الیکشن الیکشن
لوگ سمجھ نہیں پاتے مگر الیکشن اور سلیکشن میں بڑا فرق ہے، الیکشن میں اجتماعی رائے کی اہمیت ہے اور سلیکشن میں انفرادی، گویا سلیکشن الیکشن کا حصّہ ہوا. بس یہیں آ کر ہمارے ہاں معامله خراب ہو جاتا ہے، کبھی کبھار سلیکشن پہلے ہو جاتا ہے اور الیکشن بعد میں، اور لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے، اور ٹھیک ہی ہے کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ سلیکشن ہی سلیکشن چلتا رہتا ہے اور الیکشن کی نوبت ہی نہیں آتی بلکہ بے بسی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ
آگے آتی تھی حال دل پے ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
اور ہنسی تو دور کی بات ، محض لب کھولنا ہی مشکل نظر آتا ہے اور اچھے اچھے یہی سوچتے رہتے ہیں کہ
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
تو جناب الیکشن یا جمہوریت کی یہی خاص بات ہے کہ ہر فرد تک سلیکشن کا حق پنہچ جاتا ہے، محض مخصوص افراد اور اداروں تک محدود نہیں رہتا اور یوں افراد اور ادارے عوام کو جوابدہ ٹھہرتے ہیں. ہاں اگر عوام اپنے اس حق کو سمجھ نہ پائیں تو پھر جوتوں میں دال بھی بٹنے لگتی ہے، اور دال ختم ہو جائے تو پھر بانٹنے والے اور بٹورنے والے سب باہم جوتم پیزار ہو جاتے ہیں اور تماشا دیکھنے والے بیزار. اب اگر آپ تماش بین بننے کی ٹھان لیں گے تو یاد رکھیں کہ نہ تو آپ تماشے کا حصّہ ہیں نہ ہی لیکھک اور نہ ہی ہدایت کار آپ محض تماش بین ہیں، جس کا بس صرف تالیوں اور گالیوں پر چل سکتا ہے. تو یہ ہے عام طور پر ہمارا جمہوری منظر جو جوتوں میں دال سے شروع ہوتا ہے اور جوتم پیزار پر ختم اور اس دوران میں تماشائی تالی اور گالی میں مصروف رہتے ہیں. اس منظر کو بدلنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تماشائی باہر بیٹھ کر تماشا نہ دیکھیں بلکہ خود کو کھیل کا حصّہ جانیں، نہ کوئی بندہ رہے نہ کوئی بندہ نواز ( نوٹ : یہاں نواز محض اس لئے آ گیا ہے کہ مصرعہ یہی ہے )
مگر یہ بھی ضروری ہے کہ تماشائی تماشے کا حصّہ بنتے بنتے نیا تماشا نہ کھڑا کر دیں. ایک مدّت تک سلیکشن چلے جانے کے بعد سی ون تھرٹی کی بدولت الیکشن کا موقع آیا تو لوگ بہت جذباتی تھے. ہمارے ایک پڑوسی خود اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد اپنے دادا جان مرحوم کا ووٹ ڈالنے پنہنچ گئے کہ مرحوم کی خواہش تھی کہ جماعتی انتخابات ہوں اور وہ ووٹ ڈالیں، وہاں پتہ چلا کہ دادا جان مرحوم کا ووٹ تو ڈل بھی چکا، انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ دادا جان مرحوم کی روح ابھی تک اسی تمنّا میں بھٹک رہی تھی اب تو اس کو سکون مل گیا ہوگا، پھر احتیاط کے طور پر دادی جان مرحومہ کا ووٹ بھی ڈال دیا کہ ان کی روح کو تکلیف نہ ہو حالانکہ ان کی دادی ستتر سے پہلے ہی گزر گئیں تھیں. وہ دن اور آج کا دن، ان کو آج تک پریشانی ہے کہ ان بزرگوں کی روحوں کو ابھی تک سکون نہیں ملا، ہر دفع ووٹ ڈال جاتی ہیں. جس روز الیکشن ہوں، ان کے ہاں باقائدہ قران خوانی کی جاتی ہے اور بزرگ روحوں کی نجات کی دعا مانگی جاتی ہے، مگر لگتا یہ ہے کہ بزرگوں کو جمہوریت سے کچھ زیادہ ہی عشق تھا. اور کچھ مرحومین پر ہی منحصر نہیں، بعض اوقات نو مولود بچے بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے پائے گئے ہیں،
بن مانگے موتی ملیں ، مانگے ملے نا بھیک
اور جن حضرات کو یہ ووٹ ملتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ سب آقا کا کرم ہے، ہم آپ کس قطار شمار میں ہیں، یہ خیال رکھنا چاہیے کہ جب یہ حضرات ہم آپ کہتے ہیں تو مراد ہم آپ ہی ہوتے ہیں، وہ خود اس ہم آپ میں شمار نہیں ہوتے.
حالیہ انتخابات میں سب سے زیادہ اچھی بات یہ دیکھنے کو ملی کہ بہت سے تماشائی اس دفع کمر کس کر اسٹیج تک جا پنہچے؛ اختلاف رائے اپنی جگہ مگر یہ انتہائی حوصلہ افزا بات ہے. لوگ بڑی بڑی تبدیلیوں کی بات کر رہے تھے مگر دیکھنے میں یہ آیا کہ اس ذرا سی تبدیلی نے ہی بہت سوں کو گڑبڑا دیا ہے. یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ بہت سے لوگ الیکشن سے پہلے خاموش تھے، بعد میں بولنے لگے بہت سے جو پہلے بہت بول رہے تھے بعد میں چپ ہو گئے، کچھ ایسے بھی ہیں جو نہ پہلے بولے نہ بعد میں اور ایسے بھی ہیں جو پہلے بھی بول رہے تھے اور اب بھی بولے چلے جا رہے ہیں. جن کو چپ لگی ہے ان کا یہ حال ہے کہ
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، الیکشن بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا لڑنا ، اگر ایک بار ہوتا
اور جو چپ ہونے میں نہیں آتے ان کا یہ حال ہے کہ
ٹھکرا دئیے ہیں ہم نے رزلٹ کے صنم کدے
اکتا چکے ہیں کشمکشِ امتحاں سے ہم
حالانکہ ابھی سے اکتا جانا کوئی اچھی بات نہیں، ابھی تو عشق کے کئی امتحان اور بھی ہیں، حکومت کے پیچھے میاں اور بھی ہیں. لیلائے جمہوریت کی یہی ادا تو نرالی ہے کہ اس کے قتیل ہیر پھیر کے پھر اسی کوچے میں آ نکلتے ہیں، نہ کوڑوں سے ڈرتے ہیں نہ جیلوں سے، نہ لاٹھیاں ان کا رستہ روک پاتی ہیں نہ گولیاں
ہمدم یہی ہے رہگزرِ یارِ خوش خرام
گزرے ہیں لاکھ بار اسی کہکشاں سے ہم
نتائج پر ہم کوئی بات نہیں کریں گے کہ ڈر لگتا ہے کہیں تبدیلی کی زد میں نا آ جائیں، ہمارے ہاں ایک اکثریت ایسی ہے جس کے نزدیک تبدیلی مخالفوں کی دھلائی اور صفائی کا نام ہے، سوآج کل دھلائی زوروں پر ہے، صفائی تو خیر ایک زمانے سے جاری ہے. ہمارے دوست بھولو پہلوان جو اپنی بیکری اور دودھ کی دکان چلاتے ہیں وہ بہت خوش ہیں کہ اب گاہگوں کی بک بک سے جان چھوٹے گی کہ فلاں انڈے اتنے روپے درجن دے رہا ہے، فلاں اتنے، یا دودھ وہاں سے تو اتنے میں لیتا ہے آپ کیوں مہنگا بچتے ہیں؛ وہ دن دور نہیں جب سارے ملک میں انڈے مرغی کی سپلائی اور بھاؤ ایک ہی جگہ سے طے ہونگے