اعلیٰ طبقے کا ڈرائنگ روم
اکیسویں صدی میں یہ فخر اور حیثیت بہت ہی کم ممالک کو حاصل رہ گئی ہے کہ وہاں طاقت کی مکمل حکمرانی ہو اور جاگیرداری روایات پوری آن بان اور شان سے قائم قائم و دائم ہوں. یہ اتنا آسان کام نہیں ہے، اس کے لئے قوم کی اکثریت کو جاہل اور محتاج رکھنے کی جو بنیادی ضرورت ہے اس کو پورا کرنا اس دور میں اتنا آسان نہیں رہا جب سائنس اور ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہوں کہ دنیا سکڑتے سکڑتے آپ کی ہتھیلی میں آ سما رہی ہو، اس کے لئے یا تو بہت سارا تیل درکار ہے یا پھر مکمل پسماندگی. پاکستان جیسے ملک جو نہ تین میں ہوں نہ تیرہ میں ان میں اعلیٰ طبقات کو بلا خوف و خطر کدکڑے لگاتے دیکھ کر افریقہ اور خلیج کے کئی ممالک یقیناً حسد کا شکار ہو جاتے ہونگے. بڑے بڑے بادشاہوں کا یہ حال دیکھا گیا ہے کہ اپنے محلوں سے اس لئے نہیں نکلتے کہ کیا پتا واپسی ہو بھی کہ نہیں، اور ہمارے ہاں کے بادشاہ زادے موت کی سزا پا کر بھی جیت کے نشان بناتے، ہنستے مسکراتے دیکھے جاتے ہیں.
اور ملکوں میں یہ حال ہے کہ شاہ کو ولی عہد پر اعتبار نہیں، بھائی بھائی سے خوف کھاتا ہے، عوام کو مستی سوجھ رہی ہے اور پتہ نہیں کون کون سی سپرنگ آ جا رہی ہیں، رات سونے جاتے ہیں تو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ صبح مسند شاہی پے رونق افروز ہونگے یا جیل کی رونق میں اضافہ کریں گے، اسی فکر میں مبتلا رہتے ہیں کہ علاج کے بہانے کدھر کا رخ کریں اور ہمارے عزیز وطن میں راوی، ستلج، چناب، جہلم، سندھ، کابل حتیٰ کہ حب ندی بھی چین ہی چین لکھ رہے ہیں، جہاں چاہو بیس بچیس کلاشنکوف بردار محافظ ساتھ لو، اور پجیرو اور دوسری بڑی بڑی گاڑیوں کا قافلہ بنا کر نکل جاؤ. پدر بزرگوار ہوں یا پسر نیاز مند یا دختر نیک اختر سب کے لئے اسمبلیوں میں جگہ ہے، قرضوں کے کھاتے کھلے ہیں، فیکٹریاں لگتی ہیں، بند ہوتی ہیں، کاروبار چل رہے ہیں بلکے اب تو انڈے مرغی اور دودھ پر بھی محلوں کی اجارہ داری ہے. زمینیں کھلی پڑی ہیں، صرف زمین ہی نہیں اس کے اوپر چھایا آسمان بھی جملہ حقوق سمیت انہی کا ہے اور اس کے نیچے موجود تمام چرند پرند اور انسان بھی بشمول سرکاری کارندوں کے جیسے تھانیدار، مختیار کار سب انہی کے افسران بکار خاص ہیں. اور شہری منظر نامہ بھی مختلف نہیں کہ یہاں بھی انہی کا راج ہے جو حلال، حرام ، صحیح ،غلط اور اس قسم کی مکروہات سے مکمل بے نیاز ہیں. اقربا پروری ، سفارش، رشوت، تعلقات کا ناجائز استعمال، قوت اور طاقت کا مظاہرہ، اپنے سے نیچے طبقات کی انا کو روز کچلنا، تمام سہولیات اپنے لئے میسر رکھنا اور عام آدمی کو ترسانا؛ یہ اور ایسی کئی جاگیرداری روایات ہیں جو بلا تخصیص دیہی و شہری ہمارے پورے معاشرے میں ہر طرف جاری و ساری ہیں
.
اگر اٹھارویں صدی کے کوئی مرحوم افسر یا زمیندار اگر آج زندہ ہو کر واپس آ جائیں تو ہر چند کہ ٹھٹک جائیں گے کہ ترقی تو بہر حال ہوئی ہے، ان کو واپس سیٹل ڈاؤن ہوتے ذرہ بھی تکلیف نہ ہوگی. دیکھیں نہ ہم نے موٹر وے تو بنا لی اور اس پر دیوو کی سروس بھی چلا لی، مگر ان محترم ہستیوں کا کچھ نہ کر سکے جو پانی نہ پلانے پر آج بھی تھپڑ لگا دیتی ہیں اور نہ ہی وہ تھانے والے بدلے جو کمی کمین کو اس کی اوقات یاد دلاتے ہوئے اندر کر دیتے ہیں. کل بھی اونچی پگڑیوں والے اپنے گھوڑوں کے سموں تلے عزتیں روندہ کرتے تھے آج بھی ہماری بہنیں راہ چلتے بڑی بڑی گاڑیوں میں اٹھا لی جاتی ہیں، بلکہ آج تو ان کی بے بسی کی فلمیں بنا کر آگے چلائی بھی جا رہی ہیں. پہلے ٹھگ ہوتے تھے جو رہ چلتے مسافر کو لوٹ لیتے تھے اور اکثر جان سے مار دیتے تھے کہ ان کی روایت تھی، آج راہ چلتوں سے موبائل فون چھینے جاتے ہیں، گاڑیاں چھینی جاتی ہیں اور ذرہ سی مزاحمت پر آج بھی مظلوم جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں
.
یہ سب ہو رہا ہے مگر ایک مخصوص طبقہ اس سب سے بالا تر تمام وسائل پر حاوی ہے، اور بے فکر ہے. مسلم لیگ ہو یا پیپلز پارٹی یا پرویز مشرف، جو بھی ہو ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا، ان کے مفادات کا تحفظ ہر حال میں یقینی ہے. ہمارا ملک اس اعلیٰ طبقے کا ڈرائنگ روم ہے جو اپنی موج میں مصروف ہے. نچلے تمام طبقات کے لئے انتظام ہے کہ وہ کبھی ایک نہ ہو سکیں. مذہب، زبان، علاقائیت کی بنیاد پر منقسم عوام بہم دست و گریبان ہیں؛ لوگ چاہے مذہب کے نام پر لڑیں، چاہے زبان، علاقے اور نسل پر، مرتے کاٹتے ایک دوسرے کو ہی ہیں. تقسیم در تقسیم کا شکار ہونے والے ان گدھوں کی طرح ہیں جن میں سے کچھ پر کالی پٹیاں رنگ کر ان کو یہ یقین دلا دیا جائے کہ وہ زیبرہ ہیں. ان زیبروں سے اور کچھ نہیں ہوتا تو ریزیڈنسی جلا دیتے ہیں، یہ نہیں دیکھتے کہ گوادر سے لے کر خنجراب تک جتنے لوگ بھی مفلسی، غربت، بھوک جہالت، بیماری کا شکار ہیں ان کا المیہ ان کی نسل، زبان، ذات، مذہب کچھ نہیں بلکہ طبقاتی نظام ہے. یہ نظام ویسے کا ویسا بنگلہ دیش میں بھی ہے، اتر پردیش، بہار اور گجرات میں بھی، ہم نے کئی بار تقسیم ہو کر دیکھ لیا مگر اونچی پگڑی، تنی ہوئی گردنوں اور محلوں میں رہنے والے وہیں کے وہیں رہے، سوچنا یہ ہے کہ مزید تقسیم ہونا بہتر رہے گا یا اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ اتحاد ؟
It is amazing, while reading this article I felt as if I am on a “virtual tour” of Pakistan!