بے نظیر شناسی
آج صبح سو کر اٹھا تو میرے موبائل کی میسج ٹون بار بار آنے لگی-ادھ کھلی آنکھوں کے ساتھ میں نے موبائل فون میں اپنا میسج باکس کھول کردیکھا تو پاکستان اور پاکستان سے باہر موجود میرے بہت سے ساتھیوں کے 21 جون کے حوالے سے پیغامات آئے ہوئے تھے-ایک مرتبہ تو میں یہ بھول ہی گیا کہ 27 دسمبر 2007ء کو وہ باب تکمیل کو پہنچ چکا ہے جس کی سالگرہ پر 21 جون کے دن پیغامات کی بارش ہورہی ہے-میں اس قدر دیوانگی کا شکار تھا کہ اپنا لیپ ٹاپ آن کرکے جی میل اکاؤنٹ کو کھولکر بیٹھ گیا اور کمپوزنگ باکس میں جاکر تہینتی پیغام لکھنے لگا-ابھی کچھ الفاظ ہی لکھے تھے کہ میرے ذھن کے پردے پر اچانک جیسے فلیش لائٹ پڑی ہو اور اس روشنی میں مجھے لیاقت باغ کے سامنے کی سڑک کے کچھ مناظر دکھائی دئے اور میرے ہاتھ کی بورڑ پر حرکت کرنے سے قاصر ہوگئے-مجھے تھوڑی دیر لگی یہ سمجھنے میں کہ میرے وہ سارے دوست جو کہ 80ء کے اول عشرے ترںگے جھنڈے کے نیچے اکٹھے تھے کیوں 21 جون کو پیدا ہونے والی بے نظیر بھٹو کی سالگرہ پر ہیپی برتھ ڈے کے پیغامات ایک دوسرے کو ارسال کررہے تھے-
میں نے سن شعور سنبھالا تو ضیاء الحق کے مارشل لاء کے تاریک سائے پورے ملک میں پھیلے ہوئے تھے-سیاسی،سماجی فضاء میں بہت حبس تھا اور بقول جوش ملیح آبادی لوگ “لو”کی دعا مانگتے تھے-میں کالج میں پہنچا تو اسلامی جمعیت طلباء ضیاء کی بی ٹیم بنی ہوئی تھی-کالج کی انتظامیہ ان کے اشارہ ابرو پر کسی بھی جمہوریت پسند طالب علم کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے میں دیر نہیں لگاتی تھی-پہلے اسلامی جمعیت طلباء کے ایکشن گروپ کے لڑکے خود سبق دیتے تھے پھر مارشل لاء حکام آپ کی تسلی کرانے آجاتے تھے-اس دوران مارشل لاء کا حکم نمبر 19 طالب علموں میں بھی اسی طرح سے خوف پھیلاتا تھا جس طرح سے یہ سیاسی کارکنوں میں خوف پھیلانے کا باعث تھا-
ایسے میں میرے جیسے طالب علم جن کو گھروں سے جمہوریت،اشتراکیت ،روشن خیالی اور ترقی پسندی کے درس ملے تھے ان کے لیے تاریک سایوں میں پناہ گزین ہونا ممکن نہیں تھا-اس زمانے میں پی ایس ایف،ڈی ایس ایف اور این ایس ایف یہ ایسی طلباء جماعتیں تھیں جنہوں نے تعلیمی اداروں کے اندر اور باہر جمہوریت اور ترقی پسندی کے پرچم کو اٹھا رکھا تھا-میں بھٹو کی پھانسی سے قبل کال کھوٹھڑی میں لکھی جانے والی کتاب “اگر مجھے قتل کیا گیا”اور مولانا کوثر نیازی کی کتاب “اور لائن کٹ گئی “کا مطالعہ کرچکا تھا-میرے نانا بھٹو کے عاشق تھے اور پی پی پی کے بانی کارکن-ان کے ہاں مساوات آتا تھا جس کی شہ سرخیوں سے مجھے پتہ چلتا تھا کہ پی پی پی کس طرح سے تاریک سایوں سے نبرد آزماء ہے-پھر میں نے کالج کے زمانے میں ہی “میری پیاری بیٹی”بھٹو کا خط بے نظیر بھٹو کے نام پڑھ ڈالا تھا-ڈاکٹر فیروز احمد کا لکھا ایک مضمون “بھٹو فیلیا۔۔۔۔۔۔۔”بھی میری نظر سے گذر چکا تھا-اس لیے میں نے پی ایس ایف میں شمولیت اختیار کرلی-ہم سے پہلے اس میدان میں اعظم خان،اسلم وڑائچ اور دیگر لوگ اپنا لوہا منوا چکے تھے-مجھے اعظم خان کی رہنمائی میسر آگئی اور یہ ٹھیک معنوں میں “بے نظیر شناسی “کی شروعات تھی-
بے نظیر بھٹو کے بیانات اور ان کی تقریروں کے اقتباسات جہاں سے میسر آیا کرتے تھے میں ان کو اکٹھے کرتا اور کاربن پیپر رکھکر ان کی کاپیاں تیار کیا کرتا تھا-اور اپنے ساتھیوں میں بانٹ دیا کرتا تھا-اس زمانے میں جب بے نظیر بھٹو نے بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ سیاست میں قدم رکھا تو پورے ملک میں نوجوانوں کے اندر مرتضی بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کے خیالات اور افکار کا بہت اثر محسوس کیا جارہا تھا-ضیاءالحق کی جابر پالیسیوں اور ریاستی تشدد کی لہر نے چی گیورا ،ہوچی منہ،ماؤزے تنگ سمیت گوریلا وار کی بہت سی علامتوں کو مقبول کرڈالا تھا-پیپلز پارٹی کے اندر اور باہر ایسے لوگوں کی کمی نہ تھی جو پرامن سیاسی جدوجہد کی بجائے پرتشدد گوریلا بغاوتی لائن اختیار کرنے کی طرف مائل ہورہے تھے-اس زمانے میں افغان وار کی وجہ سے جنوبی ایشا میں ویسے ہی فضاء خاصی متشدد ہوئی ہوئی تھی-اسی دوران ایران میں انقلاب کے اوپر شیعہ قدامت پرستوں کے غالب آنے اور سعودی عرب کی جانب سے سلفی ماڈل کی ایکسپورٹ نے اور زیادہ کام کو تیز کرڈالا تھا-افغانستان میں ثور انقلاب اور امین حفیظ سے ببرک کارمل اور پھر ڈاکٹر نجیب کے دور تک پاکستان کے بہت سے ترقی پسندوں کو کابل کو جائے پناہ بنانے اور مسلح جدوجہد کے زریعے ضیاء رجیم کے خاتمے کی سوچ کو اپنانے کی ترغیب دینے میں اہم کردار ادا کیا-
بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ بیگم نصرت بھٹو نے اس ساری صورت حال کا بغور جائزہ لیا-پارٹی کے اندر اس زمانے میں تین بڑے رجحان تھے-ایک جاگیردار اور موقعہ پرست تھے جو پارٹی کے اندر ضیاء کے مخبر کا کردار ادا کررہے تھے یا گھر بیٹھکر نوجوانوں کو مایوسی کے ٹیکے لگا رہے تھے اور یہ وہ لوگ تھے جو پارٹی کی قیادت پر قبضہ کرنا چاہتے تھے-دوسرا رجحان پرجوش اور سیاسی تجربے سے نابلد نوجوانوں کا تھا جو غصے اور تناؤ میں ہتھیار اٹھانے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں دیکھتے تھے-جبکہ ایک رجحان دبا دبا سا تھا-اور وہ یہ تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو سیاسی تنہا پرواز نہیں کرنی چاہئیے-پی پی پی کو پاکستان کے اندر پرامن مزاحمتی تحریک چلانی چاہئیے اور ان تمام سماجی گروہوں کے ایشوز کو سیاسی جمہوری طریقے سے اٹھانا چاہئیے جو ضیاء الحق کی آمریت سے متاثر ہورہے ہیں-بے نظیر بھٹو نے جمہوریت کی بحالی،مذھبی اور نسلی اقلیتوں کے حقوق،عورتوں کے حقوق ،طالب علموں کی آواز اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے لیے پرامن سیاسی جدوجہد کے راستے کو چنا اور انارکسٹ رجحانات کو مسترد کرڈالا-بے نظیر بھٹو کی یہ حکمت عملی ان کی پالیسیوں اور بیانات اور عمل میں جھلکتی تھی-اور میں اور میرے جیسے بہت سے نوجوان جو شائد اس زمانے میں جذباتیت کا شکار ہوکر مسلح جدوجہد کے راستے پر چل نکلتے سنبھل گئے-اور میں نے یہ دیکھا کہ جنرل ضیاءالحق نے ہمیشہ چند جذباتی لوگوں کے اقدامات کو بنیاد بناکر بے نظیر بھٹو کی پرامن سیاسی جدوجہد کی حکمت عملی کو ناکام بنانے کی کوشش کی-
آج میں سوچتا ہوں کہ اگر جذبات میں آکر چوہدری ظہور اللہی کو قتل نہ کیا جاتا اور پی آئی اے کے طیارے کو ہائی جیک نہ کیا جاتا تو ایم آرڈی کی تحریک شائد 86ء میں ہی کامیاب ہوجاتی اور اس کے بعد جو انتخابات ہوتے تو اس صورت میں اسٹبلشمنٹ کو لنگڑے لولے اقتدار کا لولی پاپ پی پی پی کو رینے کے منصوبے تیار کرنے کی ہمت نہ ہوتی-
لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جب ظہور اللہی کا قتل ہوا یا پی آئی اے کا طیارہ اغواء ہوا تو ضیاالحق کی حکومت نے جس قدر شدید پرپیگنڈہ کیا اس سے ایم آرڈی میں شامل دایئں بازو کی جماعتیں تو گبھرا گئیں تھیں مگر بے ںظیر بھٹو کا عزم قائم رہا-انہوں نے پی پی پی کے وجود کو باقی رکھا-
ضیاء کی خواہش تھی کہ سندھ کا سیاسی کارکن متعصب قوم پرستی کے گڑھے میں جاگرے اور سندھ میں پیپلزپارٹی کے کارکن بحالی جمہوریت کی تحریک کو چھوڑ کر تعصب کے گڑھے میں گرجائیں اور اس طرح سے پنجاب کے اندر پی پی پی اور جمہوریت کی جو حمائت ہے وہ ختم ہوجائے-ضیاء سندھ پنجاب،صوبہ خیبر پختون خواء اور بلوچستان کے اندر جمہوری تحریک کو تقسیم کرنے کا خواہاں تھا-اس کے لیے قوم پرستی کا ہتھیار بہت موثر ہوسکتا تھا-کیا یہ محض اتفاق تھا کہ ضیاء نے سندھ میں جی ایم سید ،خیبر پختون خواء میں ولی خان اور بلوچستان میں پہلے غوث بخش بزنجو کو شیشے میں اتارنے کی کوشش کی-اور اس طرح سے پی پی پی کی جمہوری تحریک کو نسلی اور لسانی تضادات کی رو میں بہانے کی سازش کی-ضیاء الحق دوسری طرف اینٹی بھٹو فورس کی سیاسی قوت کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا خواہش مند تھا-
بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو نے ضیاالحق کی اس سازش کا بروقت ادراک کیا اور انہوں نے ایک طرف تو پی پی پی کے جمہوری وفاق پرست سیاست کی علمبردار ہونے کے امیج کو برقرار رکھا-دوسری طرف بے نظیر بھٹو نے صوبوں کے حقوق اور ان کی ثقافتی شناخت کے حق میں آواز بلند کی-دوسری طرف انہوں نے “جمہوریت کی بحالی “کے نکتے پر دائیں اور بایاں بازو کی جماعتوں کو ایک مرکز پر جمع ہونے کی دعوت دی-5 جولائی 1977ء سے لیکر مارچ 1981ء تک کا جو پریڈ ہے اس کے دوران ضیاالحق کی کوشش پی پی پی کے وجود کو مٹانے کی تھی اور پاکستان کے اندر جمہوری سیاست کے باب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردینے کی تھی-اس کے لیے ضیاءالحق نے جماعت اسلامی سمیت دین فروش ملّاوں کو اور بکاؤمال قوم پرستوں کو خوب استعمال کیا-اس دوران بے نظیر بھٹو نے کوشش کی کہ اینٹی بھٹو کمیپ میں جو حقیقی جمہوریت پسند قوتیں تھیں اور جن کا سیاسی وزن تھا ان کے ساتھ ماضی کی تلخیوں کو کم سے کم کیا جائے-اسی کوشش کا نتیجہ کلفٹن میں المرتضی ہاؤس میں 1981ء کو بحالی جمہوریت کی تحریک میں دائيں اور بایاں بازو کی معتبر جماعتوں کی شمولیت کی شکل میں نکلا-یہ ضیاء الحق کے لیے دوسرا بڑا دھچکہ اور صدمہ تھا-اس سے پہلے بے نظیر نے پرامن سیاسی جدوجہد کے راستے کو اختیار کرکے ضیاء کو حیران کرڈالا تھا-
بے نظیر بھٹو نے جمہوری سیاست کو پوری فیڈریشن کی بقاء کے لیے لازم وملزوم قرار دیا اور انہوں نے پورے ملک میں ایک ترقی پسند،جمہوری سماجی اور ریڈکل آدرشوں پر مبنی سیاست کی بنیاد رکھی-بے نظیر بھٹو انہی معنوں میں “چاروں صوبوں کی زنجیر” تھیں-
بے نظیر بھٹو ایم آرڈی کے اندر سب سے توانا سیاسی آواز تھیں جنہوں نے شہری آزادیوں،پریس کی آزادی،عورتوں ،اقلیتوں اور چھوٹے صوبوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی-ان کے اس موقف کی وجہ سے پاکستان کی مڈل کلاس اور پروفیشنل باڈیز کی اکثریت جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہوئی-پھر یہ بے نظیر بھٹو تھیں جنہوں نے پی پی پی کو ٹریڈ یونینز کی آزادی اور محنت کش طبقے کے حقوق کی آواز بلند کی-اور پی پی پی کو محنت کش طبقے اور کسانوں کی سب سے بڑی پارٹی بنا ڈالا-
بے نظیر بھٹو نے آمریت کے دور میں بے مثال جدوجہد کی اور نوجوانوں کی حمائت اور ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب رہیں-یہ سنگت جو بے نظیر بھٹو اور نوجوان کارکنوں میں استوار ہوئی آحر وقت تک باقی رہی اگرچہ بے نظیر بھٹو سے ان نوجوانوں کو جو اب بالغ النظر اور پختہ سیاسی ورکررز میں بدل چکے تھے خاصی شکایات بھی رہیں-لیکن رہ پھر بھی کارکن کے وقار اور اہمیت کو پارٹی کے اندر باقی رکھنے میں کامیاب رہیں تھیں-
بے نظیر بھٹو کا سیاسی ورثہ اس قدر طاقتور تھا کہ جب وہ شہادت پاگئیں تو کون سی آنکھ تھی جو ان کے جانے پر نہ برسی ہو-یہ سیاسی ورثہ اگر ان کے بعد آنے والوں نے اپنی سیاست کے لیے رہنماء بنایا ہوتا تو پی پی پی کے ساتھ پنجاب،خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں جو کچھ ہوا نہ ہوتا-
بے نظیربھٹو نے سیاسی مفاہمت کا جو تصور پیش کیا تھا اس کو ان کے پیش روؤں نےمسخ کرڈالا-بے نظیر بھٹو نے اس ملک کی اسٹبلشمنٹ سے چند سمجھوتے کرنے کا تجربہ کرکے دیکھا تھا مگر ان سمجھوتوں میں یہ نہیں ہوا تھا کہ پی پی پی کے انیٹی اسٹبلشمنٹ امیج کو برباد کردیا گیا ہو-اور بے نظیر بھٹو کم از کم اپنی ٹیم کے اندر اویس ٹپی ،ملک ریاض جیسے لوگ نہیں رکھتیں تھیں-ان کی ٹیم کا سیاسی امیج ہوا کرتا تھا-انہوں نے یہ کبھی نہیں کیا تھا کہ اپنا علاج کرنے والے کسی معالج کو ڈاکٹری سے انرجی پالیسی بنانے پر لگاڈالا ہو-یا جیل کسی اخلاقی جرم کی سزا کاٹنے والے کو اس بنیاد پر سرکاری عہدہ دے ڈالا ہوکہ اس نے ان کی جیل میں دیکھ بھال کی تھی-یہ انہونیاں اس دور میں ہوئیں تھیں جس دور میں پارٹی کے حادثاتی شریک چئیرمین بن جانے والے فکر بے نظیر کو رہنماء قرار دیتے نہیں تھکتے تھے-سیاسی بلوغت کا سبق سیکھنے کے لیے پی پی پی کے لوگوں کو بے نظیر بھٹو کی سیاسی زندگی کے اسباق کی ایک مرتبہ پھر سے قرات کرنا ہوگی-
Comments
Tags: Benazir Bhutto
Latest Comments
Aamir Bhi…. apke article ne mujh jesay gumnam Bhutto Lover and PPP Karkun ko rula diya…. Bhutto sahib aur Bibi ki Judai ne Pakistan ko Lawaris kar diya hy…
hamid