میاں نواز شریف اور اسٹبلشمنٹ

130513210514_nawaz_sharif_304x171_bbc_nocredit

میاں نواز شریف اور اسٹبلشمنٹ

میاں محمد نواز شریف چند دنوں کے بعد اس ملک کے وزیر اعظم ہوں گے-ان کی جماعت تیسری بار حکومت سنبھالے گی-اس دوران ان کی حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں پورے ملک کے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں زور و شور سے بحث جاری ہے-اس بحث میں تیزی اس لیے آئی ہے کہ مسلم لیگ نواز کے قائد میاں محمد نواز شریف نے انڈیا اور دیگر غیر ملکی میڈیا کو دئیے جانے والے انٹرویوز میں یہ کہا کہ “بھارت سے بات چیت وہیں سے شروع ہوگی جہاں پر 1999ء میں چھوڑی گئی تھی-کارگل پر ایک کمیشن بنایا جائے گا”پھر میاں محمد نواز شریف کی طرف سے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کو حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت بھی دی گئی ہے”

میاں محمد نواز شریف کی جانب سے الیکشن کے دوران ہی کرن تھاپر کو  انٹرویو  کے دوران ایک سوال پر میاں محمد نواز شریف نے کہا تھا کہ وہ سیکورٹی اور خارجہ پالیسی میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے-

میاں محمد نواز شریف کی جانب سے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا گیا وہ نئے ہرگز نہیں تھے-کیونکہ میاں محمد نواز شریف نے اس سے قبل جنوبی ایشیا میں آزاد میڈیا کے لیے جدوجہد کرنے والی این جی او سافما کی تقریب میں میاں محمد نواز شریف نے تقریر کرتے ہوئے جو لائن لی تھی اس پر دائیں بازو کے پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے مخالفوں نے خاصا شور مچایا تھا-اور ان کے خیالات کو غداری تک سے تعبیر کیا گیا تھا-

میاں محمد نواز شریف سیاچین کے ایشو پر بھی پاکستانی فوج کو یک طرفہ طور پر واپس بلانے کی بات کرچکے ہیں-

میاں محمد نواز شریف کے اوپر بیان کئے گئے خیالات عرف عام میں بائیں بازو کے خیالات گردانےجاتے ہیں-اور یہ خیالات ایسے ہیں جن کو دائیں بازو کے حلقوں میں مشکل سے ہضم کیا جاتا ہے-ان خیالات کو براہ راست ان نظریات کے منافی بھی خیال کیا جاتا ہے جن کی بنیاد “تزویراتی گہرائی “کی پالیسی پر ہے-جس سے ڈیپ سٹیٹ اور سیکورٹی سٹیٹ کے تصورات سامنے آتے ہیں-

ہمارے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں دائیں اور بائیں دونوں گروپوں میں یہ مانا جاتا ہے کہ تزویراتی گہرائی ،ڈیپ سٹیٹ اور سیکورٹی سٹیٹ سے متعلق جتنے بھی خیالات ہیں ان کی خالق ملٹری اسٹبلشمنٹ میں گہرا اثر اور جڑیں رکھنے والی ضیاء کی باقیات ہے-اور یہی باقیات پاکستان کے اندر دائیں بازو کی جماعتوں کی پشت پناہ بھی خیال کی جاتی ہے-

میاں محمد نواز شریف آغاز کار میں اس پالیسی سے اتفاق اور اشتراک رکھتے تھے-اور انہوں نے اسی اشتراک اور اتفاق کی بنیاد پر بےنظیر بھٹو کی 1988ء اور 1993ء میں پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ظاہر کئے گئے خیالات کی مخالفت کی تھی-اور ان کو سیکورٹی رسک تک کہا تھا-

لیکن میاں محمد نواز شریف نے یہ راستہ اس وقت تبدیل کیا جب وہ 1997 ء میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے-انہوں نے بھارت سے “ہمہ جہت قسم کے مذاکرات “کا آغاز کیا-اور پہلی مرتبہ تنازعات کے ہوتے ہوئے معاشی تعلقات اور سرحدوں کو نرم بنائے جانے کا فیصلہ کیا گیا-میاں محمد نواز شریف نے امن پروسس کو بہت ریڈیکل انداز میں شروع کیا-اور اعلان لاہور سامنے آیا-میاں محمد نواز شریف کی پاک بھارت دوستی کی لائن لیکر سامنے آئے تو ضیاء کی باقیات والی اسٹبلشمنٹ نے اس پر اظہار ناراضگی کیا-اور اسی دوران غیر منتخب مقتدر طاقتوں نے کارگل ایڈونچر کرڈالا-اور جب میاں محمد نواز شریف اس مہم جوئی کے زمہ داروں کا گھیراؤ کرنے کی کوشش کررہے تھے تو ان کا تختہ الٹ دیا گیا-

اس دوران غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کے حامی دائیں بازو کے اہل قلم اور سیاسی کارکن جہاں بیٹھتے وہاں ایسے تاثر دیتے جیسے میاں محمد نواز شریف نے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کو روکنے کے لیے کلنٹن کی مدد مانگ کر کوئی جرم کردیا ہے-

اصل میں اس وقت بھی میاں محمد نواز شریف کو جنوبی ایشیا میں ہمسایہ ملکوں سے پراکسی وار لڑنے کی مخالفت کرنے پر اسٹبلشمنٹ اور دائیں بازو کے حلقوں کی جانب سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑا اور میاں نواز شریف اقتدار سے الگ بھی کردئے گئے-

آج اگرچہ پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی بہہ گیا ہے-حالات میں بہت تبدیلی آگئی ہے-لیکن پاکستان میں غیر منتخب ہئیت مقتدرہ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے خاصی حساس ہے-اور وہ سویلین حکومتوں سے اس کی لائن پر چلنے کی توقع رکھتی ہے-

پاکستان کی فوجی قیادت اور میاں نواز شریف کے درمیان تعلقات 12 اکتوبر 1999ء سے خراب ہوگئے تھے اور ان تعلقات میں بہتری کی رفتار بہت سست تھی-اور دونوں کے درمیان تعلقات میں خرابی اس وقت زیادہ ہوگئی جب میاں محمد نواز شریف نے مہران بیس ،ابیٹ آباد والے واقعات میں جرنیلوں سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا تھا-پھر آئی ایس آئی کے سابق چیف پر بھی انہوں پی ٹی آئی کو مسلم لیگ کو پنجاب میں گرانے کا ٹاسک دینے کا الزام عائد کیا تھا-اور پھر موجودہ آرمی چیف کو مزید ملازمت میں توسیع نہ دینے اعلان کیا تھا-اس سے قبل وہ آرمی چیف کو توسیع دینے کی مخالفت بھی کررہے تھے-

میاں محمد نواز شریف کا اسٹبلشمنٹ سے ایک اور اختلاف بہت واضح ہے-اور وہ ہے بلوچستان ایشو پر ان کی رائے-میاں محمد نواز شریف بلوچستان کے اندر ان قوم پرستوں سے اتحاد کرچکے ہیں جو اگرچہ پاکستان مخالف گوریلوں کی مسلح جدوجہد کے ساتھ نہیں ہیں مگر ان کا بلوچستان ایشو موقف وہ ہے جس کو ملٹری اشرافیہ بہت ناپسند کرتی ہے-

پھر میاں محمد نواز شریف جیسے پاک بھارت تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ افغان ایشو پر بھی مختلف رائے رکھ سکتے ہیں-

اگر اس سارے پس منظر کے ساتھ آپ میاں محمد نواز شریف کی رہائش گاہ پر سادہ لباس میں چیف آرمی سٹاف کی آمد اور تین گھنٹے ملاقات والے واقعے کو دیکھیں تو بات سمجھ میں آنا مشکل نہیں ہوگی-

پاکستان کی فوج کے سربراہ اشفاق پرویز کیانی ماضی روائت سے ہٹ کر جو میاں محمد نواز شریف سے ملے تو صاف ظاہر ہے کہ میاں محمد نواز شریف تک وہ پاکستان کے اندر جاری نیشنل سیکورٹی کی پالیسی کو بیان کرنے اور اس حوالے سے میاں محمد نواز شریف کو بریف کرنے آئے ہوں گے-

ملٹری قیادت پاک بھارت تعلقات میں بہتری لانے کے پروسس کو تیز کرنے کے حق میں نظر نہیں آتی-وہ اس پروسس کو سلو موشن میں آگے لیجانے  کی خواہش مند ہے-جبکہ وہ دھشت گردی کے حوالے سے ملٹری کی بلوچستان ،فاٹا میں اپنی پالیسی کو منوانے کے حق میں ہیں-اور اس کے ہاں میاں محمد نواز شریف کی جانب سے حال ہی میں دئے جانے والے بیانات پر درپردہ تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا ہے-

میاں محمد نواز شریف کو اپنے بائیں سمت کے خیالات کی وجہ سے صرف اسٹبلشمنٹ کی مخالفت کا سامنا ہی نہیں ہے-بلکہ ان کے روائتی حامی دائیں بازو کے ان حلقوں کی جانب سے بھی سخت تنقید دیکھنے کو مل رہی ہے-ان حلقوں کی خواہش ہے کہ میاں محمد نواز شریف نیشل سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کے خدوخال ملٹری اسٹبلشمنٹ کی مطابقت میں استوار کریں-

جنرل کیانی کی میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کے بعد کچھ حلقے دونوں رہنماؤں میں اختلافی امور کے بارے میں مشترکہ پالیسی اختیار کرنے پر اتفاق ہوجانے کی باتیں کررہے ہیں-اور ان کے خیال میں اب نواز شریف اور فوچ دونوں ایک ہی باب پر کھڑے ہیں-میں ایسا خیال نہیں کرتا-میرے خیال میں میاں محمد نواز شریف اپنے موقف سے دست بردار نہیں ہوئے-بلکہ وہ پہلے اپنی حکومت کو درپیش سب سے بڑے چیلنج معاشی بحالی کو حل کرنے میں زیادہ دلچسپی لیں گے-اور اس کے ساتھ ملک کے اندر امن وامان کی صورت حال کو بہتر بنانے کی کوششوں کا آغاز کریں گے-وہ اس دوران نشینل سیکورٹی کے ایشو پر زیادہ ریڈکل اقدام اٹھانے کی بجائے ماڈریٹ رویہ اختیار کریں گے-

لیکن یہ بات بہت عیاں ہے کہ وہ بہت جلد اس حوالے سے اقدام اٹھائیں گے-اس کے لیے ہوسکتا ہے وہ کیانی کی مدت ملازمت پورا ہونے کا انتطار کریں-اور پھر ایسی ملٹری قیادت لیکر آئیں جو ان کے پاک بھارت تعلقات کے ایشو پر لبرل ریڈیکل موقف اور اقدام کے آڑے نہ آئیں-

میاں محمد نواز شریف بلوچ ایشو پر جیسی سوچ رکھتے ہیں وہ ایف سی،ملٹری اور ایجنسیوں کی سوچ اور پالیسی سے ہٹ کر ہے-ظاہر سی بات ہے بلوچستان میں مسلم لیگ کا چیف منسٹر پشتون اور بلوچ اکثریتی پارٹیوں کے ساتھ ملکر حکومت کرے گا اور اپنی رٹ کے حوالے سے وہ سابقہ چیف منسٹر سے کہیں زیادہ موثر ہوگا-ایسے میں کیا بلوچستان میں غیر منتخب ہئیت مقتدرہ خود کو منتخب سویلین حکومت کے تابع کرسکے گی؟یہ بہت اہم سوال ہےاور غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کا سابقہ ریکارڑ اگر دیکھا جائے تو اس سوال کا جواب نفی میں دیا جاسکتا ہے-

مجھے ایسا لگتا ہے کہ ملٹری قیادت میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ایک قسم کے غیر اعلانیہ مذاکرات میں مصروف ہوچکی ہے-اور کیانی صاحب کی جاتی امراء آمد اسی کا ایک تسلسل ہے-میاں محمد نواز شریف کی اپنی ٹیم میں شہباز شریف،راجہ ظفر الحق اور چوہدری نثار ملٹری اسٹبلشمنٹ کے نکتہ نظر کے قریب لگتے ہیں-لیکن میاں محمد نواز شریف اس حوالے سے پاکستان کے اندر اس لابی کے زیر اثر دکھائی دیتے ہیں جو بھارت سے تجارت مکمل طور پر آزادی سے کرنے کے خواہاں ہیں-اس لابی میں دانش ور،صحافی،ادیب ،سیاسی کارکن ،این جی اوز کے رضاکار بھی شامل ہیں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان عوام کی سطح پر روابط کی بحالی کے حامی ہیں-اس طرح سے اس باب میں میاں محمد نواز شریف بلواسطہ بائیں بازو کی سوچ کے بہت قریب آپڑتے ہیں-اور یہ ایک ایسا اشتراک اور اتفاق کا مرکز ہے جہاں پر مسلم لیگ نواز،پی پی پی ،اے این پی ،ایم کیو ایم اور قوم پرست جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرسکتی ہیں-اگرچہ ان کی جماعت اور ان کے حامیوں کی اکثریت میاں نواز شریف کو اس بائیں جانب جھکاؤ سے دستبردار ہوکر دائیں جانب جھکانے کی خواہش مند زیادہ ہے-یا جھکاؤ حافظ سعید ،ساجد میر جیسے اتحادیوں کے لیے خاصا تکلیف رہ ہے-جبکہ جماعت اسلامی کی جانب سے اس جھکاؤ کے خلاف مزاحمت کا امکان بھی موجود ہے-

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdullah AlFaisal
    -
  2. Tahir
    -