دہشتگردی متاثرین اور دہشتگرد ہمدرد – از امام بخاری

images

دنیا بھر میں لوگ جب اپنی عبادات کے لئے عبادت گاہوں کا رخ کرتے ہیں یا اپنے مذہبی جلوس یا کسی مذہبی تہوار میں شرکت کرتے ہیں تو یقیناً اُنکے دماغ اُس وقت کچھ یہ خیالات ہوتے ہونگے کے اِس سے ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے گی- عبادت گاہ سے فارغ ہونے کے بعد کیا کرنا ہے اِس بارے میں بھی عبادت کے دوران کچھ خیالات یقیناً آتے ہونگے مثلاً بچے کی فیس جمع کروانی ہے، گھر کا کرایا دینا ہے، عبادت گاہ آنے سے پہلے گھر میں کپڑے دھو کر ڈالے تھے واپسی تک وہ سوکھ چکے ہونگے انکو الگنی سے اُتارنا ہے وغیرہ-

یہ تو ہو گئی باقی دنیا کے پُر امن ممالک کی بات اب ذرا وطن عزیز کا ذکر ہو جائے یہاں عبادت کے دوران انسانوں کو آخرت میں کامیابی سے زیادہ اِس بات کی فِکر ہوتی ہے کے وہ فلحال عبادت گاہ سے گھر تک کامیابی کے ساتھ بخیر و عافیت پوھنچ جائیں کہیں عبادت کے دوران کوئی خودکش بمبار نہ پھٹ جائے، عبادت گاہ سے باہر نکالتے وقت کوئی ہم پر فائر نہ کھول دے یا ہم پر راکٹ نہ داغ دے-

ایسا بلکل ممکن ہے کے شاید میں ادھر پاکستانیوں کی دوران عبادت فِکر و پریشانی کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہوں- انسان فطرتاً اچھے کی ہی امید رکھتا ہے اور یقیناً یہی وجہ ہے کے پاکستان میں وہ طبقات جن پر دوران عبادت حملہ کیے جاتے ہیں غالباً وہ بھی عبادت کے لیے جاتے ہوے اچھے کی ہی امید رکھتے ہونگے- میرا تعلق کیونکے اُن فرقوں سے نہیں ہے جن کو مذہب و مسلک کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے تو میں کتنی بھی کوشش کر لوں انکی کیفیت اور جذبات سمجھنے سے قاصر ہوں-

تھوڑی دیر کے لئے کوشش کرتے ہیں سمجھنے کی کے ایک انسان جب عبادت گاہ کا رخ کرتا ہے اکیلا یا اپنے اہل خانہ کے ساتھ تو یقیناً اسکے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا ہوگا کے یہ اسکی زندگی کی آخری عبادت ہو سکتی ہے، نہ ہی یہ خیال آتا ہوگا کے اسکے خاندان کے کسی فرد کی زندگی کی یہ آخری عبادت ہوسکتی ہے، نہ ہی یہ خیال آتا ہوگا کے عبادت سے واپسی پر گھر جانے کی بجاے اُسکا باقی کا دن اپنے پیاروں کی تدفین اور باقی کی زندگی انکی جدائی کا غم بھلانے میں گزرے گی-

اِس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کے تدفین کے مراحل سے وہ شخص بخیریت گزر جائے گا اور تدفین میں مزید خودکُش دھماکے نہیں ہونگے- نہ یہ خیال ذہن کے کسی گوشے میں آتا ہوگا کے وہ اپنے بچے کے اسکول کی آخری فیس جمع کروا چکا، اگلے مہینے سے اُسکو اپنے بچے کی اسکول کی فیس نہیں دینی ہوگی بلکہ اب اسکی باقی کی زندگی اپنے بچے کی یاد میں رو کر گزرنے والی ہے- ایسا بھی کوئی خیال نہیں آتا ہوگا کے جو پیسے اُس نے اپنی بیٹی کے جہیز یا یونیورسٹی میں داخلے کے لئے جمع کیے ہیں کچھ ہی دیر میں وہ انہی پیسوں سے بیٹی کی تجہیز و تکفین کا انتظام کرنے والا ہے-

اِن میں سے کوئی بھی خیال خوشگوار نہیں ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کے ہمارے ملک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اب تک اِس صورتحال سے دوچار ہو چکی ہے- اب کچھ کوشش اُس انسان کی کیفیت کو سمجھنے کی کرتے ہیں جِس کے ساتھ ایسی کوئی صورتحال پیش آ جاتی ہے- ایسے اندوہناک سانحہ کے بعد یقیناً اُس انسان کو کافی دیر تک تو یقین ہی نہیں آتا ہوگا کے اسکے ساتھ کیا ہو چکا ہے- زخمی ہونے کے باوجود بھی اُسکو زخموں کا کوئی درد نہیں ہوتا ہوگا جتنا درد و غم اُس کو اپنے گھر والوں، دوستوں اور رشتے داروں کے بچھڑنے کا ہوتا ہوگا- اُس انسان نے وہم و گمان میں بھی اپنے گھر والوں کی اچانک حادثاتی موت کا سوچا ہوتا ہوگا- ُاس کا خیال یہی ہوتا ہوگا کے میرے پیارے ایک خوشگوار زندگی گزار کر بڑھاپے میں اپنی طبعی موت مریں گے- مگر اُسکے اندازوں اور امیدوں پر پانی پھر چکا ہوتا ہے-

یہ وہ کیفیت ہے جِس سے ہمارے ملک کے ہزاروں شیعہ، مسیحی اور احمدی شہری گزر چکے ہیں- اِسکے بعد جب ٹیلی ویژن پر کوئی مذہبی سیاست دان اِس ساری دہشتگردی کا جواز پیش کرے اور اِسکو غلط کہنے سے بھی گریز کرے یا کوئی کلین شیو رہنما اِسکو امریکا کی جنگ اور ڈرون حملوں کا رد عمل کہے گا تو جب مجھے اِس بات سے شدید اختلاف ہوتا ہے تو اُس بیچارے انسان پر کیا گزرتی ہوگی جو اِس سارے عمل سے گزر چکا ہو- وہ یہی سوچتا ہوگا کے اِن لوگوں کے دماغوں میں بھوسہ بھرا ہے میں نہ تو امریکی ڈرون آپریٹر ہوں نہ امریکی فوجی میری عبادت گاہ میں موجود تھے جسکی وجہ سے اُسکو نشانہ بنایا گیا- پھر جب لوگ اِن دہشتگردوں سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو انکی تصویروں پر دہشتگردی متاثرین جوتے نہ برسائیں تو کیا کریں؟ ابھی تو صرف تصویر کو جوتے لگے ہیں یہ سلسلہ ایسا ہی چلتا رہا تو وہ وقت دور نہیں جب ایسے لیڈران کو اصل میں بھی مشرف اور بش کی طرح جوتے پڑیں گے-

http://stalematewins.blogspot.com/2013/09/blog-post_24.html

Comments

comments