وطن یا کفن – سیکولر پارٹیوں کے لیڈر دہشت گردوں کی شناخت بتانے سے گریزاں کیوں؟
سیکولر پارٹیز تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کا نام لینے سے گریز کرتی ہیں
پاکستان میں گزشتہ چند ہفتوں میں سیکولر پارٹیز پر دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے خاص طور پر عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں اور کارکنوں پر منظم انداز میں حملے کیے جا رہے ہیں جن میں سینکڑوں افراد شہید اور زخمی ہو چکے ہیں کراچی سے ہنگو اور کویٹہ سے لے کر پشاور تک سیکولر جماعتوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ سنی بریلوی مسلمانوں، معتدل دیوبندی اور معتدل اہلحدیث مسلمانوں، شیعہ مسلمانوں، مسیحیوں، احمدیوں وغیرہ کو بھی قتل کیا جا رہا ہے
اگرچہ پاکستان کے خفیہ ادارے ان تمام کاروائیوں کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی پر عائد کرتے آئے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وزریرستان اور مستونگ وغیرہ کو چھوڑ کر دیگر علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان یا لشکر جھنگوی کا وجود نہیں ہے در حقیت پشاور، کراچی، کویٹہ ، لاہور، ملتان وغیرہ میں کوئی شخص یا جماعت لشکر جھنگوی یا تحریک طالبان پاکستان کے نام سے سر گرم نہیں ہے – لیکن انہی شہروں میں کالعدم دیوبندی دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ نئے نام اہلسنت والجماعت کی آڑ میں مکمل طور پر سر گرم عمل ہے جس کے صدر احمد لدھیانوی دیوبندی اور نائب صدر لشکر جھنگوی کے ملک اسحاق دیوبندی ہیں کراچی میں یہ دہشت گرد گروہ اورنگزیب فاروقی دیوبندی، پشاور میں حکیم ابراہیم قاسمی دیوبندی، کویٹہ میں رمضان مینگل دیوبندی ، پنجاب میں خادم ڈھلوں دیوبندی اور گلگت میں قاضی نثار دیوبندی کی قیادت میں دہشت گردی کی کاروائیوں کی قیادت اور حمایت کررہا ہے
اگرچہ دیوبندی مسلمانوں کی اکثریت امن پسند ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہونے والی تقریبآ تمام دہشتگردی کی کاروائیوں میں تکفیری دیوبندی دہشت گرد جماعتیں ملوث ہیں طالبان، تحریک طالبان پاکستان، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، جیش محمد وغیرہ میں ایک قدر مشترک ہے یہ تمام تکفیری جہادی دیوبندی جماعتیں ہیں جو ملا عمر کو اپنا رہنما اور آئیڈیل قرار دیتی ہیں تمام دیوبندی دہشت گرد نہیں لیکن تقریباً تمام دہشت گرد دیوبندی ضرور ہیں
ایم کیو ایم، اے این پی اور پی پی پی پر ہونے والے تقریباً تمام تر حملوں کے لئے سپاہ صحابہ المعروف اہلسنت والجماعت نے دیوبندی دہشت گردوں کی کھیپ تیار کی ہے جن کو سیکولر پارٹیوں، احمدیوں، سنی بریلویوں، شیعوں اور مسیحیوں کو قتل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئے ہے
کراچی، پشاور، کویٹہ اور دیگر شہروں میں دہشت گردی کی کاروائیاں اس وقت تک نہیں رکیں گی جب تک پاکستانی حکومت، خفیہ ادارے، سیاسی پارٹیاں ، پاکستانی فوج، عدلیہ، الیکشن کمشن اور تمام متاثرہ فریق کھل کر تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کی نشاندھی اور مزمت نہیں کرتے اور ان کے خلاف زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی کاروائی نہیں کرتے
اس بات کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور سپاہ صحابہ پاکستان (المعروف اہلسنت والجماعت یا لشکر جھنگوی) میں قطعی طور پر کوئی فرق نہیں ہے حالیہ الکشن میں سپاہ صحابہ پاکستان اور طالبان متحدہ دینی محاز کے نام سے حصہ لے رہے ہیں جس کو سعودی عرب کی مالی امداد حاصل ہے
انگریزی زبان میں کہتے ہیں کہ مرض کی درست تشخیص آدھے علاج کے مترادف ہے پاکستانی قوم کا المیہ ہے کہ ہم اپنے قاتلوں اور دہشت گردوں کی صحیح نشاندھی کرنے سے گریز کرتے ہیں کراچی، کویٹہ، راولپنڈی اور پشاور میں ہونے والے ہر دھماکے کی زمہ داری ایک غیر مرئی جماعت تحریک طالبان (جس کو پاکستان کے خفیہ ادارے برے یعنی بیڈ طالبان کہتے ہیں ) پر ڈالنا در حقیقت خفیہ اداروں کے ایجنڈے کی تکمیل ہے جو تکفیری دیوبندی جہادی جماعتوں کی سرپرستی اور حفاظت کرتے ہیں اور میڈیا اور عوام کی توجہ اصلی دہشت گردوں یعنی سپاہ صحابہ (متحدہ دینی محاذ ) سے ہٹانا چاہتے ہیں اس سازش اور چال کو سمجھیں اور اپنے اصلی دشمن کے خلاف کاروائی میں اپنے علاقے کی پولیس اور مقامی سیاستدانوں کا ساتھ دیں
اپنے اپنے شہروں میں سپاہ صحابہ سے متعلقہ دیوبندی مدرسوں، مسجدوں اور افراد پر کڑی نظر رکھیں سنی، شیعہ، احمدی، مسیحی، ہندو، پنجابی، مہاجر، پشتوں، بلوچ وغیرہ ہم سب کو مل کر اس وطن کی حفاظت کرنی ہے انشاللہ ہم کفن سر پر باندھ کر وطن کی حفاظت کریں گے اور اپنے ملک کو سپاہ صحابہ اور طالبان کے تکفیری دیوبندی دہشت گردوں سے بچائیں گے
Comments
Tags: Awami National Party (ANP), MQM, Pakistan Elections 2013, PPP, Takfiri Deobandis & Wahhabi Salafis & Khawarij
Latest Comments
جو تین صوبے اس وقت انتخابی دھماکوں کی زد میں ہیں ان میں سب سے زیادہ مساوی وارداتیں بلوچستان میں ہو رہی ہیں۔جہاں دائیں یا بائیں، مذہبی و غیر مذہبی، قوم پرست یا وفاق پرستوں سمیت ہر طرح کی انتخابی مخلوق نشانے پر ہے۔جبکہ سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو دھماکے داری کے لیے منتخب کیا گیا ہے ۔مگر عوامی نیشنل پارٹی واحد جماعت ہے جسے پنجاب کو چھوڑ کے پشاور سے چمن اور چمن سے کراچی تک نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ب لگ یہ رہا ہے کہ انتخابی سیاست کرنے والی آدھی جماعتوں کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ قدم بڑھاؤ اے جماعتوں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔اور باقی آدھی جماعتوں کو کہا جا رہا ہے کہ اگر تم نے مغرب سے درآمد کردہ جمہوریت اور غیر شرعی انتخابی نظام کی سیاست جاری رکھی تو پھر تم ہم میں سے نہیں۔
پہلے سیاسی نسل کی سلیکشن مبینہ طور پر ایجنسیاں کرتی تھیں۔اب یہ کام نان سٹیٹ ایکٹرز کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔یعنی دباؤ برقرار ہے صرف دباؤ ڈالنے والے بدل گئے ہیں۔
اگرچہ یہ سوال بھی دبے الفاظ میں اٹھ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن اور قاف، تحریکِ انصاف، جماعتِ اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام کے پاس ایسی کیا بم پروف گیدڑ سنگھی ہے جس سے ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی محروم ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انتخابی مہم کا رونق میلہ دیکھنا ہو تو پنجاب میں جا کر دیکھیے۔
مگر جنہوں نے بھی دھماکے دار حکمتِ عملی بنائی ہے وہ اتنے بےوقوف نہیں۔بھلا وہ کیوں چاہیں گے کہ ہر جگہ دھواں اور لاشیں پھیلا کر مشرق، مغرب، دائیں، بائیں کی اکثر سیاسی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اسی طرح جمع ہونے کا موقع مل جائے جیسا کہ اسلام آباد میں طاہر القادری کے دھرنے کے ردِعمل میں ہوا تھا۔سیاسی قوتوں کو تقسیم رکھنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہر ایک کو الگ الگ لاٹھی سے ہانکا جائے۔باقی کام خود یہ سیاستدان ہی کر لیں گے۔ بظاہر دہشت ناکوں کی یہ عسکری حکمتِ عملی خاصی کامیاب ہے کہ ایک ایک کو الگ الگ کر کے مارو تاکہ سب مل کے تمہیں نہ ماریں۔
تو کیا اسٹیبلشمنٹ کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ دہشت ناکوں کی ممکنہ انتخابی سٹریٹیجی کیا ہوگی؟ اب جبکہ پولنگ میں صرف 13 دن رہ گئے ہیں یہی طے نہیں ہو سکا کہ پولنگ سٹیشنوں کا تحفظ کوئی ایک ادارہ کرے گا یا سب مل کے کریں گے۔اگر کنفیوژن اور ادارتی فیصلہ سازی کا یہی حال ہے تو دو تہائی اکثریت سے جیتنے والی پارٹی بھی ان اداروں اور عمل داروں کے ہوتے نیا کیا کر لے گی؟
حالات کو قابو میں لانے کی خاطر کچھ نیا سوچنے کے لیے وقت، حاضر دماغی اور بنیادی حقائق کا میز پر ہونا ضروری ہے اور یہاں تو اکثر قائدین نے اپنا منشور ہی پوری طرح نہیں پڑھا تو نوشتہِ دیوار کیا پڑھ پائیں گے۔
اب ایک ہی طریقہ ہے خود کو پرسکون ظاہر کرنے کا۔جیسے ہی چیخ و پکار اور آہ و بکا کان میں پڑے ریڈیو یا ٹی وی کی آواز اونچی کر لو۔دنیا نارمل محسوس ہونے لگے گی۔۔۔
الگ الگ مارو
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچ
http://www.bbc.co.uk/urdu/interactivity/2013/04/130428_baat_se_baat_zz.shtml
وفاقی حکومت نے سویلین خفیہ اداروں کے اعلیٰ حکام سے وضاحت طلب کی ہے کہ گزشتہ چار ہفتوں کے دوران ملک بھر میں شدت پسندی کے واقعات سے متعلق پیشگی اطلاع اور اُن کے پیچھے کارفرما عوامل کا سراغ کیوں نہیں لگایا جا سکا۔
اس کے علاوہ جن تنظیموں کے بارے میں نگراں حکومت کے قیام سے پہلے خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ وہ عام انتخابات اور انتخابی مہم کے دوران اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عملی اقدامات کریں گی، اُن کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جا سکی۔
وزارتِ داخلہ کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اس ضمن میں وزارتِ داخلہ میں انتیس اپریل کو اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے جس میں انٹیلیجنس بیورو کے ڈویژنل سطح کے افسران شرکت کریں گے جبکہ اس اجلاس میں انٹر سروسز انٹیلیجنس یعنی آئی ایس آئی کے افسران بھی شرکت کریں گے
ذرائع کے مطابق انٹیلیجنس اداروں کی طرف سے گُزشتہ دو ہفتوں کے دوران وزارت داخلہ کو بھیجی جانے والی متعدد رپورٹس میں کالعدم تنظیموں بلخصوص تحریک طالبان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ ملک میں ہونے والے عام انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم ہیں تاہم اس ضمن میں اُن افراد اور عوامل کی نشاندہی نہیں کی گئی جو اُن تنظیموں کے لیے سہولت کار ہیں تاکہ اُن افراد کے خلاف کارروائی کر کے ایسے واقعات کو کسی حد تک روکا جا سکے۔
انتخابی مہم کے دوران سابق حکمراں اتحاد میں شامل جماعتیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ شامل ہیں، کے جلسوں اور کارنر مینٹگ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان واقعات میں سے بعض کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی ہے۔
شدت پسندی کی تازہ لہر میں سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے
یاد رہے کہ گُزشتہ ایک ماہ کے دوران ملک بھر میں شدت پسندی کے 35 سے زائد واقعات ہو چکے ہیں اور ان واقعات میں ملوث افراد کی گرفتاری ممکن ابھی تک ممکن نہیں ہو سکی۔
وزارتِ داخلہ کے اہلکار کے مطابق نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے حالیہ دنوں میں ملک بھر میں انتخابی مہم کے دوران شدت پسندی کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے نگراں وزیر داخلہ کو ہدایت دی تھی کہ وہ اُن محرکات کا جائزہ لینے کے لیے خفیہ اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے علاوہ اُن سے شدت پسندی کے واقعات کے سدباب کے لیے تجاویز بھی لیں۔
اہلکار کے مطابق ان افسران سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں جو بھی شدت پسند یا کالعدم تنظیمیں سرگرم ہیں اُن کے بارے میں معلومات فراہم کریں اور اس کے علاوہ اُن کی کارروائی کے طریقۂ کار کے بارے میں بھی آگاہ کریں تاکہ اس ضمن میں مناسب کارروائی کے لیے صوبوں کو ہدایات جاری کی جا سکیں۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے چاروں صوبائی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ عام انتخابات کے دوران امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا ازسرنو جائزہ لیں اور جہاں پر خامیاں ہیں اُن کو دور کرنے کی کوشش کی جائے
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/04/130428_pak_violence_intelligence_meeting_zz.shtml
’انہیں تکلیف ہے کہ ہم مُلّا کیوں نہیں ہیں‘
آخری وقت اشاعت: بدھ 17 اپريل 2013 ,
پاکستان میں انتخابی مہم کے دوران شدت پسندوں کے حملوں کا سب سے زیادہ نشانہ بننے والی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنما غلام احمد بلور نے کہا ہے کہ پاکستان میں کچھ طاقتیں ایسی ہیں جو اقتدار میں آنا چاہتی ہیں اور وہ طالبان کے ساتھ مل کر انہیں راستے سے ہٹانا چاہتی ہیں۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’کچھ طاقتیں ہیں جو اقتدار میں آنا چاہتی ہیں اور طالبان بھی چاہتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آئیں۔ اور اسی لیے وہ ہمیں راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔‘
نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق انہوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی پاکستان کی سالمیت اور استحکام کی بات کرتی ہے۔ ’ہم 1973 کے آئین کی بات کرتے ہیں اور ہم مسلمان ہیں اور مسلمانی کی بات کرتے ہیں۔ لیکن ہم مُلّا نہیں ہیں اور ان کو تکلیف یہ ہے کہ ہم مُلّا کیوں نہیں ہیں۔‘
پاکستان میں نگراں سیٹ اپ کے آنے اور انتخابات کے اعلان کے بعد سے اے این پی کے رہنماؤں اور جلسوں پر سات حملے ہو چکے ہیں جن میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے کچھ عرصے قبل عوام کو متنبہ کیا تھا کہ وہ اے این پی، پی پی پی اور متحدہ قومی موومنٹ کے جلسوں سے دور رہیں۔
اے این پی کو ان حملوں کے باعث اپنی انتخابی مہم محدود کرنی پڑی ہے۔ جماعت نے انتخابی جلسوں کی تعداد میں کمی کر دی ہے اور ووٹرز تک پہنچنے کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جا رہا ہے۔
منگل کی رات خود غلام احمد بلور پر بھی اندرون پشاور میں خودکش حملہ کیا گیا تھا جس میں سترہ افراد ہلاک ہوئے اور وہ خود زخمی ہو گئے تھے۔ بدھ کو بھی چارسدہ میں اے این پی کے ایک مقامی رہنما پر ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کیا گیا جس میں دو افراد زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
غلام احمد بلور نے کہا کہ وہ اور ان کی جماعت ایسی کارروائیوں سے خوف زدہ نہیں ہیں بلکہ وہ میدان میں رہیں گے اور مقابلہ کریں گے۔
اے پی سی میں فیصلے
انتخابات کے تین دنوں میں پولنگ سٹیشنز پر کوئیک ریسپانس فورس موجود رہے گی اور اس بارے میں فوجی حکام سے بھی بات چیت کی گئی ہے۔
انتخابی جلسے سے اڑتالیس گھنٹے قبل مقامی پولیں کو آگاہ کیا جائے گا۔
ہر جماعت رضا کاروں کی ایک ٹیم تشکیل دے گی جو اپنے کارکنان اور مہمانوں کی شناخت کرے گی جن کو جلسوں میں آگے جانے اجازت دی جائے گی۔
جلسوں کا بہت پہلے سے اعلان نہیں کیا جائے گا بلکہ چند گھنٹوں قبل اس کا اعلان کیا جائے گا۔
نگراں وزیر اعلیٰ صدر زرداری کو درخواست کریں گے کہ ایف سی کے دستے واپس کیے جائیں تاکہ ہر امیدوار کو پانچ پانچ اہلکار فراہم کیے جائیں۔
نگراں وفاقی وزیر داخلہ ملک حبیب خان نے بدھ کو صوبہ خیبر پختونخوا کے آئی جی پولیس کو حکم دیا ہے کہ وہ اے این پی کی سکیورٹی بحال کرے۔
ادھر پشاور میں انتخابات کے لیے سکیورٹی کی صورتحال پر نگراں حکومت کی جانب سے بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکومت تمام امیدواروں کو پانچ مسلح محافظ فراہم کرے گی اور سیاسی جماعتیں چار دیواری کے اندر جلسے منعقد کریں گے۔
اجلاس میں یہ فیصلہ بھی ہوا کہ انتخابات کے تین دنوں میں پولنگ سٹیشنز پر کوئیک ریسپانس فورس موجود رہے گی جو کسی بھی وقت کہیں بھی پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہو گی اور اس بارے میں فوجی حکام سے بھی بات چیت کی گئی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار عقیل یوسفزئی کے مطابق افغانستان میں دو ہزار چودہ میں امریکی انخلاء کے بعد پاکستان میں بعض قوتیں چاہتی ہیں کہ آزاد خیال سیاسی جماعتوں کو دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے اور پشاور میں ایسی حکومت قائم ہو جو افغانستان کے طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھ سکے۔
انہوں نے کہا ’افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء ہو رہا ہے اور شاید پاکستانی اسٹیبلشمنٹ میں کچھ حصے ہیں یا طالبان کے کچھ گروہ یا القاعدہ کی نظریں پشاور پر ہیں کہ اگر انخلاء کے بعد وہاں کوئی ان قوتوں کا کردار بنتا ہے تو پشاور میں وہ نہیں چاہیں گے کہ اے این پی یا پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعتیں اقتدار میں آئیں۔‘
مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام جماعتوں اور امیدواروں کو تحفظ کا یکساں ماحول فراہم کرے تاکہ شفاف انتخابات منعقد کرائے جا سکیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/04/130417_election2013_attacks_anp_rh.shtml
Pakistan’s Most Wanted: Deobandi leaders, inciters and executioners of terrorism.
Arrest and hang these people, there will be peace in 24 hours!
http://criticalppp.com/archives/248271
Good article, good comments. Blessed.