قبر سے واپسی – از حماد حسن

qabar

کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے چاروں طرف پھیلی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کی جڑیں کہاں ہو سکتی ہیں اور وہ کونسی فیکٹریاں ہیں جہاں یہ پروڈکٹ تیار ہو کر ملک کی کونے کونے میں سپلائی ہوتی ہے ؟ وہ کون سے عناصر ہیں جو اس ڈرامے کے اصل ہدایت کار ہیں ؟ ان سارے سوالوں کا جواب اور اس صورت حال کا نقشہ شاید میری آپ بیتی سے واضح ہو پائے۔

میں ضلع مظفر گڑھ کے ایک گاﺅں میں پیدا ہوا۔بچپن کے ابتدائی سال انتہائی خوشگوار تھے۔ سارا سارا دن اپنے کزنوں کے ہمراہ گھر کے بڑے صحن میں کھیلنا میرا معمول تھا۔ ہر صبح ایک سہانی صبح ہوتی اور ہر شام کے پرندے مسرت کا پیغام دے کر جاتے ، کسی بھی قسم کے غم کے وائرس نے ابھی میرے سسٹم پر حملہ نہیں کیا تھا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ میری زندگی میں ایک ایسا موڑ آنے والا ہے جس کے اثرات میرے دل و دماغ پر شدید ہوں گے۔

پانچویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد میرے والدین نے مجھے دین کی ”اعلیٰ “ تعلیم دلوانے کے لیی نواحی گاﺅں کی ایک مشہور مدرسے میں داخل کروا دیا ۔ جبکہ میرے بڑے بہن بھائی میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے تھے۔ میرے والدین کی خواہش تھی کہ وہ اپنے ایک بچے کو دین کے لیے وقف کریں گے۔

مدرسے میں پڑھنے والے کو ”طالب ‘ جبکہ پڑھانے والے کو ”استاد جی “ کہا جاتا تھا مدرسے میں دو ہزار کے لگ بھگ طالب زیر تعلیم تھے۔ جن میں سے بہت سارے طالب مدرسے میں رہائش  پذیر تھے جبکہ باقی طالبوں کا تعلق مقامی گاﺅں سے تھا ۔اس مدرسے کے پڑھے ہوئے بہت سے طالب مختلف علاقوں کی مساجد کے منبر سنبھال چکے تھے۔

شہر سے گاﺅں میں اور اسکول سے مدرسے میں، شروع میں تومیں وہاں کے ماحول کو سمجھ نہ پایا۔ پھر آہستہ آہستہ پردے ہٹتے گئے۔ اُستاد جی نے میرا استقبال قمیض کے کالر کاٹ کر کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ انگریزوں کی ایجاد ہے اور یہ کتے کے کان ہیں ،مجھے ایک ٹوپی ہر وقت پہنے رکھنے، اور بڑا حاجیوں والاچوخانہ رومال اپنے کندھوں پہ ڈالے رکھنے کا حکم دیا گیا۔

صبح منہ اندھیرے تین بجے نیند سے بیدار کر دیا جاتا ۔ فجر کی نماز تک کلاس ہوتی جس میں بچے روز کا یاد کیا ہوا سبق سناتے تھے۔نماز کے بعد پھر کلاس شروع ہو جاتی جو 11:00بجے تک جاری رہتی۔ 11:30 پر ناشتہ اور دوپہر کا کھانا ایک ساتھ دیا جاتا تھا۔ 12:00بجے سے ظہر کی نماز تک کے وقفہ میں طالب کپڑے دھوتے، نہاتے اور آرام کرتے تھے، ظہر سے عصر کی نماز تک پھر کلاس ہوتی۔ عصر سے مغر ب کے وقفے کے دوران رہائشی طالب کھیلتے جبکہ وہاں کے مقامی طالبوں کو برتنوں کے ساتھ مقامی گھروں سے استاد جی حضرات کے لیے کھانا مانگنے کے لیے بھیج دیا جاتا۔ مغرب سے عشاءتک پھر کلاس ہوتی اور عشاءکی نماز کے بعد رات کا کھانا کھا کر طالب سونے کے لیے اپنے اپنے بستروں میں چلے جاتے۔

مدرسے میں موجود کتب فرقہ واریت پر مبنی مواد سے بھرپور تھیں۔ ٹیپ ریکارڈ ز پرسپاہِ صحابہ کے مولویوں کی تقاریر بلند آواز میں چلا کرتی تھیں۔ جا بجا دیواروں پر اسٹکرز چسپاں ہوتے تھے جن پر تلواروں اور بندوقوں کی تصاویر ہوتی تھیں اور جہادی نعرے درج ہوتے تھے۔ مدرسے میں ٹوائلٹ کو بیت الخلا کہا جاتا تھا۔ وہاں جا کر یونہی محسوس ہوتا تھا جیسے انسان واقعی خلاﺅں میں چلا گیا ہو، وہاں کی دیواروں پر بھی دوسرے فرقوں کے خلاف کُفر کے فتوے درج ہوتے تھے۔ طالب اور استاد جی حضرات باہمی گفتگو میں دوسرے مسالک کے لوگوں پر پھبتیاں کستے اور برا بھلا کہتے۔

معمولی معمولی باتوں پر سخت سزائیں دی جاتی تھیں جن میں بید سے مارنا، مرغا بنانا، چہرے پر تھپڑ مارنا سرفہرست تھیں۔ میرے سامنے استاد جی نے ایک 6سالہ بچے کو گریبان سے پکڑ کر اٹھایا اور زمین پر دے مارا ۔اس کے سر پر ایسی شدید چوٹ لگی کہ اُس کے حواس کافی دیر تک بحال نہ ہوئے ۔ والی بال کھیل کھیل کر استاد جی حضرات تھپڑ رسید کرنے میں کافی مہارت حاصل کر چکے تھے۔

مدرسے میں صرف والی بال کھیلی جاتی تھی (یہ دیہاتی طرز کی والی بال ہوتی ہے جس کے اصول وقوانین ، بین الاقوامی طور پر کھیلی جانے والی ، والی بال سے کافی مختلف ہیں ) ۔ ایک دفعہ ہم نے کرکٹ کھیلی، استاد جی کو کسی طرح پتا چل گیا۔ انہوں نے ہمیں بید سے پیٹا اور بیٹ کو تنور میں ڈال دیا۔ انہوں نے فرمایا ”کرکٹ انگریزی کھیل ہے، والی
بال کھیلا کرو، یہ اسلامی ہے “۔

طالب مختلف ”غیر نصابی “ سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ استاد جی حضرات ان سرگرمیوں کی سرپرستی کرتے تھے۔ ان سرگرمیوں میں تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگانا، جہادی کیمپوں میں جا کر عسکری تربیت حاصل کرنا اور باقی طالبوں کو بھی جہاد کی طرف مائل کرنا سرفہرست ہوتی تھیں۔ 9/11کے بعد ایک ترانہ طالبوں میں بہت مقبول تھا جس کے بول تھے ”میرا شیر اسامہ بن لادن، اسلام کا ہیرو نمبر ون“۔

طالبوں کا مدرسے کی چاردیواری سے باہر کی دنیا سے رابطے کا ذریعہ اخبار ہوا کرتے تھے۔ ان اخباروں میں جہادی تنظیموں کے اخباروں تک طالبوں کو رسائی حاصل تھی جبکہ باقی اخبارات کو پڑھنے کی اجازت نہ تھی، صرف استاد جی حضرات انہیں پڑھ سکتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اخباروں میں برہنہ تصاویر ہوتی ہیں جن کی وجہ سے طالبوں کا ایمان متزلزل ہوتا ہے۔

انہیں دنوں 99ءکا کرکٹ ورلڈ کپ ہو رہا تھا ایک استاد جی جو قدرے زندہ دل معلوم ہوتے تھے، نے مجھ سے مختلف میچوں کی صورت حال دریافت کی۔ اُن کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے بڑھ چڑھ کر تفصیلات مہیا کیں ۔ میرے ذخیرہ معلومات سے متاثر ہو کر وہ کچھ سوچ میں پڑ گئے۔ پھر انہوں نے کچھ طالبوں کو بلا کر میرے سامان کی تلاشی کا حکم دیا۔ میرے سامان سے ایک بے ضرر ننھا سا ریڈیو دریافت ہونے پر میری جو درگت سنی، اسے آج بھی یاد کرتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

مدرسہ میں طالبوں کو حکم دیا جاتا کہ استاد جی حضرات کو ہمیشہ جھک کر ملنا چاہئیے۔ ایسا کرنے سے سبق زیادہ یاد ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک استاد جی کو میں جب بھی ملتا تو وہ مجھے سینے سے لگا کر ضرورت سی زیادہ بھینچتے۔ اُن کا یہ غیر معمولی عمل اکثر تنہائی میں ہوتا۔جب میں نے اپنے دوستوں سے استادجی کی اس غیر معمولی گرمجوشی کا ذکر کیا تو انہوں نے بھی اس سے ملتے جلتے تجربات بیان کیے ۔ آخر ایک سینئر طالب سے دریافت کرنے پر ایسے ایسے حقائق سے پردہ اُٹھا کہ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔

اُنہیں دنوں مدرسے میں ایک نئے اُستاد جی بھرتی کیے گئے ، ان کی آمد کے کچھ ہی دنوں بعد ایک رات جب ہم سب سو چکے تھے تو اچانک شور ہونے پر میری آنکھ کھل گئی ۔ میں اپنے کمرے سے ایک دوست کے ہمراہ باہر نکلا تو دیکھا کہ نئے استاد جی کے کمرے کے باہر کچھ طالب جمع تھے۔ تھوڑی دیر میں ایک اور استاد جی وہاں آگئے۔ انہوں نے طالبوں کو وہاں سے منتشر کیا اور نئے استاد جی کے کمرے کے دروازے پر دستک دے کر انہیں آواز دی۔ کمرہ کھلا اور استاد جی بر آمد ہوئے۔ پرانے استاد نے اندر جا کر ایک نو دس سالہ لڑکے کو باہر نکالا جس کو نئے استاد محترم نے’ پاﺅں دبوانے ‘کے لیے رات گئے اپنے کمرے میں بلا لیا تھا۔ پرانے استاد نے اس معصوم لڑکے کی پٹائی شروع کر دی کہ وہ اتنی رات گئے اس کمرے میں کیا کر رہا تھا۔ اس کے بعد معاملہ رفع دفع ہو گیا۔

اتنے بڑے مدرسے کے انتظام و انصرام کو چلتا دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی تھی۔ آخر اس معاملے کی بھی گتھیاں سُلجھنا شروع ہوئیں۔مدرسہ کے مہتمم اعلیٰ کے ایک بھائی جرمنی میں کوئی مدرسہ چلا رہے تھے ،دوسرے بھائی لندن میں ایک مدرسے کے مہتمم تھے، تیسرے بھائی ہر سال بنکاک کی کسی مسجد میں تراویح پڑھانے کے لیے جاتے تھے ۔ اس کے علاوہ سعودی عرب سے ملنے والی امداد علیحدہ تھی۔

تقریباً تین سال اس جزیرہِ علم میں رہ کر میں حافظ بن چکا تھا ۔ میرے والدین کی خواہش مجھے درس نظامی سے مزید تعلیم دلوانے کی تھی۔ لیکن میں مزید ”اعلیٰ “ تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لہذا والدین نے دوبارہ اسکول میں داخل کروادیا۔ اسکول اور گھر اب اجنبی سے محسوس ہوتے تھے۔ اکثر لوگ چلتے پھرتے کافرنظر آتے تھے۔ گھر میں TVچلتا دیکھ کر عجیب و حشت ہو تی تھی۔ میں دوسرے مسالک کے مسلمانوں کو سر عام پھانسی دینے کے حق میں بے تحاشا دلائل دیا کرتا تھا۔ سکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی تعلیم مجھے سراسر غیر اخلاقی اور کفریہ عقائد پر مبنی نظر آتی تھی۔ دوسرے مسالک کے لڑکوں سے میری دو ایک بار جھڑپیں بھی ہوئیں۔

FScکا امتحان جیسے تیسے پاس کرنے کے بعد مجھے یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ وہاں میرے کمرے میں جہادی لڑکوں کا آنا جانا لگا رہتا، ہم جہاد کشمیر کے حق میں تقاریر کرتے اور نئے طلباءکے کمروں میں جا کر انہیں جہاد کی ترغیب دیتے۔ انہی دنوں میں نے ایک جہادی کیمپ سے ٹریننگ لینے کا فیصلہ کیا۔

جہادی کیمپ میں جا کر تصویر کا اصل رُخ میرے سامنے آگیا۔ جہاد کے جذبے کے پیچھے ان ملاﺅں کی متعصبانہ، غیر انسانی اور سماج دشمن سوچ مجھ پر آشکار ہوئی۔ ان کے ارادوں سے مجھے گھن سی آنے لگی۔ یہ لوگ ایک ایک ہندوکو چن چن کر مارنے کے حق میں تھے۔ احمدیوں کے بہیمانہ قتل پر غیر معمولی مسرت کا اظہار کرتے تھے۔ معمولی غلطیوں پر کڑی سے کڑی اور غیر انسانی سزائیں دینے کو تربیت کا حصہ گردانتے تھے۔ گو کہ میں خودبھی کٹر، متعصبانہ خیالات کا مالک تھا لیکن شاید میرے ذہن کے کسی گوشے میں انسانیت کی تھوڑی سی رمق باقی تھی۔ ان جنونیوں کے غیر انسانی اور معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر دینے والے رویوں سے میرا دل متنفر ہوتا گیا۔

جہادی کیمپ سے واپسی پر میں ایک مکمل طور پر بدلا ہوا انسان تھا۔ ایسے موقع پر ایک سینئر کے توسط سے مجھے اعتدال پسند لٹریچر پڑھنے کا موقع ملا۔ انہی دنوں کچھ ترقی پسند،روشن خیال دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے جمہوریت،رواداری اور انسانی ترقی کے نظریات سے متعارف کرایا ۔ ان کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ان کے توسط سے دوسرے اعتدال پسند سوچ رکھنے والے دانشوروں سے ملنے کا موقع ملا۔ آہستہ آہستہ اندھیرے چھٹتے گئے اور میں زندگی میں واپس آنا شروع ہوا۔ آجکل میں سماجی وسیا سی کارکن کے طور پر مختلف تنظیموں کے ساتھ منسلک ہوں اور ایک بھرپور زندگی گزار رہا ہوں۔ اب مختلف صحت مندانہ سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے ، آگے بڑھنے اور دوسروں کی ترقیمیں معاون بننے میں مجھے بے تحاشا خوشی محسوس ہوتی ہے۔

Source :

http://www.laaltain.com/%D9%82%D8%A8%D8%B1-%D8%B3%DB%92-%D9%88%D8%A7%D9%BE%D8%B3%DB%8C/

Comments

comments