امارات اسلامیہ وزیرستان – از ندیم سعید

4h_51014290

مذہبی جنونیوں کی بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ کارروائیوں کے باوجود ماضی کے کامیاب کھلاڑی لیکن اب تک اناڑی سیاستدان ثابت ہونے والے عمران خان نے پشاور میں تحریک طالبان پاکستان کا دفتر قائم کرنے کی تجویز دی ہے۔دلیل ان کی یہ ہے کہ اگر قطر میں افغان طالبان دفتر بنا سکتے ہیں تو پاکستانی طالبان کو اس ’حق‘ سے کیسے محروم رکھا جاسکتا ہے۔

طالبان کے فائدے کے لیے عمران خان ایسی دلیل کوئی پہلی دفعہ نہیں لائے بلکہ ان سے مزاکرات کرنے پر زور دیتے ہوئے ان کا استدلال بھی کچھ اس طرح کا ہی ہوتا ہے کہ دنیا کی ’سپر پاور‘ یعنی امریکہ اگر یہ کرنے پر مجبور ہے تو ہماری کیا مجال۔

معاملات کو سطحی طور پر دیکھنے والے عمران خان یہ بھول جاتے ہیں کہ افغان طالبان اپنے ملک میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شکل میں غیر ملکی حملہ آوروں سے نبردآزما ہیں جبکہ پاکستان طالبان اپنے ہی ملک کے فوجی اور دوسرے سکیورٹی اداروں سے جنگ میں مصروف ہیں۔نہ صرف وہ نہتے شہریوں کو مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ فوجیوں کو اغواء کر کے ان کے گلے کاٹنے کی ویڈیوز بھی اپ لوڈکرتے ہیں۔

جمہوریت کو وہ غیر اسلامی سمجھتے ہیں، لڑکیوں کی تعلیم کے وہ سخت خلاف ہیں، ملکی قانون کو وہ مانتے نہیں،اقلیتی حقوق کے حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی سمیت بیشتر فرقہ وارانہ تنظیمیں ان کی صفوں میں شامل ہیں۔ سوات ہو یا وزیرستان جہاں کہیں بھی ماضی میں ان سے مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کی کوشش کی گئی انہوں نے مقامی لوگوں پر اپنی مرضی کا اسلام تھوپا، عدل کے نام پر ظلم ڈھائے اور سماجی ارتقاء کا پہیہ الٹا چلانے کی کوشش کی۔

ایک بات جو عمران خان سمجھ نہیں پا رہے وہ یہ کہ قبائلی سماج اور طالبان دو مختلف چیزیں ہیں۔وزیرستان اور ودسرے قبائلی علاقوں میں قسمیں اور وعدے تو شاید قرآن پر ہوتے ہوں لیکن فیصلے قبائلی رواج کے مطابق ہوتے ہیں۔قبائلی سماج میں جان لینا انتہائی قدم ہوتا ہے جبکہ طالبان نے موت کو کھیل بنا لیا ہے۔قبائلی سماج میں قاتل کو اپنے کیے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے جس کا بوجھ بعض دفعہ اس کی آنے والی نسلوں کو بھی اتارنا پڑ تا ہے، جبکہ طالبان اس طرح کے رسم و رواج سے آزاد ہیں۔

قبائلی نسل پرست تو ہوسکتے ہیں لیکن توسیع پسند نہیں، کم از کم فی زمانہ تو ہر گز نہیں۔وزیر کسی محسود کو وزیر کرنے کی کوشش نہیں کرے گا اور نہ محسود کسی وزیر کو۔ لیکن طالبان تو ’مجاہد‘ ہیں جنہیں اپنے مذہب کا جھنڈا گاڑنا ہے، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم مذہب بلکہ ہم فرقہ بنانا ہے۔ کسی علاقہ پر اپنی عملدآری قائم کر کے اپنی تشریح کے مطابق خلافت راشدہ کی یاد تازہ کرانی ہے۔کیا انہوں نے یہی کچھ نہیں کیا جہاں کہیں بھی انہیں تھوڑا سا موقع ملا ہے؟

ساٹھ سالہ عمران خان ایک ایسے نوجوان کی مانند ہیں جس نے ساری زندگی شہرمیں گزاری ہو لیکن اس کے ڈانڈے کسی نہ کسی طرح دیہی یا قبائلی سماج سے ملتے ہوں تو وہ اپنے ساتھیوں او ر ملنے والوں کو مرعوب کرنے کے لیے اپنے اس پس منظر کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ پڑھنے والوں میں سے بہت سو کا واسطہ کبھی نہ کبھی ایسے’نوقبائیلوں‘ سے پڑا ہوگا جو قبائلی یا دیہی زندگی گزارے بغیر اس کی رومانویت کا محض اس لیے شکارنظر آتے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد کبھی اسی طرز معاشرت کا حصہ تھے۔

پہاڑ، ندی نالے، پر پیچ راستے، مختلف پیراہن، بندوق مردوں کا زیور، انا ، پولیس اور عدالت کی عدم موجودگی اور جرگہ ، شہروں میں رہنے والوں اور ان میں سے بھی خوشحال لوگوں کے لیے یہ سب کسی اور دنیا کی نشانیاں ہیں۔عمران خان عہد جوانی میں اس بارے انگریزی میں ایک یا دو باتصویر کتابیں بھی شائع کرچکے ہیں۔

لیکن طالبان رومانوی تصور کے حامل وہ قبائلی نہیں ہیں جو اپنے مہمان کی دل و جان سے عزت کرتے ہیں، یہ توسیاحوں کی شکل میں دنیا جہان سے آئے مہمانوں کو بھی قتل کرنے سے باز نہیں آتے۔یہ وہ قبائلی ہیں جن کی ’افغان جہاد‘ سے پہلے قبائلی سماج میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔یہ ایک طرف افغانستان میں جنگ میں مصروف عمل تھے تو دوسری طرف قبائلی عمائدین کو قتل کر کے اپنی جگہ بنا رہے تھے۔

ان کے عزائم واضح طور پر توسیع پسندانہ ہیں۔ قطر میں افغان طالبان کو دفتر کھولنے کی اجازت ملی تو انہوں نے اسے ’امارات اسلامیہ افغانستان‘ کا سفارت خانہ قرار دے دیا، جس پر افغان صدر حامد کرزئی سیخ پا ہوئے اور مزاکرات میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔ اب عمران خان کی تجویز پر اگر پشاور میں پاکستانی طالبان کا دفتر قائم کیا جاتا ہے تواس کی کیا ضمانت ہے کہ وہ اسے پاکستان نہ سہی ’امارات اسلامیہ وزیرستان‘ کا سفارت خانہ قرار نہیں دینگے جس میں سوات اور ملاکنڈ کے علاقے بھی شامل ہوسکتے ہیں؟

Source :

http://urdu.ruvr.ru/2013_09_26/121955031/

Comments

comments