اصلی اور جعلی طالبان

terrorism

پشاور میں دھشت گردی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جعلی طالبان و اصلی طالبان

لیل و نہار /عامر حسینی

پشاور کے بازار قصّہ خوانی بازار میں بارود سے بھری گاڑی کے پھٹنے سے 40 سے زائد لوگ شہید اور 150 سے زائد زخمی ہوگئے-اس دھماکے کے بعد جو آگ اور تباہی وہاں پھیلی اس کے سلائيڈز دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے-پورے بازار میں آگ اور دھواں کے بادل نظر آرہے ہیں-کٹے پھٹے اعضاء جابجا ہیں اور عورتوں،بچوں،مرد جو زحمی پڑے ہیں ان کے چہروں پر جو خوف اور بےبسی ثبت ہے ان کو دیکھ کر کسی کا دل بھی مٹھی میں آسکتا ہے-

ویسے تو یہاں مرنے والوں اور زخمی ہونے والوں کے گھروں میں سب کے ہاں ماتم اور سوگ کی کیفیت ہوگی لیکن ایک خاندان سرتاج فوجی کا بھی ہے جس کے 18 افراد اس دھماکے میں نشانہ بن گئے اور وہ سب شادی کی خریداری کرنے شبقدر سے قصّہ خوانی بازار آئۓ تھے-ان کی سوزکی وین اس دھماکے کی زد میں آئی اور سب کے سب مرگئے-بس ایک سرتاج فوج کا سپاہی اور اس کا ایک بے مار بچہ بچا جوکہ اپنی بےماری کے سبب بازار جانے سے رہ گیا-اس سرتاج کے چیخنے،چلانے اور آہ و بکاء کرتے ہوئے ایک تصویر لیڈی لیڈنگ ہسپتال میں چھپی ہے-اس تصویر میں اس قیامت کی کہانی موجود ہے جو بے چارے سرتاج پر گزر گئی ہے-

images

قصّہ خوانی بازار اس سے پہلے بھی خون کے سمندر میں نہایا ہے-ایک مرتبہ تو خان قیوم خان نے اس بازار کو خدائی خدمت گاروں کے خون سے نہلادیا تھا-اور ان خدائی خدمت گاروں کا جرم یہ تھا کہ وہ اپنے جمہوری سیاسی حقوق کی مانگ کررہے تھے-پھر اس قصّہ خوانی بازار میں افغان وار کے دوران خون کی ہولی کھیلی گئی-اور مشرف دور کے اندر بھی یہاں بم پھٹا کئے اور معصوم عوام شہید کئے جاتے رہے-آج یہی قصّہ خوانی بازار پھر لہو،لہو ہوگیا-

پشاور کا یہ مرکزی بازار تجارتی مرکز تو ہے ہی لیکن یہ پورے خیبر پختون خوا کے سیاسی ہیڈکوارٹر کا کام بھی کرتا رہا ہے اور اس کی ثقافتی تاریخی اہمیت بھی سب کے سامنے ہے-

اس دھشت گردی کے واقعے پر میرا یہ کالم لکھنے کا مقصد گریہ کرنا،آہ و زاری کرنا یا دھشت گردوں کی مذمت کرنا نہیں ہے-کیونکہ وہ تو ہم بہت سارے مواقع پر کرتے ہی رہے ہیں-بلکہ کالم کا فوکس اس بات پر رکھنا ہے کہ دھشت گردوں نے کے پی کے اور فاٹا کو ایک مرتبہ پھر اپنا نشانہ بنالیا ہے-اور وہ جب چاہتے ہیں کے پی کے کے اندر بارود کی بارش کردیتے ہیں اور درجنوں لوگوں کی جان لے لیتے ہیں-ایک ہفتے کے اندر کے پی کے میں دوسری بڑی دھشت گردی کی کاروائي ہے-اور اس ماہ کے اندر یہ چوتھی بڑی واردات ہے-

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے دھشت گردی سے نبٹنے کے لیے جس تیاری کے دعوے ہورہے تھے ان دعوؤں کے عملی ثبوت کہاں ہیں؟

اے پی سی میں تمام سیاسی جماعتوں نے دھشت گردوں سے مذاکرات کرنے کے لیے حکومت کو جو مینڈیٹ دیا تھا اس کا کیا نتیجہ یہی نکانا مقصود تھا کہ دھشت گرد آپ کے فوجی افسران،سرکاری ملازمین اور عام شہریوں کو زیادہ بربریت اور سفاکی سے مارڈالیں؟

جب میجر جنرل ثناءاللہ نیازی اور دو دیگر پاک فوج کے افسرو سپاہی مارے گئے تو اس ملگ کے وزیراعظم نواز شریف،وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار  اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بیانات آئے کہ یہ اقدام مذاکرات کے خلاف سازش ہیں-اور بہت تکفیری گروپوں سے ہمدردی رکھنے والوں نے اسے طالبان کا اقدام ماننے سے انکار کردیا اور اس کو امریکی،بھارتی ،اسرائیلی سازش قرار دے دیا-اب طالبان نے ان فوجی افسران کے قتل کی زمہ داری قبول کرنے والی ویڈیو جاری کردی ہے-

ایسے ہی جب آل سینٹ میری چرچ پر حملہ ہوا اور جنداللہ نامی گروہ نے اس واقعے کی زمہ داری قبول کی تو عمران خان،نواز شریف اور مذھبی جماعتوں کے سربراہوں نے اس کو تحریک طالبان پاکستان کی کاروائی ماننے سے انکار کردیا-خود ٹی ٹی پی نے اس معاملے پر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تو اسی دوران جنداللہ اور تحریک طالبان پاکستان میں روابط کے ناقبال تردید ثبوت ملے-ٹی ٹی پی جند اللہ کے کمانڈر حماد کی رہائی کا مطالبہ پاکستانی حکومت سے کرچکی ہے-

پشاور سول سیکرٹریٹ کے ملازمین کی بس میں دھماکہ کی زمہ داری قبول کرنے والے ظالبانی گروپ کے ترجمان خالد خراسانی نے جو خط میڈیا کو ارسال کیا اس میں صاف صاف لکھا کہ وہ پاکستانی آئین کو جب مانتے ہی نہیں تو اس کے تحت مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا-

اب جب پشاور میں یہ ایک اور واقعہ ہوگیا تو توقع تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور کے پی کے کی حکومت دھشت گردی کے خلاف اپنے موقف پر نظرثانی کرے گی اور وہ دھشت گردوں سے لڑنے کے لیے پولیس کو جدید ہتھیاروں،گاڑیوں اور دیگر انفراسٹرکچر سے لیس کرے گی-یہی توقع وفاقی حکومت سے بھی تھی-مگر میرے لیے صدمے کی بات تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا جب یہ بیان آیا کہ یہ کاروائیاں جعلی طالبان کررہے ہیں-اصلی والوں کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے-

عمران خان کا یا بیان ان کی حماقتوں سے سرزد ہونے والے بیانات کی سیریز کا حصہ ہے-پہلے وہ یہ کہتے رہے کہ جب تک ڈرون حملے بند نہیں ہوں گے طالبان حملے کرتے رہیں گے-پھر کہا کہ حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرے گی تو حملے ہوں گے-جب چرچ پر حملہ ہوا تو ان کو الہام ہوا کہ یہ طالبان نے نہیں کیا-اور اب ان کو یہ الہام ہوا ہے کہ یہ سب تو جعلی طالبان کررہے ہیں-ادھر تحریک طالبان پاکستان ہے کہ اپنے اعترافی بیانات کی ویڈیوز جاری کررہی ہے-خطوط لکھ رہی ہے اور مزید خون بہانے کی دھمکیاں دے رہی ہے-ایسے میں عمران خان کا یہ کہنا کہ جعلی طالبان یہ کاروائیاں کررہے ہیں مہا احمق ہونے کی نشانی ہے-یہ اس دھشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے اہل خانہ کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف بھی ہے-

دھشت گردی اور اس کا مرتکب ہونے والی تنظیموں کے بارے میں اچھے اور برے ہونے کی تمیز عسکری قیادت کی جانب سے ہونا شروع ہوئی تھی اب ایک اور درجہ بندی عمران خان کی جانب سے سامنے آئی ہے اور وہ ہے اصلی اور جعلی طالبان کی-

اس دروان جبکہ ریاست ،حکومت ،حکومتی ادارے اور ہماری سیاسی جماعتیں دھشت گردوں کے بارے میں کوئی پالیسی تیار کرنے اور عوام کو بچانے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے سے قاصر ہیں تو معروف ماہر ایشیائی امور عارف جمال کا یہ انکشاف بہت سنسسی خیز ہے کہ

“جس میجر جنرل کو تحریک طالبان پاکستان نے مارا وہ جب کرنل تھا تو عارف جمال کو ایک ملاقات میں وہ طالبان پر تنقید کرنے سے روک رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ عارف کو معلوم نہیں ہے کہ ان طالبان نے پاکستان کے لیے کیا کردار ادا کیا ہے”

اب میں یہ سوچتا ہوں کہ یہ جب میجر جنرل بنے تو سوات میں آپریشن کے نگران تھے اس دوران فوج نے طالبان کے ساتھ جو سلوک کیا تو فطری طور پر سوال یہ جنم لیتا ہے کہ جن پر تنقید کرنے سے روکا جارہا تھا ان کے خلاف آپریشن کرنے کی نوبت کیوں آگئی-اور ایک دن خود بھی انہی طالبان کے ہاتھوں مارے گئے-

عارف جمال کا ایک انٹرویو ایک ویب سائٹ ایل یو بی پی اے کے ڈاٹ کام پر شایع ہوا ہے جس میں انہوں نے لکھا کہ پاکستان کی فوج کے اندر نیشنلسٹ جہادی اور اسلامسٹ جہادی کی تقسیم موجود ہے-اور پاک فوج کی ہائی کمان کو چھوڑ کر نیچے افسران اور سپاہیوں کی اکثریت اسلامسٹ جہادی ہے اور یہ افغانستان،کشمیر،وسط ایشیا سمیت پوری دنیا میں عالمی جہاد کے حامی اور وہاں اسلامی حکومتوں کے قیام کے حامی ہیں-عارف جمال پاکستان کی عسکری قیادت کی پرکسی وارز میں “جہاد”اور “جہادیوں”کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ “تحریک طالبان پاکستان”اور القائدہ سے منسلک دیگر جہادی گروپس وہ ہیں جو ملٹری کے کنٹرول سے آزاد ہوگئے-وہ الیاس کشمیری کی مثال دیتے ہیں جو پہلے کشمیر میں جہاد کررہا تھا اور اس کے شاگرد مجاہد بھارتی فوجیوں کے سرکاٹ کر پاکستان لاتے تھے-ایسا ہی ایک سر لشکر طیبہ کا کمانڈر 1995 میں کاٹ کر مرکز مریدکے لایا تھا اور اجتماع عام میں اس کی نمائش ہوئی تھی اور اپنے مجلّے الدعوہ میں اس کی تفصیل شایع کی گئی تھی-اب یہ الیاس کشمیری پاکستان کی فوج اور عوام کو نشانہ بنا رہا ہے-یہ پاکستان کی فوج کا سابق ایس ایس جی کمانڈو ہے-جبکہ دوسری طرف عدنان رشید بھی ہوائی فوج میں ٹیکنیشن تھا-

عارف جمال کہتے ہیں کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے افغانستان اور کشمیر میں پرکسی وار لڑنے کے لیے جن گروپوں کو تیار کیا وہ آخر میں کنٹرول سے باہر ہوگئے-ان کی یہ بات ٹھیک ہے-حزب اسلامی (حکمت یار)سے لیکر حرکۃ الانصار و جیش محمد و طالبان تک یہی کہانی ہے-

اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ لشکر طیبہ،حقانی نیٹ ورک کب تک اپنے آپ کو صرف اوپر سے دئے ہوئے پراکسی وار ایجنڈے تک خود کو محدود رکھیں گے؟

ایسی اطلاعات ہیں کہ عسکری اسٹبلشمنٹ بلوچستان میں بلوچ مزاحمت کاروں کے خلاف لشکر جھنگوی اور لشکر طیبہ کو استعمال کررہی ہے جبکا صاف ظاہر ہے کہ یہ گروپ وہاں پر اپنے ایجنڈے کو بھی بروئے کار لارہے ہیں-

پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ کے سامنے ماضی میں پی پی پی اور حال میں مسلم ليگ نواز نے گھٹنے ٹیک دئے ہیں-سٹرٹیجک گہرائی کی پالیسی کچھ تبدیلیوں کے ساتھ کارفرماء ہے-ڈیپ سٹیٹ کے کچھ اور تصورات مارکیٹ میں لے آئے گئے ہیں-یہ وہ بنیاد ہے جس کی وجہ سے پاکستان دھشت گردی کے خلاف موثر اور مربوط پالیسی بنانے سے قاصر ہے-اور ایک کنفیوژن ہر طرف پھیلا نظر آتا ہے-لیکن یہ تذبذب اس ملک کے شہریوں کے بہت خطرناک ثابت ہورہا ہے-اور اس ملک کی عوام کے اندر یہ تاثر جڑ پکڑ رہا ہے کہ پاکستان کی ریاست ان کو دھشت گردوں سے بچانہیں سکتی وہ تو خود ان سے مذاکرات کی بھیک اس وقت بھی مانگتی ہے جب وہ جواب میں لاشوں کے تحفے بھیجتے ہیں-

عمران خان اور نواز شریف کو اس ملک کے شہریوں پر رحم کھانا چاہئیے اور اپنی حماقتوں سے باز آنا چاہئیے اور اس ملک کی اسٹبلشمنٹ کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے کی روش چھوڑ دینی چاہئے ورنہ اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے-

Comments

comments

Latest Comments
  1. Ali Nasir
    -
  2. Sarah Khan
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.