The drop-scene of 13 October and a song for Nawaz Sharif
ڈھائی سالہ جمہوریت
سویرے سویرے…نذیر ناجی
بھٹو کے بعد سیاسی پنیری اگانے والے دو آمر چلے گئے۔ آخری آمر کے بعد (یا اللہ! پھر نہ کوئی آ جائے) ”ڈھائی سالہ“ جمہوریت کی جو روایت قائم ہوئی‘ اسے بدلنے کی کوئی وجہ تو نہیں تھی۔ مگر ہم خوش فہم لوگ ہیں‘ امیدیں باندھ بیٹھے کہ اب حالات بدل گئے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں نے کچھ نہ کچھ سبق ضرور سیکھا ہو گا۔ ان کی باتوں سے بھی لگتا تھا کہ شاید سیکھ گئے ہیں۔ انہوں نے باہمی مذاکرات‘ مشترکہ بیانات اور تحریری یقین دہانیوں سے ایسی فضا پیدا کر دی تھی کہ سیاستدانوں پر کبھی اعتبار نہ کرنے والے بھی سمجھنے لگے کہ شاید اس میں کچھ سچائی ہو۔ انہوں نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا ۔ ایک دوسرے سے وعدے کئے۔ عوام سے عہد کیا کہ وہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ جو بھی اکثریت حاصل کرے گا‘ اسے حکومت بنانے کا موقع دیں گے اور پانچ سال سے پہلے اس حکومت کو گرانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ غیرسیاسی قوتوں کے آلہ کار نہیں بنیں گے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کوئی فرق نظر آیا؟
1988
ء میں بے نظیربھٹو شہید کی حکومت بنی‘ تو اگلے ہی مہینے نوازشریف کی طرف سے محاذآرائی شروع کر دی گئی۔ اس میں ہر ہفتے تیزی آنے لگی اور قریباً اڑھائی سال کا عرصہ ہوا تھا کہ ان کی برطرفی کا پروانہ حاصل کر لیا گیا۔
اگلے انتخابات میں نوازشریف آ گئے‘ تو چند ہفتوں بعد ہی ان کے خلاف ایوان صدر سے حملے ہونے لگے۔ کچھ دنوں بعد ان میں پیپلزپارٹی شریک ہو گئی اور اڑھائی سال کی معینہ مدت پوری ہونے تک نوازشریف کی رخصت کا بندوبست کر لیا گیا۔
پھر انتخابات ہوئے اور بے نظیرشہید وزیراعظم بن گئیں۔ دو تین ہفتوں کے بعد ہی ان کے خلاف مہم شروع ہو گئی۔ اس مرتبہ ان کے اپنے بنائے ہوئے صدر اور پارٹی کے وفادار ساتھی‘ فاروق لغاری بھی مخالفین کی صفوں میں آ گئے اور بی بی کی حکومت کو پھڑکا دیا۔
اگلی ڈھائی سالہ باری لینے کے لئے نوازشریف وزیراعظم بن گئے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو ڈھائی سالہ جمہوریت کا ایک اور باب بند ہوا اور چیف آف آرمی سٹاف دوسرے جرنیلوں کے ساتھ خود آ دھمکے اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس بار دونوں باریاں لینے والے وزرائے اعظم کو اقتدار کے ایوانوں سے باہر رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ بی بی شہید پہلے ہی جلاوطن تھیں اور نوازشریف کو قید کے دوران اتنی تکالیف پہنچائی گئیں کہ انہوں نے بھی جلاوطنی کو غنیمت جانا۔
نو سال تک ان سیاستدانوں‘ ان کے ساتھیوں اور عوام نے آمریت کا عذاب بھگتا اور امریکہ کی مہربانی سے دوبارہ بری بھلی جمہوریت کا منہ دیکھا‘ تو سیاستدانوں نے ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر جمہوریت کے گن گائے۔ ایک دوسرے کو گلے لگایا۔ ایک دوسرے کے بڑے بھائی بنے۔ مستقبل میں اپنی اولادوں کے مابین مفاہمت اور خیرسگالی کے خوشگوار نقشے دکھائے۔ عوام خوش تھے کہ اب جمہوریت کی بنیادیں مضبوط ہو جائیں گی اور ملک کو سیاسی استحکام نصیب ہو گا۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ سیاسی عدم استحکام ہی ملک کی سالمیت کا ضامن ہوتا ہے۔ اگر استحکام نہ رہے تو ملک کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ہم اس کا عملی تجربہ کر چکے ہیں۔ ہمیں تو زیادہ ہی محتاط ہونا چاہیے۔ مگر لگتا ہے کہ ہم سیکھنے اور سبق لینے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔
یہی جمہوریت جسے امیدوں اور خوشیوں کے ساتھ‘ ہم سب آگے بڑھتے ہوئے دیکھنے کے خواہش مند تھے‘ چند ہی روز کے بعد ٹوٹتی اور تڑختی نظر آنے لگی۔ اب کی بار سٹائل ذرا مختلف ہے۔ منہ سے سب کہہ رہے ہیں کہ ہم پارلیمنٹ اور منتخب حکومت کو پورے پانچ سال چلائیں گے۔ اس سے پہلے تبدیلی نہیں آئے گی۔
واقعی نہ ایوان کے اندر تحریک عدم اعتماد آئی اور نہ لوٹا بازار لگے۔ لیکن حیلہ سازی کی عادت کہاں جاتی ہے؟ مسماری جمہوریت کی تحریک میڈیا اور عدلیہ کی آزادی سے استفادہ کرنے کی راہ پر چل نکلی۔ نہ مظاہرے‘ نہ ہڑتالیں‘ نہ جلسے‘ نہ جلوس‘ نہ قراردادیں اور نہ سیمینار۔جس کے ذہن میں جمہوریت پر ضرب لگانے کاکوئی طریقہ آیا‘ وہ سیدھا درخواست لے کر حاضر عدالت ہو گیا۔ ڈھائی سالہ جمہوریت کے عادی سیاستدانوں اور ان کے ہمنواؤں کی امیدوں کا مرکز عدالت عظمیٰ بن گئی اور دنیا نے پہلی بار دیکھا کہ ایک ملک میں اخباری شہ سرخیوں اور ٹی وی چینلوں کی بریکنگ نیوز عدلیہ سے حاصل کی جانے لگیں۔ نہ وزیراعظم اور وزرا کے بیانات نمایاں رہے۔ نہ قائد حزب اختلاف کی سرخیاں لگیں اور نہ رائے عامہ کے ترجمانوں کی حیثیت رہی۔ جس روز عدلیہ میں کسی مقدمے کی سماعت ہوئی‘ اس روز تمام بڑی سرخیاں اسی مقدمے کے حوالے سے شائع ہوئیں اور ان میں سے بیشتر عزت مآب جج صاحبان کے ریمارکس سے ماخوذ ہوتیں۔ عدلیہ‘ جہاں سے کبھی سنگل کالم خبر بھی مشکل سے ملتی تھی‘ وہاں سے بریکنگ نیوز اور شہ سرخیاں میڈیا کی جھولیاں بھرنے لگیں۔ اب یہ سلسلہ نقطہ کمال کو پہنچ چکا ہے۔
آج 13 اکتوبر ہے۔ اس حوالے سے سیاسی توقعات کے وہ چرچے ہوئے کہ وزیراعظم کو ایک سے زیادہ مرتبہ کہنا پڑا کہ 13 تاریخ کو کچھ نہیں ہو گا۔ سب جانتے ہیں 13 اکتوبر کو ایک مقدمے کی سماعت ہے۔ وزیرقانون بابر اعوان بھی افواہوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہیں بھی کہنا پڑا کہ 13 اکتوبر کو کچھ نہیں ہو گا۔ مگر کون مانتا ہے؟ اڑھائی سالہ جمہوریت کی جو روایت فوجی آمروں کی پالیسیوں کے نتیجے میں قائم ہوئی‘ وہ اتنی مضبوط نکلی کہ ان کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد بھی ختم نہ ہو سکی۔ جنرل صاحبان‘ بیرکوں کے اندر بیٹھ کر ڈھائی سالہ جمہوریت کا ”نظام“ کامیابی سے چلاتے رہے۔
لگتا ہے اس مرتبہ بھی وہ اپنی کامیابی کی روایت سے علیحدہ ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ یا پھرکچھ عناصر انہیں ڈھائی سالہ جمہوریت کی روایت پر کاربند رہنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ کچھ بھی ہو‘ ہم سب یعنی سیاستدان‘ میڈیا‘ رائے عامہ اور اقتدار کے سارے کھلاڑی ڈھائی سالہ جمہوریت کے عادی ہو چکے ہیں۔ گذشتہ اڑھائی سال ہم سب نے انتہائی اضطراب اور بے چینی کی حالت میں گزارے ہیں۔ ہم نے ہر مقدمے کی کارروائی سے امیدیں باندھیں۔ مگر پوری نہ ہوئیں اور جمہوریت چلتی رہی۔ کئی بار عدلیہ سے مایوس ہو کر ہم نے امیدوں کا رخ بیرکوں کی طرف پھیرا۔ مگر لگتا ہے کہ ادھر سے ڈھائی سالہ جمہوریت والوں کیلئے خیرکی کوئی خبر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ساری امیدیں سمٹ کر اب پارلیمنٹ یا اس کی جڑواں عمارت کی طرف مرکوز ہو گئی ہیں۔ خصوصاً سپریم کورٹ کی طرف دیکھ کر جمہوریت کے ڈھائی سال پورے ہونے کے غم میں مبتلا مریضوں کی حالت تو بہت ہی خراب ہے۔ وہ جان کنی کی حالت میں سپریم کورٹ کی بلندوبالا عمارت کی طرف دیکھتے ہوئے التجائیں کر رہے ہیں کہ ”اے خدا! اب تو ہماری سن لے۔
اگر آج امیدیں نہ بر آئیں‘ تو نہ جانے کتنے دلوں کی دھڑکنیں بند ہوں گی؟ کتنے پیش گوئیاں کرنے والے بے ہوش ہوں گے؟ اور کتنے جوئے بازوں کی رقمیں ڈوبیں گی؟ آج کی تاریخ خیریت سے گزر گئی‘ تو جمہوریت‘ ڈھائی سال کی حد کو پھلانگنے کے بعد آگے بڑھنے لگے گی اور چند ماہ مزید بڑھ گئی‘ تو جمہوریت کے لئے آمروں اور ان کے جانشینوں نے جو عرصہ مقرر کیا ہے‘ اس کے دھاگے ٹوٹنے لگیں گے۔ خدا کرے کہ جن لوگوں کی قوت برداشت اڑھائی سال کی جمہوریت پر جواب دینے لگتی ہے‘ ان کی صحت اچھی ہو جائے اور وہ 5سالہ جمہوریت کو برداشت کرنے کے قابل ہو جائیں۔جہاں تک روایتی پہلوانوں کا تعلق ہے‘ تو اس مرتبہ پہلی باری پیپلزپارٹی والوں کے ہاتھ لگی ہے۔ اپنے حصے کے ڈھائی سال وہ پورے کر چکے ہیں‘ اس لئے وہ آسانی سے اپنے روایتی حریف کو چڑانے کے لئے یہ گانا گا سکتے ہیں۔”اپنے تو جیسے تیسے‘ تھوڑے ایسے یا ویسے۔ دو برس چھ مہینے کٹ گئے ہیں۔ بجاؤ تالی‘ آپ کا کیا ہو گا جناب عالی۔
Dr. Farrukh Saleem is the Executive Director of Center for Research and Security Studies (CRSS), a newly established (Dec 07) think-tank focusing on Pakistans political/economic, security, regional and environmental issues.
CRSS is taken to be the first civil society initiative to conduct independent research on various crucial issues facing Pakistan. at present, Dr. Saleem is directing CRSS research team researching the curriculum taught in state-run schools. On the culmination of this research exercise, a lobbying effort will be undertaken to convince Pakistan’s new parliament into changing the curricula.
In-tandem with the research on curricula, CRSS is occupied arranging a national level review conference on Pakistans water security and management practices in March 2008.Dr Saleem was trained in the discipline of finance and has been the Sunday-columnist for The News, Pakistans largest English-language daily, for the past 5 years. From 1988-1994, he managed an eight figure equities portfolio invested in the New York Stock Exchange (NYSE).
In 1996, he covered Pakistan, India and Iran for the Vancouver Sun, Canadas 2nd Largest English daily. He returned to Pakistan in 1993 and managed the affairs of Dominion Stock Fund Limited (DSFL) as the CEO (DSFL is listed on the Karachi Stock Exchange). Prior to writing for The News, he wrote a weekly column for The Dawn (1996-1999). He has also been a guest columnist for the Hong Kong-based, Far Eastern Economic Review. He is married and lives in Islamabad. He has two daughters and a son.
Akram Shaikh: An Interesting Introduction of Barrister Sahab and Mehran Bank with Videos and Past Record: Sanctimonious Lawyers: Barrister Akram Sheikh & Mehran Bank Scandal
http://chagataikhan.blogspot.com/2010/04/sanctimonious-lawyers-barrister-akram.html
Dr Shahid Masood 🙂 General (R) Pervez Musharraf, Dr. Shazia Khalid & Dirty Role of Dr. Shahid Masood.
http://chagataikhan.blogspot.com/2010/09/general-r-pervez-musharraf-dr-shazia.html
PML-N: Kamran Khan [Jang/Geo] on Sharif Brothers & 12 Oct 1999. http://chagataikhan.blogspot.com/2010/10/kamran-khan-janggeo-on-sharif-brothers.html
General (R) Ziauddin Butt & Kamran Khan’s Intellectual Dishonesty. http://chagataikhan.blogspot.com/2010/10/general-r-ziauddin-butt-kamran-khans.html
PML-N: Nawaz Sharif passed death sentence to Journalist Rehmat Shah http://www.youtube.com/watch?v=3gWRW9K1C8k
PML-N: Nawaz Sharif exposed a special report Part 1
http://www.youtube.com/watch?v=9RM9oT_5KbQ&feature=related
Nawaz Sharif exposed a special report Part 2
http://www.youtube.com/watch?v=9d8x4UsRH6g&feature=related
Nawaz Sharif exposed a special report Part 3
http://www.youtube.com/watch?v=ZJqkP2v-ARg&feature=related
مسماری جمہوریت کی تحریک میڈیا اور عدلیہ کی آزادی سے استفادہ کرنے کی راہ پر چل نکلی۔ ن: General Musharraf’s Bureaucracy under PCOed Judiciary. http://chagataikhan.blogspot.com/2010/05/general-musharrafs-bureaucracy-under.html
PML-N: Nawaz Sharif exposed 🙂 Watch Documentaries on Nawaz Sharif’s links with Extremist Elements – Alas! our Mullahs Politicans have always been hypocrites. The paper on Jamat-e-Islami Website was written by Former Senator Khursheed Ahmed – JI against Nawaz Sharif. What kind of National Conference is this wherein a Party [Jamat-e-Islami] is supporting a Leaders [Nawaz Sharif – PML-N] against whom they carry very negative remarks on their very own website. May Allah help Restore the Judiciary Movement when the Movement have supporters like Jamat-e-Islami. Prof. Khurshid Ahmad of JI in his paper had basically attacked on Nawaz Sharif’s Integrity with the Country: Chagatai Khan: National Conference, Qazi Hussain Ahmed and Jamat-e-Islami – 1 http://chagataikhan.blogspot.com/2009/03/national-conference-qazi-hussain-ahmed.html
Watch Documentaries on Nawaz Sharif’s links with Extremist Elements – Which Statement of Qazi Hussain Ahmed [Jamat-e-Islami Chief] for Nawaz Sharif is to be taken seriously the one which he gave while participating in The National Conference for the Restoration of Judiciary [1] or shall we believe these statment of Qazi Hussain Ahmed on Nawaz Sharif, Chagatai Khan: National Conference, Qazi Hussain Ahmed and Jamat-e-Islami – 2
http://chagataikhan.blogspot.com/2009/03/national-conference-qazi-hussain-ahmed_04.html
کمرۂ عدالت کا منظر
اعجاز مہر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام ، اسلام آباد
جب سماعت ایک بجے ختم ہونے کے بجائے ڈھائی بجے تک چلتی رہی تو جناح کیپ پہنے دفتری اونگھتے اور جمائیاں لیتے نظر آئے۔
قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) کو کالعدم قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکومت کی نظر ثانی کی درخواست پر بدھ کو سماعت شروع ہوئی تو عدالت کالے کوٹ والوں کے ساتھ کھچا کھچ بھری ہوی تھی اور سکیورٹی کے انتظامات بھی غیر معمولی لگے۔
لطیف کھوسہ نے گزشتہ شب وزیراعظم کے مشیر کے عہدے سے مستعفی ہو کر حکومتی وکالت کا اعلان کیا تھا اور آج وہ پیپلز لائرز فورم کے ساتھیوں کے ہمراہ سپریم کورٹ پہنچے اور وہاں پہلے سے براہ راست کوریج کے لیے موجود ٹی وی کیمروں کو کسی فاتح کی طرح ہاتھ ہلاتے اور مسکراتے آگے بڑھ گئے۔
ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر ایک میڈیا گروپ نے آج کی سماعت کو ایسے پیش کیا جیسے حکومت گر جائے گی۔ اور تو اور اس گروپ نے خبروں کے علاوہ اشتہار بھی شائع کیا جس کا عنوان تھا ’حاکم انصاف کے کٹہرے میں! ‘۔
اشتہار کے ذریعے اعلان کیا گیا تھا کہ یہ گروپ تمام دن اپنے چینل پر لمحہ بہ لمحہ کوریج کے ساتھ ساتھ عوام کو اپنے ماہرین کے تبصروں اور تجزیوں سے بھی آگاہ کرے گا۔ لیکن ٹھنڈے دل سے صورتحال دیکھیں تو آج نظر ثانی کی درخواست کی سماعت شروع ہونی تھی اور زیادہ تر امکان یہی تھا کہ لطیف کھوسہ عدالت سے کیس کا مطالعہ کرنے کے لیے مہلت مانگیں گے۔
اس مخصوص گروپ کے بعد دوسرے ذرائع ابلاغ نے بھی ان کی تقلید کرتے ہوئے ایسا سماں باندھا کہ بس آج حکمرانوں کا یوم حساب آن پہنچا ہے اور عدالت کوئی بہت بڑا حکم جاری کرنے والی ہے۔
لیکن جب سماعت شروع ہوئی تو ہوا وہی کہ لطیف کھوسہ نے نہایت احترام کے ساتھ مہلت مانگی اور سترہ رکنی فل کورٹ نے انہیں نومبر کے پہلے ہفتے تک کی مہلت دے دی۔
ایک موقع پر نیب کے وکیل انور تارڑ پر سترہ رکنی بینچ کے ججوں نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ اگر دیکھا جائے تو ججوں کی بوچھاڑ بلا وجہ بھی نہیں تھی۔ کیونکہ وکیل صاحب کیس کی تیاری کر کے نہیں آئے تھے اور حالت یہ تھی کہ ایک موقع پر انہوں نے نیب قانون کی پرانی کتاب سے ایک شق پڑھی۔ جس پر جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے نے انہیں کہا کہ نئی ترمیم والی کتاب لائیں اور اگر وہ ایسا نہ کرسکیں تو پرانی کتاب مجھے بھیجیں میں اپ ڈیٹ کردوں گا ویسے بھی میں آپ کا پرانا خادم ہوں۔ جس پر وکیل صاحب نے بیچ میں کچھ کہنا چاہا تو جسٹس رمدے نے کہا ’سن لیا کرو تب ہی تو تمہیں سمجھ نہیں آتی‘۔
عام طور پر جج صاحبان وکیلوں کو آپ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں لیکن انور تارڑ کو کچھ موقعوں پر رمدے صاحب کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس بھی تم کر کے مخاطب کرتے رہے۔
جب سماعت ایک بجے ختم ہونے کے بجائے ڈھائی بجے تک چلتی رہی تو جناح کیپ پہنے دفتری اونگھتے اور جمائیاں لیتے نظر آئے۔
عدالتی کمرے میں جہاں پیپلز لائرز فورم کے وکیل نظر آئے وہاں انٹیلی جنس کے بعض اہلکار اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے بھی کافی تعداد میں بیٹھے رہے۔ صدر زرداری کے قریبی ساتھی ایڈووکیٹ ابوبکر زرداری، سابق بیوروکریٹ روئیداد خان، برگیڈیئر (ر) امتیاز اور عدنان خواجہ بھی نمایاں لوگوں میں نظر آئے۔
برگیڈیئر (ر) امتیاز عرف برگیڈیئر بلا جب آئی ایس آئی میں تھے تو ان پر کامریڈ نظیر عباسی کو دوران حراست تشدد کر کے قتل کرنے اور الذوالفقار کی آڑ میں سیاسی کارکنوں کی دھلائی کے الزامات لگے تھے۔ انہیں انیس سو نواسی میں بینظیر بھٹو کی حکومت گرانے کے لیے ’ آپریشن مڈ نائٹ جیکال ‘ کا ماسٹر مائنڈ بھی سمجھا جاتا ہے جس کے تحفے میں انہیں میاں نواز شریف نے انٹیلی جنس بیورو کا سربراہ بنایا تھا۔
لیکن آج کل وہ اپنے بیٹے سمیت صدر آصف علی زرداری کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔ وہ بھی عدالت میں اپنے ہی ایک مقدمے کی سماعت کے لیے بیٹھے نظر آئے۔
عدنان خواجہ جو انٹرمیڈیٹ پاس ہیں وہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے جیل کے ساتھی کہلاتے ہیں۔ حال ہی میں انہیں وزیراعظم نے پاکستان کی منافع بخش تیل اور گیس کی کارپوریشن ‘او جی ڈی سی ایل’ کا مئنیجنگ ڈائریکٹر لگایا اور عدالتی مداخلت پر انہیں ہٹایا گیا۔
عدنان خواجہ کی تقرری پر سیکریٹری اسٹیبلشمینٹ اسماعیل قریشی نے کہا کہ انہوں نے قواعد کے برعکس وزیراعظم کے زبانی حکم پر ان کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ جس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ قواعد کے خلاف ہے۔
’جب میں سیکریٹری قانون تھا تو مجھے ایک بڑے وکیل کو تھوڑی سی رقم دینے کا حکم ملا اور میں نے وہ ماننے سے انکار کردیا تھا۔ آپ سرجن کی جگہ کیسے عام آدمی کو بھرتی کرسکتے ہیں‘۔ بعض دیگر ججوں نے بھی اسماعیل قریشی کی باز پُرس کی اور انہیں آئندہ حکومت کے غلط احکامات نہ ماننے کی ہدایت کی۔
ایک موقع پر چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ ’ کمال اظفر کو وکالت کے بجائے وزیراعظم کا مشیر بنایا گیا اور آپ کو مشیر سے وکیل بنا کر حکومت نے آپ کی تنزلی کی ہے‘۔
بہرحال سپریم کورٹ جہاں چند برس قبل تک عام طور پر کم ہی صحافی رخ کرتے تھے آج کل میڈیا کی پارلیمان سے زیادہ دلچسپی عدالتی معاملات میں نظر آتی ہے اور میلے کا سماں ہوتا ہے۔
جہاں بہت سارے وکیل آج کل صرف اس لیے بھی آتے ہیں کہ کہیں ان کی شکل کسی ٹی وی چینل پر نظر آجائے۔ عدالتی کارروائی خبروں کے بھوکے ٹی وی چینلز کا کچھ دیر پیٹ بھرنے میں بھی کافی کردار ادا کرتی ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/10/101013_court_scene.shtml