کیا الیکشن لڑنے کا حق طالب نواز جماعتوں کو ہی ہے؟

اس وقت پنجاب کو جھوڑ کر باقی سارے صوبوں میں پی پی پی ،اے این پی اور ایم کیو ایم کے خلاف طالبان نے کاروائی شروع کی ہوئی ہے- اور عملی طور پر ان جماعتوں کے کارکن اور امیدوار اپنی انتحابی مہم جلانے سے قاصر ہیں-حاجی عدیل جو اے این پی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ہیں انہوں نے باجہ خان مرکز میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے حلقہ انتحاب میں مہم نہیں چلاپارہے-ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ان کی پارٹی کے امیدواروں کو سیکورٹی فراہم کرنے مین ناکام رہا ہے-ان کا ایک سوال بہت بھاری تھا-اور یہ تھا کہ الیکشن کمیشن کیا اس وقت سیکورٹی کے انتظامات کرے گا جب ان کی پارٹی کے سارے امیدوار مارے جائیں گے؟پیپلزپارٹی کے لیے سب سے زیادہ مشکل یہ ہے کہ اس کی قیادت خطرات کی وجہ سے عوامی رابطہ مہم چلانے سے قاصر ہے-اس نے میڈیا میں اشتہاری مہم کا سہارا لیا تو الیکشن کمیشن نے اس پر پابندی عائد کردی-اعتزاز احسن نے عدلیہ سے جواب طلب کیا ہے کہ جب شہباز شریف اور نواز شریف صدر پاکستان پر تنقید کریں اور ان کی کردار کشی کریں تو کو‏ئی پابندی عائد نہیں ہوتی اور جبکہ پی پی پی کے میڈیا سیل کی جانب سے ماضی سے کچھ حقائق کو شایع کیا جائے تو اس پر پابندی لگ جاتی ہے-اس دو عملی کی سمجھ نہیں آرہی-

مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پی پی پی کی طرف سے عوام رابطہ مہم چلائے جانے میں تذبذب کو پی پی پی کی ناکامی سے تعبیر کیا جانا اور اس کو پی پی پی کے زوال سے تعبیر کرنا بھی بہت بڑی عاقبت نااندیشی ہے-میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح سے نواز شریف اور عمران خان نے پنجاب میں محفوط طریقے سے انتخابی مہم کو چلائے جانے کو تسلی بخش سمجھ رکھا ہے اس سے تین صوبوں کی عوام کے اندر اندیشہ ہائے دور دراز کا پیدا ہونا منطقی امر ہے-

اس وقت عوامی نشینل پارٹی،بلوچستان نشینل پارٹی اور ایم کیو ایم نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا پنجاب ہی پاکستان ہے؟کیا اس ملک میں الیکشن کا مطلب صرف ان  پارٹیوں کو آزادی سے انتخابی مہم چلانے کی اجازت دینا ہے جو عسکری لشکروں اور طالبانی افکار سے اتفاق کرتی ہین؟کیا الیکشن مہم کا مطلب صرف ان امیدواروں کو اپنے حلقہ انتخاب میں آزادی سے گھومنے کی آزادی ملنے کا نام ہے جن کو طالبان جیسے دھشت گردوں نے اجازت دی ہو؟

میرے ذھن میں یہ سوال ابھررہا ہے کہ اس ملک کا الیکشن کمشنر کون ہے؟فخرو بھائی یا حکیم اللہ محسود کا ترجمان احسان اللہ محسود؟طالبان آزادی سے تین جماعتوں کو انتخاب لڑنے سے روکنے میں کامیاب ہوتے جارہے ہین-عبدالقادر گیلانی کی گاڑی سے پستول برآمد کرنے والوں کی صلاحیتوں کو زنگ طالبان کے باب میں کیوں لگ جاتا ہے-اور یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ عمران خان طالبان کی مذمت کرنے کی بجائے طالبان سے حملے روکنے کی درخواست ایسے کرتے ہیں جیسے وہ خیرات میں انتخابی مہم جلانے کی بات کررہے ہوں-

میاں نواز شریف پی پی پی ،ایے این پی اور ایم کیو ایم کے امیدواروں کی بےبسی کا مذاق اڑاتے ہیں اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ بے بسی کل کو ان کا مقدر بھی بن سکتی ہے اکر انتہاپسندی سے رشتے اور ناتے نہ ختم کئے گئے-

مجھے پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کی قیادت کی موجودہ روش سے لگتا ہے کہ یہ روش پاکستان کی فیڈریشن کو مضبوط کرنے کی بجائے اس کو کمزور کررہی ہے-تین صوبوں میں سندھیوں،مہاجروں اور پشتونوں کی اکثریت کی نمائندگی کرنے والی جماعتوں کو دیوار کے ساتھ لگایا جارہا ہے اور کسی کو اس دیوار سے لگائے جانے پر کوئی تشویش نہیں ہورہی ہے-مینگل پر اسٹبلشمنٹ کے بنائے ہوئے ڈیتھ سکواڈ کی جانب سے حملے اور ان کو الیکشن سے روکنے کی کوشش کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں-

میں اس لیے کہتا ہوں کہ موجودہ الیکشن میں اگر ذبردستی اے این پی،پی پی پی اور ایم کیو ایم سے ان کی نمائندگی کے حق کو سبوتاژ کیا گیا تو پھر پنجاب سے مزید بےگانگی کی لہر تیز ہوجائے گی-اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ فیڈریشن کے یونٹ سندھ اور خیبرپختون خوا کے اندر سے بھی ریاست کو چیلنجز کا سامنا ہوسکتا ہے-

عمران خان اور میاں محمد نواز شریف جس پاکستانی نیشنل ازم کی بات کررہے ہیں اس مین سندھیوں،پشتوں،مہاجر اور سرائکیوں کا کیا حضّہ ہوگا یہ ایک سوال اپنی  چکہ بہت اہمیت کا حامل ہے-ابھی تک میان محمد نواز شریف اور عمران خان نے ان سوالون کا جواب نہیں دیا ہے-خالی نعرے ہین اور نیچے کچھ بھی نہیں ہے-اور نہ ہی ان کی طرف سے جواب آنے کی کوغی امید ہے-

عمران خان اور میاں محمد نواز شریف بس پنجاب پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں-اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لبرل اور ترقی پسندی کے نام پر بقائے باہمی کے لیے اے این پی ،پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان جو غیر اعلانیہ اتحاد وجود مین آچکا ہے اس اتحاد نے اب تک اگر الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کیا تو اس کی وجہ ایک امید ہے کہ یہ تینوں جماعتیں اب بھی انتحابات میں اتنی سیٹیں لے جائیں گی کہ ان کے بغیر حکومت بنانا ناممکن ہوگا-اسی چیز کو مدنظر رکھکر ہی طالبان کی دھشت گردی کو برداشت کیا جارہا ہے-اور اس انتہاپسندی کے خلاف لڑنے کا عزم بھی ہے-

لیکن آگر ملک کے سب سے بڑے صوبے میں خصوصی طور پر اور پورے ملک میں عمومی طور پر سنٹر دائیں بازو کی جماعتیں اور ریاستی اداروں نے اس دھشت گردی کے حلاف ٹھوس عملی اقدام نہ اٹھایا اور اس جارحیت کے خلاف طالبان کو مسترد کرنے کے لیے جن اقدامات کو کرنے کی ضرورت ہے نہ کیا تو پھر یہ ہوسکتا ہے کہ ان جماعتوں کے اندر وفاق پرست آوازیں کمزور ہوجائیں اور وہ قوتیں زور پکڑیں جن کو وفاق گریز کہا جاتا ہے-اور اس سے جمہوری،لبرل رجحان کو نقصان ہوگآ بلکہ اس سے پاکستان میں حقوق اور آزادی کی تحریک کو نقصان پہنچے گا-

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان میں سنٹر رائٹ کی جماعت پاکستان تحریک انصاف ،مسلم ليگ نواز اور رائٹ پارٹیاں جیسے جے یو آئی ،جماعت اسلامی اور دیگر کو کھیل کے میدان میں فئیر اصول دئیے گئے اور سنٹر لیفٹ اور لیفٹ کے ساتھ فاؤل پلے جاری رہا تو پھر دھشت گردی کے خلاف جنگ ہار دی جائے گی-

پاکستان میں بندوق اور بارود کے زور پر پروگریسو قوتوں کو دبایا جارہا ہے-جبکہ اگر ووٹوں کے تناسب اور سیٹوں کی شرح سے دیکھا جائے تو یہ قوتیں اکثریت کی نمائندگی کرتی ہیں-جبکہ عسکریت پسند اقلیت کی نمائندگی کرتے ہیں-جو ووٹ کی سیاست میں کبھی جیت نہیں سکے ہیں-  ar

Comments

comments

Latest Comments
  1. latif ahmad
    -