جنرل پرویز مشرف المعروف خلیل خان فاختہ اڑانا بھول گئے

 جنرل (ر)پرویز مشرف اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک حکم پر ججز نظر بندی کیس میں ضمانت منسوخ کرانے کےبعد اب اپنے ہی گھر میں قیدی بن گئے ہیں-ان کے قیدی بن جانے پر کسی کو بھی افسوس نہیں ہے

اس وقت جب میں اپنی نوٹ بک میں اس کالم کو ٹائپ کررہا ہوں تو مجھے ایک رپورٹر نے میسج بھیجا ہے کہ اڈیالہ جیل کے حکام نے ان کو خشک توس اور چائے کا ناشتہ پیش کیا ہے-اور 12 بجنے والے ہیں لیکن کوئی بھی ان کو ملنے نہیں آیا- یہ وہی پرویز مشرف ہیں جنہوں نے جب اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو اس ملک کے سیاست دانوں کی اکثریت،ساری وردی ،بے وردی نوکر شاہی ان کی دھلیز پر سجدہ ریز ہوگئی تھی-محترم طاہر القادری جنہوں نے ابھی جنوری 2013ء میں اسلام آباد کے ڈی چوک میں قوم پر اپنی قانونی اور آئینی مہارت کے گوہر نایاب نچھاور کئے تھے وہ مشرف کو “لیبک ،لبیک یا سیدی”کہنے والوں میں سب سے آگے تھے-عمران خان بھی مشرف کے آٹھ نکاتی ایجنڈے سے متاثر ہوکر “انت مربی و نجی”کی گردان کررہے تھے-مسلم لیگ ہم خیال کے لوگ مشرف کی نظر التفات کے منتظر تھے- مشرف جیسے ہی برسراقتدار آئے تھے تو این جی اوز کے بڑے کھلاڑیوں نے مشرف کے کلمے پڑھنا شروع کرڑالے

مرحوم عمر اصغر خان ،عطیہ عنائت اللہ ،بیگم زبیدہ جلال ،سرور باری،خلیق حارث ،جاوید جبارکھل کر مشرف کے ساتھ ہوئے-اور عاصمہ جہانگیر اور کئی دوسرے لبرل بھی مشرف کے خلاف اتنے سخت نہ رہ جتنے وہ ضیاء کے خلاف نظر آتے تھے-ان سب نام نہاد لبرل کو مشرف میں امید کی کرن نظر آئی- مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ کے اندر ہی اپنے قائم کردہ ادارے “تعمیر نو بیورو”کے زریعے سے مقامی حکومتوں کا ایک نظام متعارف کرایا جس میں آنے والے نمائندوں کو مشرف کی ہم خیال ٹیم سے تعبیر کیا گیا- اس دوران ایسے قلم فروش بھی پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے قلم کا سارا زور مشرف کو مسیحا ثابت کرنے پر صرف کیا- یہ سارے وہ لوگ تھے جو مشرف کا بازو بنے تھے-اور مشرف کو “خلیل خان فاختہ والے بنا ڈالا-اب کیا تھا کہ مشرف عرف خلیل خان فاختائیں اڑایا کرتے تھے-ان سے فاختہ اڑے نہ اڑے لیکن ان کی استادی کو کسی طرف سے چیلنج نہیں تھا

مشرف اسقدر خلیل خان بنے کہ ان کو آغاز کار میں عدالت سے بھی تعاون ملا- ان میں سے ایک بھی نہیں آیا-کسی نے بھی اپنے محسن کی گرفتاری کے خلاف کوئی احتجاج نہيں کیا-اور کسی نے بھی”مشرف رہائی تحریک چلانے کا اعلان نہیں کیا-سب نے ان کی گرفتاری کو معمول کی کاروائی خیال کیا-اور ان کی ٹیم سمجھے جانے والے کسی ایک نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر تنقیدی بیان جاری کرنے کی جرات نہیں کی- ایسا کیوں ہوا؟اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے مشرف نے جتنے بھی لوگ اپنے حواری بنائے وہ سب لوگ وہ تھے جن پر یہ مثال صادق آآتی ہے”جہاں دیکھی توا پرات وہیں گزاری رات”ویسے بھی ایک آمر کی عوامی طاقت کی کوئی بنیاد تو ہوتی نہیں-اسی لیے وہ بھان متی کہ کنبہ جوڑتا ہے-اور بھان متی جیسے ہی بے اثر ہوتا ہے تو اس کا کنبہ بھی اڑن چھو ہوجات ہے- ہم نے دیکھا تھا مارچ1958ء میں جب پہلی بار پورے ملک میں فوجی آمریت قائم ہوئی اور جنرل اسکندر مرزا کے بعد ایوب خان پوری طاقت رکھنے والے حاکم بنکر سامنے آئے-1958ء سے لیکر 1966ء تک ایوب خان نے اپنے ارد گرد “بادشاہئیاں قیم رہن ،بھاگ لگے رہن-مولاخیر رکھے”بولنے والوں کی طرف زیارہ متوجہ تھے-اور پھر جب 1966ء کا وسط آیا تو ایک ایک کرکے ایوب خان کی گنگا و جمن سے روز شام و سحر تتمع کرنے والے رخصت ہوگئے-ایوب تنہا ہوئے اور اس تنہائی میں وہ استعفی دےکر گھر آگئے-ایوب ہواکے رخ کو اگرچہ دیر سے پہچانے تھے مگر انہوں نے پھر “پاور گیم “میں دوبارہ ان ہونے کی کوشش نہ کی-اور خاموشی سے وہ اگلے جہان سدھار گئے

مگر 12،اکتوبر 1999ء کو اقتدار پر قبضہ کرنے والے مشرف اگرچہ ایوب خان کو اپنا آئیڈل مانتے تھے مگر ان کے انجام سے انہوں نے صرف نظر کرلیا اور خود اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو سزا دے ڈالی-مشرف آج نہ صرف “ججز نظر بندی کیسے کا سامنا کررہے ہیں بلکہ “آئین توڑنے کے الزام کا سامنا کررہے ہو-ان کو جارح میڈیا،غضب ناک عوام ،غیر ہمدرد بابو نوکر شاہی اور طوطا چشم لوگوں کی بے وفائی کا سامنا ہے-وہ اس سارے جوار بھاٹے سے نکلنے میں کامیاب ہوں گۓ کہ نہیں؟مجھے لگتا ہے کہ یہ جوار بھاٹا ان کو دوسرے آمروں کی طرح گھر بیٹھنے پر مجبور کردے گا- لیکن ایک سوال پھر بھی بہت اہمیت کا حامل ہے-اور وہ یہ کہ آئین کا آرٹیکل 6 کہتا ہے کہ وہ تمام لوگ بھی غداری کے مرتکب ٹھہریں گے جو آئین توڑنے میں معاون ہوں گے”اور آئین پاکستان ملک میں ریاست کے سارے ملازموں کو پابند کرتا ہے کہ وہ آئین و قانون کے خلاف کسی کے حکم کو ماننے کے پابند نہیں ہیں-اس اصول کو دیکھتے ہوئے تو ان سب کو عدالتی کہٹرے میں آنا چاہئے اور ان سے بھی آئین کے آرٹیکل 6 کے مطابق سلوک کیا جانا ضروری ہے- صرف مشرف ہی کیوں ان ججز سے بھی بوچھا جانا چاہئے جنہوں نے مشرف کے 12 اکتوبر 1999ء کے اقدام کو ٹھیک قدم قرار دیا بلکہ ان کو وہ بھی دیا گیا جس کو کرنے وہ مجاز نہ تھے اور نہ ہی مشرف کے پاس کوئی جواز تھا اس کو استعمال کرنے کا

کیا ان حاضر سروس اور ریٹائرڈ جرنیلوں کی بھی کورٹ میں حاضری کے لیے نوٹس ملے گآ؟کیا ان ٹاپ بیوروکریٹس کو بھی بلاکر پوچھا جائے گا کہ قانون اور آئین کا تحفظ کا حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے ایک آمر کے سامنے ھتیار کیوں ڈالے؟ لیکن مجھے امید نہیں ہے کہ ہمارے ہاں انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں-اگرچہ ہماری عدالتوں نے بہت زیارہ ہمت اور جرات کا ثبوت دیا ہے-لیکن مجھے اس کا آخری کردار “مصالحت کار”کا ہی لگتا ہے-ایک مصالحت جو عوام کے مجرموں کے خلاف مظلوموں کی ہوتی ہے-اور ایک “پردہ ڈالنے والی-ہمیں پردہ ڈالنے والی مصالحت سے دور رہنا چاہئے- میں کہتا ہوں کہ اگر ہم نے ماضی کی تلخیوں اور کڑواہٹ کو حال پر اثرانداز ہونے سے روکنا ہے تو ہمیں افریقہ کے لوگوں کی طرح ایک “سچائی کمیشن “قائم کرنا چاہئے-اور اس کمیشن میں وردی ،بے وردی بابو،سیاست دان سب کو اپنے پورے سچ کے ساتھ پیش ہونا ہوگا-تبھی ہم آنے والی نسل کو ان تنازعات سے نکال سکتے ہیں

میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ ان سب لوگوں کے بارے میں مشرف جرات کا مظاہرہ کرڈالیں جو ان کو ان کی طاقت کے کورویڈور میں ملتے تھے اور بھیک مانگے تھے-وزراتوں سے لیکر ضلعہ ناظم بننے تک وہ کون سے لوگ تھے جو مشرف کے پیروں میں پڑتے رہے-اور آج میاں نواز کے جہاز میں سوار ہونے والوں سے بھی سوال بنتا ہے کہ ماضی میں مشرف کی کابینہ ميں رہنے اور اپنے لیے زیادہ سے زیارہ مفادات جمع کرنے کا کیا جواز تھا؟ ماروی میمن،کشمالہ طارق،عائلہ ملک،مدیحہ گوہر ،زبیدہ جلال،حنا ربانی کھر،ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور کئی درجنوں نام ہیں جن کو مشرف کی نظر عنائت سے لائم لائٹ میں آنے اور اپنی خوش جمال آرائی سے لوگوں کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کا موقعہ میسر آیا-طارق عظیم اور محمد علی درانی کو اکثر سکرین پر رہنے کا موقعہ ملا-شیخ رشید صاحب بھی مشرف سے روشنی لیتے رہے-مشرف کی وردی ان کی کھال تھی-اس وردی میں ان کی جان تھی اور اسی وردی کے بل بوتے پر وہ میاں محمد نواز شریف کی حکومت گرانے میں کامیاب ہوئے تھے-اور اسی وردی کے رعب اور دبدبے سے پوری ریاست کے دیگر ادارے ان کے آگے ڈھیر ہوگئے تھے-ایک کنگ پارٹی بنی جس نے اقتدار کے مزے لوٹے اور اس کنگ پارٹی میں شامل اکثر و بیشتر سیاسی گھوڑوں کی قدر وقیمت آج بھی کم نہیں ہوئی ہے-خورشید قصوری سونامی ہوچکے ہیں-اور ٹھٹھہ کے الطاف شیرازی اور تھر پارکر کے ارباب غلام رحیم “قرب نواز”سے نوازے گئے ہیں-ماروی میمن اب شہباز و نواز کی امیج بلڈنگ پر مامور ہیں-چوھدری پرویز اللہی اب زرداری کے سایہ عاطفت میں ہیں-ان سب کا سابق مربی چک شہزاد فارم میں اپنے گھر کے اندر قیدی بنکر رہ رہا ہے-اور اس کا رابطہ ساری دنیا سے منقطع ہے-وہ نہ ٹیلی فون کرسکتا ہے اور نہ انٹرنیٹ استعمال- مشرف بہت طنطنے کے ساتھ وارد ہوئے تھے

اور سچ پوچھیں تو ان کی آمد سے سب سے زیادہ تکلیف بھی انہی لوگوں کو ہوئی تھی جو “انجمن غلامان طاقت و اختیار”کے رکن ہوتے ہوئے ماضی میں مشرف سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتے رہے-وہ اس آمد کو رنگ میں بھنگ خیال کرتے ہیں-مشرف انتخابی کھیل میں بارویں کھلاڑی سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھے-ان کو انتخاب لڑنے کا پورا موقعہ دینا چاہئیے تھا تاکہ ان کو پتہ چل سکے کہ بندوق کی نوک پر اقتدار حاصل کرنے اور پرچی کے زریعے اقتدار حاصل کرنے میں کس قدر فرق ہوتا ہے؟ ایوب کی کنونشن لیگ نے تو پھر بھی کچھ دن کاٹ لیے تھے ،مشرف کی کشتی آل پاکستان مسلم لیگ تو چلنے سے پہلے ہی سوراخ ذدہ ہوگئی ہے- جنرل مشرف کو اسلام آباد کی عدالت نے ایک موقعہ ضرور فراہم کردیا ہے-اور یہ موقعہ ان کو پرسکون قید تنہائی کا ہے-اب کوئی ان کے اور ان کے سوچنے کے درمیان حائل ہونے والا نہیں ہے-ان کو یہ سوچ لینا چاہئے کہ اب وہ ایسے خلیل خان ہیں جن کے پاس فاختہ تو کیا کوئی چڑیا اڑانے کے قابل نہیں ہیں-اور پنجابی میں کہا جاتا ہے کہ “کھیڈ مک گئی اے”اور ان کو ملک سے باہر جاتے ہوئے ہی یہ نعرے سنکر عبرت پکڑنی چاہئے تھی کہ”مک گیا تیرا شو مشرف۔۔۔۔۔گو مشرف گو

A file photo dated, 30 June 2005 release

Comments

comments

Latest Comments
  1. Ali Azfar
    -
  2. Ali Azfar
    -
  3. rehanf
    -
  4. Tahir
    -