Is judiciary independent in Pakistan? – by Bawa

Here is an excellent analysis cross-posted from pkpolitics.com:

Key leaders of the lawyers movement for the restoration of CJ Iftikhar Chaudhry

اس عدلیہ نے پچھلے دو سالوں میں یہی ثابت کیا ہے کہ اس نے شاید غلامی سے تو نجات حاصل کر لی ہے لیکن آزادی کی منزل ابھی بہت دور ہے. سچی بات تو یہ ہے کہ ابھی تک عدلیہ نے کوئی ایک ایک بھی فیصلہ نہیں دیا ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ عدلیہ اپنی آزادی کی منزل کی طرف بڑھ رہی ہے.

ویسے آجکل ہماری عدلیہ کی آزادی کے بہت چرچے ہیں اور ہر طرف فضاء عدلیہ کی آزادی کے نعروں کی گونجتی سنائی دے رہی ہے. عدلیہ اپنی مکمل آزادی اور خود مختاری کا دعوا بھی کرتی ہے لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ عدلیہ کی آزادی دراصل عدلیہ کی بحالی ہے اور بحالی بھی وہ جو فوج کی طرف سے خیرات میں ملی ہے. اگر فوج کی مدد نہ شامل ہوتی تو عدلیہ کی وہ شکل نہ ہوتی جو آج دکھائی دے رہی ہے.

عدلیہ بحالی اور آزادی کے درمیان بھی وہی طویل فاصلہ ہے جو سالوں سے لیکر صدیوں تک محیط ہو سکتا ہے. یہ فاصلہ طے کرتے ہوئے عدلیہ کو بھی ہر قدم پر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ آزادی کے اہل ہے.

اب رہا یہ سوال کہ کیا ہماری عدلیہ صحیح سمت میں قدم بڑھا رہی ہے یا اپنے آپ کو آزادی کے اہل ثابت کر رہی ہے؟ اسکا جواب عدلیہ بحالی تحریک میں شامل لوگوں سے ہی لیا جاسکتا ہے. سب سے پہلے عدلیہ بحالی تحریک کے سرخیل علی احمد کرد نے اسکا جواب نفی میں سر ہلا کر دیا. اسکے بعد دبی دبی آوازیں اعتزاز احسن اور دوسرے وکلاء کی جانب سے آنے لگیں. وقت کے ساتھ ساتھ ان آوازوں میں سابق ججوں، سول سوسایٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافیوں کی آوازوں کا اضافہ ہوگیا جن میں خاص طور پر جسٹس طارق، جسٹس فخر الدین جی ابراہیم، عاصمہ جہانگیر، ثمر من الله، ابصار عالم، مظہر عباس وغیرہ وغیرہ قابل ذکر ہیں. اب تو چیف جسٹس صاحب کے ترجمان اطہر من الله بھی کھل کر کہہ رہے ہیں کہ عدلیہ اسٹبلشمنٹ کے کھیل میں شامل ہو چکی ہے.

عدلیہ کی موجودہ آزادی عام لوگوں یا چھوٹے چھوٹے سرکاری ملازمین تک محدود ہے. عدلیہ کی آزادی ابھی تک صدارتی محل تک نہیں پہنچ سکی ہے.

Supreme Court has practically dumped the case of disappeared persons under pressure of the ISI

عدلیہ کی آزادی میں فوج ہمیشہ رکاوٹ رہی ہے اور عدلیہ کو اپنی لونڈی سمجھتی ہے. عدلیہ کو مکمل آزادی اسوقت حاصل ہوگی جب عدلیہ کے ہاتھ فوجیوں کی یونیفارم اور ٹوپی تک پہنچیں گے. کیونکہ اس عدلیہ کی آزادی وہاں جا کر ختم ہو جاتی ہے جب جہاں سے فوجیوں کے بوٹ شروع ہوتے ہیں. جی ہاں جہاں سے فوجیوں کے بوٹ شروع ہوتے ہیں. فوجیوں کی یونیفارم اور ٹوپی تو بہت دور کی بات ہے. اگر کسی کو یقین نہیں آ رہا تو مجھے ایک بھی ایسا فیصلہ بتا دیں جہاں عدلیہ فوجیوں کے بوٹوں سے آگے بڑھی ہو.

عدلیہ کو اسی وقت آزاد و خود مختار سمجھا جائے گا جب اسکا دست انصاف فوجیوں کے گریباں تک بھی پہنچے گا ورنہ عدلیہ کی آزادی محدود ہی ہوگی بیشک عدلیہ اپنی آزادی اور غیر جانبداری کا جتنا مرضی شور مچائے. عدلیہ کو آزادی کی منزل تک پہنچنے کے لیے ابھی بہت طویل سفر کرنا ہے. عدلیہ کو آزادی کی منزل کی طرف بڑھنے کے لیے اہم جرات مندانہ فیصلے کرنے ہونگے بیشک ان فصلوں سے انکی نوکریاں خطرے میں پڑ جائیں اہم کیسز کو طویل عرصے تک التوا میں ڈالتے جانے کا سلسلہ ختم کرنا چاہئیے. بلی کو دیکھکر آنکھیں بند کرنے سے بلی واپس نہیں چلے جایا کرتی. حوصلہ کیجیے اور بلی پر جھپٹ پڑیں

شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے

عدلیہ کے سامنے اسوقت دو مثالیں ہیں. ایک کالوں کی کامیاب جدوجہد آزادی کی اور دوسری پاکستانی قوم کی ناکام جدوجہد آزادی کی. مکمل آزادی کا حصول کوئی آسان کام نہیں ہے. یہ ایک طویل سفر ہے اور اس راستے پر چلتے ہوئے ہر قدم پر عدلیہ کو ثابت کرنا ہے کہ وہ آزادی کے اہل ہے. یہ تب ہی ممکن ہوگا جب عدلیہ بلا تفریق سب کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی اور اسکا دست انصاف کرپٹ سیاستدانوں، بیوروکریٹس، کاروباری لوگوں، سرکاری افسران کے علاوہ فوج اور اسٹبلشمنٹ کے گریباں تک بھی جائے گا. یہ کام اور آزادی کا یہ راستہ کٹھن ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے. یہ منزل تب ہمیں ملے گی جب عدلیہ نہ صرف خود آئیں پاکستان کے تابع ہوگی بلکہ معاشرے کے دوسرے طبقوں بشمول فوج کو پاکستانی آئین پر عمل کرنے پر مجبور کر دے گی اور فوج کی روایتی اجارہ داری ختم ہوجائے گی

ویسے نظریاتی طور پر مسلم لگی ہوں کیونکہ وہ پاکستان کی خلق جماعت ہے اور قائد اعظم اور علامہ اقبال کی پارٹی ہے. کیا یہ ضروری ہے کہ ہر بندہ کسی نہ کسی پارٹی کا غلام ہو اور ہر وقت آوے ای آوے یا جاوے ای جاوے کے راگ الاپتا رہے.

Chief Justice of Lahore High Court is a loyal servant of Nawaz Sharif


مجھے چیف جسٹس یا دوسرے ججوں سے کوئی پرابلم نہیں ہے. مجھے ان پر سخت غصہ آتا ہے کیونکہ ان سے لوگوں نے (اور شاید میں نے بھی) یہ توقعات وابستہ کر رکھیں ہیں کہ وہ بڑے بڑے لٹیروں پر ہاتھ ڈالیں گے لیکن دو سالوں میں اس ملک میں انصاف ملا ہے تو شریف برادران اور وہ تو ملنا ہی تھا کیونکہ ایک تو عدلیہ بحالی میں انکا بہت بڑا کردار تھا اور پھر جسٹس رمدے کے خاندان سے انکے قریبی تعلق ( انکا ایک بھائی مسلم لیگ نوں کے ٹکٹ پر انتخاب لڑتا ہے اور دوسرا نواز شریف کا اٹارنی جنرل رہا) کے علاوہ رانا ثنآ الله کی چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب سے رشتہ داری بھی تو ہے.

Rana Sanaullah, a leader of PML-N and Sipah-e-Sahaba, is a close relative of Chief Justice Iftikhar Chaudhry

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. Ahmed Iqbalabadi
    -
  3. akmal
    -
  4. akmal
    -