The drop-scene of 13 October and a song for Nawaz Sharif

ڈھائی سالہ جمہوریت

سویرے سویرے…نذیر ناجی

بھٹو کے بعد سیاسی پنیری اگانے والے دو آمر چلے گئے۔ آخری آمر کے بعد (یا اللہ! پھر نہ کوئی آ جائے) ”ڈھائی سالہ“ جمہوریت کی جو روایت قائم ہوئی‘ اسے بدلنے کی کوئی وجہ تو نہیں تھی۔ مگر ہم خوش فہم لوگ ہیں‘ امیدیں باندھ بیٹھے کہ اب حالات بدل گئے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں نے کچھ نہ کچھ سبق ضرور سیکھا ہو گا۔ ان کی باتوں سے بھی لگتا تھا کہ شاید سیکھ گئے ہیں۔ انہوں نے باہمی مذاکرات‘ مشترکہ بیانات اور تحریری یقین دہانیوں سے ایسی فضا پیدا کر دی تھی کہ سیاستدانوں پر کبھی اعتبار نہ کرنے والے بھی سمجھنے لگے کہ شاید اس میں کچھ سچائی ہو۔ انہوں نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا ۔ ایک دوسرے سے وعدے کئے۔ عوام سے عہد کیا کہ وہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ جو بھی اکثریت حاصل کرے گا‘ اسے حکومت بنانے کا موقع دیں گے اور پانچ سال سے پہلے اس حکومت کو گرانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ غیرسیاسی قوتوں کے آلہ کار نہیں بنیں گے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کوئی فرق نظر آیا؟

1988
ء میں بے نظیربھٹو شہید کی حکومت بنی‘ تو اگلے ہی مہینے نوازشریف کی طرف سے محاذآرائی شروع کر دی گئی۔ اس میں ہر ہفتے تیزی آنے لگی اور قریباً اڑھائی سال کا عرصہ ہوا تھا کہ ان کی برطرفی کا پروانہ حاصل کر لیا گیا۔

اگلے انتخابات میں نوازشریف آ گئے‘ تو چند ہفتوں بعد ہی ان کے خلاف ایوان صدر سے حملے ہونے لگے۔ کچھ دنوں بعد ان میں پیپلزپارٹی شریک ہو گئی اور اڑھائی سال کی معینہ مدت پوری ہونے تک نوازشریف کی رخصت کا بندوبست کر لیا گیا۔

پھر انتخابات ہوئے اور بے نظیرشہید وزیراعظم بن گئیں۔ دو تین ہفتوں کے بعد ہی ان کے خلاف مہم شروع ہو گئی۔ اس مرتبہ ان کے اپنے بنائے ہوئے صدر اور پارٹی کے وفادار ساتھی‘ فاروق لغاری بھی مخالفین کی صفوں میں آ گئے اور بی بی کی حکومت کو پھڑکا دیا۔

اگلی ڈھائی سالہ باری لینے کے لئے نوازشریف وزیراعظم بن گئے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو ڈھائی سالہ جمہوریت کا ایک اور باب بند ہوا اور چیف آف آرمی سٹاف دوسرے جرنیلوں کے ساتھ خود آ دھمکے اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس بار دونوں باریاں لینے والے وزرائے اعظم کو اقتدار کے ایوانوں سے باہر رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ بی بی شہید پہلے ہی جلاوطن تھیں اور نوازشریف کو قید کے دوران اتنی تکالیف پہنچائی گئیں کہ انہوں نے بھی جلاوطنی کو غنیمت جانا۔

نو سال تک ان سیاستدانوں‘ ان کے ساتھیوں اور عوام نے آمریت کا عذاب بھگتا اور امریکہ کی مہربانی سے دوبارہ بری بھلی جمہوریت کا منہ دیکھا‘ تو سیاستدانوں نے ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر جمہوریت کے گن گائے۔ ایک دوسرے کو گلے لگایا۔ ایک دوسرے کے بڑے بھائی بنے۔ مستقبل میں اپنی اولادوں کے مابین مفاہمت اور خیرسگالی کے خوشگوار نقشے دکھائے۔ عوام خوش تھے کہ اب جمہوریت کی بنیادیں مضبوط ہو جائیں گی اور ملک کو سیاسی استحکام نصیب ہو گا۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ سیاسی عدم استحکام ہی ملک کی سالمیت کا ضامن ہوتا ہے۔ اگر استحکام نہ رہے تو ملک کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ہم اس کا عملی تجربہ کر چکے ہیں۔ ہمیں تو زیادہ ہی محتاط ہونا چاہیے۔ مگر لگتا ہے کہ ہم سیکھنے اور سبق لینے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔

PML-N has some reliable friends in Lahore High Court and the Supreme Court of Pakistan

یہی جمہوریت جسے امیدوں اور خوشیوں کے ساتھ‘ ہم سب آگے بڑھتے ہوئے دیکھنے کے خواہش مند تھے‘ چند ہی روز کے بعد ٹوٹتی اور تڑختی نظر آنے لگی۔ اب کی بار سٹائل ذرا مختلف ہے۔ منہ سے سب کہہ رہے ہیں کہ ہم پارلیمنٹ اور منتخب حکومت کو پورے پانچ سال چلائیں گے۔ اس سے پہلے تبدیلی نہیں آئے گی۔

واقعی نہ ایوان کے اندر تحریک عدم اعتماد آئی اور نہ لوٹا بازار لگے۔ لیکن حیلہ سازی کی عادت کہاں جاتی ہے؟ مسماری جمہوریت کی تحریک میڈیا اور عدلیہ کی آزادی سے استفادہ کرنے کی راہ پر چل نکلی۔ نہ مظاہرے‘ نہ ہڑتالیں‘ نہ جلسے‘ نہ جلوس‘ نہ قراردادیں اور نہ سیمینار۔جس کے ذہن میں جمہوریت پر ضرب لگانے کاکوئی طریقہ آیا‘ وہ سیدھا درخواست لے کر حاضر عدالت ہو گیا۔ ڈھائی سالہ جمہوریت کے عادی سیاستدانوں اور ان کے ہمنواؤں کی امیدوں کا مرکز عدالت عظمیٰ بن گئی اور دنیا نے پہلی بار دیکھا کہ ایک ملک میں اخباری شہ سرخیوں اور ٹی وی چینلوں کی بریکنگ نیوز عدلیہ سے حاصل کی جانے لگیں۔ نہ وزیراعظم اور وزرا کے بیانات نمایاں رہے۔ نہ قائد حزب اختلاف کی سرخیاں لگیں اور نہ رائے عامہ کے ترجمانوں کی حیثیت رہی۔ جس روز عدلیہ میں کسی مقدمے کی سماعت ہوئی‘ اس روز تمام بڑی سرخیاں اسی مقدمے کے حوالے سے شائع ہوئیں اور ان میں سے بیشتر عزت مآب جج صاحبان کے ریمارکس سے ماخوذ ہوتیں۔ عدلیہ‘ جہاں سے کبھی سنگل کالم خبر بھی مشکل سے ملتی تھی‘ وہاں سے بریکنگ نیوز اور شہ سرخیاں میڈیا کی جھولیاں بھرنے لگیں۔ اب یہ سلسلہ نقطہ کمال کو پہنچ چکا ہے۔

Dr Shahid Masood is a secret member of the Hizbut Tahrir Pakistan

آج 13 اکتوبر ہے۔ اس حوالے سے سیاسی توقعات کے وہ چرچے ہوئے کہ وزیراعظم کو ایک سے زیادہ مرتبہ کہنا پڑا کہ 13 تاریخ کو کچھ نہیں ہو گا۔ سب جانتے ہیں 13 اکتوبر کو ایک مقدمے کی سماعت ہے۔ وزیرقانون بابر اعوان بھی افواہوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہیں بھی کہنا پڑا کہ 13 اکتوبر کو کچھ نہیں ہو گا۔ مگر کون مانتا ہے؟ اڑھائی سالہ جمہوریت کی جو روایت فوجی آمروں کی پالیسیوں کے نتیجے میں قائم ہوئی‘ وہ اتنی مضبوط نکلی کہ ان کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد بھی ختم نہ ہو سکی۔ جنرل صاحبان‘ بیرکوں کے اندر بیٹھ کر ڈھائی سالہ جمہوریت کا ”نظام“ کامیابی سے چلاتے رہے۔

لگتا ہے اس مرتبہ بھی وہ اپنی کامیابی کی روایت سے علیحدہ ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ یا پھرکچھ عناصر انہیں ڈھائی سالہ جمہوریت کی روایت پر کاربند رہنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ کچھ بھی ہو‘ ہم سب یعنی سیاستدان‘ میڈیا‘ رائے عامہ اور اقتدار کے سارے کھلاڑی ڈھائی سالہ جمہوریت کے عادی ہو چکے ہیں۔ گذشتہ اڑھائی سال ہم سب نے انتہائی اضطراب اور بے چینی کی حالت میں گزارے ہیں۔ ہم نے ہر مقدمے کی کارروائی سے امیدیں باندھیں۔ مگر پوری نہ ہوئیں اور جمہوریت چلتی رہی۔ کئی بار عدلیہ سے مایوس ہو کر ہم نے امیدوں کا رخ بیرکوں کی طرف پھیرا۔ مگر لگتا ہے کہ ادھر سے ڈھائی سالہ جمہوریت والوں کیلئے خیرکی کوئی خبر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ساری امیدیں سمٹ کر اب پارلیمنٹ یا اس کی جڑواں عمارت کی طرف مرکوز ہو گئی ہیں۔ خصوصاً سپریم کورٹ کی طرف دیکھ کر جمہوریت کے ڈھائی سال پورے ہونے کے غم میں مبتلا مریضوں کی حالت تو بہت ہی خراب ہے۔ وہ جان کنی کی حالت میں سپریم کورٹ کی بلندوبالا عمارت کی طرف دیکھتے ہوئے التجائیں کر رہے ہیں کہ ”اے خدا! اب تو ہماری سن لے۔

Akram Shaikh and Dr Farrukh Saleem are active member of Jamaat-e-Islami Pakistan, a sister organization of the Taliban and Sipah-e-Sahaba.

اگر آج امیدیں نہ بر آئیں‘ تو نہ جانے کتنے دلوں کی دھڑکنیں بند ہوں گی؟ کتنے پیش گوئیاں کرنے والے بے ہوش ہوں گے؟ اور کتنے جوئے بازوں کی رقمیں ڈوبیں گی؟ آج کی تاریخ خیریت سے گزر گئی‘ تو جمہوریت‘ ڈھائی سال کی حد کو پھلانگنے کے بعد آگے بڑھنے لگے گی اور چند ماہ مزید بڑھ گئی‘ تو جمہوریت کے لئے آمروں اور ان کے جانشینوں نے جو عرصہ مقرر کیا ہے‘ اس کے دھاگے ٹوٹنے لگیں گے۔ خدا کرے کہ جن لوگوں کی قوت برداشت اڑھائی سال کی جمہوریت پر جواب دینے لگتی ہے‘ ان کی صحت اچھی ہو جائے اور وہ 5سالہ جمہوریت کو برداشت کرنے کے قابل ہو جائیں۔جہاں تک روایتی پہلوانوں کا تعلق ہے‘ تو اس مرتبہ پہلی باری پیپلزپارٹی والوں کے ہاتھ لگی ہے۔ اپنے حصے کے ڈھائی سال وہ پورے کر چکے ہیں‘ اس لئے وہ آسانی سے اپنے روایتی حریف کو چڑانے کے لئے یہ گانا گا سکتے ہیں۔”اپنے تو جیسے تیسے‘ تھوڑے ایسے یا ویسے۔ دو برس چھ مہینے کٹ گئے ہیں۔ بجاؤ تالی‘ آپ کا کیا ہو گا جناب عالی۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Aamir Mughal
    -
  2. Aamir Mughal
    -
  3. Aamir Mughal
    -
  4. Aamir Mughal
    -
  5. Aamir Mughal
    -
  6. Aamir Mughal
    -
  7. Aamir Mughal
    -
  8. Aamir Mughal
    -
  9. Abdul Nishapuri
    -