رمضان کریم

ramadan-kareem

 

ہم اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے نہ صرف بڑے بڑے انقلاب آتے دیکھے ہیں بلکہ بڑے بڑے انقلاب جاتے بھی دیکھے ہیں، دنیا کو بدلتے دیکھا ہے. مواصلات کا انقلاب، سائنس کی حیران کن پیش قدمی، جینیٹک انجینئرنگ، انٹرنیٹ، موبائل فون، کمپیوٹر، ٹیبلٹ، صنعتی ترقی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، کیا کچھ ہے جو پچھلی نصف صدی نے نہیں حاصل کیا. دنیا سکڑ کر نزدیک آ گئی ہے، ثقافتیں یکجان ہو رہی ہیں، زبانیں باہم مخلوط ہو رہی ہیں، روایات دم توڑ رہی ہیں اور نئی قدریں جنم لے رہی ہیں. عالمی سرمایہ داری نظام میں غلبہ حاصل کرنے کے لئے محض طاقت و قوت ہی نہیں بلکہ تہذیبی اور تمدنی بالا دستی کی بھی اہمیت اور ضرورت ہے، کچھ اس وجہ سے، کچھ عالمگیر صنعتی ترقی اور مواصلاتی روابط کی بنا پر ایک عالمگیر تہذیب کے ابھرنے کے آثار بھی ہیں جس میں انسان روز مرّہ زندگی میں، رہن سہن اور بول چال میں بہت کچھ یکساں ہوتے جا رہے ہیں. مثال کے طور پر جینز ایک ایسا لبادہ ہے جو ساری دنیا میں پہنا جاتا ہے، انٹرنیٹ ایک ذریعہ ہے جو آدھی سے زیادہ دنیا کے استعمال میں ہے، انگریزی ایسی زبان ہے جو دنیا بھر میں بولی اور سمجھی جاتی ہے. یہ سب تو ہے مگر علاقائی، قومی، لسانی اور ایسی دیگر شناختی اقدار اور وراثت کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے جو قوموں کو قوموں سے منفرد بناتی ہے. دنیا بھر میں قومیں اپنے ثقافتی، تہذیبی اور تمدنی ورثے کی حفاظت کو مقدم جانتی ہیں. چاہے وہ چین، ہندوستان، روس، جاپان ہوں یا امریکہ، آسٹریلیا، فرانس ، ہالینڈ، جرمنی یا شمالی افریقہ، سوڈان، برازیل یا کوئی بھی اور قوم اور ملک، لوگوں میں اپنے ورثے، زبان، اور تہذیب کو اہمیت دینے کا جذبہ ماند نہیں پڑا، یہ احساس بھی گہرے سے گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ نسل انسانی میں تنوع ایک حقیقت ہے جس کے اپنے جغرافیائی، تاریخی اور اقتصادی محرکات ہیں اور یہ مشترکہ انسانی سرمایہ ہے.  

اسی دوران پاکستان جیسے ملک بھی ہیں جو ابھی تک اپنی شناخت کے مسائل سے دو چار ہیں، ایک طرف ہزاروں سال پر پھیلا ماضی ہے جس نے اس خطہ زمین پر ایک رنگا رنگ تہذیب و تمدن کو جنم دیا ہے، اور ایک طرف ایک مخصوص طبقے کی خوش فہمیاں اور مغالطے ہیں جو اس ماضی کو یکسر نظر انداز کر کے اپنا رشتہ عربی تہذیب اور تمدن سے جوڑنا چاہتا ہے. یہاں یہ بھی توجہ دلانا ضروری ہے کہ کچھ سو سال قبل تک یہی طبقہ اپنا رشتہ ماورا النہر، وسط  ایشیا اور ایران سے جوڑ کر پھولے نہیں سماتا تھا. فارسی ان کی زبان تھی، اور اردو جسے آگے جا کر انہی کی شناخت کا ایک ذریعہ بن جانا تھا وہ بھی بازار کی زبان کہلا کر دھتکاری جاتی تھی. غالب ساری عمر اپنے فارسی کلام پر ناز کرتے رہے، آج اردو کلام کی بنا پر یاد رکھے اور چاہے جاتے ہیں، کہتے ہیں اقبال کا فارسی کلام بھی بڑا پر اثر اور پر مغز ہے مگر ‘سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا’ کا شاعر آج بھی سب سے زیادہ مقبول ہے.

خیر ایک زمانے تک فارسی کو اتنی اہمیت حاصل تھی کہ اس کو پڑھ کر تیل بیچا جاتا تھا، انقلاب ایران کے بعد تیل تک رسائی بھی عرب ممالک کے طفیل ہو گئی اور فارسی ماضی کی زینت. اب حالات یہ ہیں کہ ایک طرف  تیل کی چاہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جاہ و حشم اور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی چکا چوند نے ہمارے متوسط اور اعلیٰ طبقے کی توقعات کو جزیرہ نماۓ عرب سے وابستہ کر دیا ہے، دوسری طرف تہذیب، تمدن، تاریخ اورمذہب کا جو معجون ہماری نظریاتی اقدار کی حفاظت کے لئے بنایا گیا ہے وہ بوجوہ مقامی زمینی حقائق کو یکسر رد کر کے اپنا رشتہ ایک غیر مقامی تہذیب سے جوڑتا ہے. ہم یہ سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ تہذیب، تمدن اور مذہب  کی ابتدا، فروغ اور وجود  یکسر مختلف وجوہات کی بنا پر ہے اور مختلف خصوصیات کا حامل ہے. تہذیب، تمدن، زبان کے آغاز، ترویج، ترقی اور تنزلی کے پیچھے جغرافیہ،آب و ہوا،تاریخ، اقتصادی حالات اور ایسے دیگر عوامل کا ہاتھ ہے جو ایک علاقے اور قوم کی امتیازی خصوصیات بنتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ قطب شمالی کے اسکیمو، صحرائی عرب کے بدو، سندھ کے ہاری، شمالی افریقہ کے زولو مختلف ہیں مگر یہ سب ایک ہی مذہب کے پیروکار ہو سکتے ہیں.

ہمارا مسلمان ہونے کے لئے حلق کی گہرائیوں سے قاف اور زبان کی گولایوں سے ضوعات بولنا ضروری نہیں ہے، رمضان جب رمدان یا رامادان نہیں تھے تب بھی ہم آپ روزے رکھتے تھے. ‘رامادان کریم’ ہم کو آئس کریم کی کو نئی قسم لگتی ہے تو اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں، ‘ کل و عام و انتم بخیر’ ہماری ‘عید مبارک ‘ کی جگہ نہیں لے سکتا. اور یقین مانیں  ہمارے بزرگ  جنہوں نے کبھی  ‘ رامادان کریم’ نہیں سنا تھا وہ بڑے  اچھے پاکباز مسلمان ہوتے تھے. تہبند اور کرتے میں ملبوس،  سر پر دوپلی ٹوپی پہنے کوئی حاجی علم دین توب، کفایہ اور اگال کے بغیر بھی پانچ  نماز پڑھتے اور قرات کرتے دیکھے جا سکتے تھے اور دیکھے جاتے ہیں. سوچیں رمضانی ہمارے ہاں بڑا عام سا نام ہے، اگر کوئی رمضانی بیگم خود کو راما دانی بیگم کہلواتا سنیں تو ان پر کیا گزرے؟ کسی رمضان صاحب کو آپ رامادعان کہہ کر پکاریں تو وہ سنیں بھی نہیں.  

جن کی مادری زبان عربی ہے وہ قدرتی طور پرصحیح مخرج سے ادائیگی کے قابل ہوتے ہیں ، مگر وہ ساری عمر گزار کر بھی ڈ، ڑ، چ ، پ،  صحیح نہیں بول سکتے. عربوں کے مختلف مقامی رقص ہیں، وہ ہمری طرح بھنگڑا ، لڈی یا آتنگ نہیں ڈال سکتے، ان کی اپنی شادی بیاہ کی روایات ہیں جو ہماری مقامی رنگا رنگ روایات ہی کی طرح مختلف اور رنگ برنگی ہیں. ان کے لباس جس کو ہم عقیدت کی حد تک چاہتے ہیں، اس میں بھی مختلف علاقوں کی اپنی اپنی شناخت ہے، سعودی، کویتی، یا اماراتی اپنے لباس سے پہچانے جا سکتے ہیں. اسی طرح لہجے اور بول چال بھی الگ الگ ہے، مصریوں کا ج کو گ بنا دینا تو مشہور ہے. جدہ کے گلی کوچوں میں رمضان کی راتوں میں پٹاخے گونجتے رہتے ہیں، ہم نے اپنی طرف ایسا صرف شب برات پر ہوتے دیکھا ہے، عرب ہمارے حلوے دیکھ لیں تو پریشان ہو جائیں، ہماری جلیبی ان کے لئے پہیلی اور ان کا بکلاوه ہمارے لئے حیرانی. آپ کے کتنے گھروں میں مندی بنتی ہے ؟ کتنے لوگ ہیں جو سموسے اور پکوڑے کے بجاۓ روٹی اور زاتر سے افطار کر سکتے ہیں ؟ ہم تو چاند رات کے بغیر عید کا  سوچ بھی نہیں سکتے، مگر ‘عید سعید’ پر ہم کو تو عمر سعید یاد آ جاتے ہیں، ہاں عید مبارک کہیں تو ہم جھپٹ کر گلے لگاتے ہوئے، تین بار گلے مل کر اور بھینچ کر عید مبارک کہیں گے.

اور یہ سلسلہ چل نکلا تو رکے گا کہاں؟ وطن عزیز کو باکستان کہئے گا؟ کار کو بارک کریے گا اور خوش ہو کر بتایے گا کہ آپ بریلل بارکنگ بڑی اچھی کرتے ہیں؟ جس ماضی کی خوشگوار یادوں میں ڈوبے رہتے ہیں اس کو مادی پکارئے گا ؟ اس سے انکار نہیں کہ کسی بھی زبان سے واقفیت ایک اچھی بات ہے. عربی زبان سے واقفیت اس لئے اہم ہے کہ اس زبان میں علمی ذارئع کا ایک سرمایہ محفوظ ہے. مگر زبان سے واقفیت حاصل کرنا کسی تہذیب کو اپنانے یا اس کی نقل کرنے کی نا پختہ بلکہ بھونڈی کوششیں کرنے سے یکسر مختلف ہے.

Comments

comments

Latest Comments
  1. nauman
    -
  2. Nike Air Max Classic BW
    -
  3. womens air max 24-7
    -
  4. Nike Blazer Mid
    -
  5. Jordan Comfort Max 11
    -
  6. Adidas Derrick Rose 773 II
    -
  7. Nike Air Max 2013 Femme
    -
  8. Adidas Porsche
    -
  9. Adidas Ts Speeducut XP
    -
  10. Guess Zapatos
    -
  11. Air Jordan 10
    -
  12. Mode T Shirt
    -
  13. Burberry Sling Bag
    -
  14. Nike Air Foamposite Pro
    -
  15. ∟Sac Hermès Plume 28
    -
  16. Air Jordan 8
    -
  17. Harry Winston
    -
  18. Burberry Bags
    -
  19. Giuseppe Zanotti shoes (5)
    -
  20. Briefcases
    -
  21. Nike Free 5.0 Mujer
    -
  22. Sac Hermès Mini Plume
    -
  23. Cartier
    -
  24. Goyard
    -
  25. Burberry Sacs à bandoulière
    -
  26. Camisas Lacoste Hombre
    -
  27. Bulgari Bags
    -
  28. Nike Air Max TN
    -
  29. Nike Air Max Lebron
    -
  30. Dolce Gabbana Chaussures
    -