٢١ رمضان، یوم علی پر کچھ خیالات – از آصف زیدی
حضرت علی کرم الله وجہہ پرکسی فرقے یا کسی مذہب کی اجارہ داری نہیں ہے. درحقیقت علی کو میں نے تو سمجھا ہی اقبال، رومی، اور عطار سے ہے. یہ تمام اہل تسنن سے ہیں. علی پر میں نے زندگی میں جو سب سے اچھی کتاب پڑھی ہے وہ ایک نصرانی -جارج جورداش- کی لکھی ہوئی صوت ال عدالت و انسانیت ہے.
کار رسالت اگر تربیت انسانیت ہے تو علی کمال تربیت رسالت ہیں. رسول کریم گر حیات طیبہ ہیں تو علی تسلسل حیات طیبہ ہیں.
حیات طیبہ، جہاں کمال تقویٰ ہے ، انتہاۓ شجاعت ہے، نمونہُ اطاعت رسول و خدا ہے، مثال عدالت ہے ، در علم ہے، ادب عبادت ہے، سلیقۂ دعا ہے، رفعت خطابت ہے. جہاں حیات انسانی ایمان کل کے ساتھ ساتھ کردار اور صلاحیتوں کے کمال پر ہے.
آئیے آج کے روز ہم اس محبّت کو تازہ کریں اور اس آئنے پر جلا دیں جس میں دنیا رخ حیدر دیکھ سکے
صاحب مسلم اور دیگر محدثین نے صراحت کے ساتھ اس حدیث کو روایت کیا کہ ‘علی کی محبّت ایمان ہے’. اب زمانے کے دھارے پر جہاں جہاں یہ محبّت جاےُ. شمس تبریز کے دل میں اترے یا جارج جورداش کی روح کو سرشار کرے. کسی کے لئے تخصیص نہیں ہے ، کسی طبقے سے رہو …. کسی مکتبہُ خیال سے متصل رہو …. کوئی آپ کی فقہ سہی …. مگر علی کی محبّت کو نہ چھوڑو …. زمانہ اپنے عمر ابن عبدود کو لیکر آ چکا …… زمانہ اپنے اپنے مرحبوں کو لیکر آ چکا. اس لئے اپنے دلوں کو آئینہ بنا دو ، اس کو جلا دو. ربط اور ایک ایسے انسان سے ربط کہ جہاں تصوف کی راہیں ختم ہو رہی ہوں ….. جہاں معرفت کے سلسلے ضم ہو رہے ہوں …. جہاں ذوق و وجد کے امکانات تمام ہو رہے ہوں ….
…. جہاں موہوم معلوم میں فنا ہو رہا ہو ….. جہاں توحید کی ہیکلیں جلا پا رہی ہوں …. جہاں غواص دریاےُ معرفت الہی کے لیے ہر آن اک نئی موج ہے ، ہر آن اک نیا منجھدار ہے، ہر آن اک نیا ساحل ہے. جہاں ہر سانس اطاعت الله و رسول کی معراج ہے.
فرقہ بندی نیک و بد کو محدوود نہیں کر سکتی تو معرفت کو اپنے اندر کیسے سمیٹ سکتی ہے. تعصب کا اندھیرا بصارت کا دشمن ہے یہ ہدایت کی کسوٹی کیسے بن سکتا ہے؟
نظر آےُ گا کیا ظلمت کدے میں چشم حیراں کو
اندھیرے کا اجالا جانیے خواب پریشاں کو
اس لیے عزیزو راہ محبّت میں آگے بڑھو- ملامت کی پروا نہ کرو
دیر و حرم میں گم نگہہُ نا رسا نہ ہو
ایسا نہ ہو کہ تھک کے کہیں بیٹھ جاےُ دل
اور میرے نگہہُ نا رسا کی جہاں تک رسائی ہے وہاں محبّت علی کا میرے لیے تو آئنہ اقبال ہے.
ولی بھی، رند بھی، شاعر بھی کیا نہیں اقبال
حساب ہے کوئی کمبخت کے کمالوں کا
اور پھر یہی اقبال کہتا ہے
سنا ہے میں نے نجف میں بھی صورت سینا
کوئی مقام ہے غش کھا کے گرنے والوں کا
================