دہشت گردوں سے ڈرنے والے ” قومی ” رہنما – از حق گو

29511235253_715674561783292_424353511_n

لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کے موجودہ حکمران اور حکمران پارٹیوں کے سربراہان دہشت گردوں سے کچے دھاگوں سے بندھے ہوں ۔

حکمران طالبان کا نام لیتے اس طرح شرماتے ہیں جس طرح گاوں دیہاتوں میں کچھ عورتیں اپنے شوہروں یا منگیتروں کے نام لینے سے شرماتی ہیں۔ دہشت گردوں نے دیر میں ایک میجر جنرل سمیت فوجیوں کو قتل کر ڈالا، گذشتہ اتوار کو پشاور کے قدیم تاریخی چرچ آل سینٹس چرچ میں اتوار کی عبادت کے دوران مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے 80 افراد کو دہشت گردانہ حملے میں قتل کر کر ایک بار پھر اس کی تصدیق کر لی کہ پاکستان دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے، لیکن حکمران ہیں کہ اب بھی دہشت گردوں سے مذاکرات پر مصر ہیں۔

 Source :

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/09/130923_mujtaba_column_fz.shtml

جناب حسن مجتبیٰ صاحب نے بی بی سی اردو میں پبلش ہونے والے اپنے کالم میں  دہشت گردی کے حوالے سے ہمارے نام نہاد رہنماؤں کی اصلیت کیا خوب انداز میں کھل کے بیان کی ہے کہ یہ نام نہاد رہنما دہشت گردی کی تو مذمت کرتے ہیں مگر دہشت گردوں کا نام تک نہیں لیتے گزشتہ ہفتے دیر میں ہونے والے دھماکے میں میجر جرنل کے ساتھ ساتھ کرنل اور حوالدار کی شہدت کے بعد طالبان نے اس دھماکے کی ذمہداری قبول کر لی لیکن اس کے بعد بھی یہ نام نہاد رہنما ان طالبان کا نام لے کر مذمت کرنے سے ڈرتے ہیں – عمران خان جو پاکستان کی بقا کی جنگ کو ” امریکی جنگ ” کہتے ہیں وہ میجر جرنل ثنا اللہ شہید کے گھر تعزیت کے لئے تو جاتے ہیں اور ان کی قبر پہ فاتحہ بھی پڑھتے ہیں مگر ان کی شہادت کو پاکستان کے لئے نہیں مانتے؟ یہ منافقت صرف عمران خان میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کی ٹھیکیدار دیوبندی جماعتیں جو پاکستان کی مخالف رہیں ہیں ان میں بھی صاف نظر آتی ہے – اگر یہ لوگ پاکستان کے دشمنوں اور پاکستان کی عوام کے قاتلوں کے نام بھی نہیں لے سکتے اور ان قاتلوں کا دفاع  کرتے ہیں تو انہیں  کوئی حق نہیں خود کو پاکستانی عوام کا لیڈر کہلانے کا –

طالبان کے جند الحفصہ نامی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے – یہ طالبان کا وہی گروہ ہے جو اس سے پہلے غیر ملکی کوہ پیماؤں کو نانگا پربات پہ قتل کر چکا ہے  اور یہی گروہ کوہستان – چلاس اور لولو سر میں تقریباً دو سو شیعہ کو بھی قتل کر چکا ہے – گروہ کا لیڈر عصمت اللہ معاویہ لشکر جھنگوی اور پنجابی طالبان کا لیڈر بھی ہے – اس کے باوجود طالبان کی حامی جماعتیں طالبان کے دفاع کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں – لیکن انھیں یہ جان لینا چاہیے کہ پاکستان کی شیعہ اور بریلوی سنی عوام کے ساتھ ساتھ اقلیتوں نے بھی اپنے دشمن تکفیری دیوبندیوں کو پہچان لیا ہے اور ان لوگوں کے چہرے بھی کھل کے سامنے آگیے ہیں جو طالبان کے حملوں اور دہشت گردی کی مختلف قسم کی بھونڈی توجیہات پیش کرتے ہیں

Comments

comments