ہم طالبان نواز، سپاہ صحابہ نواز دیوبندی ججوں کی سفارشات کو مسترد کرتے ہیں
ہم لال مسجد عدالتی کمیشن کی سفارشات کو مسترد کرتے ہیں
پاکستانی عوام جن میں اعتدال پسند مسلمانوں اور دیگر مذاھب کے ماننے والوں کی اکثریت شامل ہے نے ہمیشہ مذھب اور فرقے کی بنیاد پر نفرت اور تشدد کی مذمت کی ہے لال مسجد میں چھپے ہوۓ تکفیری دیوبندی دہشت گردوں نے اسلام آباد اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں عام پاکستانیوں، پولیس، فوج اور دیگر حکومتی اداروں پر حملے کیے اور بے گناہ لوگوں کو شہید اور زخمی کیا
لال مسجد اور جامعہ حفصہ کااسلام سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا مسجد ضرار کا تھا – مولوی عبد العزیز دیوبندی اور اس کے ہلاک یافتہ بھائی عبد الرشید دیوبندی کے سپاہ صحابہ اور طالبان سے گہرے تعلقات تھے یہ دونوں بھائی اوران کے پیروکار اکیسوی صدی کے خارجی ہیں سعودی وہابیوں کے امداد یافتہ ان دہشت گردوں کا سنی بریلویوں اور اعتدال پسند دیوبندیوں اور اہلحدیث سے کوئی تعلق نہیں
پاکستان کی عدلیہ، خاص طور پر سپریم کورٹ، لاہور ہائی کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ میں اس وقت جماعت اسلامی، سپاہ صحابہ اور مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے تکفیری دیوبندی غلبہ پا چکے ہیں حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جس جج شوکت صدیقی نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی گرفتاری کا حکم جاری کیا اس جج کا تعلق سپاہ صحابہ اور جماعت اسلامی سے ہے شوکت صدیقی دیوبندی لال مسجد مقدمے میں مولوی عبد العزیز دیوبندی کا وکیل تھا یہی جج اس سے پہلے جماعت اسلامی متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے الیکشن ہار چکا ہے
جسٹس شوکت عزیز صدیقی راولپنڈی سے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر متعد بار انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اور وکلا کی تحریک میں انتہائی سرگرم تھے۔ انہوں نے پرویز مشرف کو ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے کے مقدمے میں گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے جسے پولیس نے بادل نخواستہ مان لیا اور انہیں پولیس ہیڈکوارٹر منتقل کر دیا
لال مسجد آپریشن جنرل مشرف کے اقتدار پر قبضے کے نو سال بعد ہوا جب اسلام آباد کی مسجد میں جمع سینکڑوں مسلح افراد کو وہاں سے نکالنے کا حکم دیا گیا۔ مسلح افراد کا یہ گروہ اسلام آباد پر اپنا تسلط جما رہا تھا اور وہاں سے ہر روز جھتے اسلام آباد کے مختلف حصوں میں ’فحاشی‘ کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں کرتے تھے۔ لال مسجد کے آپریشن میں سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے جس میں کرنل طارق اسلام سمیت پچیس کے قریب سکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔ پرویز مشرف پر اگر کوئی مقدمہ بننا ہے تو یہ کہ انہوں نے لال مسجد آپریشن میں اتنی دیر کیوں کی اور وہاں لوگوں کو اسلحہ سمیت جمع کیوں ہونے دیا
لال مسجد آپریشن سے متعلق فیڈرل شریعت کورٹ کے جج شہزاد شیخ دیوبندی کی سربراہی میں قائم ایک رکنی عدالتی کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم پر اپنی رپورٹ جاری کر دی ہے جس کی طویل المدتی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ ’حکومت اپنی اسلام مخالف پالیسیاں ختم کرے‘۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے سابق فوجی صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے دور میں اسلام آباد میں واقع لال مسجد میں کیے جانے والے فوجی آپریشن سے متعلق تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا تھا۔ جسٹس شہزاد شیخ دیوبندی کا تعلق بھی سپاہ صحابہ اور جماعت اسلامی سے ہے
لال مسجد کمیشن کے جج شہزاد شیخ دیوبندی نے کہا ہے کہ جو لوگ شعائر اسلام کو پامال کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں انکے خلاف شریعت کے مطابق کارروائی کی جانی چاہیے۔
جج شہزاد شیخ دیوبندی نے اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا ہے کہ شریعت میں قصاص اور دیت کے قانون کے تحت مرنے والوں کے اہل خانہ کو قصاص یا دیت دی جانی چاہیے۔
جج شہزاد شیخ دیوبندی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ دیت صرف اس صورت میں دی جاسکتی ہے جب ورثاء قصاص معاف کر کے دیت پر رضامند ہو جائیں مگر اہم بات یہ ہے کہ جہاں قصاص یا دیت کی بات کی گئی ہے وہاں اس بات کا رپورٹ میں کوئی ذکر نہیں کہ یہ قصاص یا دیت کس سے لی جائے۔
اس بات کی بھی سفارش کی گئی ہے کہ لال مسجد کے آپریشن کے دوران مرنے والوں کی ایف آئی آر درج کی جائے۔ اسی طرح جج شہزاد شیخ دیوبندی نے سفارش کی ہے کہ اس آپریشن کے دوران جن افراد کا مالی نقصان ہوا ہے اسے پورا کیا جائے۔
جس پلاٹ پر جامعہ حفصہ موجود تھا اس پلاٹ کے بارے میں سفارش کی گئی ہے کہ اس کو جامعہ حفصہ کی انتظامیہ کو دے دیا جائے یا سی ڈی اے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اس جگہ پر جامعہ حفصہ کی عمارت تعمیر کر سکتا ہے۔
جج شہزاد شیخ دیوبندی کی رپورٹ میں دی جانے والی طویل المدتی سفارشات میں جہاں حکومت سے ’اسلام مخالف‘ پالیسیوں کے خاتمے کو کہا گیا ہے وہیں دارالعلم کے قیام، مدرسوں کے نصاب اور رجسٹریشن جیسی سفارشات کے علاوہ یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ آبادی کے تناسب سے مدرسوں، مساجد یا مساجد میں قائم مدرسوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔
اس سے پہلے نواز شریف کے قریبی جج لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد شریف نے پنجاب گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے دہشت گرد ممتاز قادری کا بلا معاوضہ وکیل بننے کی خواہش کا اظہر کیا تھا
سپریم کورٹ میں موجود چیف جسٹس افتخار چودھری بذات خود دیوبندی عقیدہ رکھتے ہیں اور طالبان اور سپاہ صحابہ کی طرف ان کا واضح جھکاؤ ہے چیف جسٹس افتخار چودھری پنجاب کے سابق وزیر قانون اور سپاہ صحابہ کے حلیف رانا ثنااللہ کے قریبی رشتہ دار ہیں یہی وجہ ہے کہ آج حمید گل، اسلم بیگ، جہانگیر کرامت اور اس طور کے دیگر جرنیل تو آزاد پھر رہے ہیں ، لال مسجد کے دہشت گرد ہیرو بنے ہوۓ ہیں لیکن تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کے خلاف کروائی کرنے والے جرنیل پرویز مشرف کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ جھنگ سے لدھیانوی اور کراچی سے اورنگزیب فاروقی جیسے نامی دہشت گردوں کو پاکستانی قانون اور الکشن ضوابط کی صریح خلاف ورزی کے با وجود الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ہے
ہم پاکستانی سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائ کورٹ، لاہور ہائی کورٹ اور شریعت کورٹ میں طالبان نواز ، سپاہ صحابہ نواز تکفیری دیوبندی ججوں کی مذمت کرتے ہیں اور ایک دن ان کی گرفتاری اور سزا کے منتظر ہیں
Sources:
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/04/130420_lal_masjid_comission_tim.shtml
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/04/130419_musharraf_judicial_trial_zz.shtml
Comments
Tags: Chief Justice Iftikhar Chaudhry, Lal Masjid (Red Mosque), Takfiri Deobandis & Wahhabi Salafis & Khawarij
Latest Comments
One day, these Takfiri Deobandi-Wahhabi judges will be dragged in the streets of Pakistan, they will be insulted and punished by new, free judiciary. God willing.