ایک تھا مستجاب حیدر

ایک تھا مستجاب حیدر – افسانہ
عامر حسینی

نوٹ:سب کردار فرضی ہیں-کسی جگہ کوئی مماثلت اتفاقی ہوگی

مولانا عبدالرحمان مکی نائب امیر جماعۃ الدعوۃ جب لاہور ضلع کی حدود سے نکلے تو اگلے ضلع قصور سے پولیس سکواڈ نے ان کا استقبال کیا اور لاہور سے چلنے والا اسکواڈ واپس ہوگیا-اس موقعہ پر ٹریفک پولیس کے سارجنٹ بھی ان کے ہمراہ ہوئے-جبکہ سپیشل برانچ ،آئی بی اور آئی ایس آئی کے کے اہل کار بھی ان کے ساتھ تھے-یہ سلسلہ اوکاڑا،ساہیوال اور پھر خانیوال کی ضلعی حدود کی شروعات میں یونہی چلتا رہا-اس دوران سیکورٹی ہائی الرٹ رہی-اور عبدالرحمان مکی کے ساتھ اپنے مجاہد سیکورٹی فورس کا بھی دستہ تھا

jud-یہ قافلہ فجر کی اذان کے وقت جامع مسجد اہل حدیث جاپہنچا-جس کے باہر تعینات مجاہد دستہ کے لوگ چاک و چوبند کھڑے تھے-ہر آنے جانے والے کی تلاشی لی جارہی تھی-ان کے پاس سکینر بھی تھے- مرد حضرات کے ساتھ ساتھ عورتوں اور بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی مسجد میں داخل ہورہی تھی-کئی بسیں اور ویگنوں کے قافلے بھی نزدیکی دیہاتوں اور قصبوں سے آئے تھے-جس میں مرد عورتوں کی معتدبہ تعداد شامل تھی- مسجد کے داخلی دروازے پر لوگ قطار بناکر کھڑے تھے-ان میں مقامی صحافیوں میں سے چند ایک لوگ بھی تھے-ان کو بنا تلاشی کے اندر جانے دیا گیا-اسی وقت ایک آدمی بھی مسجد کے داخلی دروازے کی طرف بڑھا-اس کے گلے میں ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کا پریس کارڑ تھا-اس نے جونہی مسجد میں داخل ہونا چاہا تو دروازے پرکھڑے مجاہد نے اس کو روکا اور کہا کہ ان کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ پریس کو کوریج کی اجازت نہیں ہے

یہ سنکر اس آدمی نے کہا کہ ابھی چند مقامی صحافی اندر داخل ہوئے ہیں-اس پر مجاہد نے شانے اچکاتے ہوئے کہا کہ اس کے پاس اس بات کا جواب نہیں ہے-مسئول جماعۃ الدعوۃ کی ہدائت یہی ہے کہ آپ کو داخلے کی اجازت نہیں ہے-اس آدمی نے مسئول جماعۃ سے رابطہ کیا-مسئول جماعۃ نے بہت شریں لہجے میں کہا کہ جو مقامی صحافی اندر داخل ہوئے وہ ان کی جماعت کے رکن ہیں-وہ یہاں اپنے رہنماء کا خطاب سننے آئے ہیں-یہ سنکر وہ آدمی وہیں کھڑا ہوکر اپنے موبائل پر کچھ ٹائپ کرنے لگا اور پھر وہاں سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک آدمی سے بات کرنے لگا-اور پھر وہاں سے چلا گیا- میں بھی وہاں پر کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھی-میں تجسس کا شکار ہوکر آگے بڑھی اور جہاں سے عورتیں مسجد میں داخل ہورہی تھیں وہاں سے اندر داخل ہونے لکی-مجھے کسی نے نہیں روکا-لیکن جیسے ہی میں مسجد کے اندر داخل ہوئی تو دائیں طرف سے سیڑھیاں اوپر جارہی تھیں جہاں سے عورتیں اوپر جارہی تھیں-وہاں پر دو خواتین کھڑی تھیں-اور عورتوں کی جامہ تلاشی لے رہی تھیں

میری بھی تلاشی لی گئی اور میں اوپر پہنچ گئی-یہاں پر عورتوں کی کثیر تعداد موجود تھی-سامنے منبر نظر آرہا تھا-جس پر مولانا عبدالرحمان مکی براجمان تھے-درمیان میں ایک قنات مرد اور عورتوں کو الگ الگ کئے ہوئے تھی- میں وسط میں جاکربیٹھ گئی-ابھی مکی نے خطاب شروع نہیں کیا تھا-میں جہاں بیٹھی تو مجھے اپنے عقب سے دھیمی سی آواز آئی کہ “کوئی بات نہیں کہ انہوں نے آپ کو اندر نہیں آنے دیا-میں نے موبائل فون آن کرلینا ہے آپ بات کئے بنا سنتے رہئے گا-یہ ساری ریکارڈنگ بھی کیم سے کرے گا-میں نے تھوڑی دیر بعد زرا مڑ کر دیکھا تو میرے پیچھے ایک خاتون عربی برقعے میں بیٹھی ہوئی تھی-اب اس کا چہرہ نظر آرہا تھا-یہ میری عمر کی نوجوان لڑکی لگ رہی تھی-مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ باہر جس آدمی کو مسجد کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہ ملی یہ لڑکی اس کی ساتھی ہے- ابھی میں اس جرنلسٹ کی ذھانت کی دل ہی دل میں داد دینے میں مگن تھی کہ منبر پر بیٹھے مولانا کی پاٹ دار آواز گونجنے لگی بسم اللہ الرحمان الرحیم،نحمدہ و نستعینہ و نستغفرو نومن بہ و نتوکل علیہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا و من سیات اعمالنا و من یھدی اللہ فلا مضل لہ ومن یضل فلا ھادی لہ والصلواۃ والسلام علی رسول اللہ ۔۔۔۔۔۔قال اللہ تعالی فی القران المجید والفرقان الحمید شھر رمضان الذی فیہ انزل القران۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک طویل عربی کا خطبہ جوکہ عمومی طور درس دینے والا اپنے درس کے آغاز میں دیتا ہے مولانا عبدالرحمان مکی نے دیا

مطلب بہت واضح تھا کہ اللہ کے نام سے شروع جو رحمان اور رحیم ہے-میں اس کی حمد کرتا ہوئ-اس سے مدد مانگتا ہوں-اور اس سے مغفرت طلب کرتا ہوں-اس پر ایمان لاتا ہوں اور اس تر ہی توکل کرتا ہوں-میں اپنے نفس کی شرارتوں سے بچنے کے لیے اس کی پناہ طلب کرتا ہوں-اور اپنے اعمال کی برائیوں سے بھی اس کی پناہ چاہتا ہوں-اور جس کو اللہ ہدائت دے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جس کو وہ گمراہ کردے اس کو کوئی راہ راست پر نہیں لاسکتا-درود و سلام ہو محمد علیہ السلام پر جو اللہ کے رسول ہیں-اللہ قران مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قران نازل ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خطبے کے آغاز میں مولانا عبدالرحمان مکی نے رمضان کے بارے میں بات کی-اور مجھے لگا کہ ان کا سارا خطاب بس اس کے گرد ہی گھومے گا

لیکن وہ بس مشکل سے پانچ منٹ اس موضوع پر بولے اور پھر ان کی گفتگو اچانک جیوپالٹیکس اور انٹرنیشنل سیاسیات کے گرد گھومنے لگی-انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی اور یہود و ہنود و نصاری ملکر عالم اسلام کے خلاف سازش کررہے ہیں-وہ عالم اسلام کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں-پاکستان کے اندر بلوچستان میں سی آئی اے ،موساد اور را سرگرم ہے-وہاں پر ٹارگٹ کلنگ،افراد کی گمشدکی اور مسخ شدہ لاشیں سب اغیار کی سازشوں کا نتیجہ ہیں- بلوچستان میں الگ ہونے یا آذادی کی کوئی تحریک نہیں ہے-چندشرپسند جھوٹی افواہیں پھیلارہے ہیں-ہمیں ان سازشوں سے ملکر نمٹنا ہوگا-کشمیر،فلسطین،برما اور شام میں مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے-جس کے پیچھے یہود و نصاری کا ذھن کام کرہا ہے-برما کے مسلمانوں کے قتل پر عالمی برادری کی خاموشی مجرمانہ ہے-جماعۃالدعوۃ ایسی سازشوں کے خلاف برسرپیکار ہے اور مسلمانوں کو جہاد فی سبیل اللہ کی طرف راغب کررہی ہے-جماعۃ الدعوۃ نے بلوچستان کے اندر بہت فلاحی کام کئے ہيں اور یہ اغیار کی سازشوں کو ناکام بنانے میں پیش پیش ہے- میں مولانا عبدالرحمان مکی کی یہ تقریر سن رہی تھی جس سے وہاں بیٹھی عورتیں بہت متاثر نظر آتی تھیں-دوسری طرف مردوں کے ہاں سے بھی “نعرہ تکبیر اور سبیلنا سبیلنا ۔۔۔۔الجہاد،الجہاد”کے نعرے لگ رہے تھے-یہاں زنان خانے میں بھی انہی نعروں کی گونج تھی- مجھے جنوبی ایشیا اور مشرق وسطی بارے اپنے علم کے ناقص ہونے کا احساس ہورہا تھا-کیونکہ مولانا عبدالرحمان مکی نے بہت مہارت اور علمیت کا ثبوت دیتے ہوئے یہ واضح کردیا تھا کہ مشرق وسطی میں شام کے اندر ہونے بغاوت کو ہوا دینے اور وہاں پر خانہ جنگی کو ہوا دینے میں نہ تو قطر اور سعودی عرب،اردن،مصر،ترکی،بحرین کا کوئی کردار ہے-اور نہ ہی اس میں ان مسلح تنظیموں کا کوئی کردار ہے جن کو یہ ممالک سپورٹ کررہے ہیں-اس میں تحریک طالبان پاکستان کا کوئی کردار ہے-لشکر جھنگوی بھی معصوم ہے-یہ شام تو کیا بلوچستان میں کوئٹہ میں آباد ہزارہ برادری کے قتل عام میں بھی ملوث نہیں ہے-وہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کی جانب سے بلوچ کمیونٹی پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بھی کچھ نہیں بولے اور انہوں نے پورے ملک میں شیعہ کی نسل کشی پر بھی کوئی بات نہ کی-دور پار کا برما اور وہاں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی یاد آئی

ان کی باتیں سننے والوں میں اس شہر کے کپڑے ،لوہے،ادویات،زرعی اجناس،زرعی ادویات،سمینٹ،بیکری کے سامان کی تجارت کرنے والے بڑے تاجر ان کی اسکول ،کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والی اولاد،مربع دو مربع اراضی کے مالک زمیندار،ٹی اسٹال چلانے والے،دودھ کی فروخت کرنے والے،سرکاری ملازمین،پینشررز،کالج اور اسکول کے اساتذہ،ایجوکشن اور ہیلتھ سے وابستہ ورکنگ ویمن اور گھریلو خواتین اور طالبات،کاٹن جننگ فکیڑیوں کے مالکان شامل تھے-کاسمیٹک کے کاروبار سے وابستہ اور کئی ڈاکٹرز بھی اس درس میں شریک تھے-یہ سلفی تھے-ان میں ريڑھی لگانے والے بھی تھے- مجھے یقین تھاکہ جیسے یہاں خواتین کے چہرے فرط جذبات سے سرخ تھے تو ویسے ہی مردوں کے ہاں کیفیت کا غلبہ تھا-جن دشمنوں کی مکی صاحب نے نشاندھی کی تھی ان کو نیست و نابود ہوتے دیکھنے کی خواہش سب کے ہاں عود کرآئی تھی- مکی کہہ رہے تھے کہ دشمن کے ساتھ فیصلے مذاکرات کی میز پر نہیں بلکہ جنگ کے میدان میں ہوں گے- لیکن میرے ذھن میں سب سے بڑا سوال یہ گردش کررہا تھا کہ جس امریکی استعمار اور صہیونیت (جس کو وہ بار بار یہود،نصاری جیسی غلط اصطلاح سے مسخ کررہے تھے)سے ٹکرانے کی وہ بات کررہے تھے ان کے جو ساتھی مڈل ایسٹ میں سعودی عرب،بحرین،قطر،اردن،متحدہ عرب امارات،مسقط کے حکمرانوں کی شکل میں بیٹھے تھے وہ ان کا ذکر ہی گول کرگئے تھے-وہ القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے پورے عالم اسلام کے اندرغیر سلفی ہر مسلم مکتبہ فکر کے خلاف جنگ بارے خاموش رہے-اور عالم اسلام میں تکفیری سلفیت کی معصوم سنی اور شیعہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کے بارے میں ان کی تقریر میں ایک لفظ بھی نہیں تھا- لیکن ایک بات طے تھی کہ وہاں بیٹھی سامعین کی اکثریت نے ان کا تجزیہ مان لیا تھا-اس پر آخر میں جب انہوں نے اپنے سننے والوں سے چندے کی اپیل کی تو دیکھتے ہی دیکھتے 50 لاکھ کا چندہ چیکوں ،نقد رقوم اور زیورات کی شکل میں اکٹھا ہوگیا-دکانداروں نے اپنی دکانوں پر رکھے جانے والے چندہ باکس سے نکلنے والی رقوم کو بھی وہاں دیا تو رقم 50 سے کہیں زیادہ اوپر چلی گئی- میں اختتمام جلسہ پر مسجد سے چلتی ہوئی باہر آئی اور ساتھ بنی گلی میں چلنے لگی-ابھی تھوڑی دور چلی تھی کہ مجھے اپنے پیچھے سے کسی کے پکارے جانے کی آواز سنائی دی-یہ آواز شناسا سی معلوم ہوئی

میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو یہ وہی مسجد میں میرے عقب میں بیٹھی لڑکی تھی- آپا فاطمہ !میں نے آپ کو وہیں مسجد میں پہچان لیا تھا ،وہ لڑکی بولی میں اس کے منہ سے اپنا نام سنکر حیران رہ گئی- تم مجھے کیسے جانتی ہو میں نے بنا رکے سوال کیا- آپا!میں نے ۔۔۔۔۔۔۔ڈیلی نیوز پیپر میں ۔۔۔۔۔۔ڈیسک پر آپ سے تربیت لی تھی میں عاشی ہوں ارے عاشی تم ۔۔۔۔۔۔۔کس قدر بدل گئی ہو۔۔۔۔۔۔اور یہاں اس چھوٹے سے شہر میں کیا کررہی ہو؟میں نے حیرت سے پوچھا یہ ذرا لمبی کہانی ہے-آپ میرے گھر چلئے،،،،،،وہاں بات کرتے ہیں- اتنے میں عاشی نے ایک رکشے والے کو ہاتھ دیا- ہم رکشے میں بیٹھے اور رکشہ ایک متوسط طبقے کے لوگوں کی رہائشی کالونی کے سامنے جاکررک گیا- عاشی مجھے ہاتھ پکڑ کر اندر لے گئی- اندر جاکر بیٹھے تو عاشی نے بتانا شروع کیا کہ وہ اور ان کے میاں کراچی سے نکلے تو یہاں اس شہر میں آکر بس رہے-میں تو اب بس گھریلو کام دیکھتی ہوں- پھر یہ مسجد تک کیسے پہنچی تم اور وہاں ریکارڈنگ کا کیا قصّہ ہے- یہ سنکر عاشی ہنسی اور کہا اصل میں مستجاب حیدر یعنی میرے میاں کو نجانے کیسے شک تھا کہ آج ان کو مکی صاحب کی تقریر سننے کی اجازت نہیں ملے گی-وہ پریشان تھے-جب میں نے ان کے سامنے یہ آئیڈیا رکھا تو پہلے وہ تیار نہ ہوئے-میرے اصرار پر مان گئے-اور اس طرح سے میں ان کو یہ تقریر لائیو سنانے میں کامیاب ہوگئی- آپا یہ بتاؤ تم وہاں کیسے——ارے بھئی وہاں تمہارے میاں کے ساتھ ہوئے واقعے کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا-ان کو جب اندر جانے سے منع کیا گیا تو میرے تجسس نے مجھے اندر آنے پر مجبور کردیا-سو میں آگئی- آپا سچ بتاؤں جب آپ میرے آگے آکر بیٹھیں تو مجھے حوصلہ ہوگیا-ورنہ پہلے میں تو سخت گبھرائی ہوئی تھی- آپا آپ یہاں کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے شوہر کا یہاں تبادلہ ہوا-صحافت میں شوق اور مصروفیت کے لیے کررہی تھی سو تبادلہ ہونے پر سب چھوڑا اور یہاں ان کے ساتھ آگئی

اتنے میں عاشی کا شوہر بھی آگیا- اس نے میرے سے میرا مشاہدہ پوچھا تو میں نے وہاں پر موجود لوگوں کے سماجی پس منظر پر روشنی ڈالی جسے سنکر وہ کہنے لگا کہ یہ ٹھیک ہے- لوگوں کی کمٹمنٹ کے حوالے سے کہنے لگا آپا!کل مجھے ایک بہت سنئیر ترقی پسند سابق طالب علم رہنما ملے جنہوں نے ضیاء دور میں بہت سرگرم زندگی گذاری-ان کے ساتھ ایک اور ساتھی بھی تھے-مجھ سے پوچھنے لگے میاں !یہ تمہارے بارے میں کیسی خبریں گردش کررہی ہیں کہ تمہارے سر میں شدت پسندوں سے سینگ پھنسانے کی خواہش سمائی ہوئی ہے-سوادائی ہوئے ہو کیا-ان سے مقابلہ فضول ہے- ایک کاٹن جننگ مل کے مالک کے پاس گیا تھا کہ ایک بروشر کے لیے فنڈنگ کی ضرورت تھی-انہوں نے مدد کرنے سے انکار کیا جبکہ مجھے اپنے زرایع سے پتہ چلا کہ وہ اپنی جان کی حفاظت کے لیے 10 لاکھ سالانہ ایک شدت پسند جماعت کو دے رہے ہیں

ایک اور رہنماء انجمن حسینیہ ایسے تھے کہ وہ جمع ہونے والے عطیات میں خورد برد کررہے تھے-وہ ہماری مدد کیا کرتے- بہت سارے کربلاء کے لبادے پہنے مہاجنوں نے تو اپنے گھر کے اندر سے کہلوا بھیجا کہ وہ ہیں نہں میں ابھی ایک گیٹ سے پلٹ رہا تھا کہ مجھے آواز سنائی دی سالا!خود تو اپنی زندگی سچ کے جہنم کی نذر کرچکا ہمیں بھی مبتلائے عذاب کرنا چاہتا ہے- مجھے نہج البلاغہ میں امام علی کے وہ خطبے یاد آئے جن میں انہوں نۓ شامیوں کی باطل سے کمٹمنٹ کی پختگی اور ان کے حامیوں کی کم دلی پر شکوہ و شکائت کی ہیں-میں سوچنے لگی کہ پاکستان میں اب سچ کہنے والوں کے لیے تنہائی مقدر بن چکی ہے- میں نے اچانک مستجاب سے سوال کیا کہ وہ یہ ملک چھوڑ کیوں نہیں دیتا ؟ یہ بات سنکر اس کے چہرے پر پھیکی سی اداسی کے رنگ لیے مسکراہٹ ابھری اور اس نے تڑاک سے مجھ سے پوچھ لیا کیا علی نے اپنا کوفہ چھوڑا تھا جو میں اپنے کوفے کو چھوڑ جاؤں

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdullah AlFaisal
    -
  2. abu majid
    -
  3. Ikram Ali
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.