کل دھشت گرد نواز جماعتی کانفرنس

all parties conference

کیا یہ اے پی سی بھی بےکار گئی

لیل و نہار/عامر حسینی

9 ستمبر،2013 کو آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء نے متفقہ طور پر قرارداد یہ منظور کی کہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کئے جائیں گے-اور اس کانفرنس نے پہلے مرحلے پر فوجی آپریشن کرنے سے انکار کرڈالا-یہ قرارداد پاکستان میں ان سیاسی،مذھبی اور سماجی قوتوں کی فتح ہے جو پاکستان کے اندر مذھب کے نام پر ہتھیار اٹھانے والی تنظیموں اور گروہوں سے مذاکرات کی حامی ہیں-اور یہ قرارداد جس پر پی پی پی،اے این پی ،ایم کیو ایم ،این پی، پی  کے ایم اے پی اور بی این پی جیسی سیکولر سیاسی جماعتوں کے دستخط بھی ہیں سیکولر،روشن خیال اور ترقی پسند قوتوں کی پسپائی کی علامت بھی ہے جو تحریک طالبان سے مذاکرات کی بجائے یکسوئی کے ساتھ اور پوری ریاستی میشنری کے ساتھ ٹی ٹی پی کی محفوظ جنت وزیرستان کے اندر آپریشن کی قائل تھیں اور اس کے سوا کوئی اور حل ان کے ںزدیک دھشت گردی سے نمٹنے کے لیے کافی نہیں تھا-

میرے لئے اچنبھے کی بات یہ ہے کہ اس آل پارٹیز کانفرنس میں جے یو آئی کے تمام دھڑے،جمعیت اہل حدیث اور جماعت اسلامی کو مدعو کیا گیا جوکہ صاف صاف تحریک طالبان پاکستان کی حامی جماعتیں ہیں اور اول دن سے وہ اس تکفیری تنظیم کے لیے عذر تلاش کرنے میں بہت مستعد رہی ہیں-لیکن اس آل پارٹیز کانفرنس میں نہ تو سنی اتحاد کونسل،جماعت اہل سنت اور سنی تحریک سے کوئی نمائندگی کے لیے آدمی بھیجنے کو کہا گیا نہ ہی ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی ،نہ ہی شیعہ،احمدی،ہندؤ اور مسیحی برادریوں کی نمائندگی موجد تھی-اس کانفرنس میں ایک بھی عورت نمائندہ نہیں تھی-جبکہ پاکستان میں دھشت گردی کے واقعات میں سب سے زیادہ متاثر یہی برادریاں اور عورت صنف ہوئی ہیں- اور انہی متاثرہ فریقوں کو آل پارٹیز کانفرنس میں نمائندگی نہیں ملی-اس کانفرنس میں کسی بھی جگہ تحریک طالبان پاکستان کی تنظیمی ترکیب پر سوال نہیں اٹھاۓ-کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ تحریک طالبان پاکستان جو 15 عسکری تنظیموں کی چھتری بنی ہوئی ہے-اور طالبان کی شوری پر سب سے زیادہ اثر القاعدہ کا ہے-اور القاعدہ کے عرب نژاد اور وسط ایشیائی ریاستوں کے جنگجو تو اب باقاعدہ ٹی ٹی پی کی مرکزی شوری میں بیٹھے ہیں اور اسی القاعدہ کی جانب سے فنڈ اور آپریشنل سہولتیں ملتی ہیں اس لیے تحریک طالبان کا پاکستان کے اندر کوئی ایسا ایجنڈا نہیں ہوسکتا جو ان کی مرشد القاعدہ کے منافی چلا جائے-پھر سوال یہ ہے کہ تحریک طالبان کے اندر جو اثر رسوخ لشکر جھنگوی ،حرکۃ الجہاد اور پنجابی طالبان کو حاصل ہے اور جن کا عالمی جہاد کا ایک ذیلی ایجنڈا پاکستان کے اندر مذھبی اقلیتوں کو سبق سکھانا ہے-یہ تنظیمں اس ایجنڈے سے فرار اختیا نہیر  کرسسکتیں-اور یہ سلفی تکفیری آئیڈیالوجی کی حامل ہیں-

تحریک طالبان پاکستان جوکہ القاعدہ سے حمائت رکھنے کے ساتھ تکفیری سلفی آئیڈیالوجی کے بھی بہت قریب آچکی ایسے میں تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے کانفرنس کا خیرمقدم ظاہر کرتاہے وہ اے پی سی کی جانب سے لڑائی کی جانب رخ نہ کرنے اور مذاکرات کرنے کو اپنی فتح خیال کررہے ہیں-اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے عناصر کی پیش رفت ان کو  اپنے لیے بہتر لگ رہی ہے-مگر یہاں یہ سوال ضرور کھڑا ہوتا ہے کہ اس اے پی سی نے ایک بار  بھی پاکستان کے 70 ہزار لوگوں کی شہادتوں پر غور ر نہیں  کیا-اور ان کے ورثاء سے بھی کوئی رابطہ نہیں کیا اور خود ہی اپنے طور پر ٹی ٹی پی کو واک اوور دے ڈالا ہے-

لیکن اس اے پی سی میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ریاست جب ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرے گی تو کیا فاٹا میں اور قبائیلی علاقوں میں فوج کے آپریشنز روک دیے جائیں گ؟اور اس بات کی ضمانت ہنوذ دلی دور است والا معاملہ ہے کہ ٹی ٹی پی بھی معاہدے کی پاسداری کرے گی؟ٹی ٹی پی کا سابقہ ریکارڑ ٹھیک نہہیں ہے-یہ پانچ مرتبہ پہلے بھی معاہدے توڑ چکی ہے-اب کون سی ضمانت ہے جو ان کو معاہدے کا پابند کرسکے گی؟یہ سوال اے پی سی میں کہیں سے بھی سنائی نہیں دیا-مجھے ایسا لگا کہ اس اے پی سی کا سارا فوکس اس بات پر تھا کہ کیسے مذھبی دھشت گردوں سے معاملات طے کرلئے جائیں اور اس دوران کسی کو یہ غور کرنے کی توفیق نہ ہوئی کہ مذاکرات کی دعوت دھشت گردوں کو دےکر کیا یہ پیغام نہیں دیا جارہا کہ جو بندوق نہیں اٹھاتے ان کی مظلومیت کا اس ریاست کو کوئی احساس نہیں ہے-اس اے پی سی میں حکومت اور حزب اختلاف کو بس یہ پڑی ہوئی تھی کہ کسی بھی طریقے سے ٹی ٹی پی سے سرمایہ اور سرمایہ داری پروجیکٹس کی حفاظت کی یقین دھانی حاصل کرلی جائے باقی یہاں دھشت گرد اپنے سے اختلاف کرنے والی مذھبی اور نسلی برادریوں کے ساتھ جو بھی سلوک کرتے رہیں اس کی کسی کو بھی پرواہ نہیں ہے-جب یہ اے پی سی ہورہی تھی تو اس دوران دھشت گردوں نے کوہاٹ جیل کو نشانہ بنایا ہوا تھا اور خیبر پختون خوا میں خودکش حملوں میں پانچ شہری مارے گئے تھے-میں پی پی پی اور اے این پی کی جانب سے اس اے پی سی میں مذاکرات کی حمائت پر حیران ہوں-کیونکہ پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری سمابی رابطے کی سائٹ ٹوٹیر پر اپنے پیغامات میں طالبان سے مذاکرات کرنے کی تجویز دینے والی پارٹیوں پر سخت تنقید کررہے تھے-اور وہ میاں محمد نواز شریف و عمران خان کے موقف پر بھی سخت ردعمل دکھارہے تھے لیکن اے پی سی میں ان کے نمائندے مخدوم امین فہیم ،خورشید شاہ نے اپنے چیئرمین کے ٹوٹیر پر جاری ہونے والے پیغامات کے برخلاف مذاکرات کی تائید کی اور اپنے چیئرمین کے ٹوٹیر پر موجود پیغامات بارے کوئی توجیح پیش کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی-مجھے بعض اوقات تو یوں لگتا ہے کہ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ٹوٹیر پر جو پیغامات جاری کرتے ہیں وہ پی پی پی سے وابستہ سیکولر اور لبرل لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ہوتے ہیں وگرنہ پی پی پی کے ایشوز پر موقف کی تیاری تو کہیں اور ہوتی ہے-لیکن مفاہمت کے نام پر اصولوں کو ترک کرنے کی روش کی حمائت نہیں کی جاسکتی-اے این پی کے سینٹر حاجی عدیل بھی اس کانفرنس میں ہاں میں ہاں ملانے گئے تھے-اے این پی اس سے قبل ٹی ٹی پی سے ایک امن معاہدے کا ثمر خوب پاچکی ہے-اس کم از کم اس پلیٹ فارم پر اپنے تجربے بارے ہی بات کردینی چاہئے تھی-اسی طرح سے محمود خان اچکزئی نے اے پی سی میں یہ کہہ کر ہمیں حیران کرڈالا کہ ماضی میں عسکری قیادت نے ترقی پسند قوتوں کو دیوار سے لگایا اب ان کے ساتھ ملکر چل رہی ہے حالانکہ فرق صرف اتنا پڑا ہے جو ترقی پسند کہلاتے تھے وہ عسکری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ چل پڑے ہیں اور ان کی زبان بولتے ہیں-

ریاستی اسٹبلشمنٹ اور مذھبی دھشت گردوں سے دبے ہوئے سیاست دان پاکستان کی مظلوم مذھبی برادریوں اور ایتھنک گروپوں کو مجبور کررہے ہیں کہ وہ مین سٹریم سیاست کو ترک کردیں اور اپنی برادریوں کی بنیاد پر سیاست کا آغاز کریں اور اپنی حفاظت کے لیے اپنے عسکری ونگز بنائیں کیونکہ تمام تر تشدد اور خون ریزی کے باوجود اس ملک کے سواد اعظم اہل سنت اور شیعہ کمیونٹی نے ہتھیاروں کی سیاست اور دھشت کی حکمرانی کے فلسفے پر یقین نہیں کیا-ان کے اس عمل کی وجہ سے پاکستان عراق یا شام نہیں بنا-ان ہر دو فریق نے ریاست سے امید رکھی کہ وہ پاکستان کے اندر نجی لشکروں اور عسکریت آئی-اور نئی حکومت نے تاخیر سے جو اے پی سی بلائی اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے-

یہ اے پی سی سیاسی جماعتوں کی بےبصیرتی کو بے نقاب کرنے اور ریاست کے مزید شکستہ ہوجانے کو آشکار کرنے کا سبب بن گئی ہے-اے پی سی میں ڈرون حملوں کے خلاف موثر پالیسی بنانے کا اعادہ کیا گیا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ اس معاملے کو یو این او لیکر جاتے ہیں تو کیا یو این او میں رکن ممالک پاکستان سے یہ سوال نہیں کریں کہ کیا وزیرستان میں آپ کی رٹ قائم ہے؟کیونکہ اگر آپ کی رٹ ہوتی تو وہاں 15 خوفناک قسم کی دھشتگرد تنظیموں سے ملکر بنی ٹی ٹی پی ،پنجابی طالبان،حقانی نیٹ ورک کی تربیت گاہیں اور پناہ گاہیں نہ ہوتیں-عدنان رشید اور عصمت اللہ معاویہ جیسے دھشت گرد وہیں مقیم نہ ہوتے اور پوری دنیا سے دھشتگردوں کے جتھے وہاں نہ جاتے-

ہمارے لیے یہ بھی تشویش ناک بات ہے کہ اسلام کا چہرہ مسخ کرنے والے تکفیری دھشت گردوں کو جو مقام دیا جارہا ہے اور ان کی روش کو جیسے جگہ دی جارہی ہے اس سے عالمی برادری میں ہمارا امیج مزید خراب ہونے جارہا ہے-

ٹی ٹی پی افغان طالبان سے بہت مختلف تنظیم ہے-افغان طالبان نے افغانستان میں اپنا سارا فوکس غیرملکی افواج کے انخلاء اور وہاں پر غیرجانبدار طریقے سے حکومت کے قیام پر رکھا اور افغان طالبان کے اندر مین سٹیریم سیاسی دھاروں کے ساتھ ملنے کی روش بھی نظر آئی-اور افغان طالبان ایک سیاسی قوت کے طور پر بھی ابھرے-مگر ٹی ٹی پی ایک طرف تو بہت زیادہ فرقہ پرستی کی جانب جھگ گئی اور اس کے اندر سیاسی تدبر اور سیاسی اظہار کرنے والی قیادت کا ظہور بھی نہیں ہوسکا-اس لیے تنگ نظری اور انتہاپسندی میں یہ القاعدہ کی کاپی کے سواء کچھ بھی نہیں ہے-پھر یہ تنظیم پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ہمسایہ ملکوں اور مڈل ایسٹ کے اندر بھی دھشت گردی کا ارتکاب کرتی آرہی ہے-اور ٹی ٹی پی نے مڈل ایسٹ،وسط ایشاء اور مشرق بعید میں اس تنظیم نے دھشت گر تنطیموں سے اپنے روابط مضبوط کئے ہیں اور یہ تنظیم وزیرستان کو عالمی دھشت گردی کا بیس کیمپ بناچکی ہے-اس لیے ان کو محض گمراہ ہوجانے والے برے بچے سمجھنے کی گردان اور کسی مولانا کے کہنے پر ان کی اصلاح کا خواب دیکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں-ٹی ٹی پی کی کاروائیوں اور اہداف کا ایک جائزہ ثابت کرتا ہے کہ اس تنظیم نے پاکستان کے ریاستی اداروں کے اندر تک اپنے روٹس بنائے ہیں اور یہ اس قدر مضبوط انٹیلی جنس ںطام کے حامل ہوچکے ہیں کہ ان کے حملوں سے جی ایچ کیو کے ساتھ ساتھ آئی ایس آئی کے سیف ہاؤس بھی محفوظ نہیں ہیں-اس کے بعد بھی مذاکرات کی گردان سمجھ سے بالاتر ہے-

ہمارے ملک کی مذھبی سیاسی جماعتیں پاکستان کے اندر عوام اور سیکورٹی اداروں پر حملوں کا الزام امریکہ ،بھارت اور اسرائیل پر لگاتے رہے ہیں تو ان کے ان الزامات کی روشنی میں تو امن قائم کرنے کے لیے مذاکرات تو ان ملکوں کی حکومتوں سے ہونے چاہئے مگر ہم مذاکرات ٹی ٹی پی سے کرنے کیوں جارہے ہیں؟اور فضل الرحمان اور سمیع الحق ثالثی کس چیز کی کرانے چلے ہیں-کیونکہ اگر ٹی ٹی پی دھشت گردی میں ملوث نہیں ہے اور اس میں ملوث امریکی سی آئی اے اور موساد و  راء ہے تو دو ہی باتیں ہیں کہ یا تو ٹی ٹی پی خود صہیونی،امریکی و بھارتی ایجنڈے پر کرائے کے بھاڑو کا کردار ادا کررہی ہے یا پھر ٹی ٹی پی کا اس سارے عمل سے کوئی تعلق نہ ہے-دونوں صورتوں میں مذاکرات طالبان سے کئے جانے نہیں بنتے ہیں-دال میں کچھ کالا ضرور ہے-ویسے بھی بین الاقوامی سطح پر یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ افغان طالبان کی رہائی کا کارنامہ بتانے والی پاکستانی حکومت ملا راکٹ کو رہا کرنے پر تیار کیوں نہیں ہے؟اور یہ ملّا راکٹ وہی تو ہے جس نے افغانستان میں قومی مفاہمت کا ڈول ڈالا تو ملاّ عمر نے اس کو نکال باہر کیا-آج یا کل ہمیں وزیرستان کے اندر بنے بیس کیمپ کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے اپنی افواج کو وہاں روانہ کرنا ہوگا-کیونکہ اگر خطرہ بڑھا تو پھر انٹرنیشنل کمیونٹی اس بیس کیمپ کی جانب خود رخ کرے گی-اور یہ بیس کیمپ پورے پاکستان کے اندر مذھبی بنیادوں پر خانہ جنگی کی جانب لیجانے والی حرکتیں کرنے سے باز نہیں آرہا-

Comments

comments

Latest Comments
  1. Khalid Bhatti
    -
  2. shenafdhrq
    -
  3. mabdullaha
    -
  4. 117
    -
  5. Air Jordan Pas Cher-Jordan 6 Retro Blanc
    -
  6. timberland ladies boots
    -