٢١ رمضان، یوم علی پر کچھ خیالات – از آصف زیدی

ali15

حضرت علی کرم الله وجہہ پرکسی فرقے یا کسی مذہب کی اجارہ داری نہیں ہے. درحقیقت علی کو میں نے تو سمجھا ہی اقبال، رومی، اور عطار سے ہے. یہ تمام اہل تسنن سے ہیں. علی پر میں نے زندگی میں جو سب سے اچھی کتاب پڑھی ہے وہ ایک نصرانی -جارج جورداش- کی لکھی ہوئی صوت ال عدالت و انسانیت ہے.

کار رسالت اگر تربیت انسانیت ہے تو علی کمال تربیت رسالت ہیں. رسول کریم گر حیات طیبہ ہیں تو علی تسلسل حیات طیبہ ہیں.
حیات طیبہ، جہاں کمال تقویٰ ہے ، انتہاۓ شجاعت ہے، نمونہُ اطاعت رسول و خدا ہے، مثال عدالت ہے ، در علم ہے، ادب عبادت ہے، سلیقۂ دعا ہے، رفعت خطابت ہے. جہاں حیات انسانی ایمان کل کے ساتھ ساتھ کردار اور صلاحیتوں کے کمال پر ہے.

آئیے آج کے روز ہم اس محبّت کو تازہ کریں اور اس آئنے پر جلا دیں جس میں دنیا رخ حیدر دیکھ سکے

صاحب مسلم اور دیگر محدثین نے صراحت کے ساتھ اس حدیث کو روایت کیا کہ ‘علی کی محبّت ایمان ہے’. اب زمانے کے دھارے پر جہاں جہاں یہ محبّت جاےُ. شمس تبریز کے دل میں اترے یا جارج جورداش کی روح کو سرشار کرے. کسی کے لئے تخصیص نہیں ہے ، کسی طبقے سے رہو …. کسی مکتبہُ خیال سے متصل رہو …. کوئی آپ کی فقہ سہی …. مگر علی کی محبّت کو نہ چھوڑو …. زمانہ اپنے عمر ابن عبدود کو لیکر آ چکا …… زمانہ اپنے اپنے مرحبوں کو لیکر آ چکا. اس لئے اپنے دلوں کو آئینہ بنا دو ، اس کو جلا دو. ربط اور ایک ایسے انسان سے ربط کہ جہاں تصوف کی راہیں ختم ہو رہی ہوں ….. جہاں معرفت کے سلسلے ضم ہو رہے ہوں …. جہاں ذوق و وجد کے امکانات تمام ہو رہے ہوں ….
…. جہاں موہوم معلوم میں فنا ہو رہا ہو ….. جہاں توحید کی ہیکلیں جلا پا رہی ہوں …. جہاں غواص دریاےُ معرفت الہی کے لیے ہر آن اک نئی موج ہے ، ہر آن اک نیا منجھدار ہے، ہر آن اک نیا ساحل ہے. جہاں ہر سانس اطاعت الله و رسول کی معراج ہے.

فرقہ بندی نیک و بد کو محدوود نہیں کر سکتی تو معرفت کو اپنے اندر کیسے سمیٹ سکتی ہے. تعصب کا اندھیرا بصارت کا دشمن ہے یہ ہدایت کی کسوٹی کیسے بن سکتا ہے؟
نظر آےُ گا کیا ظلمت کدے میں چشم حیراں کو
اندھیرے کا اجالا جانیے خواب پریشاں کو

اس لیے عزیزو راہ محبّت میں آگے بڑھو- ملامت کی پروا نہ کرو
دیر و حرم میں گم نگہہُ نا رسا نہ ہو
ایسا نہ ہو کہ تھک کے کہیں بیٹھ جاےُ دل

اور میرے نگہہُ نا رسا کی جہاں تک رسائی ہے وہاں محبّت علی کا میرے لیے تو آئنہ اقبال ہے.

ولی بھی، رند بھی، شاعر بھی کیا نہیں اقبال
حساب ہے کوئی کمبخت کے کمالوں کا

اور پھر یہی اقبال کہتا ہے

سنا ہے میں نے نجف میں بھی صورت سینا
کوئی مقام ہے غش کھا کے گرنے والوں کا

================

سپاسنامہ جناب امیر – از علامہ اقبال

علامہ اقبال کی یہ نظم ١٩٠٥ میں ایک ادبی مجلے “مخزن” میں شائع ہوئی تھی. بقول غلام رسول مہر علامہ یہ نظم ہر صبح بطور وظیفہ پڑھا کرتے تھے. یہ منقبت باقیات اقبال کے صفحات ١٠٢ تا ١٠٥ دیکھی جا سکتی ہے

اے محو ثناءے تو زبانہا – اے یوسف کاروان جانہا
اے باب مدینہ محبّت – اے نوح سفینہ ٍ محبّت
اے ماحی نقش باطل من – اے فاتح خیبر دل من
اے سر خط وجوب و امکاں – تفسیر تو سورہٴ ہاے قراں

(آپ ذات احدیت و کائنات کے درمیان رابطہ قائم کرنے والی شاہراہ مستقیم کی بنیاد ہیں. آپ کا بیان قران کریم کی سورتوں کی طرح محکم اور منبع ہدایت ہے.)

اے مذہب عشق را نمازے – اے سینہٍ تو امین رازے
(آپ مذہب ا عشق کے سالار اعظم ہیں. آپ کا سینہ اسرار الہیہ کا محفوظ خزینہ ہے.)

اے سر نبوت محمّد – اے وصف تو مدحت محمّد
گردوں کہ بہ رفعت ایستادست – از بام بلند تو فتا دست
ہر ذرّہ در گہت چو منصور – در جوش ترانہٍ انا الطور
بے تو نتواں باد رسیدن – بے او نتواں بتو رسیدن
فردوس ز تو چمن در آغوش – از شان تو حیرت آئنہ پوش

(آپ جنت کی زینت بڑھانے والے ہیں. آپ کی شان اتنی ارفع ہے کہ حیرت خود اپنی تصویر بن گئی ہے.)

جانم غلامیُ تو خوشتر – سر بر زدہ ام ز جیب قنبر
ہشیآرم و مست بادہُ تو – چوں سایہ ز پا فتادہُ تو

(میں ہوشیار ہوں کہ آپ کی محبّت کی شراب سے مست ہو گیا ہوں اور اسی سرمستی میں ساےُ کی مانند آپ کے نقش قدم پر ساتھ ساتھ چلتا ہوں.)

از ہوش شدم مگر بہوشم – گوئی کہ نصیریُ خموشم
دائم کہ ادب بضبط راز است – در پردہُ خامشی نیاز است

(میں واقف ہوں کہ ادب کا تقاضہ یہی ہے کہ عشق کا راز افشا نہ کیا جاےُ کہ نیازمندی خاموشی میں ہی مضمر ہے.)

اما چہ کنم مےُ تولا – تند است بروں فتد زمینا
ز اندیشہُ عاقبت رہیدم – جنس غم آل تو خریدم

(میں نے آپ کی اولاد کا غم خرید کر اپنی نجات کا سامان کر لیا ہے.)

فکرم چو بہ جستجو قدم زد – در دیر شد و در حرم زد
در دشت طلب بسے دویدم – داماں چو گرد باد چیدم
در آبلہ خار ہا خلیدہ – صد لالہ تہ قدم دمیدہ
افتادہ گرہ بروےُ کارم – شرمندۂ دامن غبارم
پویاں پےُ خضر سوےُ منزل – بردوش خیال بستہُ محمل
جویایے مے و شکستہ جامے – چوں صبح بباد چیدہ دامے
پیچیدہ بخود چو موج دریا – آوارہ چو گرد باد صحرا
واماندہ ز درد نارسیدن – در آبلہُ شکستہ دامن
عشق تو دلم ربود ناگاہ – از کار گرہ کشود ناگاہ
آگاہ ز ہستی و عدم ساخت – بت خانہُ عقل را حرم ساخت

(عشق علی نے مجھے حیات و موت سے آگاہ کر دیا اور میری عقل کے صنمکدے کو بتوں سے پاک کر کے حرم بنا دیا.)

چوں برق بخر منم گزر کرد – از لذت سوختن خبر کرد

(وہ برق کی طرح میرے دل سے گزرے اور مجھے آتش عشق کی لذّت سے آشنا کر دیا.)

برباد متاعٍ ہستیم داد – جامے ز مےُ حقیقتم داد

(میری متاعٍ ہستی کو مٹا کر مجھے شراب معرفت کا پیالہ نوش جاں کرایا.)

سر مست شدم ز پا فتادم – چوں عکس ز خود جدا فتادم

(میں سرمست ہو کر لڑکھڑا گیا اور مانند عکس خود سے جدا ہو گیا.)

پیراہن ما و من دریدم – چوں اشک ز چشم خود چکیدم

(میں نے پیراہن خودی کو چاک کر ڈالا اور اشک کی صورت آپ اپنی آنکھ سے ٹپک پڑا.)

خاکم بفراز عرش بردی – زاں را کہ با دلم سپردی

(وہ میری خاک کو عرش کی بلندی تک لے گیا اور پھر اسے میرے دل کے سپرد کر دیا.)

واصل بکنار کشتیم شد – طوفان جمال ز شتیم شد

(بس کہ میری کشتیٍ حیات کنارے سے آ لگی اور میری ہستی جمال حقیقی سے آشنا ہو گئی.)

جز عشق حکایتے ندارم – پرواےُ ملامتے ندارم

(اب میرے پاس جز داستان عشق کوئی متاعٍ بیان نہیں ہے اور نہ اس باب میں مجھے کسی ملامت کی پروا ہے.)

از جلوہُ عام بے نیازم – سوزم، گریم، تپم’ گدازم

(اب میں جلوہُ عام سے بےنیاز ہو گیا ہوں اور محض عشق میں جلتا، روتا، تڑپتا، اور پگھلتا رہتا ہوں.)

Comments

comments