General Ziauddin’s revelations – by Mohammed Hanif
بٹ اچھا، بدنام برا
گزشتہ چند ہفتوں سے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور بارہ اکتوبر 1999 کو چند گھنٹوں کے لیے اپنے آپ کو پاک فوج کا سپہ سالار سمجھنے والے جنرل خواجہ ضیالدین بٹ شہ سرخیوں میں ہیں اور ٹاک شوز کی رونق بڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے گیارہ سال بعد اپنی خاموشی کیوں توڑی ہے اس کے لیے کوئی بڑا تجزیہ نگار ہونا ضروری نہیں ہے۔
پہلے دو سال وہ قید میں تھے، پھر مشرف کا راج تھا، پہلے مشرف کا راج ختم ہوا پھر انہیں شہباز شریف کی انسپیکشن ٹیم میں ملازمت ملی اور آج کل ظاہر ہے وہ اس ملازمت کا حق ادا کر رہے ہیں۔
اگر جنرل مشرف لندن میں بیٹھ کر جنرل بٹ کے باسز کے خلاف ہرزہ سرائی کریں گے تو ظاہر ہے جواب دینا بٹ صاحب کا فرض بنتا ہے۔
لیکن جب بھی وہ منہ کھولتے ہیں تو میرا اور میری طرح کئی اور سویلین لوگوں کا دل دہل سا جاتا ہے۔
بارہ اکتوبر 1999 کو کیا ہوا؟ کیا ہوسکتا تھا؟ بٹ صاحب فرماتے ہیں کہ اگر میں اسی دن فوج کا سربراہ بننے کے بعد فوجی بغاوت کی مزاحمت کرتا تو نہ فوج رہتی، نہ پاکستان۔
فوجی بغاوت کے کرتا دھرتا کون تھے؟ جنرل مشرف اور ان کے حواری جنرل محمود، جنرل عزیز اور دو جنرل۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا وہ فوج جس سے ملک کی مقبول سیاسی جماعتیں لرزاں رہتی ہیں، جس کی وجہ سے دہلی سے واشنگٹن تک کے حکمرانوں کی نیندیں حرام ہیں، کیا نصف درجن جرنیلوں کے آپس کے اختلافات کی وجہ سے ختم ہوجاتی اور کیا انکے یہ جھگڑے اس ملک کو بھی لے ڈوبتے؟
اپنے دل کو تسلی دینے کے لیے ہم کہہ سکتے ہیں بٹ صاحب مبالغے سے کام لے رہے ہیں، اتنے قدیم اور طاقتور ادارے راتوں رات ختم نہیں ہوتے اور پاکستان جیسے ہانپتے کانپتے ملک بھی ایسے حادثات برداشت کرجاتے ہیں۔
پاکستان اور اس کی محافظ فوج کے خاتمے کی خبر سے بھی زیادہ دل دہلا دینے والی باتیں وہ ہیں جو بٹ صاحب نے اپنے ساتھی جرنیلوں کے بارے میں کہی ہیں۔ بقول ان کے جنرل مشرف فوج میں اتنا جھوٹ بولتے تھے کہ لوگوں نے ان کا نام ’سی این این‘ رکھا ہوا تھا، (یہ بات جنرل بٹ نے سی این این سے معذرت کرتے ہوئے بتائی)۔
جنرل محمود کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ وہ معرکہ کارگل کے معمار تھے لیکن معرکے کے عروج پر ان کی یہ حالت تھی کہ کارگل کا نام سن کر خوف سے ان کی ٹانگیں کانپتی تھیں۔ جنرل عزیز فوج میں انتہائی غیر مقبول تھے کیونکہ اہلیت کے بغیر اعلیٰ عہدے پر ترقی پاگئے تھے، جنرل بٹ سے پوچھا جاتا ہے کہ بارہ اکتوبر کو سپہ سالار کے پھول کندھے پر سجانے کے بعد کیا انہوں نے اپنے کور کمانڈروں سے رابطہ کیا تو ان کا بے ساختہ جواب تھا، ہاں کیا، لیکن وہ گالف کا ٹائم تھا، کئی گالف کھیل رہے تھے۔
جنرل بٹ کی باتیں سن کر اور اس سے پہلے جنرل مشرف اور ان کے حواریوں کی حرکتیں دیکھ کر بارہ اکتوبر 1999 کو فوج کی اعلیٰ کمان کا جو تاثر ابھرا ہے وہ کچھ یوں ہے جیسے کسی سرکاری ہائی اسکول کا گراؤنڈ ہو جہاں کچھ لڑکے کونے میں گلی ڈنڈا کھیل رہے ہیں، کوئی درخت کے پیچھے چھپا سوٹے لگا رہا ہے، کوئی راہ گیروں پر سیٹی بجا رہا ہے، کوئی جونیئر جماعت کے بچے کی ٹھکائی کر رہا ہے اور کوئی لیبارٹری میں چھپا شیشہ دیکھ کر اپنے منہ کے کیل مہاسے نوچ رہا ہے۔
فوج کے تعلقات عامہ کے محکمے نے گزشتہ چند سالوں میں اپنے کام میں بڑی مہارت حاصل کی ہے اور ایسے ایسے کالم نگار اور دفاعی تجزیہ نگار پیدا کیے ہیں کہ ان کی لغو بات پر بھی صحیفے کا گمان ہوتا ہے۔ کیا اس ادارے سے یہ گزارش کی جاسکتی ہے کہ فوج کے سابق جرنیلوں اور آئی ایس آئی کے سربراہوں کی بھی تربیت کا کچھ انتظام کرے تاکہ وہ اس سہمی ہوئی قوم کا دل مزید دہلانے سے باز رہیں؟
Comments
Tags: Corrupt generals, Gen Ziauddin Butt, Genral Aziz, Mohammed Hanif, Pakistan Army, Shahbaz Sharif
Latest Comments
Mohammad Hanif should be ashamed to call himself a reporter, total value less personal judgement against Pak army. Yes Gen. Butt and Musharraf were in a power struggle and they were strategic commanders of the same military journalists like this are licking the boots of. Hanif is a no-body, doesn’t matter whatever he says, the generals mentioned including Gen. Butt are historical personalities, they matter, hanif and his opinions don’t.
Gen. Butt, did not mention Gen. Usmani in the whole episode. He told the media that when he was appointed as COAS, the badges were borrowed from a Brigadier, and were attached to his uniform with a match stick, but he did not reply, why were they in such a panic.
@Isphani
Though you cant differentiate between journalist and reporter, and dont even know who Muhammad Hanif is? If he matters or not. But I salute your unabatted support of Afwaaj-E-Pakistan. Jazakallah Bro…with soldiers like you, we will win against our enemies, the trio of yahud/hunud/nasara and their shoe or ass licker….
۔ 2نومبر 2010ء کو روزنامہ جنگ میں جناب نذیر ناجی کا کالم ”اب افسوس کا فائدہ“ پڑھ کر وہ تمام واقعات میری نظروں کے سامنے گھوم گئے جن کا ذکر ناجی صاحب نے کیا۔ انہوں نے بالکل درست لکھا کہ 14ستمبر 1999ء کو میں نے نذیر ناجی صاحب سے کہا تھا کہ وہ وزیراعظم صاحب کو بتادیں کہ اگر انہوں نے ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی بند نہ کی تو نومبر سے پہلے پہلے ان کی حکومت رخصت کردی جائے گی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ناجی صاحب نے پوچھا کہ برخوردار حکومت کیسے جائے گی؟ میں نے سیدھا سا جواب دینے کی بجائے کہا کہ کیا آپ نہیں جانتے کہ فوج حکومت میں کیسے آتی ہے؟ یہ سن کر ناجی صاحب نے سنجیدگی کے ساتھ مجھے ایک طویل لیکچر دیا اور عالمی صورتحال کے تناظر میں کہا کہ مارشل لاوٴں کا دور گزر گیا اب فوج نے مارشل لاء لگایا تو امریکہ اور یورپ پاکستان کی امداد بند کردیں گے۔ میں اپنے موقف پر قائم تھا اور میں بڑے ادب سے گزارش کررہا تھا کہ حضور میں تو خود مارشل لاء کا ناقد ہوں اور میری خواہش ہے کہ مارشل لاء نہ آئے لیکن وزیراعظم نواز شریف کو ان کے کچھ نادان مشیر مختلف ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ناجی صاحب نے کہا کہ فکر مت کرو کوئی کچھ نہیں کرسکے گا کیونکہ آئی ایس آئی کا سربراہ خواجہ ضیاء الدین بٹ ہمارا آدمی ہے۔ یہ سن کر میں نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ بٹ صاحب کچھ نہیں جانتے کہ کیا ہونے والا ہے جو بھی ہونے والا ہے وہ ان کے ڈپٹی میجر جنرل غلام احمد ملک کو پتہ ہے۔ یہ سن کر ناجی صاحب چند لمحوں کے لئے خاموش ہوگئے۔ پھر کہا کہ ٹھیک ہے اگر تم اصرار کرتے ہو تو میں تمہاری طرف سے وزیراعظم کو بتادوں گا کہ انہیں نومبر سے پہلے فارغ کرنے کا منصوبہ بن چکا ہے۔ میں نے کہا کہ میرے پیغام میں یہ الفاظ بھی شامل کرلیں کہ اگر آپ کچھ مشیروں سے پرہیز شروع کردیں تو معاملات بہتر ہوجائیں گے۔ ناجی صاحب نے بلند آواز میں پوچھا کون مشیر؟ میں نے بھی بلند آواز میں کہا کہ سینیٹر سیف الرحمن اور خواجہ ضیاء الدین بٹ۔
یہ وہ زمانہ تھا جب پرویز رشید پی ٹی وی کے چیئرمین تھے اور انہوں نے پی ٹی وی کو خاصا لبرلائز کردیا تھا۔ ایک دن پی ٹی وی کے ایک مارننگ شو میں اس خاکسار نے نواز شریف حکومت پر خوب تنقید کی اور میزبان جناب خلیل ملک مرحوم کو کہا کہ اس حکومت کو سمجھ نہیں آرہی کہ جب تاجروں کی طرف سے ہڑتالیں اور مظاہرے شروع ہوجائیں تو پھر کوئی نہ کوئی اپنا کام دکھا دیتا ہے اس لئے مجھے خدشہ ہے کہ اس حکومت کا کام تمام ہونے والا ہے۔ یہ ایک لائیو شو تھا جو اتفاق سے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی دیکھ رہے تھے۔
پروگرام ختم ہونے پر انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں بلالیا کیونکہ وہ وفاقی دارالحکومت میں موجود تھے۔ وہ پریشان تھے کہ میں نے ان کی حکومت ختم ہونے کے خدشے کا اظہار پی ٹی وی پر کیسے کردیا؟ میں نے ان کو تفصیل کے ساتھ بتایا کہ کارگل کی جنگ سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں میں کئی دیگر عوامل شامل ہوچکے ہیں اور نواز شریف اپنے ہی لائے ہوئے آرمی چیف کو فارغ کرنے کی کوشش میں خود فارغ ہوجائیں گے۔ شہباز صاحب نے یقین دلایا کہ وہ ایسا کچھ نہیں ہونے دیں گے۔ جب میں نے رخصت لی تو کہنے لگے کہ حکومت کے اندر کچھ لوگ حکومت سے زیادہ طاقتور بننے کی کوشش کررہے ہیں اور میرے ٹیلیفون ٹیپ کررہے ہیں لیکن اب میں وزیراعظم صاحب کو ان لوگوں سے خبردار کروں گا۔ یہ سن کر میں مسکرایا اور پوچھا کہ… ”کیا آپ کا اشارہ سینیٹر سیف الرحمن کی طرف ہے؟ “ شہباز صاحب نے زور دار قہقہہ لگایا اور میں واپس آگیا۔
اس واقعے کے چند دن بعد وزیراعظم صاحب سے ملاقات ہوئی۔ مجھے یقین تھا کہ نذیر ناجی صاحب اور شہباز شریف انہیں سب کچھ بتاچکے ہوں گے لیکن وزیراعظم کی گفتگو میں ایسا کوئی اشارہ موجود نہ تھا۔ میں نے خود ہی بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ آج کل آپ کی حکومت ختم ہونے کی باتیں چل رہی ہیں۔ وزیراعظم صاحب نے ایک خفیف مسکراہٹ کے ساتھ جواب میں کہا کہ فاروق لغاری ایوان صدر سے رخصت ہوچکے، اسمبلی توڑنے کا آئینی اختیار ختم ہوچکا ہے، میں اسمبلی کبھی نہ توڑوں گا اور مارشل لاء کا زمانہ رخصت ہوچکا تو پھر آپ بتایئے کہ تبدیلی کیسے آئے گی؟ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا نوازشریف صاحب نے کہا کہ کیا بے نظیر بھٹو صاحبہ دبئی بیٹھ کر مجھے تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ ہٹائیں گی؟ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا وزیراعظم ہاؤس کی لائبریری میں وزیراطلاعات مشاہد حسین داخل ہوئے اور قہقہہ مار کر کہنے لگے کہ حامد میر صاحب ہماری حکومت کہیں نہیں جارہی آپ جاکر بتادیں بے نظیر صاحبہ کو کہ ہم کہیں نہیں جارہے۔
12/اکتوبر 1999ء کو میرا کالم آئی ایس آئی کے سربراہ ضیاء الدین بٹ کی ملا عمر کے ساتھ ملاقات کے بارے میں تھا اور میں نے اس ملاقات کو ناکام قرار دیا۔ اسی دن خلیل ملک صاحب نے مجھے بلاکر خبردار کیا کہ سیف الرحمٰن آج شام تک آپ کو ٹیکس چوری کے الزام میں گرفتار کرادے گا۔ میرا دامن بالکل صاف تھا۔ میں نے اپنے دوست خواجہ آصف کو بتایا تو انہوں نے وفاقی وزیر ہونے کے باوجود بے بسی کا اظہار کیا اور کہا کہ سیف الرحمن تو انہیں بھی کابینہ سے نکلوانے کے چکر میں ہے۔ اس شام میں نے دبئی جانے والے جہاز میں سیٹ بک کروالی تاکہ گرفتاری سے بچ سکوں لیکن شام سے پہلے ہی نواز شریف حکومت کا کام تمام ہوگیا۔
Hamid Mir
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=480867
اب افسوس کا فائدہ……سویرے سویرے…نذیر ناجی
12اکتوبر کو‘ چند منٹ کے لئے اپنے عہدے پر فائز رہنے والے سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاالدین نے ”جیو“ کے افتخار احمد کو اپنے پہلے طویل انٹرویو میں بعض دلچسپ باتوں کا انکشاف کیاہے۔ جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ جنرل پرویزمشرف اور ان کے ساتھی باقی جنرلوں کو اقتدار پر قبضے کے بعد‘ آن بورڈ لانے کی کوششیں کرتے رہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بغاوت کا منصوبہ یا سازش نامکمل تھی۔ سازش کے مرکزی کردار پرویز مشرف کے علاوہ جنرل محمود‘ جنرل عزیز ‘جنرل جاویدحسن‘ بریگیڈیئرصلاح الدین اور چند ایک دوسرے تھے۔ اقتدار پر قبضے کے بعد بھی سازشیوں کا ٹولہ اپنے مستقبل کے بارے میں فکرمند تھااور وہ دوسرے جنرلوں کو ایک ایک کر کے یہ کہہ کر اپنے ساتھ ملاتے رہے کہ وہ معاملات پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔ یہاں میں ایک بات کا اضافہ کروں گا اور وہ یہ کہ پرویزمشرف کا عدالتی ٹرائل نہیں بھی ہوتا‘ تو کم از کم وزارت دفاع کو ایک فیصلہ ضرور کر دینا چاہیے کہ جنرل ضیاالدین کا گناہ کیا تھا؟ انہیں جائز طریقے سے چیف آف آرمی سٹاف بنایا گیا تھا۔ ان کا امتیازی مقام یہ ہے کہ خود وزیراعظم نے ان کے کندھوں پر رینکس لگائے۔ جبکہ اقتدار پر قبضہ کرنے والے پرویزمشرف برطرف کئے جا چکے تھے۔ ہر اصول اور ضابطے کے مطابق‘ بغاوت کے وقت جنرل ضیاالدین ہی چیف آف آرمی سٹاف تھے۔ان کی بحالی اور پھر جبری ریٹائرمنٹ کو ضابطے کے اندر لاتے ہوئے‘ ان کی اصل پوزیشن بحال کر کے انہیں سابق چیف آف آرمی سٹاف کا پروٹوکول دیا جانا چاہیے اور وہی پنشن اور مراعات ملنا چاہئیں‘ جن پران کا حق ہے۔
جہاں تک پرویزمشرف کی برطرفی کے حکم پر عملدرآمد میں ناکامی کا سوال ہے‘ تو اس کی ذمہ داری جنرل (ر) ضیاالدین پر نہیں ڈالی جا سکتی۔فوجی عہدوں پر تقرری اور برطرفی کے احکامات پر عملدرآمد وزیردفاع اور سیکرٹری دفاع کا کام ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ پرویزمشرف کی برطرفی کے حکم پر عملدرآمد‘ کا طریقہ کار کس نے طے کیا تھا؟ اگر یہ وزیراعظم نے کیا تو عملدرآمد کے وقت وزیردفاع اور سیکرٹری دفاع کہاں تھے؟ کیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا جا سکے گا؟ خود چیف آف آرمی سٹاف بننے والے جنرل ضیاالدین آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ ان کی دو ذمہ داریاں تھیں۔ انٹیلی جنس چیف کی حیثیت سے صورتحال کی خبر رکھنا اور نئے آرمی چیف کی حیثیت سے اپنے ادارے کے متعلق یہ معلومات رکھنا کہ کیا وہ نئے چیف کی تقرری کے لئے تیار ہے یا نہیں؟ اگر ذرا بھی شک ہوتا‘ تو پہلے اس حکم پر عملدرآمد کو ممکن بنانا ضروری تھا۔ ایسا کیوں نہ کیا گیا؟
جنرل ضیاالدین نے اسی انٹرویو میں انکشاف کیا کہ پرویزمشرف 17ستمبر 1999ء کو حکومت ختم کرکے اقتدار سنبھالنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ میرا خیال ہے یہ وہی سازش تھی جس کی 14ستمبر کو میں نے وزیراعظم کو اطلاع کر دی تھی۔ مجھے بطور صحافی اپنے ذاتی ذرائع سے‘ اس سازش کی تھوڑی بہت سن گن مل چکی تھی۔ حامد میر نے خصوصی طور پر 14 ستمبر کو میرے پاس آ کر بڑے اعتماد سے یہ بتایا کہ ”آپ وزیراعظم کو اطلاع کر دیں کہ انہیں ہٹانے کی سازش ہو چکی ہے اور وہ اپنے بچاؤ کی تدبیر کر لیں۔“ اسی دن میں وزیراعظم سے ملاقات کا وقت لے کر ‘شام ساڑھے چار بجے وزیراعظم ہاؤس کے رہائشی پورشن میں ڈرائنگ روم کے اندر بیٹھے وزیراعظم کی خدمت میں حاضر ہوا‘ تو ان کے ساتھ ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر جاوید بھی بیٹھے تھے۔ میں نے ان سے تخلیے میں بات کرنے کی درخواست کی۔ وزیراعظم نے حسب عادت یہ کہتے ہوئے مجھے بات کرنے پر مجبور کیا کہ بریگیڈیئر صاحب اپنے ہی آدمی ہیں۔ مجھے اب تک اپنا جملہ اچھی طرح یاد ہے۔ میں نے کہا تھا ”میں انہی کے محکمے کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ کا حکم ہے تو میں ان کے سامنے کہہ دیتا ہوں۔“ جس پر میں نے اپنے ذرائع سے ملنے والی افواہوں اور حامد میر کی طرف سے دیا گیا پیغام‘ ان کے نام سے دہرایا کہ ”آپ کو نومبر سے پہلے رخصت کرنے کا منصوبہ بن چکا ہے“ تو انہوں نے بھرپور اعتماد کے ساتھ جواب دیا ”مجھے کون ہٹا سکتا ہے؟ مارچ میں ہمیں سینٹ میں بھی دو تہائی کی اکثریت ملنے والی ہے۔“ جس پر میں نے کہا تھا کہ ”آپ کو مارچ تک پہنچنے ہی نہیں دیا جائے گا۔“ مجھے بادل ناخواستہ ایک بلاوجہ کی جوابدہی کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بات پر میں آج تک افسوس کرتا ہوں کہ اگر ابوظہبی کے سفر کے دوران ہی مجھے اصل منصوبے کا پتہ چل جاتا‘ تو میں اس پر پورا زور لگا دیتا کہ وزیراعظم‘ پرویزمشرف کی برطرفی کا حکم ایوان صدر بھیج کر جاری کر کے اہل خاندان کے ساتھ عمرے پر روانہ ہو جائیں اور ان کی عدم موجودگی میں ایوان صدر سے سیکرٹری دفاع کے ذریعے برطرفی کے حکم پر عملدرآمد کرایا جائے۔یہ کام پرویزمشرف کی وطن واپسی کے بعد ہوتا۔ یہ جنرل افتخار اور پرویزمشرف جانتے کہ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ کیا کرنا ہے؟ وزیراعظم سازش کے اثرات سے باہر نکل چکے ہوتے۔ اگر مشرف اقتدار پر قبضہ کرتا‘ تو وزیراعظم اپنا آئینی حق لینے کے لئے آزاد ہوتے اور اگر اس آئینی حکم پر عملدرآمد ہو جاتا‘ تو جنرل مشرف کی حیثیت ایک پرکٹے پرندے جیسی ہوتی۔ مجھے یقین ہے کہ وزیراعظم کی ٹیم میں ماضی کے تجربوں سے واقفیت رکھنے والا کوئی نہیں تھااور جسے یہ سب کچھ معلوم تھا‘ اسے اصل منصوبے کا اندازہ ملتان ایئرپورٹ پر صبح کے وقت ہوا۔ ملتان میں بھی بتا دیا جاتا تو میں وزیراعظم کو فیصلے پر عملدرآمد سے پہلے عمرے پر جانے کا مشورہ ضرور دیتا۔ مگر اب افسوس کا کیا فائدہ؟ جس تاریخی المیے کو جنم لینا تھا‘ اس کے تو بچے بھی جوان ہو رہے ہیں۔
http://search.jang.com.pk/archive/details.asp?nid=480143
HATHEYO KE LARAYE MAI MARA GYA !