ذکر اس ‘ہاتھی ‘ کا اور پھر بیاں اپنا

541820_10151338327426548_1061669817_n

 

ایک گاؤں میں بہت سے سیانے رہتے تھے جنھوں نے کبھی ہاتھی نہیں دیکھا تھا، ایک دفع ایک ہاتھی کہیں پاس ہی قیام پذیر ہوا اور کسی کی نظر پڑ گئی، اس نے آ کے گاؤں میں ڈھندڈورا پیٹا اور ایک سنسنی پھل گئی. سیانوں نے یہ طے کیا کہ اس سے پہلے کہ ہاتھی صاحب کوچ کر جائیں فوراً سے پیشتر ان کی زیارت کر لی جائے. تو جناب سیانوں کا گروہ جنگل کی طرف روانہ ہوا مگر دن گزر چکا تھا اور بدقسمتی سے رات بھی اماوس کی تھی، ہاتھی کی قیام گاہ تک پہنچے تو اندھیرا پھل چکا تھا، سیانوں نے ٹٹول ٹٹول کر ہاتھی کا جائزہ لینا شروع کیا، کسی کے ہاتھ میں دم آئی، کسی کے ہاتھ ٹانگوں پر پڑے، کسی نے کان سہلا کر دیکھے، کسی نے دانت (جو پہلے ہی کھانے کے اور دکھانے کے اور)، کسی نے پیٹ کو ناپا اور کسی نے … خیر چھوڑیں. تو جناب اس طرح سیانے ہاتھی دیکھ کر واپس پنہچے اب اگلے دن جب پنچایت میں ہاتھی کا بیان شروع ہوا تو وہی ہوا جو آج کے زمانے میں مختلف فرقوں کے علماء میں ہوتا ہے. کسی نے کہا کہ ہاتھی گول گول ہوتا ہے، کسی نے کہا کہ لمبوترا، کسی نے کہا کہ چھوٹا اور پھیلا ہوا، کسس نے کہا کہ موٹا اور چوڑا، کسی نے کہا نوکیلا اور پھر سیانے ہاتھی کو چھوڑ چھاڑ باہم دست و گریباں ہو گئے، بات جو ہاتھی سے چلی تھی ہاتھا پائی تک جا پنہچی اور چشم فلک نے وہی منظر دیکھا جو ہماری اسمبلیوں میں بھی دیکھا جاتا ہے اور کسی زمانے میں دلی میں بھی دیکھا جاتا تھا تبھی تو غالب نے کہا تھا کہ ‘بس جوتی ہی چلتی ہے’ .

ہمارے ہاں پیچیدہ اور دقیع بلکہ بعض آسان مسائل اور نظریات کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوتا ہے جو سیانوں نے ہاتھی کے بیان میں کیا، یعنی جس کو جو ہاتھ لگتا ہے بس وہی کھینچ تان کر پھیلا دیا جاتا ہے. سیکیولر کی اصطلاح کو لے لیجئے، سیانوں نے اس کو مرتد، کافر، زندیق، کے معنوں میں مشہور کر دیا ہے، کچھ حضرات عریانی اور فحاشی کو سیکیولر ازم قرار دیتے ہیں، نظریہ پاکستان کے مخالف بھی سیکیولر ہیں، عورتوں کو بازار کی شے بنانے والے بھی سیکیولر ہیں، امریکہ اور اسرائیل کے سبھی ایجنٹ سیکیولر ہیں، وطن عزیز کی سلامتی کے خلاف سازشیں کرنے والے سیکیولر ہیں، غرضیکہ ایک خوفناک ڈراؤنا سا ہیولیٰ جو ہماری آپ کی آنکھوں میں یہ سب سننے کے بعد ناچنے لگتا ہے وہ سیکیولر ہے.  ہمارے ذرائع ابلاغ میں اکثر سیانے اپنے قلم کا زور سیکیولر فرد کی جس تصویر کو کھینچنے میں لگا دیتے ہیں اس کو سامنے لا کر شیطان کو بڑا سکون ملتا ہوگا کہ چلو کوئی تو اس سے بھی آگے نکلا .

حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ آج کا دور وہ دور نہیں جب معلومات تک رسائی مشکل تھی،  کتابیں مشکل سے دستیاب تھیں، اصل اور مصدقہ ذرائع کا حصول ممکن نہیں تھا اور مصنف پر انحصار کرنا پڑتا تھا. آج انٹرنیٹ کے دور میں صرف ایک سرچ سے ہی بنیادی معلومات تک رسائی ممکن ہے، وکی پیڈیا جیسے ذرائع موجود ہیں، بڑی بڑی لائبریریاں آن لائن ہیں، اس کے بعد بھی حیرت ہے کہ لوگ ان سیانوں پر انحصار کر رہے ہیں جو اپنے تعصبات کے اندھیرے میں جدید نظریات کے ہاتھی ٹٹول کر اپنے قیاسات کو ایمان بنا کر پیش کر رہے ہیں. یا پھر ہمارے ہاں لوگ ہر اس نظریے اور سچ کو جھٹلانا چاہتے ہیں کہ جو ان کے مروجہ خیالات کی نفی کرے. ایک زمانے میں کہا گیا تھا کہ ‘ہم تا با ابد سعی و تغیر کے ولی  ہیں ‘، ہمارا ہمعصر لٹریچر دیکھنے سے پتا یہ چلتا ہے کہ ہماری سعی ایک اور صلاح الدین کی تلاش اور تغیر ایک مرد مومن سے دوسرے مرد مومن تک چھلانگ لگانے کا نام ہے، خدا نا کرے کہ تا با ابد یہی ہوتا رہے.

ایک اور اصطلاح جو ہمارے ہاں بڑا رش لے رہی ہے وہ ہے لبرل فاشسٹ کی؛ یہ اتنی منفی اصطلاح بن گئی ہے کہ  رجعت پسند اور بنیاد پرست تو مزے میں ہیں کہ ان کے ہاتھ ایسا ہتھیار لگا ہے کہ جو اتنا کار آمد ہے کہ کسی پر بھی داغیں اس کی منطق اور دلائل پر کسی کی توجہ ہی نہیں جائے گی، باقی رہے ہما شما یعنی کہ لبرل خیالات رکھنے والے ان میں سے بھی خدا جانے کتنے اس  اصطلاح کو سمجھتے ہیں. فالوقت حالات یہ ہیں کہ آپ کسی سے بھی اختلاف رکھتے ہیں یا کوئی آپ سے اختلاف رکھتا ہے تو اس کو لبرل فاشسٹ قرار دے دیں، بس جناب کل تک جو اثر یہود و ہنود کا ایجنٹ قرار دئے جانے کا ہوتا تھا یا مارکسسٹ یا سوشلسٹ کہہ دینے کا ہوتا تھا آج کل وہی لبرل فاشسٹ کا ہوتا ہے. ملک کا دشمن ، دین کا دشمن، عقل کا دشمن سب کچھ یہی لبرل فاشسٹ ہے.

 یہ اصطلاح  ایچ جی ویلزنے سب سے پہلے استعمال کی جس کا اشارہ نازیوں کی بائیں بازو کی طرف جھکاؤ اور ان کے چند نظریات کا ترقی پسندوں کے نظریات سے مطابقت رکھنا تھا، وہ یہ بھی کہنا چاہتا تھا کہ لبرل اپنے خیالات کے نفاذ کے لئے فاشزم کی حد تک جا سکتے ہیں. جونحاہ گولڈبرگ  جو ایک کنزرویٹو (قدامت پسند) ہے نے پھر یہی اصطلاح اپنی ایک کتاب میں  استعمال کی، اس کے خیال میں لبرل ازم کی جڑیں فسطائیت سے منسلک ہیں اور ترقی پسندی کا نمو بھی وہیں سے ہوتا ہے. بات یہ ہے کے ہر وہ تحریک جو انسان سے متعلق ہے وہ چاہے انسانیت سے کتنی ہی گری نہ ہو، ہر حال میں انسانیت کی محتاج ہے، یعنی یہ کہ اس کو لوگوں میں اپیل حاصل کرنے لے لئے روشن خیالی اور انسان دوستی کی مدد حاصل ہی کرنی پڑے گی چاہے وہ کتنی ہی گروہی اور متعصب صورت میں کیوں نہ ہو، کیا راشٹریہ سیوک سنگھ کے رضاکاروں کا حلیہ دیکھ کر ان کو گاندھی جی کا پیروکار مانا جا سکتا ہے ؟ اگر آپ سنگھ کے اعتقادات اور گاندھی کے خیالات کا جائزہ لیں تو بہت کچھ مشترک نظر آئے گا مگر مکمل تصویر ایک دوسرے سے مختلف؛ سنگھ کا زور ہندو معاشرے کے ماضی کی تجدید پر ہے جبکہ گاندھی اگرچہ مذہب کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں مگر ان کا ایک نئے ہندوستان کا ایک الگ تصور ہے جو ماضی سے منسلک مگر مختلف ہے. اب اگر محض مذہبی وابستگی کی بنیاد پر دونوں کو ایک سمجھ لیا جائے تو کیا یہ صحیح ہوگا؟  فسطائیت اور ترقی پسند نظریات کا جائزہ لیتے ہوئے بھی دیکھنا یہ چاہیے کہ ان کا مقصد کیا ہے، جب مقصد ایک نہیں تو نظریات ایک کیسے ہو سکتے ہیں؟

بہرحال ہمارے ہاں تو مسئلہ یہ نہیں ہے، ہمارے ہاں آتے آتے لبرل فاشسٹ نے ایک نیا جنم لیا ہے، اور اس جنم میں اس کے پس منظر، تاریخ اور مقصد سے کسی کو کوئی غرض نہیں، غرض ہے تو محض اس سے کتنی جلدی کسی کی بھی مٹی پلید کی جا سکتی اور اس کی بات میں وزن تلاش کرنے کے بجائے کتنی جلدی نظر انداز کیا جا سکتا ہے تاکہ ہم اپنی جانی پہچانی نظریاتی حدود ہی میں رہیں، حد سے گزرنا تو صرف مجذوبوں اور عاشقوں کا مقدر ہے. اور صرف تصوف اور  شاعری کو زیب دیتا ہے، آپ اگر با ہوش و حواس حد سے گزرتے ہیں تو یاد رکھیں:
جس کا کام اسی کو ساجھے
ورنہ  لبرل فاشسٹ باجے

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.