روشنی پھیلتی رہے گی

RB4

الیکشن 2013 کی انتخابی مہم کے دوران میرا زیادہ فوکس اس بات پر رہاکہ میں لوگوں کو اس بات پر قائل کرسکوں کہ وہ دائیں بازو کی جماعتوں کو ووٹ نہ دیں-میں جس ایریا میں رہتا ہوں وہاں پر این اے 157 ہے-این اے 157 پر مسلم لیگ کا امیدوار تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتا تھا-اور یہ اس خاندان سے تعلق رکھتا ہے جو شدت پسندوں کے سب سے بڑے حامی مدرسے دارالعلوم کبیروالہ کو فنڈنگ کرتا ہے-اس امیدوار محمد خان ڈاہا سے میرا پہلی مرتبہ تعارف 2002 ء میں ہوا تھا جب این اے 157 پر پی پی پی کا کوئی امیدوار نہیں تھا اور پی پی پی کی قیادت نے مسلم لیگ نواز کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا-محمد خان ڈاہا سے ملاقاتیں ہونے لگیں تو معلوم ہوا کہ موصوف پاکستان کو ایک سیکورٹی سٹیٹ کے طور پر ابھرتا دیکھ کر زرا تشویش کا شکار نہیں ہیں-ان کے آئیڈیل ضیاء الحق تھے-اور شریعت کے نفاز کو سب سے اہم فریضہ خیال کرتے تھے-اور تو اور انہوں نے شیعہ۔احمدی کمیونٹی کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا اس کے بعد میرے لیے ممکن نہیں تھا کہ میں محمد خان ڈاہا کی حمائت کرپاتا-

این اے 157 پر دوسرے امیدوار پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار فوج سے بطور کرنل ریٹائرڈ ہونے والے عابد محمود شاہ کھگہ تھے-یہ صاحب بھی تبلیغی جماعت کے صاحب سہ روزہ و چہل روزہ تھے-اور ان کے ارد گرد بھی سپاہ یزید کے لوگوں کا جھمگھٹا تھا-پھر یہ صاحب فوجی قیادتوں کو اللہ میاں کی گائیں اور سیاست دانوں کو ابلیس کے نمائندے خیال کرتے تھے-یہ عوام کی تربیت رجمنٹل بنیادوں پر کرنے کے خواہاں تھے-ان کو پاکستان کے غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کے کارپردازوں کی ڈیپ سٹیٹ تھیوری سے کوئی اختلاف نہیں تھا-

این اے 157 پر تیسرے امیدوار حامد یار ھراج تھے-جن کو مسلم لیگ ق اور پی پی پی کی مشترکہ حمائت حاصل تھی-حامد یار ھراج کے ہاں تبلغی جماعت کا کوئی گذر نہ تھا-وہ بریلوی مکتبئہ فکر سے تعلق رکھتے تھے-اور ان کے ہاں یہ بھی کریڈٹ موجود تھا کہ ایرا کے چئیرمین بننے کے بعد وہ فوجی عہدے داروں کے خلاف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں گئے تھے-ان کے ہاں طالبان اور فرقہ پرستوں کے لیے کوئی نرم گوشہ نہ تھا-

پی پی 214 پر مسلم لیگ ق کا امیدوار رانا محمد سلیم سپاہ صحابہ پاکستان کا سپورٹر اور دارالعلوم کبیروالہ کی سب سے زیادہ مالی امداد کرنے والوں میں سے تھا-تعلیم واجبی سی اور اس کو پاکستان کی سیاست میں نظریاتی سمتوں اور ان اے درمیان بعد کا کچھ معلوم نہیں تھا-اس کو گلیوں ،نالیوں اور سولنگ کا پتہ تھا-فوجی اسٹبلشمنٹ بارے اس کا علم صفر تھا مگر فوج کے بارے میں نسیم حجازی ٹائپ علم میں اس کو عبور حاصل تھا-

اسی نشست پر مسلم لیگ نواز کا امیدوار بھی رجعت پسند تھا اور پاکستان تحریک انصاف کا امیدوار عمران پرویز دھول خاصا ترقی پسند تھا-
میں نے اس ساری صورت حال میں دائیں بازو کے خیالات کے حامی اور طالبان کے حامی امیدواروں کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کے لیے بھرپور مہم چلانے کا فیصلہ کیا-

پہلے مرحلے میں میں نے این اے 157 میں 5000 سے زائد ایسے لوگوں کا موبائل فون ڈیٹا حاصل کیا جن کے بارے میں مجھے یقین تھا کہ یہ لوگ ترقی پسند اور لبرل آئیڈیالوجی کو ووٹ دیں گے-اور ان کو میں نے روزانہ کی بنیاد پر پیغامات ارسال کیے اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں طالبانی مائنڈ سیٹ اور سیاست ترقی میں روکاوٹ جیسے بن رہی ہے اور اس کے اثرات ہماری زندگیوں پر کیا ہیں اس کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی-

دوسرے مرحلے میں میں نے ترقی پسند آئیڈیالوجی کو سپورٹ کرنے والے حلقے کے صاحب ثروت لوگوں کے تعاون سے بروشرز ،پمفلٹ اور سٹیکرز چھپوائے اور ان کو لوگوں میں تقسیم کیا-

تیسرے مرحلے میں ہم نے این اے 157 اور پی پی 214 ،215 میں چکوک اور شہری حلقوں میں وزٹ کیا-لوگوں سے ملے اور ان کو کہا کہ وہ ایسے لوگوں کو رد کرڈالیں جو ان کی زندگیوں میں تباہی لانے کا سبب بنے ہیں-ان لوگوں کو غربت ،بدحالی اور معاشی تباہی کے سکورٹی سٹیٹ کے درمیان راست تناسب کا رشتہ سمجھانے میں کافی وقت لگا لیکن جن ک سمجھ آئی وہ ہمارے پیغام کے مبلغ بن گئے-

میں نے ایک ماہ میں 445 کارنر میٹینگز سے خطاب کیا-اور ایک بڑے حلسے سے بھی-صبح پانچ بجے سے لیکر اکلی صبح پانچ بجے تک کئی دن کام کیا اور اس دوران بہت سارے جسمانی عوارض کا شکار رہا-

مجھے اس بات پر فخر ہے کہ وسائل نہ ہونے کے باوجود اور ابتداء میں بس اکیلا ہونے کے باوجود میں نے ہمت نہ ہاری-اور میں اپنی استعداد سے زیادہ لوگوں تک پہنچا-میں نے 157 ،214،215 کو فوکس تو کیا ہی اس کے علاوہ میں نے 159 پر اور پی پی 219 پر بھی بہت محنت کی اور 159 پر سپاہ صحابہ کے سابق رہنماء اور مسلم لیگ نواز کے امیدوار افتخار نذیر کے خلاف عوام میں شعور جگانے کے لیے 19 یونین کونسلوں کا دورہ کیا-

ہم انتہا پسندی،رجعت پرستی ،فوجی اسٹبلشمنٹ اور ملّا کریسی کے خلاف عوام کو بیدار کرسکتے ہیں-اور سیاست پر طالبانی قبضہ کو روکنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں اگر پوری کوشش کریں –

اس دوران مجھے نام نہاد پی پی پی دشمن لیفٹ کہیں نظر نہیں آیا-این اے 157 ،159 ،پی پی 214،215،219 کے کسی چک ،کسی محلے میں ان کا کوئی نمائندہ مجھے طالبانیوں،رجعت پرستوں اور سیکورٹی سٹیٹ کے حامیوں کے خلاف جدوجہد کرتا ہوا نہیں ملا-یہ لوگ کہاں تھے؟کیا کررہے تھے مجھے کچھ علم نہیں ہے-

یہ بہت مشکل مرحلہ تھا جس سے میں خوش اسلوبی سے نکل آیا-اب آگے اس سے کٹھن مراحل ہیں-یہ جنگ ایک دن میں ختم ہونے والی نہیں ہے-

مجھے اب اپنے حلقہء احباب کو پولنگ بوتھ تک لیکر جانا ہے-اجازت دیں-یاد رکھیں ہمیں اس سماج میں ترقی،خوش حالی اور مساوات کے لیے تاریکی کی قوتوں سے لڑنا ہوگا-اور اس لڑائی میں کامیابی ہمارے لیے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بہت ضروری ہے-

Comments

comments

Latest Comments
  1. Mufti Zandeeq
    -