بلدیاتی انتخابات وقت کی اہم ضرورت از فیصل محمود

بلدیاتی نظام کوجمہوریت کی بنیاد کہا جاتا ہے. دنیا کے ہر بڑے ملک میں بلدیاتی نظام قائم ہے.جہاں میئر اور کونسلرکے پاسس  شہر کے مکمّل اختیارات ہوتے ہیں.بعض شہروں میں پولیس بھی میئر کے ماتحت ہوتی ہے.بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے لیکن یہ بدقسمتی کی انتہا ہے کہ ملک میں جب بھی سیاسی جماعتیں بر سر اقتدار رہیں انہیں بلدیاتی انتخابات کرانے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی .جمہوریت کا مطلب ہے، عوام کی حکومت عوام کیلئے، لیکن حیرت  کی بات ہے کہ 21ویںصدی میں جمہوریت کی چمپئن  جماعتیں اور جمہوری حکومت 200سالہ پرانا کمشنری نظام تھوپنا چاہتی ہےاور کمشنراور ڈپٹی کمشنر کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے اختیارات دے رہے ہیں.

تعمیر اور ترقیاتی کام بلدیاتی نظام سے ہی ممکن ہے اور یہ کام بلدیاتی نمائندوں کا ہے، ایم این اے اور ایم پی اے کا کام نہیں، بلدیاتی نظام عام آدمی کی دسترس میں ہے اور وہ اپنے علاقے کے مسائل اس نظام کی بدولت ہی حل کرسکتا ہے.عوام کے دیرینہ مسائل کاحل بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات میں ہیں.مگربدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ملک میں جب بھی بلدیاتی انتخابات ھوۓ وہ فوجی حکمرانوں نے کروائے ہیں.بلدیاتی نظام صرف اور صرف آرمی کی حکومت حکومت میں ہی آیا ہے، جس سے عوام کو ریلیف ملا ہے ایک بھی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے .جمہوری حکومتیں بلدیاتی انتخابات سے اس وجہ سے خائف ہیں کہ اس سے فنڈز اور اختیارات نچھلی سطح پر عوام کو منتقل ہوجائیں گیں جس سے ان کے ایم این ایز اور ایم پے ایز کی اہمیت کم ہوجائےگی. سیاسی جماعتوں کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ بلدیاتی ادارے ہی جمہوریت کے سب سے بڑے محافظ بن سکتے ہیں کیوں کہ ان سے عوام کا براہ راست رابطہ رہتا ہے اور ان کا وجود ان کے لئے جمہوریت کے تسلسل کے احساس کا نام ہے جو انہیں ملک کے انتظام میں براہ راست شرکت کا احساس دلاتے ہیں کیونکہ بلدیاتی ادارے کے ذمہ داران سے عوام اپنے اپنے علاقوں میں براہ راست رابطے میں رہتے ہیں جو کسی قومی یا صوبائی اسمبلی کے ممبر سے ممکن نہیں۔ لیکن برا ہو ہمارے ہاں رائج بد عنوانی اور وسائل پر قابض اور اپنے دسترس میں رکھنے کی خواہشات کا جو سیاسی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات سے گریز کی طرف مائل کرتے ہیں۔

گزشتہ کئی برسوں سے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً کراچی اورحیدرآباد میں صحت وصفائی کی صورتحال انتہائی سنگین ہوچکی ہے ۔ گزشتہ  کئی برسوں سے برساتی نالوں،ندیوں کی صفائی نہ کئے جانے اورنکاسی آب کے نظام پر توجہ نہ دیئے جانے کے سبب ہفتہ کے روز کراچی میں بارش سے جو تباہی پھیلی ہے وہ کسی قیامت صغریٰ سے کم نہیں ہے جبکہ بارش کے باعث حیدرآبادمیں بھی صورتحال سنگین ہورہی ہے کیونکہ وہاں بھی گزشتہ پانچ برسوں سے برساتی نالوں کی صفائی نہیں کی گئی ہے۔کراچی میں پچھلےکئی ماہ سےکچرےکی منتقلی اورتلفی کاکام معطل ہے۔شایدہی کوئی سڑک یا گلی ہوجس پرکچرانہ پڑاہو۔ یہی کچراسیوریج لائنزمیں جاکرپھنس گیاہے.کراچی میں اس وقت گلیوں اوراندرونی سڑکوں ہی کاحال برانہیں ہے بلکہ مرکزی شاہراہیں بھی تباہی کاشکارہیں۔بارش کاپانی گھروں، مساجد ، فیکٹریز اور اسپتالوں سمیت دیگرنجی، تجارتی اورصنعتی عمارات میں داخل ہورہاہے جس سے بارش کی تباہ کاریوں میں مزیداضافہ ہورہاہے۔ بجلی نہ ہونے سے پمپوں کے ذریعے پانی نکالنے کاعمل بھی بری طرح متاثرہورہاہے تیز بارش کے ساتھ ہی شہر کا نظام زندگی درہم برہم ہوجانا اور متعدد انسانی جانوں کا زیاں ہونا بلدیاتی نظام کی عدم موجودگی کا ہی ساخشانہ ہے ۔ بلدیاتی نظام ہو تا تو شہر کایہ حال نہ ہو تا .ان بارشوں سے ہونے والی تباہ کاریوں نے ایک مرتبہ پھرثابت کردیا ہے کہ ملک کو بلدیاتی انتخابات اورلوکل گورنمنٹ سسٹم کی فوری ضرور ت ہے تاکہ ان کے نتیجے میں وجودمیں آنے والی شہری حکومتیں، صحت وصفائی سمیت دیگرامورکی دیکھ بھال کرسکیں۔

وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ ملک میں فوری طورپر بلدیاتی انتخابات کرواکر شہری سہولتوں کا نظام لوکل گورنمنٹ اوران کے منتخب نمائندوں کے حوالے کرے ۔

1003347_566512733389802_887165832_n 

Comments

comments

Latest Comments
  1. SYED RAHEEL
    -
  2. Khalid Bhatti
    -