیں-

مجھے اندازاہ ہے کہ اس آدمی کے ساتھ آل سعود یہ کرتے کہ یا تو ابوزرغفاری کی طرح وہ اپنے ربذہ کا اسیر بنتا یا وہ حجر بن عدی و سعید بن جبیر مطعم کی طرح ذبح کردیا جاتا-لیکن اہل حق کو ایسی سزائیں کب حق گوئی سے باز رکھتی ہیں-

میں وہاں نہیں تھا کیونکہ “من استطاع الیہ سبیلا”کا اطلاق مجھ پر نہیں ہوتا مگر آل شیخ کا کتمان حق مجھ سے برداشت نہ ہوا تو میں نے اپنے قلم اور قرطاس سےآل شیخ کا کتمان حق سب کے سامنے کھولنے کا فیصلہ کرلیا-

آل شیخ !تم عالم اسلام میں عورتوں کے اندر بیداریاور شعور کی لہر سے خوفزدہ ہو اور تمہیں ان عورتوں سے خوف آتا ہے جو تمہاری پیشوائت اور تمہاری جھوٹی دینداری کی قلعی کھول رہی ہیں جو تمہارے” تصور محرم”کو ٹھوکر مارکر اور تمہارے ذھن کی گندگی سے جنم لینے والی اختلاط مرد وزن کی افسانہ طرازی کا پردہ چاک کررہی ہیں-اور تمہارے غیر اسلامی اور محض قبائلی و جاگیردارانہ و بدوی خیالات سے جنم لینے والی تنگ نظری کی زنجیروں سے بندھی نام نہاد دینداری کی دعوے کے عقب میں عورتوں کو بس “استعمالی شئے”بنادینے والی خودساختہ شریعت کا اعتبار جاتا ہوا لگ رہا ہے تو تم کہتے ہو کہ “عورتوں کا مغرب کے تصور آزادی کے پیچھے ـبھاگنا تباہی ہے”اصل میں تم ٹھیک کہتے ہو کہ یہ تباہی ہے مگر ان عورتوں کے لیے نہیں بلکہ تمہارے جیسے لغت ہائے حجازی کے قارونوں کے لیے یہ تباہی کا پیغام ہے-

Wadjda director Haifaa al Mansour, Saudi Arabia's first feature film-maker

یا آل شیخ! تم نوشتہ دیوار پڑھ ڈالو،مسلم معاشروں میں تمہاری تکفیری سوچ اور تمہاری خارجیت سے جتنا خون بہنا تھا بہہ لیا-جس قدر افتراق و انتشار تم بپا کرسکتے تھے ہوگیا-زرا اپنے اردگرد کی دنیا کا بدلاؤ دیکھو-مدینہ و مکہّ کے اندر عورتوں کی اختلافی آوازیں تمہارے ایوان ہائے عیش و عشرت کو لرزا رہی ہیں-تمہارےبچے طالبان ایک نہتی نوعمر طالبہ ملالہ کی آواز سے لرزہ براندام ہیں-اور تمہاری تعلیمات کی کوکھ سے جنم لینے والی القائدہ و جبھۃ النصرۃ عراق،شام،افریقہ،پاکستان،افغانستان ،انڈونیشیا و بنگلہ دیش میں عام مسلمانوں کی حمائت تو حاصل نہ کرپائی اب وہ گاڑیوں اور اپنے وجود کو بارود سے لپیٹ کر بس خون و آتش کا کھیل کھیلے جاتی ہے اور دن بدن اس کی طاقت کم اور وجود سکڑتا جاتا ہے-مستقبل قریب میں وہ وقت ضرور آئے گا جب یہ تکفیری دھشت گرد ٹولہ اور اس کے تم جیسے مربی و سرپرست تاریخ کی کتابوں میں قصّہ ہائے پارینہ را بن جائیں گے جیسے ہٹلر،میسولینی،یزید،عبدالمالک بن مروان،ہشام بن مروان ودیگر ہوگئے-تلوار ،تیر ،بندوق اور آج آئی ڈی ایکس کے بل بوتے پر کسی آئیڈیالوجی کی جبری وقتی فتح کبھی پائیدار نہیں ہوئی-اس کی قسمت میں ازکاررفتہ ہونا لکھا ہے سو اس نے ہونا ہی ہے-

Comments

comments

Latest Comments
  1. Mohammad Tariq
    -
  2. abdul Majid
    -
    • Muhammad Naveed
      -
  3. Adamfani
    -
  4. samin
    -
  5. HONEY KHAN MELAZAI
    -
  6. Akmal Zaidi
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.