In defence of the elected government of the PPP – by Ataul Haq Qasmi
بارہ اکتوبر،ایک شیطان جماعت اور آزاد عدلیہ….روزن دیوار سے …عطاء الحق قاسمی
(نوٹ:۔یہ کالم وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی تقریر سے ایک روز قبل لکھا گیا)
آج کسی ایک موضوع کی بجائے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کو جی چاہ رہا ہے۔ ان میں سے ایک بارہ اکتوبر1999ء کاموضوع ہے جو ہماری تاریخ کے ان دنوں میں شمار ہوتا ہے جن کی المناک یادیں محدود مدت تک کے لئے نہیں بلکہ آئین سے محبت کرنے والوں کے دلوں پر ان کے زخم ہمیشہ تازہ ر ہتے ہیں۔
آئین شکنی کے مرتکب جرنیلوں میں جنرل(ر) پرویز مشرف تازہ ترین شخص تھے جنہوں نے آئین کا حشر نشر کیا اور پھر نو سالہ حکمرانی کے دوران پاکستان کا انجر پنجر ہلا دیا۔ پاکستان سے گارڈ آف آنر کے ساتھ رخصت ہونے والا یہ شخص ان دنوں لندن میں بلّے لوٹ رہا ہے اور عالم سرشاری میں ایسے
بیانات دے رہا ہے جو پاکستان کے رہے سہے قومی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتے ہیں۔
12
اکتوبر کا دن پاکستان کی تمام جمہوری جماعتوں کے لئے یوم سیاہ تھا لیکن اس روز احتجاجی جلسے اور ریلیاں صرف اس جماعت کے زیر اہتمام منعقد ہوئیں جس کے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ ہوا تھا۔ یہی رویہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے پر اپنایا گیا اور اسی رویے کا مظاہرہ دوسرے ادوار میں بھی دیکھنے میں آیا، شاید اس لئے کہ سب کا اپنا اپنا”یوم سیاہ“ ہے اور جمہوریت پر شب خون مارنے والی طاقتوں کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ انہیں صرف اسی سیاسی جماعت کی مخالفت مول لینا پڑے گی جس کی حکومت انہوں نے ختم کرنا ہے چنانچہ وہ شیر ہوجاتے ہیں۔
بارہ اکتوبر کے روز پاکستان کے ٹی وی چینلوں نے اس دن کے حوالے سے پروگرام پیش کئے۔ اس موقع پر یہ سوال اٹھانا صحیح تھا کہ بارہ اکتوبر سے سیاستدانوں نے کیا سبق سیکھا(یہی کہ یہ دن ہم کیوں یاد رکھیں؟)تاہم اس سے زیادہ ریلیونٹ سوال یہ تھا کہ بار بار منتخب حکومتوں کے تختے الٹنے سے ملک و قوم کی جو رسوائی ہوئی اور ہمقعر مذلت میں گرتے چلے گئے۔ اس سے فوجی آمروں نے کیا سبق سیکھا؟مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا، بارہ اکتوبر کو بھی مظلوم فریق(سیاستدان) پر ہی چھترول کی گئی اور انہیں کہٹرے میں لاکھڑا کیا گیا۔
بہتر ہوتا اگر اس روز سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے لتے لئے جانے کی بجائے فوجی آمروں کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا کیونکہ سیاستدان تو دن کے چوبیس گھنٹے اور سال کے365دن ہمارے لتروں کی زد میں ہوتے ہیں۔ ایک یوم دشنام ان کے لئے بھی تو وقف کیا جائے جو ہمارا فراہم کیا ہوا اسلحہ ہمی پر تان لیتے ہیں اور پھرسیاست کی ہنڈیا جسے ابھی دم بھی نہیں آیا ہوتا اسے چولہے سے اتار کر بدمزہ اورکچا پکا کھانا پاکستانی عوام کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ خدا کے لئے اس ہنڈیا کو کبھی دم دینے کا موقع تو دیں تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ جمہوری پکوان اتنا بدمزہ بھی نہیں ہوتا جتنا بدمزہ یہ محسوس ہونے لگا ہے۔
ایک اور موضوع اس کے علاوہ بھی ہے اور اس سے جڑا ہوا بھی ہے جب سے پیپلز پارٹی کی حکومت اقتدار میں آئی ہے اسے ایک لمحہ کے لئے بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیا گیا۔ اس میں قطعاً کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ پیپلز پارٹی میں طاقتور گروہ وہ ہے جس کا جماعت کے نظریات سے دورکا بھی تعلق نہیں۔ یہ لوگ آسمان سے نازل ہوئے ہیں اور سیدھے حکومتی جماعت کے قیمتی صوفوں پر برا جمان ہوگئے ہیں۔ان کی اوٹ پٹانگ پالیسیاں، انکی کہہ مکرنیاں، ان کی نالائقیاں اظہر من الشمس ہیں لیکن یہ حکومت بہرحال چاروں صوبوں کے عوام کی منتخب کردہ حکومت ہے، چنانچہ یہ صرف عوام ہی کا حق ہے کہ وہ آئینی طریقے سے اس سے جان چھڑائیں لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ اسے دیوار کے ساتھ لگانے کی کوششیں جاری ہیں جب بلی کو بھی باہر نکلنے کاراستہ نہ ملے تو وہ پنجے مارتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے مخالف تو اس جماعت کو بلی نہیں بلکہ”شیطان“ کا ہم پلہ سمجھتے ہیں، ایسی سوچ رکھنے والوں کو تو پھر زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے کیونکہ شیطان تو خدا کے سامنے بھی ڈٹ گیا تھا۔ وہ اسکے بعد مردود ضرور ٹھہرالیکن آج اس کیFollowing دنیا کے تمام مذاہب سے زیادہ ہے لہٰذا آپ اسے سجدہ کرنے پر مجبور نہ کریں۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے جمہوری نظام کے ا ستحکام کے لئے ایک دوسرے سے جو عہد و پیماں کئے تھے اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ منتخب حکومتوں کو گرانے کا کھیل آئندہ نہیں کھیلا جائے گا ،اب وہ سب عہد و پیماں اور وہ سارے ارادے بھی خاک میں ملتے نظر آرہے ہیں۔ مسلم لیگ ن بہت طویل عرصے تک اپنا عہد نبھاتی رہی مگر ایک پنجابی محاورے کے مطابق”میں تو اپنا گھر بسانا چاہتی ہوں لوگ بسنے نہیں دیتے“ کے مصداق ایک تو خود پیپلز پارٹی کے کچھ”ضیائی رہنما“ اور دوسرے ادھر ادھر کے لوگ اسے وعدہ خلافیوں کی طرف دھکیلتے رہے جس کے نتیجے میں اب مسلم لیگ ن کا موڈ بھی واضح طور پر تبدیل ہوگیا ہے۔
میں مسلم لیگی قیادت سے گزارش کروں گا کہ وہ جمہوریت کے ساتھ اپنی کومنٹمنٹ کو بہر طور نبھائیں ۔ اس وقت ملک کو اقدار کی سیاست کی ضرورت ہے جس کے سب سے بڑے نقیب میاں محمد نواز شریف ہیں۔ خدا کرے مسلم لیگ کی سیاست آئندہ بھی اقدار کے گرد ہی گھومتی رہے۔ میں کوئی سیاسی تجزیہ نگار نہیں ہوں لیکن میرا وجدان کہتا ہے کہ اس تخریب میں تعمیر کی کوئی صورت مضمر نہیں ہے
مجھے یہ بھی نظر آتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے بعد اگلا ہدف مسلم لیگ ہوگی۔ یہ دو بڑی سیاسی جماعتیں وہ دو بڑے کانٹے ہیں جو بہت عرصے سے بہت سے دلوں میں کھٹکتے ہیں، چنانچہ انہیں ایک ایک کرکے نکالنے کا پروگرام ہے اور ہاں ان سطور سے کوئی صاحب یہ اندازہ لگانے کی کوشش نہ کریں کہ میں پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کو”وقت کی اہم ضرورت“ سمجھتے ہوئے اسے ناگزیر خیال کرتا ہوں۔ ایسا نہیں ہے اسے جانا چاہئے لیکن اس کے لئے آئینی رستے موجود ہیں، امید ہے انہیں بھیجنے والے انہی رستوں میں سے کوئی رستہ اختیار کریں گے۔
اور آخر میں چند باتیں پاکستان کی قابل فخر آزاد عدلیہ کے حوالے سے،آزاد عدلیہ کے قیام کے لئے قوم نے جتنی قربانیاں دی ہیں ان کا ذکر اتنی بار ہوچکا ہے کہ اب یہ سب باتیں کلیئے کی صورت اختیار کرگئی ہیں، چنانچہ میں کسی تمہید کے بغیر صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم سب عدلیہ کو ”متقی“دیکھنا چاہتے ہیں، متقی وہ ہوتا ہے جو مباح کو خود پر حرام قرار دے دیتا ہے۔ اس کے کسی قول اور کسی عمل پر انگلی دھرنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ عدلیہ کی ”رشتے داری “ نہ حکومتوں کے ساتھ ہوتی ہے نہ میڈیا کے ساتھ، نہ وکلاء کے ساتھ اور نہ کسی اور طبقے سے۔وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھتی ہے جس کے نتیجے میں اس کی کریڈیبلٹی اتنی مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی ہے کہ اس کا ہر فیصلہ قوم کے دل کی آواز بن جاتا ہے اگر اس کے کسی عمل میں کسی طبقے کے لئے کوئی نرم گوشہ دکھائی دے اور وہ اس کی من مانیوں کے ساتھ پارٹی بن جائے تو اس کے غیر جانبدارانہ اور خالص آئین اور قانون کی بنیادوں پر کئے گئے فیصلوں پر بھی شک گزرنے لگتا ہے۔ میں نے یہ سطور اپنی اس عدلیہ کو یاد دلانے کے لئے لکھی ہیں جس کی آزادی کے لئے عدلیہ کے بہادر ارکان سمیت ہم سب نے لازوال جدوجہد کی ہے میں یہ یاد دہانی آئندہ بھی کراتارہوں گا۔
source: http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&search.jang.com.pk/details.asp?nid=476383
‘Final showdown’ averted?
Prime Minister Yousaf Raza Gilani addressed the nation on Sunday at a time when tensions between the executive and the judiciary were at an all-time high. The Supreme Court (SC) had taken a tough stance against the executive after some television channels aired the news about the reversal of the executive order regarding the judges’ reinstatement. Despite the fact that the prime minister denied these rumours, the apex court still believed that something was brewing in the corridors of power and sought for a written assurance from the government in this regard. It seems that Prime Minister Gilani then thought it best to put the rumours to rest once and for all by addressing the nation. He made a strong point about the stature of the office of the prime minister and rightfully said, “When the prime minister says something, whether it is verbally or in writing, it ought to be respected by everyone.”
The leader of the House is the highest office in a democratic parliamentary dispensation. Thus, it was amazing to see that in a democratic country where parliament is supreme, the prime minister had to hit this point home. During his speech, Mr Gilani was flanked by the chief ministers of Khyber Pakhtunkhwa, Balochistan and Gilgit-Baltistan, senior ministers from Sindh and Punjab, and the prime minister of Azad Kashmir. This can be deemed as a ‘show of strength’. It is indeed unfortunate that the dignity and respect of the premier’s office was put in the dock by the superior judiciary based on mere rumours in the media. There is no doubt that a free, independent and strong judiciary is an integral part of a strong democratic system but there are certain lines that must not be crossed by any state institution. Mr Gilani’s measured message hit the nail on the head. Mutual respect is the need of the hour. He also extended an olive branch to the judiciary by asking them to work together with the government to “administer justice to the poor people of the country”. This is indeed a good proposition and is exactly what the masses need right now. A clash of institutions would not be in anyone’s interest in these trying times. The people are looking for redress and not any action that could further compound their problems. Meanwhile, federal Law Minister Babar Awan cautioned that no state institution “could indulge in politics as the constitution has already determined their and civil servants’ role”. Monday’s proceedings in the apex court were without incident and gave the impression that the prime minister’s message has been heard.
While the government is busy trying to settle the executive-judiciary tussle, the PML-N chief, Nawaz Sharif, laid the blame for the country’s woes at President Zardari’s doorstep. He accused the president of misusing democracy for his personal gains and demanded that Mr Zardari “bring back home the plundered national wealth and apologise for his misdeeds”. Mr Sharif’s accusations are not just absurd but exaggerated too. While Mr Zardari may have his contributions to our share of problems, he cannot be accused for all the mess we are in. As for bringing back the wealth, in a country like ours corruption is the basic principle of the whole political class. This is not to say that corruption is justified, but if Mr Zardari were to bring back the ‘looted’ wealth, so should Mr Sharif and his ilk. Instead of agitating and playing politics, Mr Sharif should act rationally because the need for democracy cannot be overstated.
http://dailytimes.com.pk/default.asp?page=2010\10\19\story_19-10-2010_pg3_1
so thankhs qasmi sahib u are great man god blees u .inform realty to us
Democracy in comparison to Dictatorship allows people the right to vote, freedom of speech and make their representatives accountable for their actions. On the dictatorship takes away all the basic human rights and basically revolves around the aspirations of the dictator. It’s sad that some people are trying to blame the government, as if its not democratic but a dictatorship.