تکفیری طالبان دہشت گردوں کے ہاتھوں میجرجنرل ثنااللہ کی شہادت پر نوازشریف حکومت اور پاکستانی فوج کا شرمناک رویہ – ایاز امیر
اب ہمارے پاس کہنے کیلئے کیا رہ گیا ہے؟اب ہم کس منہ سے بات کرسکتے ہیں ، کون سے الفاظ کا چناؤ کرنا ہمیں زیب دیتا ہے؟سڑک کے کنارے نصب بم دھماکے میں ایک ڈویژن فوج کو کمان کرنے والا جنرل ، ایک کرنل اور ایک لانس نائک شہید ہوجاتے ہیں جبکہ تکفیری دیوبندی طالبان، جو یہاں کوئی حلیم پکانے نہیں بیٹھے، نہ صرف بے دھڑک اس کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں بلکہ یہ وضاحت بھی کر دیتے ہیں کہ ان کے سوات سے تعلق رکھنے و الے گروہ نے یہ کام کیا ہے۔ وزیر اعظم جو تکفیری دیوبندی طالبان کے پُرامن مذاکرات کیلئے ہلکان ہورہے ہیں، کے دفتر کی طرف سے بیان آتا ہے…”پاک فوج نے دہشت گردی کے خطرے سے قوم کو بچانے کیلئے خاطر خواہ قربانیاں دی ہیں “الفاظ کے چناؤ پر غور کیجئے اور سوچیں کہ اب فوج مزید کتنے اعلیٰ افسران کی قربانی دے کہ آپ اس کے لئے ”عظیم“ یا ” فقید المثال “ کے الفاظ استعمال کر سکیں؟اگر امریکیوں نے افغانستان میں اس سے نصف بھی نقصان برداشت کیا ہوتا جتنا ہماری فوج نے کیا ہے تو یقین کریں امریکہ میں ہنگامے پھوٹ پڑتے۔
تاہم سراسیمگی اور بدحواسی کا شکار اس ملک میں تکفیری دیوبندی طالبان کے ہمدردوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ حیرت ہے کہ طالبان کے حامیوں نے ابھی تک یہ نہیں کہا ہے کہ یہ جنرل صاحب کی غلطی تھی کہ وہ مولانا فضل الله کو مطلع کئے بغیر یا بلااجازت اس کے علاقے میں کیوں چلے گئے تھے۔ شاید ازراہ ِ مروت، لیکن لفظ ”خاطر خواہ“ بہت کچھ کہہ رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے ان طالبان ، جنہوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، کے خلاف کوئی بیان سننے میں آیا؟ ہر گز نہیں۔
گزشتہ دنوں ہونے والی”کل جماعتی کانفرنس“ میں ان قاتلوں کیلئے لہجہ اتنا نرم تھا کہ لفظ ”طالبان“ بھی استعمال نہیں کیا گیا، اس کے بجائے ان کا ذکر ِ خیر کرنے کے لئے ”قبائلی علاقوں میں موجود ہمارے لوگ“ کے الفاظ استعمال کئے گئے۔ وزیراعظم کی طرف سے آنے والے بیان میں طالبان کا لفظ استعمال کرنے کی روایت شکنی نہیں کی گئی لیکن مجال ہے جو ان کیلئے سخت الفاظ کا استعمال دیکھنے میں آیا ہو۔ اے پی سی طالبان کو پچکارتے ہوئے ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں تھی۔
اب اُدھر کی سنیں… طالبان کے ترجمان شاہدالله نے مذاکرات کیلئے دو شرائط رکھی ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ فاٹا سے فوج واپس جائے اور دوسری یہ ہے کہ طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا جائے۔ جس دن اُنہوں نے یہ شرائط پیش کیں، ٹھیک اُس دن پاک فوج کے جنرل اور اُن کے ساتھیوں کو ہلاک کر دیا۔ یہ بات زیادہ حیران کن نہیں ہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ طالبان معاملات کیسے طے کرتے ہیں تاہم ایک اس سے بھی بڑی خبر سننے کو ملی کہ جن سات واپڈا اہل کاروں کو طالبان نے رہا کیا ہے ، ان کی رہائی کسی پُرخلوص مفاہمت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک بھاری رقم (شنید ہے کہ ڈھائی کروڑ روپے )کے عوض عمل میں آئی ہے۔ ٹھیک ان دنوں میں فاٹا میں نصب شدہ بموں سے بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
جائے حیرت ہے کہ اگرچہ حکومت اور دیگر پارٹیوں میں تکفیری دیوبندی طالبان کے ہمدرد ان کیلئے سراپا امن و مفاہمت کا پیغام بنے رہتے ہیں لیکن یہ جملہ”قبائلی علاقوں میں موجود ہمارے لوگ“کیا معنی دیتا ہے؟اگر طالبان کی طرف سے بھی امن و محبت کی زبان میں ڈھلے چند جملے ادا ہوجاتے ،چاہے وہ کتنے ہی غیر واضح اور مشکوک کیوں نہ ہوں لیکن طالبان اس کے بھی روادار نہیں ہیں، تو طالبان کی محبت میں گرفتار چوہدری نثار اور ان کے ہمنوا چلا چلا کر دعوے کرتے کہ طالبان کے ساتھ امن کا بھاری پتھر اٹھا لیا گیا ہے اور اب اس دیس میں امن و شانتی کی فاختائیں چہچہائیں گی۔ لیکن افسوس ”قبائلی علاقوں میں موجود ہمارے لوگ “ اپنے ہمدردوں کی طرح کنفیوژن کا شکار نہیں ہیں اور نہ ہی وہ دلدل میں زیتون(امن کی علامت) کاشت کرتے ہیں۔
سخت گیر تکفیری دیوبندی طالبان کو اب ”قبائلی علاقوں میں موجود ہمارے لوگ “ کہہ کر پکارا گیا ہے۔ بہت خوب! لیکن پھر ہٹلر بھی بہت ملنسار دکھائی دے سکتا تھا جب اس کی ضرورت ہوتی۔ میونخ میں ہونے والی ملاقات کے دوران اس نے برطانوی وزیراعظم چمبریلین کو خوش کرنے کی پوری کوشش کی لیکن ہمارے نصیب میں ”اپنے لوگوں “ کی طرف سے کوئی ارمان بھری مسکراہٹ بھی نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ اسلامی جمہوریہ خلوص دل سے ممنون ہوتی… حال یہ ہے کہ کوئی جھوٹی مسکراہٹ بھی چلے گی، لیکن تاحال اس کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔
اس وقت ہمارے زخم کھلے ہیں اور ”ہمارے لوگ “ اس پر جی بھر کر نمک چھڑک رہے ہیں۔ ہمارا قومی وقار ندامت ،شرمندگی اور گراوٹ کی آخری حدوں کو چھورہا ہے اور ”ہمارے لوگ“ اس کو مزید درگور کرنے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ ہمارے پاس نہ کوئی پلان ”بی“ ہے اور نہ ہی کوئی جائے مفر باقی ہے۔ ہم نے تمام پتے ”پُرامن مذاکرات “ کی بازی میں کھیل دیئے ہیں کیونکہ ہم سخت اقدامات اٹھانے کا یارا نہیں رکھتے تھے۔ بے عملی کے فن میں ماہر اورکچھ نہ کرنے پر کمر بستہ حکمران اب تیسری مدت کیلئے اقتدار پرفائز ہیں۔ کیا وہ اس خطرناک طرز ِ عمل سے ملک کی ہر چیز کو خطرے میں ڈال دینا چاہتے ہیں؟
حال یہ ہے کہ ہر کوئی ”دیکھو اور انتظار کرو“ کی پالیسی پر عمل کر رہا ہے… انتظار ہورہا ہے کہ جنرل کیانی عہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد رخصت ہو لیں اور پھر دیکھا جائے کہ جب نئے آرمی چیف منصب سنبھالتے ہیں تو امن یا جنگ میں سے کون سی راہ اپنائی جائے ۔ اس کے علاوہ افغانستان سے امریکیوں کی روانگی کا انتظارہو رہا ہے ۔ یہ بھی دیکھاجاناہے کہ اس کے بعد قبائلی علاقوں میں موجود ”ہمارے لوگ“ کس طرح اپنے اندر اصلاحات لاتے ہوئے معقول طرزِ زندگی اپناتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اگر سخت فیصلے نہ کرنا پڑیں تو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے
اس ”کاوش “ تکفیری دیوبندی میں طالبان کے ہمدردوں جیسا کہ عمران خان، نواز شریف، منور حسن، فضل الرحمن کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ہے کیونکہ طالبان نے ان کو نشانہ نہیں بنانا ہے۔ گزشتہ تین یا چار سال سے طالبان نے پنجاب کو بخش دیا ہے چنانچہ اس کے حکمران بھڑوں کے چھتے کو کیوں چھیڑیں؟ یہ فوج ہے جو اگلی صفوں میں موجود ہے… بدقسمت خاصہ دار، سپاہی اور ایف سی کے جوان۔ ویسے یہ دفاعی اور خفیہ ادارے ہی تھے جنہوں نے طالبان کی پرورش کی ہے۔ چنانچہ اگر ”تخلیق“ اپنے خالق کی جان لینے پر تلی ہوئی ہے تو اسے کیا کہئے
اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج نے ماضی کی غلطیوں کا اپنے خون سے ازالہ کر دیا ہے اور خون سے بڑا کوئی ازالہ نہیں ہوتا ہے لیکن حکمرانوں نے اپنی غلطیوں کا ازالہ کس طرح کرنا ہے؟ موجودہ حکمران 1980ء کی دہائی میں جنرل ضیاء کی صفوں میں تھے اور وہ ان ”ہمارے لوگوں“ کے سب سے بڑے حامی تھے تاہم اب فوج کی سوچ تبدیل ہو چکی ہے ، ان کی نہیں۔ ان کی سوچ کا دھارا وہیں سے بہہ رہا ہے جہاں سے آج سے تین دہائیاں پہلے بہتا تھا تاہم یہ کہنا غلط ہو گا کہ یہ بالکل نہیں بدلے ہیں۔ ایک حوالے سے ان حکمرانوں نے خود کو تبدیل کیا ہے۔ ان کی طرف سے حالیہ دنوں دکھائی جانے والی جمہوری سوچ اور برادشت ان کی سیاسی دانائی کا مظہر ہے لیکن جہاں تک انتہا پسندی کے حوالے سے ان کے طرز ِ عمل کا تعلق ہے تو یہ ابھی ماضی سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔یہ اس معاملے پر کنفیوژن کا شکار ہیں اور ان کی وجہ سے قوم بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائی ہے۔ اب حال یہ ہے کہ فوج تو انتظارکررہی ہے کہ ان کے نئے چیف سامنے آئیں لیکن سیاسی میدان میں کس کا انتظار کیا جائے؟
Pakistan army’s and Nawaz Sharif government’s shameful reaction to Generaz Sanaullah’s murder by the Taliban – by Ayaz Amir
What is one to say? What really is there to say? A general, commanding a div, gets killed in Upper Dir by a roadside bomb, along with a lieutenant colonel and a lance naik. The Taliban (Takfiri Deobandi terrorists also allied with Sipah-e-Sahaba ASWJ-LeJ), never ones to beat about the bush, claim responsibility. Their Swat chapter did it, they helpfully explain.
And the prime minister’s office, leading the effort for peace talks with the Taliban/Lashkar-e-Jhangvi, issues a statement beginning with the sentence, “Pakistan Army has made substantial sacrifices to protect the nation against the menace of terrorism…”
Note the choice of adjectives… “substantial”. How many more officers and men must the army lose before its sacrifices can earn a slightly higher grade: say, ‘great’ or ‘tremendous’? If the Americans in Afghanistan had suffered a fifth of the casualties our army has borne there would have been riots across the country.
But this is the Islamic Republic, confused and muddled and with no shortage of Taliban sympathisers. It’s a wonder the sympathisers aren’t saying that it’s the general’s fault who shouldn’t have ventured where he did without informing Maulana Fazlullah or seeking his permission. So ‘substantial’, I suppose, will have to do.
And from the government’s side is there any mention of the Taliban who have brazenly accepted responsibility? Perish the thought. The All-Parties Conference was so coy, talking not of the Taliban but “our people in the tribal areas…” The prime minister’s statement wasn’t about to break this tradition by naming the Taliban, much less saying anything harsh about them. So the picture of appeasement and cravenness so boldly drawn by the APC gets another thick coating of paint.
Nor is this all. The Taliban spokesman, Shahidullah Shahid Deobandi, refers to two dialogue conditions: army withdrawal from Fata and release of Taliban prisoners, the very day the general and his companions are killed. This is hardly surprising…any fool could have seen these conditions coming. But spelt out like this they still come as a jolt. The related jolt is the news that the seven Wapda employees released by the Taliban were released not for love but a hefty ransom (two and a half crores). The same day as all this happens, there are other casualties, again from IEDs, across Fata.
Strange this situation…Taliban sympathisers in government (both in centre and KP province), the rest of the political parties and the media bombard the Taliban with peace overtures, more olive branches extended than the country’s olive production can afford, but how do ‘our people in the tribal areas’ respond? If only they could bring themselves to say a few soothing words, howsoever vague and imprecise, Ch Nisar and the rest of the sympathiser would fall over backwards to give the impression that the Taliban had taken a mighty step and that peace was close at hand.
But ‘our people in the tribal areas’ hold out not so much as an olive sapling, no word or small gesture, and the government and the rest of the sympathiser class are left holding their bowl of confusion with no help from them.
Stern taskmasters the Taliban, aka ‘our people in the tribal areas’. Hitler could be very charming when he wanted to be. He smiled at Munich and did his best to please Chamberlain. The ‘Fortress of Islam’, as presently constituted, would be grateful for a smile. Even a false smile would do. Even that is not forthcoming.
Our wounds are open and ‘our people’ are pouring salt over them. Our cup of humiliation is full and ‘our people’ want to add more to it. And we have no Plan B, no line of retreat, no other options. We have put all our eggs in the appeasement basket simply because we have no stomach for anything tougher. Playing it safe, turning masterly inactivity into a supreme art form, has brought this dispensation its third coming into power. Are its masters likely to imperil everything by a risky course of action?
So everyone is playing a waiting game: waiting for Gen Kayani to step down and seeing how war and peace play out once a new chief is in; waiting for the Americans to leave Afghanistan and then seeing what happens; waiting for some miracle to occur so that ‘our people in the tribal areas’ see the light and transform their ways and come to some understanding. In short, anything if tough decisions can be avoided. If masterly inactivity has got them thus far, their luck holding out, may it not see them through even this as well?
And what have the Taliban sympathisers such as Nawaz Sharif, Imran Khan, Munawar Hasan, Fazlur Rehman to lose? The Taliban are not hitting them. The Taliban spared Punjab, for the most part, for the last 3-4 years. Why take them on now? Why stir this hornet’s nest? It’s the army out there in the front, taking the most hits, and the luckless khasadars, poor devils, and the Frontier Corps. And wasn’t it the army – or its ideological wing, the ISI – which nurtured the Taliban? So if the ghosts have come to haunt their creators there is poetic justice in that and what are we to do?
The army has paid in blood for its past follies. Penance gets no higher than this. But what about the present civilian masters who along with that other monument to confusion, Imran Khan, are giving new touches to the cult of appeasement? They (the present rulers, not Imran Khan) were Gen Zia’s most loyal supporters back in the 1980s. They were jihad sympathisers then. They are Taliban sympathisers now. The army has changed. They have not.
In some particulars they have changed, more maturity, even glimmers of wisdom. This much should be granted to them. But in this most essential of particulars – relating to the extremist threat facing Pakistan – they are still stuck in the grooves of their past confusion. And because, as luck would have it, they are in the driving seat, their thinking on this issue, or the lack of it, is imparting a quality of dithering to national thinking. Because of them the nation as a whole is more confused than it deserves to be.
Through it all runs the thread of past memories – Oct 12, Musharraf, long nights in cold and dimly-lit cells, handcuffs on plane journeys. If a tougher course of action is decided upon, who will be in the lead? The army and the ISI of course, police and other auxiliaries in the second line of defence. At a psychological level, the call to arms is thus hampered by the burden of the past. You won’t get anyone admitting this openly, everyone being very cautious, but that unity of resolve which must be there if tough action is to succeed, can it exist between the army and the PML-N? Not without its piquant aspect this question. The PML-N when first formed used to dance to the ISI’s tune. That it should now be at ideological variance with it…strange how things can unfold.
So as these contradictions even out or become worse, the army too can only wait, narrowing its eyes and perhaps gnashing its teeth in silence when something like the latest casualties in Upper Dir occur but in no position to take the initiative or do things in a big way as long as this extended season of confusion, vacillation and historical distrust lasts.
Source: Adapted with some changes from The News and Jang, 18 Sep 2013
Pakistan government and army’s Opium Strategy to deal with the Taliban terrorists – by Nazir Naji
The civilian leadership of PM Nawaz Sharif while vehemently condemning the Taliban terrorist attack on the General Sanaullah fell short of squarely pinning the blame for this heinous crime on the TTP. It is true that the better solution to this menace of terrorism is through peace talks instead of more bloodshed but in order to negotiate, both parties to the conflict should be rational and willing to compromise. The truth of the matter is that the bare minimum conditions put forward by the TTP seem untenable, especially after the events that transpired in FATA. Whether these attacks were tactical, in order to strengthen the TTP’s position in talks with the government, or part of the TTP’s grand scheme of enforcing their own brand of shariah in Pakistan is not yet clear. What has been made clear is that the political leadership seriously needs to reassess its stance in the light of Major General Sanaullah’s assassination.
Pakistan’s struggle against terrorism is rooted in an ideological conflict between the forces of moderation and extremism, the former heavily outnumbering the latter. The roots of Islam in Pakistan can be traced back to Sufism as the revered Sufi saints were responsible for spreading the religion in this region. Even today, the majority of Muslims in Pakistan adhere to the Barelvi school of thought as opposed to the Deobandi, which is more puritanical in nature. According to a recent Pew survey carried out in eleven Muslim countries, including Pakistan, it was revealed that out of all the countries surveyed, Pakistan had the highest disapproval rate of suicide bombings and other acts of violence that targeted civilians in the name of Islam. A staggering 89 percent of people surveyed rejected these actions, so frequently employed by the TTP. Moroever, the survey also revealed that 65 percent of Pakistanis had a negative opinion about the Taliban in general. It can be safely said that the TTP does not enjoy popularity and its ambitions of overthrowing Pakistan’s democratic state and establishing a so-called Islamic emirate cannot be realized. The political leadership, especially the provincial government of Khyber Pakhtunkhwa, should realize that the stark difference in the TTP’s worldview from that of the rest of the population is irreconcilable. This realization would strengthen the Pakistan army’s hand in fighting against the terrorists.
http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2013%5C09%5C18%5Cstory_18-9-2013_pg3_1#.Ujj9hdfIUcY.twitter