فسطائی قبیلہ اور دھشت گردی

download

نوفسطائی قبیلہ اور دھشت گردی

لیل و نہار/عامر حسینی

ہمارے ہاں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو دھشت گرد تنظیموں کے وجود کے جواز کے لیے اپنے قلم اور زبان کو رواں رکھے ہوئے ہیں-ان کے پاس سوفسطائی دلائل کا ایک انبار ہے جن کی مدد سے وہ پاکستان سمیت دینا بھر میں ہونے والی خون ریزی اور انسانی جانوں کے ضیاع کے لیے ایک معذرت خواہانہ اسلوب اپناتے ہیں اور اس خون ریزی کے زمہ داروں کا ایک سافٹ امیج بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں-

ان عذرخواہوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو پاکستان کی ریاست کی جانب سے 1971ء میں اور بعد میں 1980ء کے اندر “جہاد”کے نام پر دوسرے ملکوں میں تربیت یافتہ گوریلوں کو بھیجنے کی پالیسی ٹھیک خیال کرتے ہیں-

ان قلم کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کے حکام نے جب بنگالی مزاحمت کاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے جماعت اسلامی کی مدد سے الشمس اور البدر کے نام سے پرائیویٹ فوجی ملیشیا بنائی جس نے بنگالیوں کا قتل کیا تو پاکستان کی ریاست کو لاحق مفروضہ خطرات سے نمٹنے کے لیے یہ ٹھیک اقدام تھا-

ان جیسے قلم کاروں کے خیال میں افغانستان کے اندر روس کو پھنسائے رکھنے اور طورخم سے آگے آنے سے روکنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں گوریلا تربیتی کیمپوں کے قیام کی اجازت دینا اور امریکہ کے ساتھ مل کر سویت یونین کے خلاف جنگ کا شریک کار بننا بھی درست اقدام تھا-

ان قلم کاروں کے خیال میں انڈیا کو کشمیر کے اندر ذچ کرنے کے لیے آزاد کشمیر میں گوریلا تربیتی کیمپ کھولنا بھی درست اقدام تھا-اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر سے نوجوانوں کو جہاد کے نام پر ریکروٹ کرنے کے لیے مذھبی جماعتوں کو اور مذھبی مدارس کو کام کرنے کی اجازت دینا بھی درست پالیسی تھی-

یہ قلم کار کبھی اس بات پر قلم کشائی نہیں کرتے کہ پاکستان میں احمدیوں ،کرسچنز اور ہندؤں کے خلاف تو پہلے سے ہی مختلف مذھبی جماعتیں سرگرم عمل تھیں مگر جب “جہادی پالیسی”ریاست کے ہاں سرکاری رتبہ پاگئی تو پہلی مرتبہ بہت منظم طریقے سے اس ملک میں رہنے والی شیعہ برادری کے خلاف بھی ایک تحریک چل پڑی جس کا نصب العین شیعہ برادری کو ریاستی سطح پر احمدیوں کی طرح غیرمسلم قرار دلوانا تھا-اور یہ تحریک بعد میں شیعہ برادری کی نسل کشی پر آگئی-

ہمارے یہ قلم کار اور تجزیہ نگار ایک مقدمہ یہ بناتے ہیں کہ پاکستان کی ریاست نے 9/11 کے بعد اپنی پالیسی تبدیل کی-اس نے افغانستان اور کشمیر میں سرگرم ان تمام تنظیموں کو دھشت گرد قرار دے دیا اور ان کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوا تو یہ ایک یو ٹرن تھا-ایک غداری تھی اور اسلام سے انحراف تھا-

یہ قلم کار پاکستان کی جانب سے پاکستان کی سرزمین پر دھشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے اور پاکستان کی سرزمین سے دوسرے ملکوں میں دھشتگرد بھجوانے والی تنظیموں کے خلاف کاروائی کو سنگین غلطی قرار دیتے ہیں-ان کے خیال میں پاکستان کی فوج کو جنوبی وزیرستان،سوات،باجوڑ،کرم ایجنسی،خیبر ایجنسی میں آپریشن شروع نہیں کرنا چاہئے تھا-

ان لوگوں کے خیال میں پاکستان کو امریکہ کے خلاف جہاد کے نام پر فاٹا کے اندر بیس کیمپوں کی تعمیر اور وہاں سے منظم حملوں کی منصوبہ بندی اور وسط ایشیا و عرب و افریقہ سے دھشت گرد تنظیموں کی آمد کو روکنا نہیں چاہيیے تھا-بلکہ اس عمل میں تعاون اور مدد کرنی چاہئیے تھی جیسے وہ “افغان وار”کے دوران اور اس کے بعد کرتا رہا تھا-

یہ مکتبہ فکر وہ ہے جو پاکستانی ریاست کی نیشنل سیکورٹی کی پالیسی کو ایک سامراجی پالیسی کی شکل میں دیکھنے کا خواہش مند ہے اور پاکستان کو ایک سیکورٹی سٹیٹ یا ڈیپ سٹیٹ کے طور پر دیکھنے کا خواہش مند ہے-ان کے خیال میں پاکستان کی ریاست “مجاہدین “کے ساتھ ملکر افغانستان،وسط ایشیا کی ریاستوں کو اپنا باج گزار بنا سکتی ہے-اور انڈیا کو توڑا جاسکتا ہے-یہ مجاہدین مشرق وسطی،افریقہ اور مشرق بعید تک میں اپنی گہرائی بنا سکتی ہے-ان کے لاشعور سے ابھر کر یہ بات آتی ہے کہ جنرل ضیاء الحق اور اس کے حواریوں نے پاکستان کی ریاست اور گوریلا ملٹری مشین کے درمیان جو باہمی ہم آہنگی پیدا کی تھی اس میں شگاف ڈالنے سے پاکستان دھشت گردی کا شکار ہوا ہے-اگر پاکستان کی ریاست یہ شگاف نہ ڈالتی تو پاکستان کو دھشت گردی کا سامنا نہ کرنا پڑتا-

انہی جیسے دلائل کی بنیاد پر یہ مکتبہ فکر پاکستان میں دھشت گردوں کی سب سے بڑی علامت تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کرنے کی ترغیب دیتا ہے-یہ پاکستان میں دھشت گردی کے آغاز کا سبب  انتہا پسند جہادی آئیڈیالوجی کے فروغ کو قرار دینے کی بجائے پاکستان کی جانب سے دھشت گردی کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کوقرار دیتا ہے-اور جب بھی دھشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس مکتبہ فکر کی جانب سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ جب تک پاکستان سیز فائر نہیں کرتا اور مذاکرات کی جانب نہیں جاتا دھشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا-

کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے اندر فوج اور ریاست پر ہونے والے حملے پاکستان کی جانب سے دھشت گردی کے خلاف جنگ کا اتحادی ہونے کا نتیجہ ہیں-لیکن جب ان سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی مساجد،مدراس،امام بارگاہوں ،چرچ پر حملے کرنے کا جواز کیا بنتا ہے؟اور پاکستان کے اندر شیعہ،بریلوی،کرسچن اور احمدیوں کو دھشت گردی کا نشانہ بنانے کا جواز کیا ہے ؟تو اس مکتبہ فکر کے وہ لوگ جو پاکستان کے مین سٹریم اردو اخبارات میں کالم لکھتے ہیں یا بطور تجزیہ نگار وہ ٹی وی چینلوں پر آتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ حملے کرنے والے راء،سی آئی اے اور موساد کے ایجنٹ ہیں-ان کا تعلق نہ تو تحریک طالبان اور اس میں شامل تنظیموں سے ہے اور نہ ہی ان کا تعلق القائدہ سے ہے-

جبکہ وہ لکھاری اور خطیب جوکہ مرکزی دھارے میں نہیں ہیں اور وہ مخصوص قسم کے جہادی رسالوں میں لکھتے ہیں ان کی تحریریں ہمارے سامنے یہ انکشاف کرتی ہیں کہ پاکستان کے اندر رہنے والے شیعہ،احمدی،عیسائی اور ہندؤ پاکستان اور اسلام سے وفادار نہیں ہیں-یہ امریکہ،اسرائیل،انڈیا کے وفادار ہیں-وہ کہتے ہیں کہ جب تک پاکستان ایک اسلامی ریاست نہیں بن جاتا اورجب تک اس ریاست میں اسلامی حکومت قائم نہیں ہوجاتی اس وقت تک ان کو دبانے اور ان خوف زدہ کرنے کے لیے ان کو مسلسل نشانہ بنانے کی ضرورت ہے-اور یہی اصل میں دھشت گردوں کے لیے جواز دھونڈنے والوں کا اصل نظریہ ہے-

یہ مکتبہ فکر اصل میں چاہتا یہ ہے کہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت دونوں ایک بار پھر ملکر 9/11 سے قبل والی پوزیشن پر جائیں اور بلکہ جنرل ضیاء کی حکمت عملی یا سٹریٹجی کو پھر سے اپنا لیں-پاکستان کو مکمل طور پر ایک ڈیپ سٹیٹ میں بدل دیا جائے-اور پاکستان پوری دنیا میں عالمی جہاد کا علم اٹھالے اور ساری دنیا کے جہادی دھشت گردوں کی سرپرستی کرے-

یہ بجاطور پر ایک پاگل پن ہے جو اس مکتبہ فکر پر طاری ہے-یہ نازی ازم کا مذھبی ایڈیشن ہے-آپ اسے فاشزم ازم کی نئی شکل کہہ سکتے ہیں-

مذھب کے نام پر دھشت گردی پھیلانے والے اور ان کے لیے ہمدردیاں رکھنے والوں کو اگر کسی نے نو فسطائی قبیلے کا نام دیا ہے تو غلط نہیں دیا-

یہ نوفسطائی قبیلہ اپنی جنونیت میں خود کو تباہ تو کرے گا ہی یہ پاکستان کی ریاست کے خاتمے کو بھی یقینی بنانا چاہتا ہے-پاکستان کی ریاست کے اندر اداروں میں اس نوفسطائی قبیلے کے افراد موجود ہیں-اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ایسے افراد کی کمی نہیں ہے-پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت اگر اس فسطائی قبیلے سے گلے ملنے کی کوشش کرے گی تو پھر یہ بات ممکنات سے باہر نہیں ہے کہ پاکستان کو انتہائی راستے پر جانے سے روکنے کے لیے عالمی برادری وہ راستہ اپنائے جو اس نے ایران کے بارے میں اپنایا تھا-

آج ایران کے اندر اس کی سیاسی قیادت اور مذھبی پیشیوائیت اس بات کا ادراک کرچکی کہ عالمی سطح پر بینکنگ سیکٹر اور اس کی کمائی کا سب سے بڑا زریعہ پٹرولیم انڈسٹری پر پابندیاں کو منطقی انجام ایران کی تباہی ہے-اس لیے عالمی برادری کے ساتھ چلنا چاہئے-یہ سبق پاکستان کے نو فسطائی قبیلے کی لچھے دار باتوں کے سحر میں گم ہوجانے والے عوام کی پرتوں کو بھی سیکھنا چاہئیے-

Comments

comments