راولپنڈی کےمتعدد حلقوں میں پی پی پی کے جیتنے کے روشن امکانات ہیں
رپورٹ :ٹاپ سٹوری آن لائن
اضافہ و ترمیم : ایل یو بی پی
قومی اسمبلی کی سات اور صوبائی اسمبلی کی چودہ نشستوں پر مشتمل شہر راولپنڈی کا شمار اہم ترین انتخابی اکھاڑوں میں ہوتا ہے، پنجاب کے حلقوں کی ابتدا بھی اسی شہر سے ہوتی ہے، اس شہرکے ساتوں حلقے دوہزار تیرہ کے انتخابات کے حوالے سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں اور کسی بھی حلقے سے متعلق حتمی رائے دینا مشکل ہے۔
حلقہ این اے پچاس راولپنڈی ون تحصیل مری، تحصیل کوٹلی ستیاں اور تحصیل کہوٹہ کے چند علاقوں پر مشتمل ہے۔ حلقہ این اے پچاس میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد چار لاکھ بیالیس ہزار تین سو ستانوے ہے جس میں دو لاکھ انتالیس ہزار دوسو انتالیس مرد جبکہ دو لاکھ تین ہزار ایک سو اٹھاون خواتین ووٹر ہیں ۔ مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی اس حلقے کے مضبوط امیدواروں میں سےہیں، گزشتہ انتخابات میں شاہد خاقان عباسی نے پیپلزپارٹی کے سید نیئر حسین بخاری کو شکست دی، اس بار ان کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کی یاسمین فاطمہ ستی جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے صداقت علی عباسی سمیت تیرہ امیداروں سے ہے۔
سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کا حلقہ این اے اکاون بھی توجہ کا مرکز ہے، حلقہ این اے اکاون راولپنڈی ٹو تحصیل گوجر خان پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد چار لاکھ باون ہزار پانچ سو تئیس ہے جس میں دو لاکھ اکتالیس ہزار چار سو پچپن مرد جبکہ دو لاکھ گیارہ ہزار اڑسٹھ خواتین ووٹر ہیں ۔ اس حلقے سے پہلے پانی و بجلی کے سابق وزیر اور پھر وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے والے راجہ پرویز اشرف کو کاغذات نامزدگی منظور کرانے کے لیے خاصے پاپر بیلنا پڑے۔ ریٹرننگ افسر نے کاغزات مسترد کیے تو اپیل لے کر لاہور ہائیکورٹ راولپنڈٰ بینچ میں قائم الیکشن ٹریبونل کے سامنے جا پہنچے مگر وہاں بھی شنوائی نہ ہوئی تو لاہور ہائی کورٹ کے در پر دستک دی، بالآخر اجازت مل گئی، گوجر خان سے پہلے وزیراعظم منتخب ہونے پر یہاں کے باسیوں نے ان سے بہت سی امیدیں وابستہ کر لی ھیں راجہ پرویز اشرف کے مدمقابل مضبوط امیدوار مسلم لیگ کے راجہ جاوید اخلاص ہیں جن کی انتخابی مہم بھہ بھرپور انداز میں جاری ہے اور وہ راجہ پرویز اشرف کو ٹف ٹائم دینے کی تیاری میں ہیں۔ تاہم اس حلقے میں پاکستان تحریک انصاف کی پوزیشن مستحکم نظر نہیں آتی۔
کچھ ایسا ہی حال حلقہ این اے باون راولپنڈی تھری کابھی ہے۔حلقہ این اے باون میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد چار لاکھ پچپن ہزار ایک سو ستاسی ہے جس میں دو لاکھ چھیالیس ہزار ایک سو چوبیس مرد جبکہ دو لاکھ نو ہزار اڑسٹھ خواتین ووٹر ہیں ۔ اس حلقے سے سابق قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ ن کے اہم رہنما چودھری نثار علی خان گزشتہ اٹھائیس سال سے مسلسل کامیاب ہو رہے ہیں۔تاہم اس حلقے کی عوام کا کہنا ہے کہ چودھری صاحب بس انتخابی مہم کے دنوں میں ہی اس حلقے میں نظر آتے ہیں، فتح کے بعد یوں غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ چودھری نثار علی خان کا گڑھ سمجھے جانے والے اس حلقے میں ایک بھی سرکاری کالج یا یونیورسٹی نہیں، یہاں کے مکینوں کو نہ تو پینے کا صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی ان کے نصیب میں پکی گلیاں اور سڑکیں ہیں۔ ان عام انتخابات میں چودھری نثار کا مقابلہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے مشترکہ امیدوار راجہ بشارت سے ہے، راجہ بشارت کا کہنا ہے کہ،مسلم لیگ ن کے چودھری نثار نہ فون پر ملتے ہیں اور نہ دفتر میں،چودھری نثار کا نہ ملنا ہی ان کی کامیابی کا باعث بنے گاتاہم یہاں کی عوام بنیادی سہولتوں کے فقدان کا رونا رو رہی ہے ۔ دیہی اور نیم شہری علاقوں پر مشتمل ہونے کے باعث اس حلقے میں برادری ووٹ سسٹم کی جڑیں بہت مضبوط ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف جو راولپنڈی کے شہری علاقوں میں خاصی مستحکم پوزیشن میں ہے، اس حلقے میں کمزور نظر آٹی ہے ۔چودھری نثار علی خان دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں این اے باون اور ترپن دونوں نشستوں سے کامیاب ہوئے تھے تاہم بعد میں حلقہ این اے باون کی نشست سے دستربردار ہوئے جس پر ضمنی انتخابات میں میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر کامیاب ہوئے۔
حلقہ این اے ترپن میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد تین لاکھ بیاسی ہزار ایک سو انیس ہے جس میں ایک لاکھ چھہتر ہزار سات سو اڑسٹھ مرد جبکہ دو لاکھ گیارہ ہزار اڑسٹھ خواتین ووٹر ہیں ۔ اس حلقے سے بھی گزشتہ انتخابات کی طرح مسلم لیگ ن نے چودھری نثار علی خان کو ہی ٹکٹ دیا ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے ق لیگ کے سید انتخاب حسین شاہ میدان میں اترے ہیں۔ تحریک انصاف کے غلام سرور خان ایک بڑے اور مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں جن کی جانب سے سخت مقابلے کی توقع ہے۔ اسی حلقے سے جماعت اسلامی کے خواجہ محمد وقار بھی ایک اہم امیدوار ہیں۔۔
راولپنڈی کے حلقہ این اے 54 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد دو لاکھ 93 ہزار 721 ہے جس میں ایک لاکھ 57 ہزار 169 مرد جبکہ ایک لاکھ 36 ہزار 552 خواتین ووٹرز ہیں۔ سات وارڈز پر مشتمل یہ حلقہ پیپلز پارٹی کے زمرد خان اور مسلم لیگ ن کے ملک ابرار احمد کے درمیان سخت مقابلہ سامنے لائے گا، اس حلقے کی اہم بات جو اسے راولپنڈی کے دیگر حلقوں سے الگ کرتی ہے وہ پیپلزپارٹی کی انتخابی مہم ہے۔ سابق ایم ڈی بیت المال زمرد خان نہ صرف پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابی میدان میں اترے ہیں بلکہ بھرپورطریقے سے مہم بھی چلا رہے ہیں جس کے نتیجے میں اس حلقے میں زمرد خان کا ووٹ بینک خاصا مضبوط نظر آتا ہے۔ اسی حلقے کی ایک اور خاص بات پاکستان تحرین انصاف کی حنا منظور کی جانب سے چلائی جانے والی انتہائی کمزور انتخابی مہم ہے۔ راولپنڈی کے دیگر حلقوں کے برعکس یہاں پاکستان تحریک انصاف کی قومی اسمبلی کی یہ امیدوار نسبتا چھوٹا ووٹ بینک رکھتی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ملک ابرار بھی گلی محلوں میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ لیکن اس حلقے کی عوام کا بھی ایک بڑا حصہ مسلم لیگ ن سے ناراض نظر آتا ہے۔ حلقہ این اے 54 کے شہری مسائل کا رونا روتے بھی نظر آتے ہیں ،حلقے میں جگہ جگہ لگے بینرز ایک طرف، کچی گلیاں ، کوڑے کرکٹ کے ڈھیر اور یہ گندا پانی وعدے اور دعوے کرتے ان امیدواروں کی گزشتہ کارکردگی پر یقینا ایک سوالیہ نشان ہے۔۔
حلقہ این اے پچپن سیاسی گرما گرمی کے لحاظ سے سب سے آگے ہے،، حلقہ این اے پچپن اور چھپن کو راولپنڈی کے پڑھے لکھے افراد کا طبقہ کہا جاتا ہے، یہان سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بھرمار ہے، یہی وجہ ہے کہ اس حلقے کے ووٹروں کو منانا سب سے مشکل کام ہے۔ مسلم لیگ ن کے بنائے فلائی اوورز ہوں یا عمران خان کے تبدیلی کے وعدے، این اے پچپن کے شہری کچھ نہیں بھولے، کہتے ہیں سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے، یہاں کوئی عمران خان کا دیوانہ ہے تو کوئی مسلم لیگ ن کا، کسی کا ہیرو شیخ رشید ہے تو کوئی سب سے ہی اکتا گیا ہے۔ راولپنڈٰی کے حلقہ این اے 55 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 3 لاکھ 18 ہزار 663 ہے، جس میں ایک لاکھ 75 ہزار 44 مرد جبکہ ایک لاکھ 43 ہزار 619 خواتین ووٹرز ہیں۔ الیکشن 2013 کے لیے اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے شکیل اعوان، پیپلز پارٹٰی پارلیمنٹیرینز کے چودھری افتخار احمد، اور جماعت اسلامی کے محمد حنیف چودھری پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اترے ہیں تو آزاد امیدوار علی احمد کرد بھی کسی سے پیچھے نہیں ،، اسی حلقے سے شیخ رشید احمد کا پلڑا تحریک انصاف کی حمایت کی وجہ سے بھاری رہنے کا امکان بھی ہے، شہریوں سے بات کر کے پتہ چلتا ہے کہ شکیل اعوان کا ووٹ بینک نسبتا کمزور ہے، اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ شکیل اعوان کو ٹکٹ دئیے جانے پر مسلم لیگ ن کے اندرونی حلقوں میں خاصا اختلاف تھا جس کا حاجی پرویز سمیت کئی رہنماوں نے کھل کر اظہار بھی کیا اور اب بھی راولپنڈی کے سیاسی اکھاڑے کی کئی قدآور شخصیات چاہتی ہیں کہ شکیل اعوان کے ووٹ توڑے جائیں، دوسری اہم وجہ شکیل اعوان کی کارکردگی پر شہریوں کا عدم اطمینان ہے، یہی وجہ ہے کہ اس بار این اے چون میں شیخ رشید احمد عمران خان کے سائے تلے مسلم لیگ ن کو ٹف ٹائم دیں گے۔ البتہ ماضی میں یہ حلقہ ن لیگ کا گڑھ رہا ہے، دو ہزار آٹھ میں مسلم لیگ ن کے جاوید ہاشمی نے شیخ رشید احمد کو بدترین شکست دی، ان کے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کت بعد ملک شکیل اعوان نے بھی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر شیخ رشید احمد کو ہرا دیا۔
راولپنڈی کا آخری حلقہ این اے چھپن ملک توجہ کا مرکز ہے،، راولپنڈی کے مصروف ترین اور گنجان آباد علاقوں پر مشتمل حلقہ این اے چھپن میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 2 لاکھ 83 ہزار 611 ہے جس میں 1 لاکھ 52 ہزار 140 مرد جبکہ 1 لاکھ 31 ہزار 471 خواتین ووٹرز ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے اس حلقے سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر کے سب کو ہی تگنی کا ناچ نچا دیا ہے، ن لیگ کے حنیف عباسی ہوں یا جماعت اسلامی کے احمد رضا شاہ اور پیپلز پارٹی کے راجہ اسرار احمد عباسی ، ہر کوئی اسی دھن میں مگن ہے کہ کس طرح لوگوں سے ووٹ حاصل کیا جائے۔ تاہم اس حلقے میں حنیف عباسی کی جانب سے جوبات دہرائی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان جیتنے کے بعد اس حلقے کا رخ نہیں کریں گے۔ اس حلقے کے ووٹر بھی منقسم نظر آتے ہیں اور ایک حصہ عمران خان کی حمایت میں بھی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف راولپنڈی کے ان اہم حلقوں سے جیتے یا ہارے ، مسلم لیگ ن کی نیندیں ضرور اڑا دی ہیں
المختصر راجہ پرویز اشرف، زمرد خان ، راجہ بشارت اور انتخاب شاہ پیپلز پارٹی اور حلیفوں کے مضبوط امیدوار ہیں ان کے مقابلے میں دائیں بازو کا ووٹ عمران خان، نواز شریف اور جماعت اسلامی میں تقسیم ہو گا جس کا حتمی فائدہ پیپلز پارٹی کو ملے گا –
Comments
Latest Comments
قاتل بھی محسن بھی… قلم کمان …حامد میر
وہ اپنے چار سالہ بیٹے کی انگلی تھام کر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے مسجد روانہ ہوا تو اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ اپنے معصوم بیٹے کی زندگی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ اُسے کئی دن سے دھمکیاں مل رہی تھیں کہ وہ قتل کر دیا جائے گا لیکن وہ ان دھمکیوں کو نظر انداز کرتا رہا۔ دوستوں اور ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ احتیاط کرے اور کم از کم اپنے بچوں کو ساتھ لے کر نماز پڑھنے مسجد نہ جایا کرے لیکن اس نے ایک قہقہے میں یہ مشورہ اڑا دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ایک چار سالہ بچہ اپنے باپ کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد جانے کی ضد کرے تو کیا باپ یہ کہہ کر بچے کو مسجد نہ لے کر جائے کہ نہیں نہیں مسجد نہیں جاتے وہاں طالبان نمازیوں کو قتل کر دیتے ہیں؟ یہ سن کر اس کے ساتھی چپ ہو جاتے اور پھر ایک دن وہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنے چار سالہ بچے کو گود میں اٹھائے مسجد سے باہر آیا تو اس پر گولیوں کی بوچھاڑ ہو گئی۔ کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 254 سے عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار صادق زمان خٹک کو مسجد کے دروازے پر ان کے چار سالہ معصوم بیٹے کے ہمراہ شہید کر دیا گیا۔ اگلے دن اسی کراچی شہر میں متحدہ قومی موومنٹ کے عزیز آباد میں دفتر کے سامنے بم دھماکے کئے گئے جن میں ایک بچے سمیت کئی بے گناہ افراد مارے گئے۔ ان حملوں کے بعد اے این پی اور متحدہ قومی موومنٹ کے پاس الیکشن 2013ء کا بائیکاٹ کرنے کا جواز موجود ہے کیونکہ طالبان کی طرف سے ان دو جماعتوں کے علاوہ پیپلز پارٹی پر علی الاعلان حملے کئے جا رہے ہیں اور نگران حکومت ان حملوں کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ اگر یہ تین جماعتیں الیکشن کا بائیکاٹ کر دیں تو پھر اس الیکشن کی کیا اہمیت رہ جائے گی؟ لیکن یہ تینوں جماعتیں الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کا اصل مقابلہ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، جے یو آئی اور جماعت اسلامی سے نہیں بلکہ طالبان سے ہے۔ الیکشن کے بائیکاٹ کا مطلب طالبان کی فتح ہو گی لہٰذا یہ تین جماعتیں طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اے این پی، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی طرف سے الیکشن کے بائیکاٹ نہ کرنے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ طالبان کے حملوں نے ان تینوں کو مظلوم بنا دیا ہے۔ یہ تینوں جماعتیں پچھلے پانچ سال تک مخلوط حکومت میں شامل تھیں اور ان کا زیادہ وقت آپس کی لڑائیوں میں گزرا۔ جب تک طالبان نے ان جماعتوں کی ریلیوں اور انتخابی دفاتر پر حملے شروع نہیں کئے تھے ان جماعتوں کو کافی عوامی تنقید کا سامنا تھا لیکن جب طالبان کے حملے شروع ہوئے تو صورتحال بدلنے لگی۔
پچھلے چند ہفتوں میں مجھے کراچی، سکھر، لاڑکانہ، پشاور، مردان، لوئر دیر، قبائلی علاقوں، لسبیلہ، خضدار، کوئٹہ، لاہور، راولپنڈی، جہلم، سرگودھا اور گوجرانوالہ سمیت کئی علاقوں میں انتخابی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھنے اور گلیوں بازاروں میں عام لوگوں سے بات چیت کا موقع ملا ہے۔ چاروں صوبوں کی انتخابی صورتحال ایک دوسرے سے مختلف ہے اور اس میں تیزی سے تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ ایک ماہ پہلے تک سندھ میں پیپلز پارٹی کو اپنے ہی کارکنوں اور حامیوں کی ناراضگی کا سامنا تھا۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے مرحلے پر اتنے اختلافات ہوئے کہ آصف علی زرداری کے لئے لاڑکانہ سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا جہاں شاہد بھٹو نے بغاوت کر دی تھی۔ جیسے ہی طالبان حملے اور دھمکیاں شروع ہوئے توپیپلز پارٹی کے جیالے واپس آنے لگے۔ ابھی بھی لاڑکانہ سمیت سندھ کے کئی شہروں میں پیپلز پارٹی کو پہلی دفعہ مسلم لیگ فنکشنل اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے سخت مقابلے کا سامنا ہے لیکن سندھ میں تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی بہت کمزور ہے۔ طالبان کی مہربانی سے سندھ کے لوگ پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ کارکردگی کو بھولنے لگے ہیں اور گیارہ مئی کو تیر پر ٹھپہ لگانے کی تیاریوں میں ہیں۔ گیارہ مئی کو پیپلز پارٹی کو لاڑکانہ سمیت کچھ حلقوں میں سخت مزاحمت کا سامنا ہو گا۔ اس مرتبہ پیپلز پارٹی کی مخالفت میں ڈالے جانیوالے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے لیکن کئی حلقوں میں فنکشنل لیگ، مسلم لیگ (ن)، جے یو آئی اور تحریک انصاف میں ایڈجسٹمنٹ نہ ہونے کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ملے گا اور پیپلز پارٹی ایک دفعہ پھر سندھ میں ا کثریت حاصل کر سکتی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک صوبہ خیبر پختونخوا میں اے این پی کے خلاف بہت بے چینی پائی جاتی تھی اور اے این پی کے کارکن اپنی قیادت سے سخت ناراض تھے۔ پھر طالبان کے حملے شروع ہوئے اور اے این پی مظلوم بن گئی۔ اگر اے این پی پر حملے نہ ہوتے تو الیکشن 2013ء میں بلور خاندان کے لئے کوئی نشست جیتنا بہت مشکل ہوتا لیکن اب پشاور کے حلقہ این اے ون میں حاجی غلام احمد بلور کو شکست دینا آسان نہیں۔ اس حلقے میں عمران خان بھی موجود ہیں اور گیارہ مئی کو انہیں پتہ چلے گا کہ طالبان کے حملوں نے بلور کو کمزور نہیں مضبوط کیا ہے۔ بلوچستان کی صورتحال بالکل مختلف ہے۔ یہاں پر مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ پر حملے ہو رہے ہیں۔ جے یو آئی کے ایک جلسے پر بھی حملہ ہوا۔ بلوچستان میں مختلف جماعتوں پر حملے کی وجوہات مختلف ہیں۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما سردار ثناء اللہ زہری نے بی این پی مینگل کے ساتھ مخاصمت کی وجہ سے مسلم لیگ (ق) کے نصیر مینگل کے ساتھ غیر اعلانیہ اتحاد کر رکھا ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے اور بھائی کے قتل کے مقدمے میں اختر مینگل کو نامزد کر کے اپنی پارٹی کی مرکزی قیادت کے لئے کافی مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ دوسری طرف بی این پی مینگل کے رہنما عبدالرؤف مینگل نے خضدار میں اپنے گھر پر راکٹ حملے کا الزام سردار ثناء اللہ زہری پر لگا دیا ہے۔ بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی میں اتحاد نہیں ہو سکا۔ نیشنل پارٹی نے جے یو آئی اور کچھ دیگر جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے اور بی این پی مینگل کے خلاف امیدوار کھڑے کر دیئے ہیں۔ بی این پی مینگل کو ایک طرف مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کی مخالفت کا سامنا ہے دوسری طرف نیشنل پارٹی کی مخالفت کا سامنا ہے اور تیسری طرف بلوچستان عسکریت پسند ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ بھی ان کے سخت مخالف ہیں۔ عمران خان نے بلوچستان میں کچھ جلسے ضرور کئے ہیں لیکن ان کے حامی یہ نہیں جانتے کہ بلوچستان کے کئی حلقوں میں تحریک انصاف نے اپنے امیدوار ہی کھڑے نہیں کئے۔ تحریک انصاف پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھری ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا اصل مقابلہ پیپلز پارٹی کے ساتھ نہیں بلکہ تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔ پچھلے چند دنوں میں سیاسی صورتحال تیزی سے بدلی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر پیپلز پارٹی کی طرف سے شہباز شریف کے خلاف چلنے والے اشتہاروں کا فائدہ تحریک انصاف کو مل رہا ہے۔ جو بھی مسلم لیگ (ن) سے ٹوٹتا ہے وہ پیپلز پارٹی نہیں جاتا بلکہ تحریک انصاف کے پاس آتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے عمران خان کے خلاف بیانات نے بھی خان صاحب کی مقبولیت میں مزید اضافہ کیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ لیکشن 2013ء سے پہلے سامنے آنے والے اکثر سروے اور تجزیئے غلط ثابت ہو جائیں گے۔ عمران خان اپنے مخالفین کی توقعات سے بہت زیادہ نشستیں حاصل کریں گے۔ پنجاب کے کئی حلقوں میں دائیں بازو کے ووٹ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں تقسیم ہونے کا فائدہ پیپلز پارٹی کو پہنچ سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کو نظر انداز کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے کیونکہ یہ دونوں جماعتیں خود کو اگلی حکومت سمجھ رہی ہیں۔ حکومت میں جو بھی آئے گا وہ یہ مت سمجھے کہ طالبان نے انتخابی مہم میں جن جماعتوں پر حملے نہیں کئے وہ بعد میں بھی محفوظ رہیں گی۔ طالبان الیکشن کے بعد انہیں کافی سرپرائز دیں گے۔ طالبان کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور اے این پی جو سرپرائز دے گی وہ آپ کو گیارہ مئی کو پتہ چل جائے گا۔
Hamid Mir, Daily Jang, 6 May 2013