We Pakistanis ridiculous contradictions around. Everytime we clap for and laud the soldiers hitting the ground and even bring our kids to the place, who dressing like them march in the same way. It becomes a news headline.
On another side, a Pakistani child participant in an Indian music talent show “Chotey Ustad” share the stage with their Indian counterpart kids, and after elimination, crying for them saying that, “Erase the borders, we wanna play with the Indian kids,”
Paradox unlimited…
In bollywood movie, HumTum, Rishi Kapoor, the father of the protagonist Saif is saying, “Lagta Hei, Meri Tamam Khamian mere betey ko wirasat mey muntaqil hogai hein”,
By such demonstrations and acts of bravado, we have transmitted all our false expressions of hatred, disgust and enmity, to our offspring.
Smiles to replace glares at Wagah border
Published: Monday, Nov 1, 2010, 2:04 IST
By Amir Mir | Place: ISLAMABAD | Agency: DNA
They did it till it hurt, but they’ve now decided not to do it anymore. As part of a move initiated by India, Pakistan and India had agreed to tone down the aggressiveness of soldiers during the gate-closing ceremony at Wagah, possibly owing to the fact the soldiers hurt their feet and knees performing the goose-stepping every day.
Over this weekend, both countries put a formal seal on the deal. They have agreed to do away with the hostility of the beating retreat ceremony at the army outpost in Wagah border near Amritsar.
According to Pakistani media reports, the decision to tone down the aggression was taken on Saturday during a meeting of the director-general of the Pakistani Punjab Rangers, Major General Muhammad Yaqoob, and director general of the Border Security Force, Raman Shrivastav, in Lahore.
Moreover, what may inspire confidence in the ability of the two neighbours to resolve issues, the idea of toning down hostility at the flag ceremony was not even on the agenda of the talks held between the Pakistan Rangers and the Border Security Force, at least this time.
“It was not on our agenda,” the director-general of Pakistan Rangers (Punjab), Major General Muhammad Yaqoob Khan, told reporters after conclusion of the latest round of biannual talks between the two sides. “But we discussed it on a request from my counterpart [director general of BSF Raman Srivastav].”
According to sources, the two sides had during talks in March agreed to do away with ‘thumb showing’ and ‘staring’. Now, they’ve decided that soldiers would shake hands and smile when the gates are opened.
Earlier, the handshake was accompanied by aggressive posturing. A Pakistan Rangers spokesman had said at that time that Major General Yaqoob had refused to do away with foot-pressing and leg-stretching gestures.
سولہ اگست انیس سو سینتالیس تک واہگہ لاہور ڈویژن کا ایک گمنام گاؤں تھا۔اگلے دن اس گاؤں کو ریڈ کلف ایوارڈ کی تلوار نے دو ٹکڑے کردیا۔ سر بھارت کو اور دھڑ پاکستان کو مل گیا۔
انیس سو انسٹھ میں تقسیم شدہ واہگہ پر سرحدی گیٹ لگا دیئے گئے۔ جن دیہاتیوں نے کبھی پولیس والے کا منہ نہیں دیکھا تھا انہوں نے دیکھا کہ گیٹ کے آر پار مختلف رنگ کی وردیاں پہنے دو فوجی دستے آگئے ہیں۔ ایک کو بارڈر سکیورٹی فورس کہتے ہیں تو دوسرے کو پاکستان رینجرز۔ دونوں دستے صبح اپنا اپنا جھنڈا بلند کرتے ہیں اور گیٹ کھل جاتے ہیں اور شام کو جھنڈا اتارتے ہی گیٹ بند ہوجاتے ہیں۔ دونوں وقت بگل بجتے ہیں۔ سرحدی محافظ ایک دوسرے کو خونی آنکھوں سے گھورتے، بھنچی ہوئی مٹھیاں دکھاتے ہوئے اتنی دھمک کے ساتھ اپنے بوٹ زمین پر مارتے ہیں کہ گھٹنے کے جوڑ اور زمین ہل جاتی ہے۔
دن بدن تماشائیوں کی تعداد، جارحانہ ڈرل پر تالیوں اور نعروں کی گونج بڑھتی چلی گئی۔ بھارت اور پاکستان والے جس جارحانہ ڈرل کو مردانگی، غیرت اور قوت کا اظہار سمجھتے ہیں مغربی سیاحوں کے لیے وہ ایک دلچسپ رومن سرکس سے کم نہیں۔ ایسا سرکس جس میں کام کرنے والے بیسیوں ہندوستانی و پاکستانی سپاہی اسلام آباد اور دہلی کی جنگجویانہ قبائلی انا کی تسکین کے لیے اپنی پنڈلیوں اور گھٹنوں کو نقصان پہنچوا چکے ہیں۔
بھارت اور پاکستان والے جس جارحانہ ڈرل کو مردانگی، غیرت اور قوت کا اظہار سمجھتے ہیں مغربی سیاحوں کے لیے وہ ایک دلچسپ رومن سرکس سے کم نہیں
اس تناظر میں یہ خبر شائع ہوئی کہ تیس اکتوبر کو پاکستان کے ڈی جی رینجرز پنجاب میجر جنرل یعقوب خان نے بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کے اعلی اہلکار رمن سری واستو کے ہمراہ لاہور میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ فریقین نے واہگہ ڈرل کے دوران گھورنے، مکے لہرانے اور جارحانہ انداز میں پیر مارنے کی روائیت کو ختم کرکے گیٹ کھولتے اور بند کرتے وقت مصافحے اور مسکرانے کی روایت بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس خبر سے امید ہوچلی کہ بلاخر دونوں ممالک نے نچلی سطح پر ہی سہی، کم ازکم عقل سے کام لینے کا فیصلہ تو کیا۔
لیکن سات نومبر کے اخبارات میں پاکستانی رینجرز کی جانب سے یہ خبر آئی ہے کہ ڈرل کے جارحانہ انداز کو کم کرنے کی خبر محض بھارتی پروپیگنڈہ ہے۔ بقول ڈی جی رینجرز یعقوب خان ڈرل سپاہی کا فخر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس ڈرل سے بھارتی سرحدی محافظوں کو کچھ جسمانی تکالیف ہوئی ہوں۔ لیکن ہمارے جوانوں کو ایسی کوئی تکلیف نہیں ہے۔ ڈرل کا انداز جارحانہ ہی رہے گا۔ صرف ہاتھ ملانے کی رسم بحال کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔
انیسویں صدی میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان پر تیزی سے پنجے گاڑ رہی تھی تو لکھنؤ کے بانکے اردگرد کی تیزی سے بدلتی دنیا سے بے پرواہ اپنی مردانگی سے لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے عجیب و غریب حرکتیں کررہے تھے۔ کسی سے بدلہ نہ لے سکتے تو اپنی ہی ناک کاٹ لیتے۔ شدید جاڑوں میں ململ کا کرتا پہن کر نہ صرف تھر تھر کاپنتے بازار میں اکڑ کر چلتے بلکہ شام کو بھرے مجمع میں بہشتی سے اپنے سر پر مشک انڈلوا لیتے اور سی بھی نہ کرتے۔ جب تماشائی اس منظر سے محظوظ ہو کر تالیاں بجاتے تو بانکے اور اکڑ جاتے۔
انیسویں صدی کے لکھنؤ کے بانکے لکھنؤ کے ساتھ ہی ختم ہوگئے۔ لیکن بانک پن کہاں ختم ہوتا ہے۔ کسی بھی شام واہگہ بارڈر تشریف لے جائیے۔ مجال ہے کہ گھٹنے کے جوڑ ہل جانے کے باوجود کسی سنتری کے منہ سے سی کی آواز نکل جائے۔
بلکہ اب تو اس جارحانہ بانک پن میں مزید رنگ آنے والا ہے۔ بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس نے خواتین سنتریوں کو بھی واہگہ ڈرل میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ظاہر ہے پاکستان کو بھی کچھ کرنا پڑے گا۔ ورنہ ایک طرف اگر زنانہ سنتری ہوں اور دوسری جانب حسبِ روایت مکے لہراتے، گھورتے اور پوری طاقت سے زمین پر بوٹ مارتے مردانہ محافظ ہوں تو منظر اور عجیب ناہو جائے گا؟؟
We Pakistanis ridiculous contradictions around. Everytime we clap for and laud the soldiers hitting the ground and even bring our kids to the place, who dressing like them march in the same way. It becomes a news headline.
On another side, a Pakistani child participant in an Indian music talent show “Chotey Ustad” share the stage with their Indian counterpart kids, and after elimination, crying for them saying that, “Erase the borders, we wanna play with the Indian kids,”
Paradox unlimited…
In bollywood movie, HumTum, Rishi Kapoor, the father of the protagonist Saif is saying, “Lagta Hei, Meri Tamam Khamian mere betey ko wirasat mey muntaqil hogai hein”,
By such demonstrations and acts of bravado, we have transmitted all our false expressions of hatred, disgust and enmity, to our offspring.
Smiles to replace glares at Wagah border
Published: Monday, Nov 1, 2010, 2:04 IST
By Amir Mir | Place: ISLAMABAD | Agency: DNA
They did it till it hurt, but they’ve now decided not to do it anymore. As part of a move initiated by India, Pakistan and India had agreed to tone down the aggressiveness of soldiers during the gate-closing ceremony at Wagah, possibly owing to the fact the soldiers hurt their feet and knees performing the goose-stepping every day.
Over this weekend, both countries put a formal seal on the deal. They have agreed to do away with the hostility of the beating retreat ceremony at the army outpost in Wagah border near Amritsar.
According to Pakistani media reports, the decision to tone down the aggression was taken on Saturday during a meeting of the director-general of the Pakistani Punjab Rangers, Major General Muhammad Yaqoob, and director general of the Border Security Force, Raman Shrivastav, in Lahore.
Moreover, what may inspire confidence in the ability of the two neighbours to resolve issues, the idea of toning down hostility at the flag ceremony was not even on the agenda of the talks held between the Pakistan Rangers and the Border Security Force, at least this time.
“It was not on our agenda,” the director-general of Pakistan Rangers (Punjab), Major General Muhammad Yaqoob Khan, told reporters after conclusion of the latest round of biannual talks between the two sides. “But we discussed it on a request from my counterpart [director general of BSF Raman Srivastav].”
According to sources, the two sides had during talks in March agreed to do away with ‘thumb showing’ and ‘staring’. Now, they’ve decided that soldiers would shake hands and smile when the gates are opened.
Earlier, the handshake was accompanied by aggressive posturing. A Pakistan Rangers spokesman had said at that time that Major General Yaqoob had refused to do away with foot-pressing and leg-stretching gestures.
http://www.dnaindia.com/india/report_smiles-to-replace-glares-at-wagah-border_1460449
apparently the news was wrong:
واہگہ کے بانکے!
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
سولہ اگست انیس سو سینتالیس تک واہگہ لاہور ڈویژن کا ایک گمنام گاؤں تھا۔اگلے دن اس گاؤں کو ریڈ کلف ایوارڈ کی تلوار نے دو ٹکڑے کردیا۔ سر بھارت کو اور دھڑ پاکستان کو مل گیا۔
انیس سو انسٹھ میں تقسیم شدہ واہگہ پر سرحدی گیٹ لگا دیئے گئے۔ جن دیہاتیوں نے کبھی پولیس والے کا منہ نہیں دیکھا تھا انہوں نے دیکھا کہ گیٹ کے آر پار مختلف رنگ کی وردیاں پہنے دو فوجی دستے آگئے ہیں۔ ایک کو بارڈر سکیورٹی فورس کہتے ہیں تو دوسرے کو پاکستان رینجرز۔ دونوں دستے صبح اپنا اپنا جھنڈا بلند کرتے ہیں اور گیٹ کھل جاتے ہیں اور شام کو جھنڈا اتارتے ہی گیٹ بند ہوجاتے ہیں۔ دونوں وقت بگل بجتے ہیں۔ سرحدی محافظ ایک دوسرے کو خونی آنکھوں سے گھورتے، بھنچی ہوئی مٹھیاں دکھاتے ہوئے اتنی دھمک کے ساتھ اپنے بوٹ زمین پر مارتے ہیں کہ گھٹنے کے جوڑ اور زمین ہل جاتی ہے۔
دن بدن تماشائیوں کی تعداد، جارحانہ ڈرل پر تالیوں اور نعروں کی گونج بڑھتی چلی گئی۔ بھارت اور پاکستان والے جس جارحانہ ڈرل کو مردانگی، غیرت اور قوت کا اظہار سمجھتے ہیں مغربی سیاحوں کے لیے وہ ایک دلچسپ رومن سرکس سے کم نہیں۔ ایسا سرکس جس میں کام کرنے والے بیسیوں ہندوستانی و پاکستانی سپاہی اسلام آباد اور دہلی کی جنگجویانہ قبائلی انا کی تسکین کے لیے اپنی پنڈلیوں اور گھٹنوں کو نقصان پہنچوا چکے ہیں۔
بھارت اور پاکستان والے جس جارحانہ ڈرل کو مردانگی، غیرت اور قوت کا اظہار سمجھتے ہیں مغربی سیاحوں کے لیے وہ ایک دلچسپ رومن سرکس سے کم نہیں
اس تناظر میں یہ خبر شائع ہوئی کہ تیس اکتوبر کو پاکستان کے ڈی جی رینجرز پنجاب میجر جنرل یعقوب خان نے بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کے اعلی اہلکار رمن سری واستو کے ہمراہ لاہور میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ فریقین نے واہگہ ڈرل کے دوران گھورنے، مکے لہرانے اور جارحانہ انداز میں پیر مارنے کی روائیت کو ختم کرکے گیٹ کھولتے اور بند کرتے وقت مصافحے اور مسکرانے کی روایت بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس خبر سے امید ہوچلی کہ بلاخر دونوں ممالک نے نچلی سطح پر ہی سہی، کم ازکم عقل سے کام لینے کا فیصلہ تو کیا۔
لیکن سات نومبر کے اخبارات میں پاکستانی رینجرز کی جانب سے یہ خبر آئی ہے کہ ڈرل کے جارحانہ انداز کو کم کرنے کی خبر محض بھارتی پروپیگنڈہ ہے۔ بقول ڈی جی رینجرز یعقوب خان ڈرل سپاہی کا فخر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس ڈرل سے بھارتی سرحدی محافظوں کو کچھ جسمانی تکالیف ہوئی ہوں۔ لیکن ہمارے جوانوں کو ایسی کوئی تکلیف نہیں ہے۔ ڈرل کا انداز جارحانہ ہی رہے گا۔ صرف ہاتھ ملانے کی رسم بحال کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔
انیسویں صدی میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان پر تیزی سے پنجے گاڑ رہی تھی تو لکھنؤ کے بانکے اردگرد کی تیزی سے بدلتی دنیا سے بے پرواہ اپنی مردانگی سے لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے عجیب و غریب حرکتیں کررہے تھے۔ کسی سے بدلہ نہ لے سکتے تو اپنی ہی ناک کاٹ لیتے۔ شدید جاڑوں میں ململ کا کرتا پہن کر نہ صرف تھر تھر کاپنتے بازار میں اکڑ کر چلتے بلکہ شام کو بھرے مجمع میں بہشتی سے اپنے سر پر مشک انڈلوا لیتے اور سی بھی نہ کرتے۔ جب تماشائی اس منظر سے محظوظ ہو کر تالیاں بجاتے تو بانکے اور اکڑ جاتے۔
انیسویں صدی کے لکھنؤ کے بانکے لکھنؤ کے ساتھ ہی ختم ہوگئے۔ لیکن بانک پن کہاں ختم ہوتا ہے۔ کسی بھی شام واہگہ بارڈر تشریف لے جائیے۔ مجال ہے کہ گھٹنے کے جوڑ ہل جانے کے باوجود کسی سنتری کے منہ سے سی کی آواز نکل جائے۔
بلکہ اب تو اس جارحانہ بانک پن میں مزید رنگ آنے والا ہے۔ بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس نے خواتین سنتریوں کو بھی واہگہ ڈرل میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ظاہر ہے پاکستان کو بھی کچھ کرنا پڑے گا۔ ورنہ ایک طرف اگر زنانہ سنتری ہوں اور دوسری جانب حسبِ روایت مکے لہراتے، گھورتے اور پوری طاقت سے زمین پر بوٹ مارتے مردانہ محافظ ہوں تو منظر اور عجیب ناہو جائے گا؟؟
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/11/101107_baat_se_baat_si.shtml